باب دوم: وارثین قسمیں - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-09-24

باب دوم: وارثین قسمیں

باب دوم: وارثین قسمیں

وارثین کی تین قسمیں ہیں : (1) اصحاب الفروض ۔ (2) عصبہ۔ (3) ذی الارحام
پہلی قسم : اصحاب الفروض
فرض کا لغوی واصطلاحی معنی مقدمہ میں بتایا جاچکاہے۔اسی سے اصحاب الفروض ہے یعنی وہ وارثین جن کے حصے کی خاص مقدار متعین ہے ، مثلا زوج (شوہر) کا حصہ نصف یا ربع متعین ہے۔
مرد وارثین میں صرف چار (زوج ، أب ،أبو الأب ، أخ لأم ) اصحاب الفروض میں سے ، خواتین وارثات میں سب خواتین اصحاب الفروض میں سے ہیں۔ان کی تعداد آٹھ (زوجہ، بنت ، بنت الابن ، أم ، جدۃ ، أخت شقیقہ ، أخت لأب ، أخت لأم) ہے۔یعنی کل اصحاب الفروض کی تعداد بارہ (12) ہے۔(خواتین کی تعداد مردوں کی تعداد کے دوگنا ہے)
ان میں چھ( یعنی:زوج ، زوجہ، أخ لأم،أخت لأم،أم،جدہ)صرف اصحاب الفروض ہی رہتے ہیں ،جبکہ بقیہ چھ بعض حالات میں عصبہ بنتے ہیں ،کماسیاتی
کتاب وسنت کی رو سے اصحاب الفروض کے جو متعین حصے ہیں وہ کل چھ ہیں جنہیں دو گروپ میں بانٹ سکتے ہیں:
پہلا گروپ نصفیات یعنی : نصف ، ربع ، ثمن
دوسرا گروپ ثلثیات یعنی : ثلثین ، ثلث ، سدس
نصفیات میں مشترک بات یہ ہے کہ سب میں آدھے کی شکل پائی جاتی ہے ، نصف تو آدھا ہے ہی ، ربع نصف کا آدھا ہے اور ثمن ربع کا آدھا ہے ، اس لئے گروپ کو نصفیات کہا جاتا ہے۔
اور ثلثیات میں مشترک بات یہ ہے کہ سب میں ثلث سے کوئی تعلق پایا جاتا ہے، ثلثین یہ ثلث کا ڈبل ہے ، ثلث تو ثلث ہے ہی ، اور سدس کا ڈبل ثلث ہے۔
انگریزی میں ان حصوں کے نام اس طرح ہیں:
پہلا گروپ نصفیات یعنی : نصف(half) ، ربع(one-fourth) ، ثمن(one-eighth)
دوسرا گروپ ثلثیات یعنی : ثلثین(two-thirds) ، ثلث(one-third) ، سدس(one-sixth)
کسری اعداد میں یہ حصے یہ اس طرح ہوں گے :
پہلا گروپ نصفیات یعنی : نصف(1/2) ، ربع(1/4) ، ثمن(1/8)
دوسرا گروپ ثلثیات یعنی : ثلثین(2/3) ، ثلث(1/3) ، سدس(1/6)
کسری عدد کا مفہوم:
وہ اعداد جو کسی مکمل عدد کاحصہ بتلائیں اسے کسری عدد کہتے ہیں۔مثلا مکمل عدد 100 ہے ، اب اس کے دو مساوی حصے کئے جائیں تو 50 اور 50 کے دوحصے بنیں گے ۔پھر یہ بتانا ہو کہ ان دو حصوں میں سے ایک حصہ لینا ہے تو اسے کسری عدد میں 1/2 لکھتے ہیں اور اسے ایک بٹا دو پڑھتے ہیں۔
لکیر کے نیچے وہ عدد لکھتے ہیں جو ان مساوی حصوں کی پوری تعداد بتلائے جو ایک مکمل عدد سے الگ کئے گئے ہیں ، مثلا اوپر کی مثال میں لکیر کے نیچے 2 کی عدد ہے جو یہ بتلا رہی ہے کہ مکمل عدد مثلا 100 کے دو مساوی حصے (50 اور50) کئے گئے ہیں ۔
یہ نچلی عدد ایک مکمل عدد کے گئے حصوں کی پوری تعداد اور ان کے تناسب یعنی سب کی یکساں مقدار بتلاتی ہے اس لئے اسے نسب نما کہتے ہیں ۔
لکیر کے اوپر وہ عدد لکھتے ہیں جو ان حصوں میں سے اتنے حصے کی تعداد بتلائے جتنا لینا ہے ، مثلا اوپر کی مثال میں لکیر سے اوپر 1کی عدد ہے جو یہ بتلارہی ہے کہ مکمل عدد100 کے دونوں مساوی حصوں(50 اور50) میں سے ایک حصہ(50) لیا گیا ہے ۔
یہ اوپری عدد صرف اتنے حصوں کی تعداد بتلاتی ہے جن کو لیا جاتاہے یعنی جن کا شمارہوتاہے اس لئے اسے شمارکنندہ کہتے ہیں ۔

فی صدی(Percentage) میں یہ حصے اس طرح ہوں گے:
پہلا گروپ نصفیات یعنی : نصف(50٪) ، ربع(25٪) ، ثمن(12.5٪)
دوسرا گروپ ثلثیات یعنی : ثلثین(66.66٪) ، ثلث(33.33٪) ، سدس(16.66٪)
فی صدی کا مفہوم:
کسی مقدار کو (100)فرض کرکے اس کا کوئی حصہ ظاہر کرنا فی صدی کہلاتا ہے۔کسر کو فی صدی میں بدلنے کا فارمولہ یہ ہے کہ شمار کنند ہ (Numerator)کے آگے دو صفر بڑھادیں ،پھراسے نسب نما(Denominator)سے تقسیم کردیں حاصل تقسیم فی صدی ہوگا جس پر (٪)کی علامت لگائیں مثلا:
کسر( 1/2) کوفی صدی میں بدلنا ہے تو شمار کنندہ(1) کو (100)بنادیں ،پھر اسے نسب نما(2) سے تقسیم کردیں ،حاصل تقسیم (50) آئے گا،اسے (٪50) لکھیں گے۔
اصحاب الفروض پر تفصیلی بحث مع دلائل دوسرے حصہ میں آرہی ہے۔

دوسری قسم : عصبہ
لغوی معنی:
عصبہ، عصب اورتعصیب سے ہے جس کا معنی احاطہ کرنا یا مدد کرنا ، اسم فاعل عاصب اورمعصب آتا ہے ، عصبہ یہ مفرد وجمع اور مذکر ومؤنث سب کے لئے بولا جاتا ہے۔
اصطلاحی معنی:
اصحاب الفروض کو ان کے متعین حصے دینے کے بعد باقی بچے مال کو کتاب وسنت میں جن وارثین کو دینے کے لئے کہا گیا ہے خواہ وہ اصحاب الفروض کے علاوہ دیگر رشتہ دار ہوں یا اصحاب الفروض ہی ہوں ،انہیں عصبہ کہتے ۔ان کی مکمل فہرست وارثین کے گروپ اوران کے درجے کے اعتبار سے بالترتیب یہ ہے:

❀ فروع:
إبن ◄ اس کے ساتھ بنت آئے تو عصبہ بالغیر ہوگی
إبن الإبن ◄ اس کے ساتھ بنت الإبن آئے تو عصبہ بالغیر ہوگی ، بوقت ضرورت نیچے إبن إبن الإبن کے ساتھ بھی عصبہ بالغیر بنے گی ۔

❀ اصول:
أب
أبوالأب

❀ حواشی:
◈ اخوۃ

أخ شقیق ◄ اس کے ساتھ أخت شقیقہ ہو تو عصبہ بالغیر ◄ اور فرع مؤنث کے ساتھ ہو تو عصبہ مع الغیر ہوگی۔
أخ لاب ◄ اس کے ساتھ أخت شقیقہ ہو تو عصبہ بالغیر ◄ اور فرع مؤنث کے ساتھ ہو تو عصبہ مع الغیر ہوگی۔
إبن الأخ الشقیق
إبن الأخ لأب

◈ عمومۃ
عم الشقیق
عم لأب
إبن العم الشقیق
إبن العم الشقیق

Screenshot_3.jpg

⋆ یہ فہرست بالترتیب وارثین کی فہرست ہی ہے بس اس میں زوجین کے پورے گروپ(زوج اورزوجہ) کو ، اصول سے تمام مؤنث (ام اور جدہ) کو ، اور حواشی سے اخوۃ لام (أخ لأم اورأخت لأم) کو نکال دیا گیاہے ۔یہ چھ وارثین ایسے ہیں جو ہر حال میں صرف اصحاب الفروض ہی رہتے ہیں۔
ان کے علاوہ تمام وارثین وہ ہیں جن کو اصحاب الفروض سے بچا ہوا مال دینے کا حکم ہے۔
⋆ استحقاق کے لحاظ سے ان کی ترتیب بھی یہی ہے یعنی اوپر کا کوئی عصبہ موجود ہوگا تو سارا باقی اسی کے پاس چلا جائے گا اور نیچے کے عصبہ کو کچھ نہیں دیا جائے گا۔
عصبہ سے متعلق یہ دو چیزیں اچھی طرح یاد کرلیں یعنی ایک یہ کہ ان کی مرتب فہرست یہی ہے دوسری یہ کہ اس فہرست کے مطابق اول الذکر کی موجودگی میں متاخرالذکر کو حصہ نہیں ملے گا۔اگر عصبہ سے متعلق صرف یہ دو باتیں اچھی طرح سے یاد ہوگئیں تو اب عصبہ کے نام پر مزید کسی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔الا یہ کہ عصبہ میں تیسری اور چوتھی پشت کے وارثین ہوں جو کہ عموما نہیں ہوتے ، تاہم مزید بحث پیش کی جارہی ہے تاکہ ساری باتیں سمجھ میں بھی آجائیں ۔
عصبہ (Residuaries)کی قسمیں:
مذکورہ عصبہ میں کچھ ایسے ہیں جو تنہا رہتے ہوئے بھی عصبہ بنتے ہیں ، اور کچھ ایسے ہیں جو کسی خاص وارث کے ساتھ آنے کے سبب عصبہ بنتے ہیں ، پھر کسی کے ساتھ میں آنے والے وارثین کی بھی دو شکلیں ہوتی ہیں اس لحاظ سے ان عصبہ کو تین قسموں میں بانٹا جاتا ہے جن کی تفصیل یہ ہے :

اول: عصبہ بالنفس(بذات خود عصبہ بننا)Residuaries by themselves
عصبہ بالنفس صرف مذکر وارثین ہوتے ہیں اور اس میں زوج اور أخ لأم کو چھوڑ کر سارے مذکر وارثین آجاتے ہیں کیونکہ مذکر وارثین کو عصبہ بناکر باقی دینے والی جو حدیث عصبہ ہے وہ زوج اور أخ لأم کو چھوڑ کربقیہ سارے مذکر وارثین پرمنطبق ہوتی ہے حدیث عصبہ یہ ہے:
«ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر»
میراث کو اصحاب الفروض میں تقسیم کردو اور جو کچھ باقی بچے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد کا حصہ ہے۔(متفق علیہ)
اس حدیث میں دو باتیں ہیں ، ایک یہ کہ اصحاب الفروض سے بچا مال میت کے بقیہ مرد رشتہ دار کو دینا ہے ، اور دوسری بات یہ ہے کہ سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو دینا ہے ، اس دوسری بات کی وجہ سے میت کے قریبی مرد رشتہ دار کے ہوتے ہوئے دور کے مرد رشتہ دار کو حصہ نہیں ملے گا ۔
اس لئے اوپر جو فہرست پیش کی گئ ہے اس میں اصحاب الفروض کے علاوہ سارے مرد حضرات کی فہرست لکھنے کے ساتھ ساتھ ، میت سے قربت کے لحاظ سے انہیں ترتیب وار بھی لکھا گیا ہے تاکہ باقی مال سب سے قریبی مرد رشتہ دار ہی کو دیا جائے اور دور کے مرد رشتہ دار کو نہ جائے ۔اس لئے عصبہ بالنفس کی فہرست کو اسی ترتیب سے یاد رکھنا ہے۔
یاد رہے فہرست وارثین کے حفظ میں آسانی کے لئے شروع ہی میں ان کے بالترتیب چار گروپس بنا دئے گئے ہیں ، یہاں یہ بھی ذہن میں رکھ لیں کہ قربت کے لحاظ سے ، عصبہ کی جو ترتیب بنتی ہے وہ گروپس کی ترتیب کے مطابق ہی ہے ۔عصبہ کی قربت معلوم کرنے کے ضابطے کا بیان آگے آرہا ہے۔

دوم: عصبہ بالغیر(کسی دوسرے کے عصبہ بنانے سے عصبہ بننا) Residuaries by another
عصبہ بالنفس میں کسی بھی وارث کے ساتھ اس کی اسی درجے کی بہن➊ بھی موجود ہو ، تو یہ بہنیں اپنے درجے کے بھائیوں کے ساتھ عصبہ بالغیر ہوں گی، اور یہ کل چار خواتین ہیں :
فروع سے دو:
بنت(بیٹی ) ، یہ إبن(بیٹے) کے ساتھ ہو تو عصبہ بالغیر ہو گی۔
بنت الإبن(پوتی) یہ إبن الإبن(پوتے) کے ساتھ ہو تو عصبہ بالغیرہوگی۔(پوتی کبھی بوقت ضرورت اپنی پشت میں مزید نیچے مذکر مثلا إبن إبن الإبن (پڑپوتے)کے ساتھ بھی عصبہ بالغیر بن جاتی ہے، بوقت ضرورت کی وضاحت آگے آرہی ہے)
حواشی میں اخوہ سے دو:
أخت شقیقہ یہ أخ شقیق کے ساتھ ہو تو عصبہ بالغیر ہوگی۔
أخت لأب یہ أخ لأب کے ساتھ ہو تو عصبہ بالغیر ہوگی۔

فروع کے عصبہ بالغیر کی دلیل یہ آیت ہے:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ}
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے[النساء: 11]
حواشی کے عصبہ بالغیر کی دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾
اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے [النساء: 176]

سوم: عصبہ مع الغیر(کسی کی معیت میں عصبہ بننا) Residuaries with another

میت کی اخت شقیقہ (سگی بہن) یا اخت لاب (باپ شریک بہن) جب فرع وارث مؤنث کے ساتھ آئے۔تو یہ دونوں بہنیں عصبہ مع الغیر بنتی ہیں ۔
عصبہ مع الغیر کی دلیل حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے جس کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی بہن کو میت کی فرع مؤنث کے ساتھ عصبہ مع الغیر بنایا اسی سے اصول بنا کہ « الأخوات مع البنات عصبة» یعنی بہنیں میت کی بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنیں گی۔حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ مقدمہ میں پیش کی جاچکی ہے۔

عصبہ بالنفس ، عصبہ بالغیر اور عصبہ مع الغیر کی وجہ تسمیہ:
عصبہ بالنفس میں ایک وارث بذات خود باقی مال کا حقدار ہوتا ، کوئی دوسرا عاصب یا وارث اسے عصبہ نہیں بناتا بلکہ یہ خود ہی دوسرے وارثین کو عصبہ بناتا ہے اس لئے اسے عصبہ بالنفس کہتے ہیں۔
عصبہ بالغیر میں ایک عاصب( باقی کاحقدار) اپنے ساتھ کسی خاتون کوبھی عصبہ (باقی میں شریک) بنادیتاہے۔اس لئے ایسی خاتون کو عصبہ بالغیر کہتے ہیں یعنی وہ بالنفس (بذات خود) عصبہ نہ تھی لیکن اسے کسی عاصب نے خود کو ملنے والے باقی مال میں شریک کرلیا ہے۔
مثلا میت کا بیٹا بذات خود عاصب ہے اور باقی مال کا حقدار ہے ، اب اگر اس کے ساتھ میت کی بیٹی بھی ہو تو یہ بیٹا یعنی عاصب اپنے ساتھ ساتھ میت کی بیٹی یعنی اپنی بہن کو بھی عصبہ بنادیتاہے اور باقی مال میں اپنے ساتھ اسے بھی شریک کرلیتا ہے۔
اور عصبہ مع الغیر میں کوئی عاصب (باقی کا حقدار) کسی خاتون کو عصبہ نہیں بناتا اور نہ خود کو ملنے والے حصہ میں اسے شریک کرتا، بلکہ ایک صاحب فرض کے ساتھ خاتون کے آجانے سے وہ خاتون عصبہ (باقی مال کی حقدار) ہوجاتی ہے۔اور صاحب فرض اپنا حصہ الگ سے فرضا پاتا ہے ، گویا صاحب فرض(فرع مؤنث) کی محض معیت کے سبب خاتون(میت کی بہن) عصبہ بن جاتی ہے اس لئے اسے عصبہ مع الغیر کہتے ہیں۔

عصبہ کی قربت معلوم کرنے کا ضابطہ:
عصبہ تین لحاظ سے میت سے قربت رکھتے ہیں:
(1) جہت (Group) یعنی نوعیت نسب کے لحاظ سے اور یہ بالترتیب چار ہیں : بنوۃ ، ابوۃ ، اخوۃ ، عمومۃ ، اس میں پہلے گروہ کا فرد دوسرے گروہ کے بالمقابل زیادہ قریبی ہے۔قرآن نے نسبی رشتہ داروں بنوۃ ، ابوۃ اور اخوۃ کو اسی ترتیب سے رکھا ہے اور عمومہ کا گروہ حدیث عصبہ کے تحت آتاہے جو ماقبل کے تینوں گروہ سے دور ہے۔
یادرہے نوعیت نسب کی یہ ترتیب بھی وارثین کی گروپ وار ترتیب کے موافق ہے۔
(2) درجہ (Chain) یعنی پشت ونسل کے لحاظ سے مثلا إبن کے بالمقابل إبن الإبن دور کی پشت کا ہے۔ یادرہے کہ وارثین کی گروپ وار ترتیب میں اس کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے یعنی قریبی پشت کے وارثین کو پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
(3) قوت (Power)کے لحاظ سے یعنی والدین میں اشتراک واختلاف کے لحاظ سے مثلا أخ شقیق (سگا بھائی) والدین یعنی ماں باپ دونوں لحاظ سے یعنی ڈبل واسطے سے میت کا قریبی ہے جبکہ أخ لأب (باپ شریک بھائی ) صرف باپ کے لحاظ سے یعنی ایک ہی واسطے سے رشتہ دار ہے اور والدہ الگ الگ ہے اس لئے یہ دور کا رشتہ دار ثابت ہوا ۔یاد رہے کہ وارثین کی گروپ وار ترتیب میں اس کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے یعنی مشترک والدین والے رشتہ کو پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
اس تفصیل کے اعتبار سے سب سے قریبی عصبہ کو معلوم کرنے کا ضابطہ یہ ہے کہ کسی میت کے ایک سے زائد عصبہ ہوں تو:
سب سے پہلے جہت کے لحاظ سے ان کی نوعیت دیکھیں گے اگر ایک وارث، جہت کے پہلے گروہ بنوۃ سے ہے مثلا إبن اور دوسرا وارث، دوسرے گروہ اخوۃ سے مثلا أخ شقيق تو بنوہ والے کو مقدم کریں گے ۔
اگر جہت میں دونوں یکساں مثلا ایک وارث ، إبن (بیٹا) ہو اور دوسرا وارث ، إبن الإبن (پوتا) ہو تو یہ دونوں جہت بنوۃ میں یکساں ہیں اس لئے اب درجہ پشت کے لحاظ سے دیکھیں تو إبن(بیٹا) قریبی پشت کا ہے جبکہ إبن الإبن(پوتا) دور کی پشت کا ہے اس لئے إبن (بیٹا) کو مقدم کریں گے۔
اگر جہت اور درجہ دونوں میں یکساں ہوں مثلا ایک وارث، اخ شقیق (سگا بھائی) ہو اور دوسرا وارث ، أخ لأب (باپ شریک بھائی ) ہو تو یہ دونوں ایک ہی جہت اخوۃ سے ہیں اور ایک درجہ پشت کے ہیں اس لئے یہاں قوت یعنی والدین کے اشتراک وعدم اشتراک کے لحاظ سے دیکھیں گے تو اس اعتبار سے أخ شقیق (سگابھائی ) کو مقدم کریں گے کیونکہ یہ والدین میں دونوں کے لحاظ سے یعنی ڈبل واسطے سے میت کا رشتہ دار ہے جبکہ أخ لأب (باپ شریک بھائی) صرف ایک واسطے سے میت کا رشتہ دار ہے۔
واضح رہے کہ'' ابن ابن الأخ ش'' اور'' ابن الأخ لأب'' میں'' ابن الأخ لأب''ہی کو مقدم کریں گے کیونکہ دونوںایک ہی جہت ''اخوہ'' سے ہیں ،لیکن درجہ یعنی پشت میں'' ابن الأخ لأب'' میت سے زیادہ قریب ہے ۔'' ابن ابن العم ش'' اور'' ابن العم لأب'' کابھی یہی معاملہ ہے۔یہ تیسری پشت والا مسئلہ شروع میں دی گئی عصبہ کی استحقاقی ترتیب کے خلاف ہے ، لیکن عام طور سے اس نسل کے عصبہ میں ترکہ تقسیم کرنے کی نوبت نہیں آتی ہے ۔
اگرایک سے زائد عصبہ جہت ، درجہ اورقوت ہرلحاظ سے یکساں ہوں تو باقی مال سب میں برابر تقسیم ہوگا۔جیسے دو سگے بھائی ۔

عصبہ کے حصے:
٭ عصبہ بالنفس میں اگر ایک طبقہ میں کوئی اکیلا ہو تو باقی سارا مال اسی کو ملے گا۔اور ایک سے زائد ہیں تو سب میں برابر تقسیم ہوگا۔
٭ عصبہ بالنفس کے ساتھ اگر عصبہ بالغیر خواتین ہوں تو للذکر مثل حظ الانثیین(عورت کے مقابل میں مرد کو ڈبل) کے تحت سب میں باقی مال تقسیم ہوگا۔
٭عصبہ مع الغیر کو اصحاب الفروض سے بچاہوا باقی مال ملے گا
٭ اصحاب الفروض میں اگر مال ختم ہوجائے تو عصبہ کو کچھ نہیں ملے گا۔
نوٹ: قریب کے عصبہ کی موجودگی میں جب دور کے عصبہ کو نہیں ملتا تو اسی کو حجب کہا جاتا ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اور وہیں مثالیں بھی آجائیں گے ۔

فوائد:
1۔عصبہ بالنفس میں مذکر کے تسلسل کے ساتھ نسل جس قدر بھی دورجائے ، سب عصبہ میں شامل ہوں گے اور اپنے سے اقرب کی عدم موجودگی میں عصبہ بن کر وارث بنیں گے ۔
2۔ عصبہ بالنفس میں صرف مرد وارثین ہیں باقی عصبہ کی دونوں اقسام میں صرف خواتین وارثات ہیں۔
3۔ عصبہ بالغیرکی حالت میں ساری خواتین عموما اپنے جوڑے عصبہ بالنفس کی بہن ہوتی ہیں، البتہ کبھی اصل بہن نہیں ہوتی ہے بلکہ چچے زاد بہن ہوتی ہے۔➋
4۔ عصبہ مع الغیر کی حالت میں ساری خواتین صرف مؤرث(میت) کی بہن ہوتی ہیں ۔

عصبہ کی ایک ناپید قسم:
قدیم زمانے میں غلام ہوا کرتے تھے یہ اگر غلامی میں باقی رہتے تھے تو ان کی اپنی کوئی جائداد نہیں ہوتی بلکہ ان کا سب کچھ ان کے مالک کا ہوتا تھا لیکن ان غلاموں میں جو آزاد کردیا جاتا تھا تو آزادی کے بعد وہ جو کچھ کماتا یا بناتا یہ اس کا اپنا ہوتا تھا ، لیکن آزاد ہونے والے غلاموں میں اگرآزادی کے بعد کسی نے کوئی جائداد بنائی اور فوت ہوگیا اور اس کی وفات کے بعد اس کے نسبی رشتہ داروں میں سے کوئی نہ ہو تو ایسے غلام کی جائداد اس شخص(مرد ہو یاعورت) کو دی جاتی ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔

تیسری قسم : ذوی الأرحام
میت کے وہ رشتہ دار جو نہ اصحاب الفرض میں آتے ہوں نہ عصبہ میں آتے ہوں۔
جدہ اور إخوۃ لأم کے علاوہ میت کے وہ رشتہ دار جو کسی مؤنث کے واسطے سے میت کے رشتہ دار ہوتے ہیں یہ سب فرائض کی اصطلاح میں ذوی الارحام میں شمار ہوتے ہیں ۔اس کتاب میں ہم ذوی الأرحام پر بحث نہیں کریں گے کیونکہ ان کو حصہ دینے کی نوبت بہت کم آتی ہے البتہ کتاب کے دوسرے حصے میں ان پر بحث ہوگی۔

#####################################
➊ عصبہ بالنفس پوتا ہو اور اس کے ساتھ عصبہ بننے والی پوتی، اس کے چچا کی لڑکی ہو؛ تو یہ اس کی اصل بہن نہیں ،تاہم اسے چچے زاد بہن کہہ سکتے ہیں ،البتہ پوتی جب بوقت ضروت پڑ پوتے کے ساتھ عصبہ بنے تو یہ اس کی بہن نہیں ہوتی ۔
➋ نیزبسا اوقات فروع میں بنت الابن ، ضرورت کے تحت، اپنی پشت سے نیچے کے فرع مذکر کے ساتھ بھی عصبہ بالغیربن جاتی ہے، بوقت ضرورت کا مطلب یہ کہ پوتی نہ فرضا حصہ پارہی ہو، اور نہ اسے عصبہ بنانے والا اسی کے درجہ کا پوتا یعنی اس کا (اصل یاچچے زاد)بھائی موجود ہو؛ یعنی حالت یہ ہو کہ وہ نہ فرضا حصہ پارہی ہو نہ تعصیبا، تو ایسی صورت میں اگر اس کے نچلے درجہ میں پڑپوتاموجود ہو تو وہ اسے عصبہ بنا لے گا ۔ کیونکہ پڑپوتا جب پڑپوتی کو عصبہ بنا لیتا ہے تو پڑپوتی سے اوپر کی پوتی کو بدرجہ اولی عصبہ بناسکتا ہے۔
لیکن یادرہے کہ پوتی اگر فرضا حصہ پارہی ہے، یا اس کے درجہ میں اسے عصبہ بنانے والا پوتا موجود ہے، اور اس صورت میں نچلے درجہ کا پڑپوتا بھی موجود ہو، تو پوتی اس حالت میں پڑپوتے کے ساتھ عصبہ نہیں بنے گی کیونکہ وہ خود حصہ پارہی ہے، یا اس کے درجہ کا بھائی ہی اسے عصبہ بنا رہا ہے، لہذا اسے نچلے درجہ کے کسی عاصب کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ پوتی کے درجہ میں اگر عاصب (پوتا) ہوگا تو نچے درجہ کا پڑپوتا محجوب ہوکر خود بھی عصبہ نہیں رہ پائے گا چہ جائے کہ کسی اور مؤنث کو بھی عصبہ بناسکے۔

اگلا حصہ

No comments:

Post a Comment