(مقدمہ)علم فرائض کا تعارف​ - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-09-22

(مقدمہ)علم فرائض کا تعارف​

 
مقدمۃ،علم فرائض کا تعارف

لغوی معنی :
فرائض یہ فریضہ کی جمع ہے ، یہ لفظ فرض سے ماخوذ ہے جس کے بہت سے معانی ہیں مثلا نازل کرنا ، واجب کرنا ، مقررکرنا ، متعین کرنا ، بیان کرنا ، ، حلال کرنا ۔
علم فرائض میں یہ تمام معانی شامل ہیں کیونکہ اس علم کو اللہ نے نازل کیا ہے ، اس کے احکام کو بیان کیا ہے،اس پر عمل کو واجب قراردیا ہے ، بعض وارثین کے حصوں کو متعین کیا ہے وغیرہ۔
آیت میراث میں لفظ ”فريضة“ اور ”مفروضا“ وارد ہوا ہے اسی مناسبت سے اس علم کا نام ”علم فرائض“ ہے۔

اصطلاحی معنی:
ہروارث کا وہ حصہ جو خاص مقدار میں متعین ہے۔

علم فرائض کی تعریف:
وہ علم جس کے ذریعہ میت کے غیروارثین اور وارثین اوران کے حصوں کی جانکاری حاصل ہو ۔

علم فرائض کی غرض وغایت:
اس کا علم مقصد میت کی میراث کو وارثین میں ان کے حقوق کے مطابق تقسیم کرنا ہے۔

علم فرائض کا موضوع :
اس کا علم کا موضوع ”ترکہ“ ہے یعنی وہ جائداد جسے میت نے بوقت وفات چھوڑی ہو۔

علم فرائض سیکھنے کا حکم:
اس علم کو جملہ تفصیلات کے ساتھ جاننا فرض کفایہ ہے ، لیکن کم از کم اتنا جاننا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ میت کی جائداد کو کتاب وسنت کی روشنی میں ان کے مستحقین تک پہنانا ضروی ہے ۔

علم فرائض کی اہمیت و فضیلت:
اس علم کی اہمیت وفضیلت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس علم کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، اور اس کے مطابق عمل کرنے پر جنت کا وعدہ کیا ہے اور اس کی خلاف عمل کرنے پر شدید وعید سنائی ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أرحم أمتي بأمتي أبو بكر، وأشدهم في دين الله عمر، وأصدقهم حياء عثمان، وأقضاهم علي بن أبي طالب، وأقرؤهم لكتاب الله أبي بن كعب، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، وأفرضهم زيد بن ثابت، ألا وإن لكل أمة أمينا، وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر رضی اللہ عنہ ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، سب سے بہتر قاری ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں، سب سے زیادہ حلال و حرام کے جاننے والے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں، اور سب سے زیادہ فرائض (میراث تقسیم) کے جاننے والے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں، سنو! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں“[سنن ابن ماجه 1/ 55 رقم 154 واسنادہ صحیح]
اس حدیث میں میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کے ساتھ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی چند اہم خصوصیات ذکرکی ہے ، انہیں صحابہ کے ساتھ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور ان کی خصوصیت یہ بیان کی کہ وہ فرائض میں سب سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں ۔اس حدیث سے علم فرائض کی اہمیت و فضیلت لگایا جاسکتا ہے ۔

ترکہ

لغوی معنی :
یہ ترک سے ہے جس کے معنی چھوڑنا ۔
اصطلاحی معنی :
میت فوت ہونے کے بعدجو بھی مال جس شکل میں بھی چھوڑے اسے ”ترکہ“ کہتے ہیں۔

ترکہ کے مصارف:
میت کے ترکہ کو درج ذیل ترتیب سے مرحلہ وار صرف کیا جائے گا اگر کسی ابتدائی مرحلہ میں ہی سارا ترکہ ختم ہوگا تواگلے مرحلے کی نوبت نہیں آئے گی ۔
✿ 1۔ تجہیز وتکفین(Funeral)
اگرمیت کی تجہیز وتکفین کا بندوبست کوئی نہ کرسکے تو میت کے ترکہ سے یہ انتظام کیا جائے گا ، اس میں اوسط درجے کی اشیاء کا استعمال ہوگا۔
✿ 2۔قرض کی ادائیگی:
Repayment of his outstanding debt
(الف)اگر ترکہ میں عین وہی چیز ہو جو بطور قرض کسی سے لی گی ہو جیسے رہن تو عین وہ چیز اس کے حقدارکوواپس کردی جائے گا۔
(ب) اور اگر میت کے ذمہ عام قرض ہو تو اگر کسی ایک شخص کا قرض ہو تو اسے مطلوبہ رقم دے دی جائے گی اور ترکہ قرض کی رقم سے کم ہو تو ترکہ جنتا بھی ہو قرض خواہ کے حوالے کردیا جائے گا ۔
اگر میت کئی اشخاص کا قرضدار ہو اور ترکہ اتنا ہو کہ مجموع الدیون یعنی سارے قرض خواہوں کو ان کی مطلوبہ رقم دی جاسکتی ہو تو سب کو ان کا حق دے دیا جائے گا لیکن اگر ترکہ کم ہو اور مجموع الدیون( قرض خواہوں کی رقوم) زیادہ ہو ، تو ہرقرض خواہ کو اس کی رقم کی نسبت سے مال دیا جائے گا ۔
(ج) اگرمیت کے ذمہ اللہ کا قرض ہو مثلا اس نے فی سبیل اللہ کچھ خرچ کرنے کی نذر مانی ہو تو اس کے ترکہ میں سے نذر کی رقم فی سبیل اللہ خرچ کردی جائے گا۔
✿ (3) وصیت کی تنفیذ:(Bequest)(Will)
اگرمیت نے ایک تہائی مال یا اس سے کم کی جائز وصیت کی ہے تو اتنا مال وصیت میں صرف کیا جائے گا۔یاد رہے کہ اگرناجائز کام کے لئے وصیت کی ہے مثلا تو اس کی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی اور اگر جائز کام کی وصیت کی ہے مگر ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت کی ہے تو صرف ایک تہائی مال ہی سے وصیت کو نافذ کیا جائے گا۔کیونکہ متعدد احادیث میں ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت ممنوع ہے مثلا ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الثلث والثلث كثير
ثلث مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ بھی بہت زیادہ ہے ۔(صحيح البخاري، رقم5354)
نیز اگر وارثین میں سے کسی کے لئے وصیت کی ہے تو بھی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث»
اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے لہٰذا اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں(سنن أبي داود، رقم 2870 والحدیث صحیح)
✿ (4) وارثین میں تقسیم وراثت:(Heirs)
اسلامی نظام میراث کے تحت ترکہ کی تقسیم ، یہی آخری عمل ہی علم فرائض کا مقصود ہے۔

علم فرائض کا ایک دوسرا نام ”علم وراثت“ یا ”علم میراث“ یا ”علم مواریث“ ہے۔

لغوی معنی :
وراثت ہی سے ماخوذ میراث کا لفظ ہے جس کی مواریث آتی ہے۔ وراثت کی کئی معانی ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہے کہ کسی شخص کی ایک چیز کو کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل کرنا ہے ۔اس علم میں یہی معنی مراد ہے۔

شرعی معنی:
وہ حق جسے ایک وارث اپنے مؤرث کے مال سے پاتا ہے ۔
وراثت کے ارکان:
وراثت کے تین ارکان ہیں :
(1)(Deceased) مؤرث ، (2)(hair) وارث ،(3)( property) مال موروث یعنی ترکہ

اسباب وراثت:
وراثت کے تین اسباب ہیں:
(1) نکاح ، (2) نسب ، (3) ولاء یعنی آزاد کرنا

اگر شوہر نے طلاق رجعی دی ہوگی تو عدت کے دوران اگر شوہر فوت ہوگیا تو عورت کو وراثت کی حقدار ہوگی۔

شروط وراثت:
وراثت کی تین شرطین ہیں:
(1) مؤرث کی وفات کا یقین ہوجائے ، اور یہ تین ذرائع سے ہوسکتا ہے۔
اول: معاینہ یعنی آنکھوں سے مردہ حالت میں دیکھ لیا گیا ۔
دوم: حکما یعنی کسی کے غائب و مفقود ہونے کے سبب قاضی موت کا فیصلہ کردے
سوم: تقدیرا یعنی اندازے سے مثلا کسی حاملہ عورت کو کسی نے مارا جس کے سبب حمل مردۃ حالت میں ساقط ہوگیا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ بچہ پہلے سے پیٹ میں مرچکا تھا بلکہ اندازا یہی مانا جائے گا کہ اس حادثہ کے بعد ہی حمل پر موت طاری ہوئی ہے اور اس سے قبل وہ زندہ تھا ۔
(2) وارث کی حقیقی یا حکمی حیات کا یقین ہو۔(حمل نطفہ کی شکل میں ہو تو حکما اسے باحیات مانا جاتاہے)
(3) وراثت کا سبب موجود ہو ۔

موانع وراثت:
موانع وراثت تین ہیں:
(1) وارث کا اپنے مؤرث کو ظلما قتل کردینا ۔(Homicide)
(2) وارث اور مؤرث میں سے کسی کا غیرمسلم ہونا ۔(Difference of religion)
(3) وارث کا غلام یا لونڈی ہونا
پہلی شرط کی حکمت یہ بھی ہے کہ کوئی شخص قبل از وقت وراثت پانے کی لالچ میں اپنے مؤرث کو قتل نہ کردے ۔

اگلا حصہ

No comments:

Post a Comment