مضمون « قربانی کے تین دن اور صحابہ کرام »کا تنقیدی جائزہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-08-10

مضمون « قربانی کے تین دن اور صحابہ کرام »کا تنقیدی جائزہ


اس مضمون کو پی دی ایف میں نیچے دئے گئے لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں
مضمون « قربانی کے تین دن اور صحابہ کرام » کا تنقیدی جائزہ
زبیر عالیاوی (فاضل : جامعہ عالیہ مئو ، متعلم : جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی)
✿ ✿ ✿ 
تین دن قربانی کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار پر ایک تفصیلی مضمون استاذ محترم شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی طرف سے آچکا ہے اس میں تمام اشکالات کا ازالہ موجود ہے ۔
« قربانی کے تین دن اور صحابہ کرام » کے عنوان سے کسی «حافظ محمد بلال » نے مضمون لکھا ہے اس پر راقم کی طرف سے کچھ معروضات پیش خدمت ہیں۔

✿ الزامی حوالوں پر واویلا و مغالطہ:
تین دن قربانی کے قائلین باربار یہ مغالطہ دے رہے کہ کتاب« چارد قربانی کی مشروعیت» میں بعض ایسے آثار کو بھی حجت ودلیل بنالیا گیا جو صرف بعض صحابہ کی طرف منسوب ہیں ۔حالانکہ اس کتاب میں ان آثارکو بطور حجت ودلیل نہیں بلکہ بطورالزام پیش کیا گیا ہےاور ان آثار کو پیش کرنے سے قبل اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ الفاظ موجود ہیں:
« عام طور سے فقہاء اس نوعیت کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اس لئے ہم ایسے اقوال کی فہرت پیش کرتے ہیں» (چاردن قربانی کی مشروعیت ص34) 

✿ حافظ زبیرعلی زئی اپنے پیروکاروں کے اعتراض کی زد میں :
اس وضاحت کے بعد بھی اگر یہ لوگ مغالطہ دینے سے باز نہیں آتے تو یہ لوگ پہلے اس مسئلہ میں اپنے پیرو مرشد حافظ زبیرعلی زئی صاحب کی خبر لیں کیونکہ انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں ایسے اقوال پیش کررکھے ہیں۔
مثلا مقالات میں ایک جگہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب دس اقوال پیش کئے اور یہ دسوں اقوال الگ الگ مسئلہ میں ہیں (مقالات: جلد 2 صفحہ: 609)
جن میں بعض تو ثابت ہے لیکن سب کے سب قطعا ثابت نہیں ہیں ۔
اگرکوئی دعوی کرے یہ دسوں اقوال سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں تو وہ ذرا ان اقوال کی صحیح سندیں حاضر کردے ۔
بالخصوص تکبیرات عیدین کے تعلق سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے لکھا:
 «5: جناب [سیدنا] علی رضی اللہ عنہ بارہ تکبیرات عیدین کے قائل تھے۔ دیکھئے فقہ علی ص 501 » (مقالات: جلد 2 صفحہ: 616 )
اب ذرا علی رضی اللہ عنہ سے اس کی صحیح سند پیش کریں اور نہ کرسکیں تو شور مچانا شروع کردیں کہ حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے بے سند اقوال کو حجت بنالیا ۔

 ✿ «تایخ ابن یونس »موجود ہے یا مفقود ، مجذوبانہ انکشاف:
کسی نے صحیح بخاری کی ایک روایت کو صحیح بخاری کے بجائے ابن سعد کے طبقات سے نقل کیا تو استاذ محترم نے گرفت کی کہ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود تھی تو اس سے نیچے اتر کر طبقات ابن سعد سے اسے کیوں نقل کیا گیا ۔
اس بات کا حوالہ دے کر مضمون نگار نے یہ دعوی کیا کہ امام طحاوی کے استاذ کی توثیق ابن یونس المصری کی اپنی کتاب« تاریخ ابن یونس » میں موجود ہے ، تو اصل مصنف کی کتاب کا حوالہ دینے کے بجائے سنابلی صاحب نے اسے تاریخ بغداد سے کیوں نقل کیا اور پھر اس کی سند پر بحث کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔
اب اسے ایک مجذوبانہ انکشاف کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے، کیونکہ علم رجال کا ایک معمولی طاب علم بھی جانتا ہے کہ امام ابن یونس المصری کی کتاب « تاریخ ابن یونس »اس وقت دنیا میں مفقود ہے۔
لیکن عجوبہ یہ ہے کہ خود کو «دارالتخصص والتحقیق»کی طرف منسوب کرنے والے مضمون نگار ببانگ دہل ایسی بات لکھ رہے ہیں جسے کوئی ایسا ادنی طالب علم بھی نہیں لکھ سکتا جس نے چند روزبھی کسی عالم کے پاس گذارے ہوں ۔
نہ جانے مضمون نگار نے کس سیارہ کا چکر لگایا کہ امام ابن یونس کی مفقود کتاب« تاریخ ابن یونس »ان کے ہاتھ لگ گئی اور پھر بڑے اہتمام سے جلد اور صفحہ نمبر کا حوالہ بھی لکھ مارا۔ 
قارئین اصل حقیقت کا علم آپ کو ہوگا تو یقین مانئے آپ اپنی ہنسی روک نہیں پائیں گے ۔
دراصل بات یہ ہے کہ امام ابن یونس المصری کی کتاب مفقود تھی لیکن ان کے اقوال متاخرین کی کتب رجال میں منقول ہیں ، پھر دکتور عبدالفتاح نے متاخرین کی کتب میں منقول ان کے اقوال کو یکجا کرکے ایک کتابی شکل دی ہے اور « تاریخ ابن یونس » کے نام سے شائع کیا ہے۔
مطلب واضح ہے کہ یہ امام ابن یونس المصری کی اصل کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں متاخرین کی کتب میں ان کے منقول اقوال کو جمع کردیا گیا ہے۔
اس وضاحت کے بعد قارئین پلٹ کر « دار التخصص والتحقیق» والوں کا انکشاف پڑھیں اور بتائیں کہ ایک مجذوبانہ واویلا نہیں تو اور کیا ہے؟

 ✿ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے:
علی رضی اللہ عنہ کے اثر کی جو سند امام طحاوی کی کتاب میں مذکور ہے اس میں بعض نام غلط لکھئے ہوئے ہیں ، ایک نام « حماد بن سلمة بن كهيل »ہے ۔
اس نام کو صحیح کرتے ہوئے مضمون نگار نے « حماد بن (الصواب : عن) سلمة بن كهيل »لکھا ۔
راقم عرض کرتا ہے کہ اس تصحیح کے بعد مضمون نگار نے سند کو تو درست کردیا لیکن یہ بھول گئے کہ اب اس سند میں حماد بن سلمہ بھی آگئے اور تین دن قربانی والے جس شخصیت حافظ زبیرعلی زئی صاحب کی تقلید میں یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں انہیں حافظ زبیرعلی زئی صاحب کی تحقیق ہے کہ حماد بن سلمہ مختلط تھے اور ان کی صرف وہی روایت صحیح ہوگی جسے ان کے قدیم شاگردوں نے اختلاط سے قبل سنا ہوگا۔ دیکھئے (الحدیث شمارہ 135 ، 136 ص 93 ،94)
اب مشکل یہ ہے کہ اس سند میں حماد بن سلمہ سے روایت کرنے والے « عبيد الله بن محمد التيمي » ہیں،اور ان کے بارے میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے حماد سے ان کے اختلاط سے قبل سنا ہے۔
اس لئے مضمون نگار کی تصحیح کے بعد بھی یہ روایت خود ان کے مقتدی حافظ زبیرعلی زئی صاحب کے اصول سے ضعیف ثابت ہوگئی۔
اس کے ساتھ اس سند میں حجتہ لکھا تھا جسے مضمون نگار نے «حجية» بنایا لیکن یہ راوی بھی ضعیف ہی ہے ۔دیکھئے : (تحرير التقريب: ت 1150)

 ✿ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن قربانی کا قول بسند صحیح ثابت ہے ۔
استاذ محترم جس طرح اس سند کو صحیح مانتے ہیں اسی طرح اس سند کو بھی صحیح مانتے ہیں جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علی وسلم سے چار دن قربانی کاثبوت ملتاہے۔ اس کے مطابق ان کی نظر میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا فتوی نص کے خلاف ہے۔
اب کسی کی تحقیق میں کسی صحابی کا کوئی قول، صریح نص کے خلاف ہو اور اسی صحابی سےدوسرا قول بھی مروی ہو جو نص کے موافق ہو لیکن اس کی سند مفقود ہو تو اس حسن ظن میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ہوسکتا کہ جو سند مفقود ہے وہ صحیح رہی ہو اورصحابی نے یہ قول بعد میں نص ملنے کے بعد اختیار کیا ہو۔
اوریہ جوکچھ ہے محض امکان کی حد تک گفتگو ہے استاذ محترم نے ہر گز یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ دوسرے قول کی بھی صحیح سند موجودہے۔
اس لئے یہ شور مچانا کہ ایک غیر ثابت قول کو لیکر ثابت قول کو رد کیا گیا ہے یہ سوائے مغالطہ بازی کے کچھ نہیں ۔
اورحقیقت صرف اتنی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو نص کے خلاف ہونے کے سبب رد کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے قول کو دیکھتے ہوئے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ حسن ظن رکھا گیا ہے کہ ممکن ہے انہوں نے اس سے رجوع کرلیاہو۔
اب ہوسکتاہے مخالف یہ کہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کسی نص کے خلاف نہیں ، تو یہ مخالف کی تحقیق ہے ۔اور ہرشخص اپنی تحقیق ہی کے مطابق رائے قائم کرتا ہے۔
اگراستاذ محترم کی نظر میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ثابت قول ، نص کے خلاف نہ ہوتا تو ان کے سامنے بھی اس امکانی گفتگو کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔
 اور بعض اہل علم کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ نص کے خلاف کسی صحابی سے ثابت ایک ہی قول کے بارے میں یہ حسن ظن قائم کرلیتے ہیں کہ ممکن ہے صحابی نے نص کے خلاف اس قول سے رجوع کرلیا ہو ۔
مثلا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں ایک روایت سے جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ وہ متعہ کے جواز کے قائل تھے۔
ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
 ”وظاهر كلام ابن مسعود إباحتها، فإن في ”الصحيحين“ عنه۔۔۔“ 
 ”اورابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کلام سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ متعہ کے جواز کے قائل ہیں ، جیساکہ ”صحیحین“ میں ان سے مروی ہے ۔۔۔“ (زاد المعاد 5/ 102)
مشکاۃ کے قدیم شارح امام شرف الدين الطيبي(م : 743 ھ) کی نظر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں کوئی دوسرا قول نہیں ہے پھربھی وہ لکھتے ہیں:
 ”ولعل ابن مسعود رجع عن ذلك“ 
 ”ہوسکتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے رجوع کرلیا ہو“ (شرح المشكاة للطيبي 7/ 2293 )
اب غور کرنے کی بات ہے کہ جب اہل علم کے یہاں صریح نص کے خلاف صحابی کے ایک ہی قول کے بارے میں یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ ممکن ہے انہوں نے رجوع کرلیا تو جب صریح نص کے خلاف کسی صحابی کے ایک ثابت قول کے مقابلے ایک مفقود السند قول بھی موجود ہو جو نص کے موافق ہو تو ایسی صورت میں بدرجہ اولی اس حسن ظن کی گنجائش ہے۔

 ✿ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تین دن کاقول ، منھال بن عمرو کا تفرد:
استاذ محترم نے اس سند پر منھال بن عمرو کے تفرد کو لیکر جوبحث کی ہے اسے بے چارے مخالفین سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں اس لئے باربار اسی بات کی گردان کرتے ہیں کہ منھال ثقہ یا صدوق ہے۔اورپھر توثیق کے اقوال نقل کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کی ضرورت تب پیش آتی جب منھال کو ضعیف قرار دیا گیا ہوتا، جب کہ ایسا معاملہ ہے ہی نہیں تفصیل کے لئے دیکھئے: (چاردن قربانی ، کتاب وسنت کی روشنی میں : ص 194 تا 203)
ان حضرا ت کی ناسمجھی کا ایک اور نمونہ دیکھیں مضمون نگار لکھتے ہیں:
«کیا واقعی اس بیان میں منہال بن عمرو کا تفرد ہے؟جب دیگر صحابہ کرام سے بھی تین دن قربانی کا موقف ثابت ہے اور کسی ایک صحابی سے بھی چار کی کوئی ایک بھی روایت ثابت نہیں، تو منہال بن عمرو سے غلطی کا احتمال ختم ہو گا یا قوی ہو گا؟ لہٰذا منہال کے تفرد کا بہانہ بنا کر اس اثر کو بلادلیل ''ضعیف'' قرار دینا کسی طور پر تحقیقی مزاج سے ہم آہنگی نہیں »
دیکھئے ان بے چاروں نے یہاں تفرد کا کیا مطلب سمجھ لیا!
 اگرتفرد کا مطلب یہاں بھی یہی ہوتا تو کیا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر پر بھی یہ اعتراض وارد نہ ہوتا جسے استاذ محترم نے صحیح قراردیا ہے؟
دراصل یہاں تفرد کا مطلب ابن عباس سے تین دن کی بات نقل کرنے میں تفرد ہے ۔دیگر صحابہ کی بات یہاں موضوع بحث ہی نہیں ہے۔
اس لئے یہاں رفع تفرد کے لئے ضروی ہے ابن عباس سے تین دن کی بات نقل کرنے میں منہال کا صحیح متابع پیش کیا جائے۔ نہ کہ ابن عباس کے علاوہ کسی دوسرے صحابی سے ۔
نیز یہ روایت شعبہ کے طریق سے ہے اورامام شعبہ نے منہال کے طریق سے بیان کردہ اپنی روایات سے رجوع کرلیا ہے اس لئے راوی کے مرجوع عنہ روایت سے حجت پکڑنا درست نہیں۔

 ✿ فتح الباری اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ کا سکوت:
مضمون نگار لکھتےہیں:
جناب سنابلی صاحب نے اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے سکوت کو بھی دلیل بنانے کی سعی کی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں :
”حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ابن ابی شیبہ کی کتاب سے مذکورہ بالا روایت نقل کی ہے اور اس کی تضعیف نہیں کی ہے،جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں یہ سند صحیح ہے۔۔۔''(چار دن قربانی کی مشروعیت، ص : 35)
جو لوگ سکوت ابن حجر رحمہ اللہ کو دلیل بناتے ہیں، ان کا موقف انتہائی کمزور ہے۔ ایک مقلد نے جب اس طرح کا موقف اپناکر اپنا ناکام دفاع کرنے کی کوشش کی، تو اس کا دندان شکن تفصیلی جواب محقق العصر علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے دیا۔ دیکھیں“ ( اعلاء السنن فی المیزان ، ص : 74)
علامہ اثری حفظہ اللہ کی تحقیق ہم نے دیکھ لی ہے وہاں ان کے پورے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ ہر جگہ اپنے اس اصول پر قائم نہیں رہ سکے ہیں ۔
یہ بات بالکل صحیح ہے اس لئے جہاں بھی دلائل سے ثابت ہوجائے کہ کوئی روایت ضعیف یا کوئی راوی ضعیف ہی ہے وہاں ابن حجررحمہ اللہ کے سکوت سے استدلال درست نہیں ہوگا۔
لیکن شیخ اثری حفظہ اللہ نے یہ تو نہیں کہا ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہیں بھی اس اصول کی پاسداری نہیں کی ہے بلکہ بلاوجہ فتح الباری کے مقدمہ میں اسے ذکر کردیاہے۔
اس لئے فتح الباری میں مسکوت علیہ ایسی سند جس کے ضعیف ہونے کی دلیل ہمارے پاس نہ ہو اس سند کے بارے میں بھی ابن حجر رحمہ اللہ کو بغیر کسی دلیل کے خطاکار قراردینا درست نہیں ہے۔
نیز امام ابن حبان ، امام ابن خزیمہ اورامام حاکم نے بھی اپنی صحیح والی کتابوں میں ہرجگہ صحت کی پاسداری نہیں کی ہے بلکہ کئی جگہ سخت ضعیف بلکہ کذابین کی روایات بھی ان کی کتب میں موجود ہیں تو کیا یہ کہہ دیا جائے ان اصحاب صحاح کی تصحیح کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور کہیں بھی ان کا حوالہ نہیں دیا جاسکتا؟؟
پھراعلان فرمائیے کہ حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے رواۃ کی ضمنی توثیق میں جہاں جہاں ان اصحاب صحیح کے حوالے دئے ہیں وہ سب مردود ہیں ۔

 ✿ الزامی جواب سے کشیدہ کردہ غلط اصول:
استاذ محترم نے کچھ غیر ثابت آثار ان لوگوں کے لئے بطور الزام پیش کئے تھے جو اس طرح کے آثار کو حجت سمجھتے ہیں ، اور اس بات کی صراحت بھی کرچکے تھے ، لیکن مخالفین کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ انہوں نے غیرثابت اقوال کو قبول کرنے والی بات خود استاذ محترم ہی کا اصول بنادیا۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے الزامی طور پر کچھ غیر ثابت آثار پیش کئے جیساکہ حوالے گذرچکے ہیں ۔
اب کوئی شخص اسے حافظ زبیرعلی زئی صاحب کا اصول بناڈالے پھر غیرثابت آثار کی قطار لگا کر یہ کہنے بیٹھ جائے کہ زبیرعلی زئی صاحب کے اصولوں سے یہ سب ثابت ہیں ۔
مضمون نے نگار سیدنا عمر، سیدنا انس اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے اقوال یہی کہہ کر پیش کئے ہیں ۔ جو یا تو ناسمجھی ہے یا مغالطہ بازی ۔ نیز اس کی زد خود ان کے مقتدی حافظ زبیرعلی زئی صاحب پر پڑتی ہیں جن کے یہ مقلد ہیں ۔

 ✿ دین کے محفوظ ہونے اور امتیوں کے اقوال کے محفوظ ہونے میں فرق:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہ صراحت کی ہے کہ دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے اس لئے دین کی کوئی بات مفقود نہیں ہوسکتی ۔ لیکن امتیوں کے اقوال واعمال کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے نہیں لی ہے اس لئے کسی امتی کا کوئی قول وعمل بعد کے لئے لوگوں کی نظر میں مفقود ہوسکتاہے ۔ (آداب الزفاف في السنة المطهرة ص: 267 )
استاذ محترم نے علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بات نقل کی جس کے تعلق سے مضمون نگار نے « سنابلی صاحب کا اپنا قاعدہ »کہہ کر یہ تاثر دیا کہ یہ صرف استاذ محترم کی بات ہے۔ دوسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ یہ اصول پیش کرکے غیرثابت آثار کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ یہ بالکل غلط بات ہے ۔
یہ بات محض ایک امکان کی حدتک کہی گئی ہے وہ بھی مرفوع احادیث سے متعلق نہیں کیونکہ مرفوع احادیث دین ہیں اور دین کا ثبوت مفقود ہو ہی نہیں سکتا البتہ امتی کے اقوال کا ثبوت مفقود ہوسکتا ہے ایسا ممکن ہے ۔ یعنی یہ امتیوں کے اقوال کے بارے میں کہا گیا ہے وہ بھی محض امکان کی حد تک نہ کہ اس بنیاد پر ثبوت کا دعوی کردیا گیاہے۔
بلکہ یہ با ت ذکرنے کے چند سطروں بعد اسی صفحہ پر اس طرح کے اقوال پیش کرنے سے پہلے استاد محترم نے صراحت کردی ہے کہ فقہاء ایسے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اس لئے ایسے اقوال کی فہرست پیش کی جارہی ہے (چاردن قربانی کی مشروعت ص 33)

 ✿ کتاب وسنت کے موافق غیرثابت آثار اور کتاب وسنت کے مخالف غیرثابت آثار:
اس وضاحت کے بعد کہ استاذ محترم نے یہ آثار بطور الزام پیش کئے گئے ہیں یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ اس ضمن میں وہی آثار پیش کئے گئے ہیں جو موافق کتاب وسنت ہیں ۔اسی تناظر میں امکان ثبوت کی بات شروع میں کہی گئی ہے کیونکہ نصوص کتاب وسنت کے موافق بعض صحابہ وغیرہ کے آثارمنقول ہوں تو تو کوئی بعید نہیں کہ واقعۃ ان صحابہ نے ایسا ہی موقف اختیار کیا ہو جس کا ثبوت مفقود ہوگیا۔
بلکہ گذشتہ سطور میں بتایا جاچکا ہے کہ کسی صحابی سے نص کے خلاف قول ثابت ہے اور دوسرا قول ثابت ہونا تو دور، ان کی طرف منسوب تک نہیں ہے پھر بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے فلاں صحابی نے نص کے خلاف والی بات سے رجوع کرکے نص کے موافق بات اپنالی ہو جیسے متعہ کے بارے میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے تعلق سے علامہ طیبی رحمہ اللہ کی بات گذرچکی ہے ۔یہی بات استاذ محترم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے تعلق سے کہی ہے وہ بھی اس صورت میں جب کہ ان کا دوسرا قول بھی موجود ہے ۔
لہٰذا صحابہ کی طرف منسوب ایسے اقوال جن کا ثبوت یعنی صحیح سند مفقود ہو لیکن وہ اقوال کتاب وسنت کے موافق ہوں انہیں الزاما پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خود حافظ زبیرعلی زئی صاحب کا طرزعمل دیکھ لیں انہوں نے بہت سے مقامات پرصحابہ وغیرہ کے غیرثابت آثار الزاما پیش کئے ہیں اور ایک موقع پر انہوں نے بعض صحابہ کے غیر ثابت آثار پیش کرنے کے بعد لکھا:
”میں نے خلفائے راشدین کے صرف وہی اقوال لکھے ہیں ، جو (عام طور پر) کتاب وسنت کے موافق ہیں یا ان سے ثابت ومشہور ہیں“ ( مقالات: جلد 2 صفحہ: 617 ، بریکٹ کے الفاظ علی زئی صاحب ہی کے ہیں)
الفاظ پر دھیان دیں فرماتے ہیں کتاب وسنت کے موافق ہیں یا ان سے ثابت و مشہور ہیں، یعنی بعض موافق کتاب وسنت اقوال ثابت نہیں ہیں پھر بھی کتاب وسنت کے موافق ہونے کے سبب انہیں پیش کیا گیا ، مثلا اسی ضمن میں گذشتہ صفحہ پر حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب بارہ تکبیرات عیدن کا قول بھی پیش کیا ہے جو علی رضی اللہ عنہ سے قطعا ثابت نہیں ہے ، جس کا مطلب یہ کہ حافظ صاحب نے یہ قول اس لئے الزاما پیش کیا کیونکہ یہ حدیث کے موافق تھا ۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ چاردن قربانی والا قول جس نص کے موافق ہے وہ نص ثابت نہیں تو اس کا جواب یہ کہ ثابت نہ ہونے کا دعوی مخالف کا ہے لیکن جو چاردن والا قول پیش کررہاہے اس کی نظر میں تو یہ ثابت ہے اوروہ اپنی تحقیق کی بنیاد پر ہی کوئی بات پیش کرے گا۔
نیز حافظ زبیرعلی زئی صاحب پر بھی یہ اعتراض وارد ہوگا کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب بارہ تکبیرات عیدین کا قول نقل کیا جو نص حدیث کے موافق ہے لیکن مخالف (احناف) کی نظر میں یہ نص ثابت ہی نہیں ۔
حافظ زبیرعلی زئی صاحب کے حوالے کے ساتھ اس بات کی وضاحت کے بعد اب اس مثال کو دیکھیں جسے مضمون نگار نے پیش کیا ہے لکھتے ہیں:
«ہم یہاں صرف ایک مثال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری وغیرہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین سے نماز پڑھنا ثابت ہے، لیکن احناف کے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی عدم رفع والی روایت بھی موجود ہے، جس کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے۔
اگر صحیح ثابت اثر کے خلاف بے سند اثر کو رجوع بنا کر پیش کیا جانا تحقیق ہے، تو مقلدین کے پیش کردہ اس با سند اثر کو بالاولیٰ رجوع مان لینا چاہیے۔»
اس مثال میں مضمون نگار نے اگرابن عمر رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت سے مرفوع حدیث مراد لیا تو یہ موضوع ہی سرے سے الگ ہے کیونکہ مرفوع روایات کا تعلق اصل دین سے جس کی حفاظت کی اللہ نے ضمانت لی ہے اس لئے اس تعلق سے کوئی غیرثابت بات دین کا حصہ ہوہی نہیں سکتی ۔
اوراگر مضمون نگار نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت سے ان کا دوسرا عمل مراد لیا ہے تو کہاں مذکورہ بات کہ نص کے موافق صحابی کی طرف منسوب بات کو پیش کرنا اور کہاں یہ صورت کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی روایت کردہ نص کے خلاف وہ بھی بالاجماع ثابت شدہ نص کے خلاف ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے قول کو پیش کرنا، بھلا ان دونوں میں کیا نسبت ہے ؟ 

 ✿ برائے اثبات یا بطور الزام:
یہ وضاحت باربار گذرچکی ہے کہ الزامی طور پر غیر ثابت اقوال کو پیش کرنا یا ان کے صحت کے امکان کی بات کرنا ، ان سب باتوں کا تعلق امتی کے اقوال سے ہےنہ کہ مرفوع احادیث سے ، لیکن مضمون نگار نے بار بار خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے کہیں کی بات کہیں لے جاکر ملادی ہے ، اس کے ساتھ ادھوری بات کو نقل کرکے کچھ اور ہی مفہوم ہدیہ قارئین کیا ہے ، مضمون نگار نے لکھا :
«سنابلی صاحب لکھتے ہیں :
عام طور پر فقہا اس نوعیت کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں۔''(چار دن قربانی کی مشروعیت ،ص : 33) کیا فقہا و مجتہدین کا باسند ضعیف یا بے سند اقوال سے حجت پکڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اقوال ثابت ہیں؟»
سوال یہ ہے کہ یہاں ثابت ہونے کی بات کس نے کہی ہے ؟؟؟ 
«عام طور پر فقہا اس نوعیت کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں » ، یہ جملہ کتاب میں مکمل اس طرح ہے:
 ”عام طور پر فقہا اس نوعیت کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں ، اس لئے ہم ایسے اقوال کی فہرست پیش کرتے ہیں“ (چار دن قربانی کی مشروعیت ،ص : 33)
یعنی حجت پکڑنے کی بات ان اقوال کو ثابت بتلانے کی غرض سے نہیں کہی گئی تھی بلکہ بطور الزام ان اقوال کو پیش کرنے کی غرض سے کہی گئی تھا ، پوری بات کا مطلب یہ ہے کہ فقہاء اس طرح کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اس لئے بطور الزام ان اقوال کو پیش کیا جارہاہے۔

 ✿ مرفوع حدیث کو بالجزم بیان کرنا اور امتی کے قول کو بالجزم بیان کرنا:
چاردن قربانی کی مشروعت (ص 33) سے نقل کئے گئے فقہاء کے حجت والے مذکورہ الفاظ سے کافی پہلے یہ جملہ تھا «متعدد اہل علم نے ان صحابہ کی طرف بالجزم چار دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے » دیکھئے: چاردن قربانی کی مشروعت (ص 33 )
مضمون نگار نے اوپر سے اس جملے کو لیکر بیچ کے جملے حذف کرکے نیچے لے جاکر فقہاء کے حجت والے الفاظ سے ملا دیا ، پھر اس الزامی بات کو اثبات کے پیرائے میں ڈھال دیا ۔اس کے بعد بالجزم والے الفاظ کو پکڑ کریہ گل افشانی کی کہ بالجزم ذکرکرنے کو ثبوت کی دلیل مان لیا گیا ہے ، حالانکہ یہ بات محض امکان کی اور الزامی حوالے کی ہے نہ کہ اثبات و تصحیح کی ، جیساکہ تفصیلا ضاحت گذرچکی ہے۔
لیکن مضمون نگار نے نہ صرف یہ کہ اس امکانی اور الزامی بات (اس کی تفصیل گذرچکی ہے) کو اثبات و تصحیح باور کرایا بلکہ ناسمجھی یا مغالطہ بازی کی حد کرتے ہوئے مرفوع احادیث تک اسے پہنچا دیا اور پھر بڑی بے حیائی سے اسے لے جاکر ظفر احمد تھانوی کے اس اصول سے ملا جلا دیا کہ کسی عالم کا کسی حدیث پر عمل کرلینا یا اس کے مطابق فتوی دے دینا اس کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح ہے۔ یا للعجب !
پھر آگے چل مضمون نگار نے سوال کیا :
«ہمارا سوال ہے کہ جب کسی مجتہد یا عالم کا کسی حدیث نبوی کے موافق فتوی یا اسے بالجزم منسوب کرنا اس کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتا تو کسی صحابی کے قول کو اپنے موقف میں پیش کرنا یا اسے بالجزم منسوب کرنا کیسے اس کے ثبوت کی دلیل بن سکتا ہے؟»
راقم عرض کرتا ہے کہ ثبوت کی دلیل کس نے کہا ؟
بات صرف امکان اور الزام کی ہے جس کی تفصیل گذرچکی ہے۔ اور یہ وضاحت بھی ہوچکی ہے مرفوع حدیث یعنی دین سے متعلق اس امکان کی کوئی گنجائش ہی نہیں کیونکہ دین کی کسی بات کے ثبوت کا مفقود ہوجانا ناممکن ہے کیونکہ دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی ہے۔ 

 ✿ منسوخ ومرجوع عنہ کہنے اور ضعیف کہنے میں فرق:
یزید بن معاویہ والی کتاب میں ایک مقام پر تاریخ کے معاملے میں متعدد سند سے آنے والی ایک بات کو اس کے برخلاف بے سند بات کے مقابل میں قوی کہا لکھا گیا ہے جس کا حوالہ دیتے ہوئے مضمون نگارنے کہا کہ باسند بات کواس کے برخلاف بے سند بات پر ترجیح ہونی چاہئے۔مضمون نگار نے لکھا:
«یہاں تو وہ ضعیف روایات کو بے سند روایت سے قوی قرار دے رہے ہیں، لیکن خود ایام ِ قربانی والے مسئلہ میں صحابہ کرام کے صحیح وثابت آثار کو بے سند یا سخت ضعیف آثار سے قوی ماننے کے لیے تیار نہیں ہو رہے »
حالانکہ استاذ محترم نے ابن عمررضی اللہ عنہ کے علاوہ سارے آثار کو ضعیف ومردود ثابت کیا ہے ، اس لئے یہ کہنا کہ «صحابہ کرام کے صحیح وثابت آثار کو بے سند یا سخت ضعیف آثار سے قوی ماننے کے لیے تیار نہیں» سراسر غلط بیانی ہے۔
رہا ابن عمر رضی اللہ کا تین دن والا ثابت اثر تو استاذ محترم نے اسے سنداصحیح ہی تسلیم کیا ہے ضعیف ہرگز نہیں کہا ہے، اور نہ کسی ضعیف قول کو سندا اس سے قوی قراردیا ہے ۔
البتہ چونکہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے یہ ثابت شدہ قول صریح نص کے خلاف تھا ،اوردوسری طرف ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی طرف موافق نص بھی ایک قول منسوب تھا تواستاذ محترم نے حسن ظن کی بنیاد پر یہ کہا ہے کہ ممکن ہے ابن عمررضی اللہ عنہ نے مخالف نص قول سے رجوع کرلیا ہے ۔
اور یہ بات گذرچکی ہے کہ اہل علم ایسے مواقع پر کسی صحابی کا دوسرا قول سرے سے منقول ہی نہ ہوتو بھی حسن ظن کی بنیاد پر رجوع کی بات کہہ دیا کرتے ہیں تو پھر یہاں تو دوسرا قول موجود بھی ہے پھر یہ کہنے میں کیا مضائقہ ہے کہ ممکن ہے ابن عمررضی اللہ عنہ نے مخالف نص والے قول سے رجوع کرلیا ہو۔
مضمون نگار نے غالبا یہ سمجھ لیا ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت پہلے قول کو ان کی طرف منسوب دوسرے قول کے سبب رد کیا گیا ہے ، جب معاملہ یہ ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے ثابت قول کو نص کے خلاف ہونے کے سبب رد کیا ہے گیا ہے، اور جب اس قول کو رد کردیا گیا تو اس کے ثبوت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ہے، یعنی اسے سندا ضعیف نہیں کہا گیا ہے بلکہ سندا اسے ثابت مانتے ہوئے ان کی طرف منسوب دوسرے قول کے سبب صرف اس حسن ظن کی بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ہو۔
اورلفظ «رجوع» کا استعمال ہی اس بات پر بین دلیل ہے کہ پہلے قول کوسندا ثابت ہی مانا جارہا ہے ورنہ اگر پہلا قول ثابت ہی نا ہوتا تو رجوع کا کوئی محل ہی نہیں ۔
مضمون نگار اس قدر فہم سقیم کے مالک ہیں کہ وہ کسی بات کو منسوخ و مرجوع عنہ بتلانے کو اس بات کی تضعیف سمجھ لیتے ہیں ۔

 ✿ کیا چار دن قربانی والے آثار سب کے سب بے سند ہیں:
مضمون نگار نے لکھا:
«سنابلی صاحب کے مذکورہ اصول کی رُو سے تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام سے تین دن قربانی والا موقف اگر صحابہ کرام سے باسند صحیح ثابت نہ بھی ہوتا، سب سندیں ضعیف ہی ہوتیں، تو بھی اسے چاردن قربانی والی بے سندو بے اصل روایات کے خلاف پیش کیا جاسکتا تھا، چہ چائیکہ تین دن والا موقف ہی صحابہ کرام سے ثابت ہے، چاردن والا قطعا ثابت نہیں! »
اول تو مضمون نگار نے مرجوع عنہ کہنے کو تضعیف سمجھ لیا جس کی وضاحت ہوچکی ہے۔
دوسرے ایک سانس میں چاردن قربانی والے سارے آثار کے بے سند وبے اصل کہہ ڈالا جب کہ چاردن والے اکثر آثار بھی باسند ہی ہیں کیونکہ ائمہ نے ابن ابی شیبہ ، ابن المنذر ، عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم وغیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے اور یہ سند والی کتابیں ہیں، اس لئے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ان اقوال کی سندوں والی کتب مفقود ہیں یا کتب کا وہ حصہ مفقود ہے ، لیکن یہ دعوی غلط ہے کہ یہ اقوال بالکل بے سند وبے اصل ہیں ۔
مضمون نگار صاحب کی یہ تحریر پڑھ کر راقم اسی نتیجہ پر پہنچا ہے کہ آں حضرت یا تو ایک نمبر کے مغالطہ باز ہیں اور تقلیدی روش میں فریق مخالف کے ساتھ ہرطرح کی نا انصافی اور اتہام طرازی کو رواسجمھتے ہیں ، یا پھرتعلیم وتربیت اتنی سطحی اور ذہن اتنا کند ہے کہ ایک شخص کی بات کیا ہے ؟ بات کی دلیل کیا ہے ؟ وجہ استدلال کیا ہے؟ مقصود کلام کیا ہے ؟ ان میں سے کچھ بھی سمجھنے کی استطاعت سے محروم ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے:
وكم من عائب قولا صحيحا.. وآفته من الفهم السقيم
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو صحیح بات میں بھی عیب نکال دیتے ہیں، یہ مصیبت ان کی سمجھ میں بیماری کے سبب آتی ہے۔
(زبیر عالیاوی)
اس تحریر کو نیچے کے لنک سے پی ڈی ایف میں ڈاؤنلؤد کریں



No comments:

Post a Comment