ظلم کے خلاف امن پسندوں کے ساتھ اتحاد - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-09-05

ظلم کے خلاف امن پسندوں کے ساتھ اتحاد


ظلم کے خلاف امن پسندوں کے ساتھ اتحاد
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
جس طرح ظالم اور مظلوم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،اسی طرح امن پسندوں کاوجود بھی کسی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے، ہرسماج میں جس طرح ظالم ومظلوم پائے جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح امن کے رکھوالوں سے بھی کوئی سماج خالی نہیں ہوتا ، ظلم وہ پاپ ہے جس سے ہرکوئی پناہ مانگتا ہے اور امن وعافیت وہ نعمت ہے جوہرایک کی مانگ ہے۔
لہذاجب بات ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور امن وامان کے قیام کی ہو تو بلاتفریق مذہب وملت ہرسماج کے امن پسندوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ اور کندھے سے کندھا ملاکر ظالموں کے خلاف صف آراہوں۔
ظلم کا چہر ہ کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو،ظالموں کی طاقت اور ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو،حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں، بہرصورت امن کے لئے کوشش جاری رہنی چاہئے اورمایوسی نام کی کوئی چیز بھی ہماری ڈکشنری میں نہیں ہونی چاہئے۔
اسلام سے پہلے کا جو دور گذرا ہے اسلام اسے جاہلیت کا دور کہتا ہے، اس دور میں ہر طرح کی برائیاں عام تھیں، جھوٹ، لوٹ کھسوٹ،شراب نوشی، زناکاری، بدعملی،بدعقیدگی،غرض ہرطرح کی برائیوں نے پورے سماج کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا، لیکن ان حالات میں بھی بعض زندہ دل طبیعتوں نے مایوسی کی راہ نہیں دیکھی، بلکہ ہرجگہ کے امن پسندلوگوں کواکٹھا کرکے قیام امن کے لئے ایک متحدہ طاقت تیار کی ،پھر ظالموں کا مقابلہ کیا اور مظلوموں کو ان کا حق دلایا،تاریخ میں امن پسندوں کی یہ کمیٹی ”حلف الفضول“ کے نام سے جانی جاتی تھی۔
اللہ کے نبی ﷺ بھی ظلم کے خلاف اس متحدہ کمیٹی میں شریک تھے اس وقت آپ ﷺ کی عمر بیس سال تھی، یعنی ابھی آپ ﷺ نبی نہیں بنائے گئے تھے اور اسلام کی دعوت کا آغازنہیں ہواتھا، لیکن اللہ کے نبی ﷺ نے نبی بننے کے بعد بلکہ اسلام کی دعوت عام کرنے کے بعد بھی ایک موقع پر واقعہ ”حلف الفضول“ کا ذکر کیا اوریہ خواہش ظاہر کی کہ آج بھی اگر کہیں ظلم کے خلاف ایسی کوشش ہو اور لوگ مجھے اس میں شرکت کے لئے بلائیں تو میں ایسے لوگوں کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں۔
صحابی رسول عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
”لقد شهدت في دار ابن جدعان حلفا، لو دعيت إليه في الإسلام لأجبت، تحالفوا أن ترد الفضول على أهلها، وألا يعز ظالم، مظلوما“ 
 ”میں نے ابن جدعان کے گھر میں ہونے والے معاہدہ امن(حلف الفضول)میں شرکت کی تھی،اورآج اسلام آنے کے بعد بھی اگر مجھےکسی ایسے معاہدہ کی طرف بلایاجائے تو میں اس میں شرکت کے لئے تیارہوں، ابن جدعان کے گھر میں اس بات پر عہد ہوا تھا کہ جس شخص کا بھی کوئی حق غصب کیا گیا اسے وہ حق دلایا جائے گا اور کسی بھی ظالم کو کسی مظلوم پر ظلم ڈھانے نہیں دیاجائے گا“ [الدلائل فی غریب الحدیث رقم265،وإسنادہ صحیح] 
ایک دوسری روایت میں اللہ کے نبی ﷺ نے اس عہد پرڈتے رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
 ”فما أحب أن لي حمر النعم، وأني أنكثه“ ، ”مجھے یہ قطعا گوارہ نہیں کہ میں اس معاہدہ کو توڑدوں خواہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹوں سے مال مال کردیا جائے“ [مسند أحمد ط الرسالة:1 /190رقم1655 وإسنادہ صحیح] 
 اللہ کے نبیﷺ کے ان ارشادات میں ہمارے لئے سیکھنے کی کئی باتیں ہیں لیکن تین باتیں بطور خاص نوٹ کرنے کی ہیں:
❀ پہلی بات یہ کہ گنہگارا ور بگڑے ہوئے معاشرے میں بھی ظلم کی روک تھام اور امن کی کوشش ترک نہیں کرنی چاہئے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے معاشر ے میں انفرادی یا اجتماعی سطح پر کہیں بھی ظلم ہوتا ہے تو بہت سارے لوگ مظلوم یا مظلوموں کی مدد کرنے کے بجائے ان پر ڈھائے گئے ظلم کو عذاب الہی بتاکر یہ کہتے ہوئے خاموش ہوجاتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے گناہوں اور پاپوں کی سزاہے،یعنی نمازاور روزہ کی تلقین کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ زمانہ جاہلیت کے مظلومین صوم وصلاۃ کے پابند اورتہجد گذار نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کی مددکے لئے کوششیں کی گئیں۔
 ❀ دوسری بات یہ کہ ظلم کے خلاف اور امن کے قیام کے لئے جب آپ کھڑے ہوجائیں توایسی استقامت کا ثبوت دیں کہ کوئی بھی شخص آپ کو روپیوں اور پیسوں سے خرید نہ سکے، آپ ﷺنے اسی بات کادرس دینے ہوئے ”حلف الفضول“ کے معاہدہ سے متعلق کہا کہ اگر سرخ اونٹوں سے بھی مالامال کردیاجائے تو بھی میں اس معاہدہ کو نہیں توڑسکتا۔
 ❀ تیسری بات یہ کہ اس راہ میں میں ہرمذہب اور ہر قوم کے امن پسندوں کی قدر کریں ان کا ساتھ حاصل کریں اور ان پر اعتماد کریں، اور یہ مت بھولیں کہ بہت سے افراد آپ کے مذہب پر نہ ہونے کے باوجود بھی ظلم کے خلاف آپ کا بھرپور ساتھ دے سکتے ہیں، ابوطالب آپ ﷺ کے دین پر نہیں تھے، لیکن انہوں نے آپ ﷺ کی جومددکی ہے وہ اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہے، بلکہ ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس شخص کو اپنی سواریاں دے کر یہ طے کیا کہ تم تین دن بعد غار ثور پر ملو اوروہاں سے مدینہ تک الگ راستے سے ہمیں پہنچادو، وہ شخص کوئی مسلمان نہیں تھا بلکہ ”وھو علی دین کفار قریش“ (وہ کفارقریش کے دین پرتھا) [صحیح بخاری رقم 2263] 
غورکریں کہ ہجرت جیسے مقدس اور اتہائی خطرناک مشن میں آپ ﷺ نے ایک غیرمسلم پر اعتماد کیا اور اس غیر مسلم نے بھی پوری طرح وفاداری کا ثبوت دیا، باوجود اس کے مکہ والوں نے نبی ﷺکا پتہ بتانے والے کے لئے بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا تھا۔
غرض یہ کہ آپ ﷺ کی سیرت کے ان پہلؤوں میں ہمارے لئے سبق ہے کہ ہمیں کسی بھی حالت میں امن کی کوشش ترک نہیں کرنی چاہئے، اور اس کے لئے ہر سماج کے امن پسند وں کے ساتھ مل کر ظالموں کے خلاف پوری قوت اور استقامت کے ساتھ ڈٹ جاناچاہئے۔
( اداریہ مجلہ ”اہل السنہ“ دسمبر 1019، از کفایت اللہ سنابلی )

No comments:

Post a Comment