میراث الجد مع الخوة
راجح قول کے مطابق'' جد'' کی موجودگی میں'' اخوہ ''محجوب ہوجائیں گے لیکن بعض'' جد'' کے ساتھ '' اخوہ'' کی میراث کے بھی کے قائل ہیں ،ان میں زیدبن ثابتtکاقول مشہور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
✿ پہلی صورت:- مسئلہ میں صاحب فرض نہ ہو:
ایسی صورت میں جد کومقاسمہ ➊ یا ثلث مال میں سے جو بہتر ہوگا وہ دیاجائے گا۔
✿ دوسری صورت:-مسئلہ میں صاحب فرض ہو:
ایسی صورت میں جد کومقاسمہ ، سدس اور ثلث مابقی میں سے جو بہتر ہوگا وہ دیا جائے گا۔
اوراگراصحاب الفروض کو دینے کے بعد باقی صرف سدس یا اس سے کم ہو تو جد کو سدس دیا جائے گا اور اخوہ محجوب ہوجائیں گے سوائے مسئلہ اکدریہ کے جس کابیان آرہاہے۔
❀ معاداة :-
مذکورہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں اگر اخوہ میں دونوں قسم کے اخوہ یعنی اخوہ اشقاء اور اخوہ لأب ایک ساتھ جمع ہوں توجد کاحصہ کم کرنے کے لئے سارے اخوہ کو شمارکریں گے لیکن جد کا حصہ متعین کرنے کے بعد اخوہ کا حصہ جمع کرکے صرف اخوہ کو وارثین مان کر ان کو حصے ملیں گے،دریں صورت اخوہ اشقاء سے اخوہ لأب محجوب ہوجائیں گے ،الایہ کہ ان میں صرف اخت شقیقہ ہو اور باقی مال ، نصف سے زائد ہو تو یہ زائد اخوہ لأب کو مل جائے گا،مسائل زیدیات میں یہی صورت حال ہے۔
٭نوٹ:ـاگر اخوہ اشقاء کے حصے جد کے حصے کے دوگنا سے بھی زائد ہوں ، یااصحاب الفروض سے بچاہوا، ثلث مال سے کم ہو تو دریں صورت جد کا حصہ خود کم ہوگا،لہٰذا معاداة کی ضرورت نہیں ۔
❀ اکدریہ:-
اگر مسئلہ میں زوج ،ام ،جداوراخت شقیقہ یااخت لأب ہو تو زید بن ثابت t نے اس خاص مسئلہ میں اپنے اصولوں سے ہٹ کر فیصلہ کیا ہے اس لئے اسے مسئلہ اکدریہ کہتے ہیں، زید بن ثابتt نے اس مسئلہ کاحل یوں پیش کیا ہے کہ جد کو شروع میں بچاہواسدس دیں گے، اس کے بعد اخت شقیقہ کو بھی نصف دیں گے ، پھرعول کے بعد جداور اخت شقیقہ کے حصوں کو جمع کرکے دونوں میں '' للذکر مثل حظ الأنثیین '' کے اصول سے تقسیم کریں گے ۔
#####################################
➊ مقاسمہ کا مطلب جد کو ایک اخ مان کر اسے اخوہ کے ساتھ ملاکر'' للذکر مثل حظ الأنثیین ''کے تحت تقسیم کرنا ،یادرہے کہ اگر اخوہ کے حصص جد کے حصہ کے دوگنا سے کم ہوں ،تو مقاسمہ بہتر ہوگا، اگر زائد ہوں ، تو ثلث بہتر ہوگا ، اگربرابر ہوں تو مقاسمہ وثلث دونوں یکساں ہوں گے۔
(ختم شد)
No comments:
Post a Comment