”واقعہ حرہ“ میں خواتین کی عصمت دری ثابت نہیں - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-08-20

”واقعہ حرہ“ میں خواتین کی عصمت دری ثابت نہیں

عمرصدیق نے کاہ کہ( یزید کی فوج نے اہل مدینہ کی ایک ہزار عورتوں کے ساتھ جبری زناکیا ) ۔
اہل حدیث اسٹیج پر بیٹھ کر ایسی واہیات باتیں کرنا انتہائی شرمناک امر ہے۔

 
  ”واقعہ حرہ“ میں خواتین کی عصمت دری ثابت نہیں
”کفایت اللہ“
 ✿  ✿  ✿ 
”واقعہ حرہ“میں شامی فوج کے ذریعہ خواتین کی عصمت دری سے متعلق جنتی بھی روایات تاریخی کتاب میں ملتی ہیں ان سب کی حقیقت ملاحظہ ہو:
مصعب بن عبداللہ الزبیری کی روایت
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
”قال الزبير بن بكار حدثني عمي ( ؟ ) قال كان بن مطيع من رجال قريش شجاعة ونجدة وجلدا فلما انهزم أهل الحرة قتل عبد الله بن طلحة وفر عبد الله بن مطيع فنجا حتى توارى في بيت امرأة من حيث لا يشعر به أحد فلما هجم أهل الشام على المدينة في بيوتهم ونهبوهم دخل رجل من أهل الشام دار المرأة التي توارى فيها بن مطيع فرأى المرأة فاعجبته فواثبها فامتنعت منه فصرعها فاطلع بن مطيع على ذلك فدخل فخلصها منه وقتل الشامي“ 
 ”مصعب بن عبداللہ زبیری( ؟ )  کہتے ہیں کہ ابن مطیع قریش کے بہادر لوگوں میں سے تھے ، جب اہل حرہ کو شکست ہوئی اور عبداللہ بن طلحہ قتل ہوئے تو ابن مطیع نے فرار ہو کراپنی جان بچائی اور ایک عورت کے گھر میں اس طرح چھپ گئے کہ کسی کو اس کی خبر تک نہ ہو ۔پھر جب اہل شام نے مدینہ پر لوگوں کے گھروں میں حملہ کیا اور انہیں لوٹا تو ایک شامی شخص اس عورت کے گھر میں داخل ہوا جس میں ابن مطیع چھپے ہوئے تھے ، جب اس شخص نے اس عورت کو دیکھا تو وہ اس کو پسندآگئی پھر یہ اس عورت پر ٹوٹ پڑا ، اس عورت نے اپنا بچاؤ کیا لیکن اس شخص نے اسے مات دے دی ، ابن مطیع نے یہ سب دیکھا تو اندر داخل ہوئے اور اس عورت کو اس شخص سے بچایا اوراس شامی شخص کوقتل کردیا“[الإصابة لابن حجر: 5/ 26]۔

یہ روایت باطل ومردودہے۔
 ”زبیربن بکار“ کے چچا ”مصعب بن عبداللہ الزبیری“ 236 میں فوت ہوئے اورحرہ کا واقعہ سن 63 ہجری کا ہے ۔ یعنی انہیں ”واقعہ حرہ“ کا زمانہ ملا ہی نہیں ، لہٰذا بےسند اوربے حوالہ ہونے کی وجہ سے یہ بات باطل ہے۔
اس روایت کے کذاب ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ ابن مطیع اہل شام کے سخت خلاف ہونے کے باوجود بھی خود انہوں نے اہل شام کے اس کردار سے کسی کو آگاہ نہیں کیا اور اس میں ذرہ برابر بھی سچائی ہوتی تو ابن مطیع کو یہ واقعہ آگ کی طرح پھیلا دینا چائے تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ثابت ہوا کہ یہ من گھڑت بات اور سراپا بکواس ہے۔
اس روایت میں کذابوں نے صرف عزت لوٹنے کی کوشش دکھلائی ہے لیکن آگے دیکھیں:

ام ہیثم بنت یزید (مجہولہ) کی روایت
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) نے کہا:
”أخبرنا محمد بن ناصر، قال: أخبرنا المبارك بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّد بن عبد الواحد، قَالَ: أَخْبَرَنَا أبو بكر أحمد بْن إبراهيم بن شاذان، قال:أخبرنا أحمد بن محمد بن شيبة البزاز، قال: أخبرنا أحمد بن الحارث الخزاز، قال:حدثنا أبو الحسن المدائني، عن أبي عبد الرحمن القرشي، عن خالد الكندي، عن عمته أم الهيثم بنت يزيد، قالت:رأيت امرأة من قريش تطوف، فعرض لها أسود، فعانقته وقبلته، فقلت: يا أمة الله، أتفعلين هذا بهذا الأسود، قالت: هو ابني وقع علي أبوه يوم الحرة، فولدت هذا“ 
 ”ام ہیثم بنت یزید سے روایت ہے کہ میں نے قریش کی ایک عورت کو طواف کرتے ہوئے دیکھا اتنے میں اس کے سامنے ایک کالا شخص آیا تو اس نے اسے گلے لگالیا اور اسے بوسہ دیا ۔ تو میں نے کہا : اللہ کی بندی ! تو اس کالے کے ساتھ ایسا کررہی ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : یہ میرا بیٹا ہے اس کے باپ نے حرہ کے دن میری عصمت دری کی تھی جس کے بعد میں نے اسے جنا“ [المنتظم لابن الجوزي: 6/ 15، الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 67]۔

یہ روایت بھی باطل ہے ”ام ہیثم“ مجولہ ہے اور خالد کندی کا بھی کوئی اتا پتا نہیں ملتا۔
اس پُرخرافات روایت میں تو صرف ایک عورت کی عزت لوٹنے کی بات ہے لیکن آگے دیکھئے:

مغيرة بن مقسم الضبى کی روایت
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا :
”أخبرنا أبو الحسين بن الفضل أخبرنا عبد الله بن جعفر حدثنا يعقوب بن سفيان حدثنا يوسف بن موسى حدثنا جرير عن مغيرة ( ؟ ) قال أنهب مسرف بن عقبة المدينة ثلاثة أيام فزعم المغيرة أنه افتض فيها ألف عذراء“ 
 ”مغيرة بن مقسم ( ؟ ) الضبى سے منقول ہے کہ مسلم بن عقبہ نے تین دن تک مدینہ میں لوٹ مار کیا اور مغيرة بن مقسم الضبى کا گمان ہے کہ اس نے مدینہ میں ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی“ [دلائل النبوة للبيهقى : 6/ 475 ومن ھذا الطریق اخرجہ ابن عساکر فی تاريخ دمشق : 58/ 108] 

یہ روایت کئی وجوہ باطل ومردودہے۔
 ● اولا:
 ”مغيرة بن مقسم الضبى“ نے اپنا ماخذ نہیں بتایا ہے ان کی وفات 136 میں ہوئی ہے کبار تابعین سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے لہٰذا انہیں واقعہ حرہ کا دور ملا ہی نہیں۔
 ● ثانیا:
 ”مغيرة بن مقسم الضبى“ تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں دیکھئے [طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 46]۔اورانہوں نے اس روایت میں سماع کی صراحت تو دور کی بات اپنے استاذ کا نام بھی نہیں بتایا ہے۔
قارئین غور کریں کہ اس روایت میں ایک نہیں ایک ہزار لڑکیوں کی عصمت دری کا ذکر ہے، ذراغور کریں کیا خیرالقرون کی اسلامی فوج کا یہی حال تھا ؟؟؟
اورجھوٹ اور تہمت کا سلسلہ یہیں پر بند نہیں ہوجاتا بلکہ کذابوں، تہمت پرستوں نے ان ہزاروں لڑکیوں میں سے ہرلڑکی سے بچے بھی پیدا کردئے ، آگے پڑھیں اور سردھنیں:

”ہشام بن حسان“ کی روایت
”عن المدائني، عن أبي قرة، قال: قال هشام بن حسان ( ؟ ) : ولدت ألف امرأة بعد الحرة من غير زوج“ 
 ”ہشام بن حسان ( ؟ ) سے روایت ہے کہ حرہ کے بعد ہزاروں عورتوں نے بغیرشوہر کے بچے جنے“ [المنتظم لابن الجوزي: 6/ 15، الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 67]

یہ روایت بھی باطل ومردود ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والے ”ہشام بن حسان بصری“ کی وفات 148 ہجری ہے یہ صغار تابعین کے دور کے ہیں اور حرہ کا زمانہ انہوں نے نہیں پایا اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہذا یہ بے حوالہ بات مردود وباطل ہے۔
قارئین غور کرین کتنی عجیب بات ہے کہ کوئی کہتا ہے: واقعہ حرہ میں ایک ہزار لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی اور کوئی ان میں سے ہر ایک لڑکی سے بچے بھی پیدا کروا رہاہے ۔
اور اس سے بھی زیادہ گھناونی بات آگے ملاحظہ کریں:

سفید جھوٹ
عبد الملك بن حسين العصامي المكي (المتوفى1111)نے کہا:
( ؟ ) وَكَانَ يَقُول (سعيد بن الْمسيب) كنت أسمع عِنْد مَوَاقِيت الصَّلَاة همهمة من الْحُجْرَة المطهرة وافتض فِيهَا ألف عذراء وَإِن مفتضَّها فعل ذَلِك أَمَام الْوَجْه الشريف وَالْتمس مَا يمسح بِهِ الدَّم فَلم يجد فَفتح مصحفا قَرِيبا مِنْهُ ثمَّ أَخذ من أوراقه ورقة فتمسح بهَا“ 
 ”( ؟ ) سعیدبن مسیب کہتے تھے کہ میں نماز کے وقت حجرہ اقدس سے آواز سنتا تھا اور اس حجرہ میں ایک ہزار کنواری لڑکیوں کی عزت لوٹی گئی اور ایک زانی نے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے سامنے ایک عورت کی عزت لوٹی اور اس کے بعد خون پوچھنے کے لئے کچھ تلاش کیا پھر کچھ نہیں ملا تو اپنے قریب موجود قران مجید کھولا اوراس کا ایک ورق پھاڑ کر اسی سے خون صاف کیا“ [سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي:3/ 204 ] 

قارئین غورکریں عصامی نے کیسا گپ تحریر کیا ؟
کیا یہ کردار اس دور کی اسلامی فوج کا ہوسکتا ہے جس دور کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر القرون کہاہے؟؟
اور کیا کوئی مسلمان اس طرح کی گھٹیا باتوں پر یقین کرسکتاہے؟؟؟
 ”عبدالملک عصامی“ (المتوفى1111) واقعہ حرہ کے ہزاروں سال بعد پیدا ہوا ہے اور معلوم نہیں اس نے یہ جھوٹ کہاں سے نقل کیا یا کیا پتا اس نے خود یہ جھوٹ گھڑا ہو۔

خلاصہ کلام
”واقعہ حرہ“ میں کسی ایک خاتون کی بھی عصمت دری نہیں کی گئی اس تعلق سے صرف اور صرف چار روایات ملتی ہیں اور یہ چاروں کی چاروں مکذوب اور باطل ہیں ان کا بطلان اس قدر واضح ہے کہ ذوق سلیم کا مالک شخص صرف متن پرنظر ڈالتے ہی اس کے جھوٹے ہونے پر یقین کرلیتا ہے لیکن پھربھی تسلی کے لئے علمی طور پر ان روایات کا باطل ہونا ثابت کردیا گیا ہے۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment