بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے ایک قول کی وضاحت - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-08-31

بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے ایک قول کی وضاحت

بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے ایک قول کی وضاحت
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن محمد بن المنكدر ، قال : بلغ ابن عمر أن يزيد بن معاوية بويع له ، قال : إن كان خيرا رضينا ، وإن كان شرا صبرنا“ 
 ”محمدبن المنکدر کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی گئی ہے تو انہوں نے کہا : اگر یہ باعث خیر ہے تو ہم راضی ہیں اور اگر یہ باعث شر ہے تو ہم صبر کریں گے“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 100 واسنادہ صحیح عنعنہ سفیان مقبولۃ وقدصرح بالسماع عند ابن ابی الدنیا فی الصبر والثواب عليه ص: 114 واسنادہ صحیح]

بعض لوگ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے اس کلام کی یزید کی مذمت پر محمول کرتے ہیں حالانکہ اس میں سرے سے یزید کی مذمت کا کوئی پہلو ہے ہی نہیں ۔
اورغور کرنے کے بات یہ ہے کہ اسی روایت میں اگرعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے شر کے امکان کی بات کہی ہے تو عین اسی روایت میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے خیر کے امکان کی بھی بات کہی ہے ۔پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے اس جملہ کے صرف ایک حصہ کو دیکھا جائے اور دوسرے حصہ کو نظرانداز کردیا جائے؟

دوسری بات یہ کہ اس کلام سے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصود یزیدبن معاویہ کی بیعت پر رضامندی کو بتلانا ہے اور چونکہ بعض لوگ اس بیعت کے ذریعہ اس اندیشے میں تھے کہ کہیں باپ کے بعد بیٹے کے خلیفہ بن جانے سے آگے چل کر یہ اصول نہ بن جائے کہ ہرخلیفہ کے بعد اس کا بیٹا ہی اگلا خلیفہ بنے اس طرح ایک شر شروع ہوجائے تو عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے اس اندیشے کو بیعت نہ کرنے کا جواز نہیں مانا بلکہ یہ کہا کہ اگر ایسا ہوگا تو ہماری ذمہ داری صبر کرنے کی ہے۔
یعنی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصد ان لوگوں کا رد ہے جو محض اندیشوں کی بناپر یزید کی بیعت کرنے میں تردد کے شکار تھے کیونکہ اندیشہ کے ساتھ ساتھ خیر کا بھی امکان تھا اوراندیشے والی بات کوئی قطعی بات نہیں تھی نیز جب امت کی اکثریت نے ایک شخص کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو ایسی صورت میں اگر اندیشے والی بات واقع بھی ہوجائے تو بھی ایسے حالات میں اسلام نے صبر کرنے کی تعلیم دی ہے نہ کہ اکثریت کی مخالفت کی ۔
پس جب امت کی اکثریت نے اس بیعت کو قبول کرلیا ہے تو ایک مسلمان کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اس بیعت میں داخل ہوجائے خواہ یہ بیعت باعث خیر ہو یا باعث شر۔کیونکہ جمہورامت کے اتفاق کے بعد دونوں صورتوں میں ایک مسلمان پریہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جمہور اس امت کے فیصلہ میں شامل ہوجائے اورسبیل المؤمنین سے الگ نہ ہو۔
بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصد یزید کی بیعت کو قابل قبول قرار دینا تھا اور اس کے نتائج کو نظر انداز کرنے کی تعلیم دینا تھا کیونکہ جمہور امت کے اتفاق کے بعد نتیجہ خیر یا شر کی شکل میں کچھ بھی ہو بہر صورت جمہورامت کے ساتھ شامل ہونا ضروری ہے۔

اس کو مثال سے سمجھنے کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: حفظناه من الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة فخير تقدمونها، وإن يك سوى ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم»“ 
 ”صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو“ [صحيح البخاري 2/ 86 رقم 1315]

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنازہ کو خیر یا شر نہیں کہا ہے بلکہ اصل تعلیم جنازہ میں جلدی کرنے کی دی ہے اور جنازہ کی نوعیت کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جنازہ کیسا بھی ہو اچھا ہو یا برا ، وفات کے بعد دونوں صورتوں میں جلدی کرنے میں ہی بھلائی ہے۔
بالکل یہی معاملہ بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے کلام کا بھی ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے اس کلام میں یزید کی بیعت کو باعث خیر یا باعث شر نہیں کہا ہے بلکہ اس کے نتیجہ کو نظرانداز کرتے ہوئے اصل بیعت کی قبولیت پر زور دیا ہے کہ جمہور امت کے اتفاق کے بعد بیعت قبول کرلینے میں ہی بھلائی ہے کیونکہ اگر یہ باعث خیر ہے تو کوئی بات نہیں اور اگر یہ باعث شر ہے تو بھی بھلائی جمہور امت کے ساتھ رہنے میں ہی ہے ۔
یہ ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کا اصل مقصود و مدعا، اسے کسی منفی معنی پر محمول کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کو تو یزید کے خلاف پیش کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ کلام منقول ہے اسی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ ہی میں وہ بھی بخاری ومسلم کی شرط پرصحیح سند کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق پوری صراحت منقول ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کروں گا ملاحظہ ہو:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
 ”حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔“ 
 ”نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: جب علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتاہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔اس کے بعد ابن عمررضی اللہ عنہ ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]

قارئین بتلائیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اللہ کی قسم کھا کرکہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کروں گا اس کے باوجود بھی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ کا مخالف نہ سمجھا جائے اور یہی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ یزیدبن معاویہ کی بیعت کوقبول کرتے ہوئے کہیں کہ یہ باعث خیر ہے تو ہم راضی ہیں اور باعث شر ہے تو ہم صبر کریں گے ۔تو اس بات کو یزید کی مخالف قرار دیا جائے !
سبط ابن الجوزی متروک و مبتدع نے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس طرزعمل پر امام زہری رحمہ اللہ کا اظہار تعجب نقل کرتے ہوئے کہا:
 ”قال الزہری :والعجب من امتناع عبد الله بن عمر من بيعة أمير المؤمنين فقد بايع يزيد بن معاوية“ 
 ”امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا رکنا تعجب کی بات ہے جبکہ انہوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی“ [تذكرة الخواص لسبط ابن الجوزي: ص: 299]۔

اور روافض نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو اسی وجہ سے ناصبیت کا لقب دے دیا [القول الصراح في البخاري وصحيحه الجامع: ص 170] اور ہمارے سنی بھائیوں نے دوسری انتہاء پر پہونچتے ہوئے انہیں یزید بن معاویہ ہی کا مخالف بنادیا۔

ہمارے نزدیک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نہ تو علی رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے اور نہ ہی یزید کے مخالف تھے بلکہ وہ سیاسی اختلافات سے خود کو دور رکھ کر جمہورامت کے فیصلہ کا انتظار کرتے اور جمہور امت کی طرف سے جو فیصلہ ہوجاتا اسے قبول کرکے اسی پر جم جاتے تھے۔

یادرہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے یزید کی باقاعدہ بیعت کی تھی اور آپ اس بیعت کو کتاب وسنت کے موافق بتلاتے تھے اور دوسروں کی بھی اس بیعت پر باقی رہنے کا حکم دیتے اور مخالفت کی شدید مذمت کرتے [صحيح البخاري 9/ 57 رقم 7111]۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment