طلاق حیض سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فتوی اور شبہات کا ازالہ
گذشتہ سطور میں پوری تفصیل پیش کی جاچکی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں جو طلاق دی تھی ، اس سے متعلق سوال پوچھے جانے پر انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شمار کرلیا تھا ۔بلکہ اس پر انہوں نے صرف اپنی طرف سے اپنی رائے دی ہے کہ میں اسے شمار کرتا ہوں۔
اب رہا سوال یہ ہے کہ یہ بات تو ثابت ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے خود اس طلاق کو شمار کرلیا تھا تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ طلاق حیض شمار کی جائے گی ؟
تو عرض ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے بھی اس بات کی شرعی دلیل نہیں بن سکتی کہ طلاق حیض کو شمار کیا جائے گا ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نے قرات خلف الامام کے مسئلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ایک حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفا مروی حدیث اس کے خلاف ہے تو یہ اعتراض نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا سرفرازصفدر صاحب لکھتے ہیں:
”اعتراض : بیہقی رحمہ اللہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اصل روایت میں لاصلاۃ خلف الامام کا جملہ نہیں ہے جیساکہ علاء بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر نقل کیا ہے اور اس میں یہ جملہ مذکور نہیں ہے..الخ
جواب: یہ اعتراض چنداں وقعت نہیں رکھتا اولا: اس لئے کہ مرفوع حدیث کو موقوف اثر کے تابع بناکر مطلب لینا خلاف اصول ہے ۔ وثانیا : اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی کہ اعتبار راوی کی مرفوع حدیث کا ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی رائے کااعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 1/ 298]
مولانا سرفرازصفدر نے ایک دوسرے مقام پر لکھا:
”روایت کے مقابلے میں راوی کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 2/ 118]
ایک بریلوی عالم کا اسی طرح کا قول آگے آرہا ہے ۔
اب اس شبہہ کے مزید جوابات ملاحظہ ہوں:
پہلا جواب: اعتبار راوی کی روایت کا نہ کہ اس کی رائے کا
امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نے قرات خلف الامام کے مسئلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ایک حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفا مروی حدیث اس کے خلاف ہے تو یہ اعتراض نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا سرفرازصفدر صاحب لکھتے ہیں:
”اعتراض : بیہقی رحمہ اللہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اصل روایت میں لاصلاۃ خلف الامام کا جملہ نہیں ہے جیساکہ علاء بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر نقل کیا ہے اور اس میں یہ جملہ مذکور نہیں ہے..الخ
جواب: یہ اعتراض چنداں وقعت نہیں رکھتا اولا: اس لئے کہ مرفوع حدیث کو موقوف اثر کے تابع بناکر مطلب لینا خلاف اصول ہے ۔ وثانیا : اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی کہ اعتبار راوی کی مرفوع حدیث کا ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی رائے کااعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 1/ 298]
مولانا سرفرازصفدر نے ایک دوسرے مقام پر لکھا:
”روایت کے مقابلے میں راوی کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 2/ 118]
ایک بریلوی عالم کا اسی طرح کا قول آگے آرہا ہے ۔
اب اس شبہہ کے مزید جوابات ملاحظہ ہوں:
پہلا جواب: اعتبار راوی کی روایت کا نہ کہ اس کی رائے کا
جب قرآن اور صحیح حدیث سے ایک مسئلہ ثابت ہوجائے تو اسی کو لیا جائے گا اس کے خلاف کسی بھی امتی کا قول نہیں لیا جاسکتا کیونکہ قرآن و حدیث وحی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے جبکہ امتی کے قول میں غلطی کا امکان ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ امتی نے حالات یا کسی مصلحت کے سبب نص کے خلاف فتوی دیا ہو جس میں وہ معذورہوں ۔
حتی کہ کوئی صحابی ایک حدیث روایت کریں اور خود اس کے خلاف فتوی دیں تو بھی ان کی روایت کردہ حدیث ہی کو لیا جائے گا نہ کہ اس کے خلاف ان کے فتوی کو ، کیونکہ ان کے اس طرح کے فتوی میں بھی مذکورہ احتمالات ہوسکتے ہیں، کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
لفن الفحل کا مسئلہ:
اگر ایک شوہر کی بیوی اس کے نطفہ سےحاملہ ہوجائے تو پھر ولادت کے بعد یہ بیوی جن جن کو دودھ پلائے گی وہ سب کے سب اس کے شوہر اور شوہر کےخونی اقرباء کے رضاعی رشتہ دار ہوں گے ، کیونکہ بیوی کو دودھ اس کے شوہر کے نطفہ کے سبب ہی ہوا ہے ، اس لئے اس دودھ کے ساتھ شوہر کا تعلق جڑا ہے۔ اسی مسئلہ کو لفن الفحل کہا جاتا ہے ، فحل سے مراد شوہر ہے اور لبن سے مراد بیوی کا دودھ ہے ، لیکن اسے شوہر کی طرف منسوب کرتے ہوئے لفن الفحل اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ شوہر کے نطفہ کے سبب ہی یہ دودھ وجود میں آتا ہے۔
لبن الفحل سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اس سلسلے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ یہ صریح حدیث ملاحظہ کیجئے:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثنا آدم، حدثنا شعبة، أخبرنا الحكم، عن عراك بن مالك، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها ، قالت: استأذن علي أفلح، فلم آذن له، فقال: أتحتجبين مني وأنا عمك، فقلت: وكيف ذلك؟ قال: أرضعتك امرأة أخي بلبن أخي، فقالت: سألت عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: صدق أفلح ائذني له“
”اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: افلح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اسے اجازت نہ دی۔ وہ کہنے لگے۔ تم مجھ سے پردہ کرتی ہو، حالانکہ میں تو تمھارا چچا ہوں۔ میں نے کہا: وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا: میرے بھائی کی بیوی نےتمھیں دودھ پلایا ہے وہ دودھ میرے بھائی کی وجہ سے تھا۔ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپنے فرمایا: افلح سچ کہتا ہے (اسے اندر آنے کی )اجازت دو“ [صحيح البخاري 3/ 169 رقم2644 ]
اس حدیث کو روایت کرنے والی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں ، لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے اس حدیث کے خلاف عمل ثابت ہے چنانچہ:
امام مالك رحمه الله (المتوفى 179) نے کہا:
”عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، أنه أخبره، أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم كان يدخل عليها من أرضعته أخواتها، وبنات أخيها، ولا يدخل عليها من أرضعه نساء إخوتها“
”قاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہ لوگ جاسکتے تھے جن کو ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہے ، لیکن وہ لوگ نہیں جاسکتے تھے جن کو ان کے بھائیوں کی بیویوں نے دودھ پلایا ہے“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 604 وإسناده صحيح وأخرجه البيهقي في معرفة السنن رقم 15427 من طريق عبد الرحمن بن القاسم به ، وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه رقم 963 من طرق عن القاسم بن محمد به ]
اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بھابھیوں کا دودھ پینے والوں کو اپنے پاس نہیں آنے دیتی تھیں ، حالانکہ لبن الفحل کے سبب یہ لوگ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی رشتہ دار تھے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود یہ یہ حدیث روایت کررکھی ہے کہ لبن الفحل سے رضاعی رشتہ ثابت ہوتا ہے اور ایسے رضاعی رشتہ والے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آسکتے ہیں ۔
یہ مثال احناف کے اس اصول کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے کہ راوی جب اپنی روایت کے خلاف عمل کرے تو راوی کے عمل و فتوی کو لیا جائے گا ۔کیونکہ احناف نے بھی اس مسئلہ میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے عمل وفتوی کو ترک کردیا ہے اوراماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اپنایا ہے۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) اس مثال کو لیکر احناف کے اس اصول کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وهذا خبر لم يروه عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا عائشة وحدها، وقد صح عنها خلافه، فأخذوا بروايتها وتركوا رأيها، ولم يقولوا: لم تخالفه إلا لفضل علم عندهن، وقالوا: لا ندري لأي معنى لم يدخل عليها من أرضعته نساء إخوتها“
”اس حدیث کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیا ہے ، اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے اس کے مخالفت ثابت ہے ، تو ان لوگوں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو لے لیا اور ان کی رائے کو ترک کردیا ، اور حسب عادت یہ نہیں کہا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس لئے مخالفت کی ہوگی کہ ان کے پاس کوئی اضافی علم ہوگا“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 10/ 183]
حافظ ابن حجررحمہ اللہ (المتوفى852) اس مثال کی روشنی میں احناف کے غلط اصول اور ان کی بے بسی کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وألزم به بعضهم من أطلق من الحنفية القائلين أن الصحابي إذا روي عن النبي صلى الله عليه وسلم حديثا وصح عنه ثم صح عنه العمل بخلافه أن العمل بما رأى لا بما روى لأن عائشة صح عنها أن لا اعتبار بلبن الفحل ذكره مالك في الموطأ وسعيد بن منصور في السنن وأبو عبيد في كتاب النكاح بإسناد حسن وأخذ الجمهور ومنهم الحنفية بخلاف ذلك وعملوا بروايتها في قصة أخي أبي القعيس وحرموه بلبن الفحل فكان يلزمهم على قاعدتهم أن يتبعوا عمل عائشة ويعرضوا عن روايتها ولو كان روى هذا الحكم غير عائشة لكان لهم معذرة لكنه لم يروه غيرها وهو الزام قوي“
”احناف میں نے جن لوگوں نے علی الاطلاق یہ کہا ہے کہ جب ایک صحابی کوئی حدیث روایت کرے اور وہ سندا اس سے ثابت ہو ، پھر اسی صحابی سے یہ بھی ثابت ہو کہ اس نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو اعتبار صحابی کے عمل وفتوی کا ہوگا نہ کہ صحابی کی روایت کردہ حدیث کا ۔اس اصول کا رد بعض اہل علم نے یہ الزامی جواب دیتے ہوئے کیا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ عمل و فتوی ثابت ہے کہ لبن الفحل کا اعتبار نہیں ہوگا ، جیساکہ مالک نے مؤطا ، سعیدبن منصور نے سنن اور ابوعبید نے کتاب النکاح میں بسند حسن روایت کیا ہے ، لیکن جمہور بشمول احناف نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کو لیا ہے ، جس میں ابوالقیس کے بھائی (افلح) کا واقعہ ذکر ہے اور لبن الفحل کے سبب حرمت رضاحت کا اعتبار کیا ہے ۔ لہٰذا احناف پر لازم تھا کہ وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل کی پیروی کرتے اور ان کی روایت کردہ حدیث سے اعراض کرتے ، اور اگر اس حدیث کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور صحابی نے روایت کیا ہوتا تو احناف کے لئے گنجائش تھی ، مگر صورت حال یہ ہے کہ اس حدیث کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیاہے ، اس لئے اس احناف کو دیا گیا یہ الزامی جواب بہت قوی اور مضبوط ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 152]
حقیقت یہ کہ اس مثال نے حنفیت کے اصول کے اصول کا جنازہ نکال دیا ہے اور پوری دنیائے حنفیت میں کسی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔
بعض احناف نے ہمت جٹا کر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا جن لوگوں کے اپنے پاس نہیں آنے دیتی تھی ، تو اس کی وجہ حرمت رضاعت کا عدم اعتبار نہیں بلکہ کوئی اور وجہ ہوگی ۔
عرض ہے کہ یہ جواب انتہائی لایعنی اور بے سود ہے کیونکہ روایت میں پوری طرح صراحت ہے کہ اجازت دینے اور نہ دینے کی وجہ حرمت رضاعت کا اعتبار اور عدم اعتبار تھا ۔چنانچہ جن کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنے کی اجازت دی ان کے تعلق سے الفاظ ہیں:
امام مالك رحمه الله (المتوفى 179) نے کہا:
”كان يدخل عليها من أرضعته أخواتها، وبنات أخيها“
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہ لوگ جاسکتے تھے جن کو ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہے“
اور جن کو آنے کی اجازت نہ تھی ان کے تعلق سے الفاظ ہیں:
”ولا يدخل عليها من أرضعه نساء إخوتها“
”لیکن وہ لوگ نہیں جاسکتے تھے جن کو ان کے بھابھیوں نے دودھ پلایا ہے“
ملاحظہ فرمائیں روایت پوری طرح صراحت کررہی ہے کہ یہ سارا معامہ صرف اور صرف حرمت رضاعت کی بنا پر تھا ۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) اس لایعنی جواب کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وقال بعضهم: للمرأة أن تحتجب ممن شاءت من ذوي محارمها؟ فقلنا: إن ذلك لها إلا أن تخصيصها - رضي الله عنها - بالاحتجاب عنهم من أرضعته نساء أبيها، ونساء إخوتها، ونساء بني أخواتها، دون من أرضعته أخواتها، وبنات أخواتها، لا يمكن إلا للوجه الذي ذكرنا، لا سيما مع تصريح ابن الزبير - وهو أخص الناس بها - بأن لبن الفحل لا يحرم، وأفتى القاسم بذلك، فظهر تناقض أقوالهم والحمد لله رب العالمين“
”بعض نے یہ کہا ہے کہ : ایک عورت کی اپنی مرضی ہے کہ وہ محرم رشتہ داروں میں بھی جن کو چاہے اپنے پاس آنے سے روک دے ، تو ہمارا کہنا ہے کہ : بے شک عورت کو اس کا حق ہے ، لیکن یہاں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنہیں پاس آنے سے روکا ہے ان کی خاصیت یہ بتائی ہے کہ وہ ان کے والد ، بھائیوں اور بھتیجوں کی بیویوں کے رضاعی رشتہ دار ہیں ، اور جولوگ ان کی بہنوں ، اور نواسیوں کے رضاعی رشتہ دار ہیں انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دی ہے ، لہٰذا یہاں وجہ صرف وہی ہوسکتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ، بالخصوص جبکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے صراحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ لبن الفحل سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے ، نیز قاسم بن محمد نے بھی یہی فتوی دیا ہے ،اس سے ان مقلدین کی باتوں کا تناقض ثابت ہوگیا والحمدللہ“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 10/ 183]
خلاصہ یہ کہ جب اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی روایت کردہ صریح حدیث کے خلاف موقف اپنا سکتی ہیں تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق سے متعلق اپنی حدیث کے خلاف تو بدرجہ اولی فتوی دے سکتے ہیں کیونکہ ان کے والد نے طلاق بدعت کے وقوع کا قانون ہی بنادیا تھا۔
صلاۃ وسطی کا مسئلہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ مرفوع حدیث روایت کی ہے کہ صلاۃ وسطی سے مراد صلاۃ عصر ہے ۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ثابت ، حدثنا هلال ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : قاتل النبي صلى الله عليه وسلم عدوا ، فلم يفرغ منهم حتى أخر العصر عن وقتها ، فلما رأى ذلك قال : اللهم من حبسنا عن الصلاة الوسطى ، فاملأ بيوتهم نارا ، واملأ قبورهم نارا“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا اور دشمنوں سے عصر کے آخری وقت ہی فارغ ہوئے ، جب آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اے اللہ ! جن لوگوں نے ہمیں صلاۃ وسطی سے روک دیا ہے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 301 وإسناده صحيح وأخرجه عبد بن حميد في المنتخب طريق محمد بن الفضل عن ثابت به ، وأخرجه أيضا البزار كما في كشف الأستار 1/ 197 من طريق عباد بن العوام، و الطبراني في الكبير 11/ 329 والأوسط 2/ 284 من طريق أبي عوانه ، كلاهما عن هلال به]
لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ اس حدیث کے خلاف یہ فتوی دیا ہے کہ صلاۃ وسطی سے مراد صلاۃ فجر ہے ۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا وكيع، عن قرة, قال: حدثنا أبو رجاء، قال: صليت مع ابن عباس الصبح في مسجد البصرة، فقال: هذه الصلاة الوسطى“
”ابورجاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھی تو انہوں نے کہا: یہی صلاۃ وسطی ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 3/ 516 وإسناده صحيح وأخرجه الطحاوی في شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 170 من طريق أبي داؤد عن قرة به ،وأخرجه أيضا عبد الرزاق في مصنفه رقم 2207 والطحاوي في شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 170 من طريق عوف عن أبي رجاء به ، وأخرجه أيضا اسماعيل القاضي من طريق آخر و صححه كما في التمهيد لابن عبد البر: 4/ 285، وله طرق كثيرة عن ابن عباس]
واضح رہے کہ جن روایات میں یہ آیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی صلاۃ عصر کو صلاۃ وسطی کہا ہے وہ ساری روایات ضعیف ہے ، قدرے تفصیل کے لئے دیکھئے :[ تفسير سنن سعيد بن منصور:3/ 917 تا 920 حاشیہ]
آزادی کے بعد شادی شدہ لونڈی کے نکاح کا مسئلہ:
لفن الفحل کا مسئلہ:
اگر ایک شوہر کی بیوی اس کے نطفہ سےحاملہ ہوجائے تو پھر ولادت کے بعد یہ بیوی جن جن کو دودھ پلائے گی وہ سب کے سب اس کے شوہر اور شوہر کےخونی اقرباء کے رضاعی رشتہ دار ہوں گے ، کیونکہ بیوی کو دودھ اس کے شوہر کے نطفہ کے سبب ہی ہوا ہے ، اس لئے اس دودھ کے ساتھ شوہر کا تعلق جڑا ہے۔ اسی مسئلہ کو لفن الفحل کہا جاتا ہے ، فحل سے مراد شوہر ہے اور لبن سے مراد بیوی کا دودھ ہے ، لیکن اسے شوہر کی طرف منسوب کرتے ہوئے لفن الفحل اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ شوہر کے نطفہ کے سبب ہی یہ دودھ وجود میں آتا ہے۔
لبن الفحل سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اس سلسلے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ یہ صریح حدیث ملاحظہ کیجئے:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثنا آدم، حدثنا شعبة، أخبرنا الحكم، عن عراك بن مالك، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها ، قالت: استأذن علي أفلح، فلم آذن له، فقال: أتحتجبين مني وأنا عمك، فقلت: وكيف ذلك؟ قال: أرضعتك امرأة أخي بلبن أخي، فقالت: سألت عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: صدق أفلح ائذني له“
”اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: افلح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اسے اجازت نہ دی۔ وہ کہنے لگے۔ تم مجھ سے پردہ کرتی ہو، حالانکہ میں تو تمھارا چچا ہوں۔ میں نے کہا: وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا: میرے بھائی کی بیوی نےتمھیں دودھ پلایا ہے وہ دودھ میرے بھائی کی وجہ سے تھا۔ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپنے فرمایا: افلح سچ کہتا ہے (اسے اندر آنے کی )اجازت دو“ [صحيح البخاري 3/ 169 رقم2644 ]
اس حدیث کو روایت کرنے والی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں ، لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے اس حدیث کے خلاف عمل ثابت ہے چنانچہ:
امام مالك رحمه الله (المتوفى 179) نے کہا:
”عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، أنه أخبره، أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم كان يدخل عليها من أرضعته أخواتها، وبنات أخيها، ولا يدخل عليها من أرضعه نساء إخوتها“
”قاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہ لوگ جاسکتے تھے جن کو ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہے ، لیکن وہ لوگ نہیں جاسکتے تھے جن کو ان کے بھائیوں کی بیویوں نے دودھ پلایا ہے“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 604 وإسناده صحيح وأخرجه البيهقي في معرفة السنن رقم 15427 من طريق عبد الرحمن بن القاسم به ، وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه رقم 963 من طرق عن القاسم بن محمد به ]
اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بھابھیوں کا دودھ پینے والوں کو اپنے پاس نہیں آنے دیتی تھیں ، حالانکہ لبن الفحل کے سبب یہ لوگ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی رشتہ دار تھے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود یہ یہ حدیث روایت کررکھی ہے کہ لبن الفحل سے رضاعی رشتہ ثابت ہوتا ہے اور ایسے رضاعی رشتہ والے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آسکتے ہیں ۔
یہ مثال احناف کے اس اصول کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے کہ راوی جب اپنی روایت کے خلاف عمل کرے تو راوی کے عمل و فتوی کو لیا جائے گا ۔کیونکہ احناف نے بھی اس مسئلہ میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے عمل وفتوی کو ترک کردیا ہے اوراماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اپنایا ہے۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) اس مثال کو لیکر احناف کے اس اصول کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وهذا خبر لم يروه عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا عائشة وحدها، وقد صح عنها خلافه، فأخذوا بروايتها وتركوا رأيها، ولم يقولوا: لم تخالفه إلا لفضل علم عندهن، وقالوا: لا ندري لأي معنى لم يدخل عليها من أرضعته نساء إخوتها“
”اس حدیث کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیا ہے ، اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے اس کے مخالفت ثابت ہے ، تو ان لوگوں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو لے لیا اور ان کی رائے کو ترک کردیا ، اور حسب عادت یہ نہیں کہا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس لئے مخالفت کی ہوگی کہ ان کے پاس کوئی اضافی علم ہوگا“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 10/ 183]
حافظ ابن حجررحمہ اللہ (المتوفى852) اس مثال کی روشنی میں احناف کے غلط اصول اور ان کی بے بسی کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وألزم به بعضهم من أطلق من الحنفية القائلين أن الصحابي إذا روي عن النبي صلى الله عليه وسلم حديثا وصح عنه ثم صح عنه العمل بخلافه أن العمل بما رأى لا بما روى لأن عائشة صح عنها أن لا اعتبار بلبن الفحل ذكره مالك في الموطأ وسعيد بن منصور في السنن وأبو عبيد في كتاب النكاح بإسناد حسن وأخذ الجمهور ومنهم الحنفية بخلاف ذلك وعملوا بروايتها في قصة أخي أبي القعيس وحرموه بلبن الفحل فكان يلزمهم على قاعدتهم أن يتبعوا عمل عائشة ويعرضوا عن روايتها ولو كان روى هذا الحكم غير عائشة لكان لهم معذرة لكنه لم يروه غيرها وهو الزام قوي“
”احناف میں نے جن لوگوں نے علی الاطلاق یہ کہا ہے کہ جب ایک صحابی کوئی حدیث روایت کرے اور وہ سندا اس سے ثابت ہو ، پھر اسی صحابی سے یہ بھی ثابت ہو کہ اس نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو اعتبار صحابی کے عمل وفتوی کا ہوگا نہ کہ صحابی کی روایت کردہ حدیث کا ۔اس اصول کا رد بعض اہل علم نے یہ الزامی جواب دیتے ہوئے کیا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ عمل و فتوی ثابت ہے کہ لبن الفحل کا اعتبار نہیں ہوگا ، جیساکہ مالک نے مؤطا ، سعیدبن منصور نے سنن اور ابوعبید نے کتاب النکاح میں بسند حسن روایت کیا ہے ، لیکن جمہور بشمول احناف نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کو لیا ہے ، جس میں ابوالقیس کے بھائی (افلح) کا واقعہ ذکر ہے اور لبن الفحل کے سبب حرمت رضاحت کا اعتبار کیا ہے ۔ لہٰذا احناف پر لازم تھا کہ وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل کی پیروی کرتے اور ان کی روایت کردہ حدیث سے اعراض کرتے ، اور اگر اس حدیث کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور صحابی نے روایت کیا ہوتا تو احناف کے لئے گنجائش تھی ، مگر صورت حال یہ ہے کہ اس حدیث کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیاہے ، اس لئے اس احناف کو دیا گیا یہ الزامی جواب بہت قوی اور مضبوط ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 152]
حقیقت یہ کہ اس مثال نے حنفیت کے اصول کے اصول کا جنازہ نکال دیا ہے اور پوری دنیائے حنفیت میں کسی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔
بعض احناف نے ہمت جٹا کر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا جن لوگوں کے اپنے پاس نہیں آنے دیتی تھی ، تو اس کی وجہ حرمت رضاعت کا عدم اعتبار نہیں بلکہ کوئی اور وجہ ہوگی ۔
عرض ہے کہ یہ جواب انتہائی لایعنی اور بے سود ہے کیونکہ روایت میں پوری طرح صراحت ہے کہ اجازت دینے اور نہ دینے کی وجہ حرمت رضاعت کا اعتبار اور عدم اعتبار تھا ۔چنانچہ جن کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنے کی اجازت دی ان کے تعلق سے الفاظ ہیں:
امام مالك رحمه الله (المتوفى 179) نے کہا:
”كان يدخل عليها من أرضعته أخواتها، وبنات أخيها“
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہ لوگ جاسکتے تھے جن کو ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہے“
اور جن کو آنے کی اجازت نہ تھی ان کے تعلق سے الفاظ ہیں:
”ولا يدخل عليها من أرضعه نساء إخوتها“
”لیکن وہ لوگ نہیں جاسکتے تھے جن کو ان کے بھابھیوں نے دودھ پلایا ہے“
ملاحظہ فرمائیں روایت پوری طرح صراحت کررہی ہے کہ یہ سارا معامہ صرف اور صرف حرمت رضاعت کی بنا پر تھا ۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) اس لایعنی جواب کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وقال بعضهم: للمرأة أن تحتجب ممن شاءت من ذوي محارمها؟ فقلنا: إن ذلك لها إلا أن تخصيصها - رضي الله عنها - بالاحتجاب عنهم من أرضعته نساء أبيها، ونساء إخوتها، ونساء بني أخواتها، دون من أرضعته أخواتها، وبنات أخواتها، لا يمكن إلا للوجه الذي ذكرنا، لا سيما مع تصريح ابن الزبير - وهو أخص الناس بها - بأن لبن الفحل لا يحرم، وأفتى القاسم بذلك، فظهر تناقض أقوالهم والحمد لله رب العالمين“
”بعض نے یہ کہا ہے کہ : ایک عورت کی اپنی مرضی ہے کہ وہ محرم رشتہ داروں میں بھی جن کو چاہے اپنے پاس آنے سے روک دے ، تو ہمارا کہنا ہے کہ : بے شک عورت کو اس کا حق ہے ، لیکن یہاں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنہیں پاس آنے سے روکا ہے ان کی خاصیت یہ بتائی ہے کہ وہ ان کے والد ، بھائیوں اور بھتیجوں کی بیویوں کے رضاعی رشتہ دار ہیں ، اور جولوگ ان کی بہنوں ، اور نواسیوں کے رضاعی رشتہ دار ہیں انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دی ہے ، لہٰذا یہاں وجہ صرف وہی ہوسکتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ، بالخصوص جبکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے صراحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ لبن الفحل سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے ، نیز قاسم بن محمد نے بھی یہی فتوی دیا ہے ،اس سے ان مقلدین کی باتوں کا تناقض ثابت ہوگیا والحمدللہ“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 10/ 183]
خلاصہ یہ کہ جب اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی روایت کردہ صریح حدیث کے خلاف موقف اپنا سکتی ہیں تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق سے متعلق اپنی حدیث کے خلاف تو بدرجہ اولی فتوی دے سکتے ہیں کیونکہ ان کے والد نے طلاق بدعت کے وقوع کا قانون ہی بنادیا تھا۔
صلاۃ وسطی کا مسئلہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ مرفوع حدیث روایت کی ہے کہ صلاۃ وسطی سے مراد صلاۃ عصر ہے ۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ثابت ، حدثنا هلال ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : قاتل النبي صلى الله عليه وسلم عدوا ، فلم يفرغ منهم حتى أخر العصر عن وقتها ، فلما رأى ذلك قال : اللهم من حبسنا عن الصلاة الوسطى ، فاملأ بيوتهم نارا ، واملأ قبورهم نارا“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا اور دشمنوں سے عصر کے آخری وقت ہی فارغ ہوئے ، جب آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اے اللہ ! جن لوگوں نے ہمیں صلاۃ وسطی سے روک دیا ہے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 301 وإسناده صحيح وأخرجه عبد بن حميد في المنتخب طريق محمد بن الفضل عن ثابت به ، وأخرجه أيضا البزار كما في كشف الأستار 1/ 197 من طريق عباد بن العوام، و الطبراني في الكبير 11/ 329 والأوسط 2/ 284 من طريق أبي عوانه ، كلاهما عن هلال به]
لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ اس حدیث کے خلاف یہ فتوی دیا ہے کہ صلاۃ وسطی سے مراد صلاۃ فجر ہے ۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا وكيع، عن قرة, قال: حدثنا أبو رجاء، قال: صليت مع ابن عباس الصبح في مسجد البصرة، فقال: هذه الصلاة الوسطى“
”ابورجاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھی تو انہوں نے کہا: یہی صلاۃ وسطی ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 3/ 516 وإسناده صحيح وأخرجه الطحاوی في شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 170 من طريق أبي داؤد عن قرة به ،وأخرجه أيضا عبد الرزاق في مصنفه رقم 2207 والطحاوي في شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 170 من طريق عوف عن أبي رجاء به ، وأخرجه أيضا اسماعيل القاضي من طريق آخر و صححه كما في التمهيد لابن عبد البر: 4/ 285، وله طرق كثيرة عن ابن عباس]
واضح رہے کہ جن روایات میں یہ آیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی صلاۃ عصر کو صلاۃ وسطی کہا ہے وہ ساری روایات ضعیف ہے ، قدرے تفصیل کے لئے دیکھئے :[ تفسير سنن سعيد بن منصور:3/ 917 تا 920 حاشیہ]
آزادی کے بعد شادی شدہ لونڈی کے نکاح کا مسئلہ:
بریرہ رضی اللہ عنہا جب لونڈی تھی تبھی ان کی شادی ہوگئی تھی بعد میں ان کے مالک نے انہیں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیچ دیا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خریدنے کے بعد آزاد کردیا ، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خرید وفروخت کو طلاق قرار نہیں دیا بلکہ انہیں اختیاردیا کہ وہ چاہیں تو بدستور اپنے شوہر کی بیوی بنی رہیں اور چاہیں تو الگ ہوجائیں ۔
اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ شادی شدہ لونڈی کو بیچ دینے یا اسے آزاد کردینے سے اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے چنانچہ :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”ثنا محمد، أخبرنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس، أن زوج بريرة كان عبدا يقال له مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: «يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثا» فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لو راجعته» قالت: يا رسول الله تأمرني؟ قال: «إنما أنا أشفع» قالت: لا حاجة لي فيه“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے جنہیں مغیث کہا جاتا تھا۔ گویا وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب وہ بریرہ رضی اللہ عنہاکے پیچھے روتے ہوئے گھوم رہے تھے اور ان کے آنسو ان کی ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے۔ نبی ﷺ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہانے فرمایا: ”اے عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں؟“ آخر نبی ﷺ نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا: ”کاش تم ان سے رجوع کرلو“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ آپ کا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، میں صرف سفارش کررہا ہوں،“ اس پر بریرہ نے بریرہ رضی اللہ عنہا کہا: مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے“ [صحيح البخاري 7/ 48 رقم 5283]
اور سنن ترمذی کی اسی رویت میں ہے:
”يوم أعتقت بريرة“ ”جس دن بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد کی گئیں“ [سنن الترمذي ت شاكر رقم 1156 وإسناده صحيح]
اور مسند احمد کی اسی رویت میں ہے:
”لما خيرت بريرة رأيت“ ، ”جب بریرہ کو اختیار سے دیا گیا“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 215 إسناده صحيح ]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس حدیث میں واضح ہے کہ شادی شدہ لونڈی بیچ دی جائے یا آزاد کردی جائے تو اس سے اس کی طلاق نہیں ہوجاتی بلکہ اسے اختیار ہوتا ہے وہ چاہے تو بدستور بیوی بنی رہے اور چاہے تو الگ ہوجائے ۔
لیکن دوسری طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح یہ فتوی بھی ثابت ہے کہ لونڈی کو بیچنا ہی اس کی طلاق ہے، چنانچہ:
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227) نے کہا:
”حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا خالد الحذاء ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، أنه كان يقول في بيع الأمة : فهو طلاقها“
”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے لونڈی کو بیچے جانے پر کہا کہ یہی اس کی طلاق ہے“ [سنن سعيد بن منصور، ت الأعظمي: 2/ 63 وإسناده صحيح علي شرط الشيخين]
ملاحظہ فرمائیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی ہی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دیا ہے ۔ لیکن اہل علم نے یہاں ان کے فتوی کو نہیں لیا بلکہ ان کی حدیث کو لیا ہے۔
لونڈی والی مثال پر احناف کا اعتراض اور اس کا جواب:
مغیث وبریرہ رضی اللہ عنہما کی مثال پر بعض احناف کا اعتراض یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ جس حدیث کے خلاف فتوی دیاہے وہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ نے بھی روایت کیا ہے ، اس لئے یہاں راوی کے فتوی کے مقابلے میں اس کی روایت کو ترک کرنا نہیں ہے ، کیونکہ دیگر صحابہ نے اپنی اس حدیث کے خلاف فتوی نہیں دیا ہے ۔
جوابا عرض ہے کہ:
اس مثال میں کم سے کم یہ تو تسلیم کیا گیا کہ ایک صحابی اپنی حدیث کے خلاف بھی فتوی دے سکتا ہے اور اس کی حدیث مقبول اور اس کا فتوی غیرمقبول ہوسکتا ہے، رہی بات یہ کہ اسی حدیث کو دیگر صحابہ نے روایت کیا ہے اور انہوں نے اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی نہیں دیا ہے ، تو اس کے باوجود بھی یہ حقیقت تو مسلم رہے گی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دیا ہے اور ان کے فتوی کا اعتبار نہیں کیا گیا ہے۔
تو جب لونڈی کے مسئلہ میں کوئی صحابی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دےسکتے ہیں ، تو طلاق کے مسئلہ میں بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دے سکتے ہیں ۔
ابن عباس رضی اللہ ہی سے متعلق ایک اور مثال ایک بریلوی عالم کی زبانی سنئے ، مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
”ہم آپ کو فقہ کے بیسوں مسائل دکھا سکتے ہیں کہ فقہاء نے راوی کی روایت پر عمل کیا ہے اور اس کی رائے کو چھوڑ دیا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی ایک مثال ملاحظہ فرماویں: ”عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أصحابه أن يرملوا الأشواط الثلاثة“ (بخاري رقم 1602)
اور آپ کا قول یہ ہے کہ ”ليس الرمل بسنة“ (سنن أبي داود رقم 1885) اب عمل روایت پر ہے ان کی رائے پر نہیں“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص241]
اس دوسری مثال سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فإن قيل: إن ابن عباس قال في الرمل: ليس سنة، وهو راوي الحديث؟ قلنا: لا حجة في أحد مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم“
”اگر کہا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے کہ رمل سنت نہیں ہے ، اور رمل والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہی روایت کی ہے ، تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کا قول بھی حجت نہیں ہے“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 5/ 84]
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ خود صاحب واقعہ ہیں اور وہ طلاق کو شمار کررہے ہیں اور یہ بھی تو اصول ہے کہ راوی اپنی روایت کا مطلب دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔
لونڈی والی مثال پر احناف کا اعتراض اور اس کا جواب:
مغیث وبریرہ رضی اللہ عنہما کی مثال پر بعض احناف کا اعتراض یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ جس حدیث کے خلاف فتوی دیاہے وہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ نے بھی روایت کیا ہے ، اس لئے یہاں راوی کے فتوی کے مقابلے میں اس کی روایت کو ترک کرنا نہیں ہے ، کیونکہ دیگر صحابہ نے اپنی اس حدیث کے خلاف فتوی نہیں دیا ہے ۔
جوابا عرض ہے کہ:
اس مثال میں کم سے کم یہ تو تسلیم کیا گیا کہ ایک صحابی اپنی حدیث کے خلاف بھی فتوی دے سکتا ہے اور اس کی حدیث مقبول اور اس کا فتوی غیرمقبول ہوسکتا ہے، رہی بات یہ کہ اسی حدیث کو دیگر صحابہ نے روایت کیا ہے اور انہوں نے اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی نہیں دیا ہے ، تو اس کے باوجود بھی یہ حقیقت تو مسلم رہے گی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دیا ہے اور ان کے فتوی کا اعتبار نہیں کیا گیا ہے۔
تو جب لونڈی کے مسئلہ میں کوئی صحابی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دےسکتے ہیں ، تو طلاق کے مسئلہ میں بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دے سکتے ہیں ۔
ابن عباس رضی اللہ ہی سے متعلق ایک اور مثال ایک بریلوی عالم کی زبانی سنئے ، مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
”ہم آپ کو فقہ کے بیسوں مسائل دکھا سکتے ہیں کہ فقہاء نے راوی کی روایت پر عمل کیا ہے اور اس کی رائے کو چھوڑ دیا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی ایک مثال ملاحظہ فرماویں: ”عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أصحابه أن يرملوا الأشواط الثلاثة“ (بخاري رقم 1602)
اور آپ کا قول یہ ہے کہ ”ليس الرمل بسنة“ (سنن أبي داود رقم 1885) اب عمل روایت پر ہے ان کی رائے پر نہیں“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص241]
اس دوسری مثال سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فإن قيل: إن ابن عباس قال في الرمل: ليس سنة، وهو راوي الحديث؟ قلنا: لا حجة في أحد مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم“
”اگر کہا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے کہ رمل سنت نہیں ہے ، اور رمل والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہی روایت کی ہے ، تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کا قول بھی حجت نہیں ہے“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 5/ 84]
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ خود صاحب واقعہ ہیں اور وہ طلاق کو شمار کررہے ہیں اور یہ بھی تو اصول ہے کہ راوی اپنی روایت کا مطلب دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔
تو عرض ہے کہ یہ اصول یہاں پر اس لئے فٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے یہاں اپنی روایت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہی ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ اپنی روایت کا مطلب دوسروں سے بہتر جاتے ہیں ۔
گذشتہ سطور میں ہم ان کے فتوی سے متعلق سارے ثابت شدہ الفاظ صحیح حوالوں کے ساتھ پیش کرچکے ہیں ان میں سے ایک بھی حوالہ ایسا نہیں ہے جس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فتوی کے لئے اپنی روایت کردہ حدیث ہی کو بطور دلیل پیش کیا ہو ، یا اس سے کسی بھی طرح کا استدلال کیا ہو، تو جب انہوں نے اپنے فتوی کے لئے اپنی حدیث کو دلیل بنایا ہی نہیں تو یہاں پر یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ راوی اپنی حدیث کا مطلب دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے؟
دوسرا جواب: ابن عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا موافق حدیث فتوی
خود عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہی سے ان کی حدیث کے موافق فتوی بھی ثابت ہے چنانچہ:
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”نا يونس بن عبيد الله نا ابن عبد الله بن عبد الرحيم نا أحمد بن خالد نا محمد بن عبد السلام الخشني نا ابن بشار نا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي نا عبيد الله بن عمر عن نافع مولى ابن عمر عن ابن عمر أنه قال في الرجل يطلق امرأته وهي حائض، قال ابن عمر: لا يعتد بذلك“
”نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دیا ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اس کی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 375، أيضا : 9/ 381 وإسناده صحيح ، إغاثة اللهفان ط عالم الفوائد 1/ 52 : وقال المحقق : إسناده صحيح]
اس روایت کے ثبوت پر تفصیلی بحث گذرچکی ہے ۔دیکھئے:
اب جب ابن عمررضی اللہ عنہ سے دو نوں طرح کا فتوی ثابت ہے ، ایک ان کی حدیث کے مخالف ہے اور دوسرا ان کی حدیث کے موافق ہے ، تو ظاہر ہے کہ ان کا وہی فتوی لیا جائے گا جو ان کی حدیث کے موافق ہے ۔
تیسرا جواب: جمع و تطبیق
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے دونوں فتوی میں تطبیق ممکن ہے وہ اس طرح کی ان کا اصل فتوی طلاق حیض کے عدم وقوع ہی کا ہے جو کہ ان کی حدیث کے عین موافق ہے ، اور ان کا دوسرا فتوی مصلحت پر مبنی ہے کیونکہ ان کے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سرکاری فرمان جاری کردیا تھا کہ طلاق بدعت کو نافذ کردیا جائے گا ، اسی فرمان فاروقی کی رعایت میں انہوں نے اپنی طلاق حیض کو بھی شمار کر لیا جب لوگ بکثرت ان سے اس کے بارے میں سوال کرنے لگے ۔
کیونکہ اگر وہ ان سوالات کے جوابات میں یہ کہتے کہ وہ اپنی طلاق حیض کو شمار نہیں کرتے تو لوگ اس کو دلیل بنا کر خفیہ طور پر اسی پر عمل کرنا شروع کردیتے اور خود کو سرکاری سزا سے بچانے کی سبیل نکال لیتے ۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ بیک وقت تین طلاق دینے والے کو بھی یہ فتوی دیتے تھے کہ تمہاری تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر عن الزهري عن سالم عن بن عمر قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصى ربه“
”ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیا اس کی طلاق ہوجائے گی اوراس نے اپنے رب کی نافرمانی کی“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 395 وإسناده صحيح ]
حتی کہ غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو بھی ابن عمررضی اللہ عنہ تین شمار کرتے تھے چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا أبو أسامة, قال: حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر ... في الرجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قالوا: لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے ، اس کی بیوی اس کے لئے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 341 إسناده صحيح وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 335 من طريق سفيان عن عبيد الله بن عمر به ، وأخرجه أيضا الطحاوي في شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 57 من طريق محمد بن إياس بن البكير عن ابن عمر به ]
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ طلاق البتہ تک کو بھی تین طلاق قرار دیتے تھے جو ان کے والد کےفرمان کے تحت آتا بھی نہیں تھا چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا عبدة ، عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر؛ في البتة ثلاث تطليقات“
”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلاق البتہ کو تین طلاق قراردیا“[مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 387 ،رقم 18427 وإسناده صحيح ]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ طرزعمل صاف بتلاتاہے کہ انہوں نے اپنے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی رعایت میں اور ان کی بہتر تنفیذ اور لوگوں کی تادیب و تربیت اور سد باب کے لئے ایسے فتاوی دئے ہیں ، ورنہ ان کا اصل موقف یہ نہیں تھا کیونکہ آگے تفصیل آرہی ہے کہ عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال سےپہلے سب کا اس پر اتفاق تھا کہ بیک تین طلاق ایک شمار ہوگی ، اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا أبو أسامة, قال: حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر ... في الرجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قالوا: لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے ، اس کی بیوی اس کے لئے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 341 إسناده صحيح وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 335 من طريق سفيان عن عبيد الله بن عمر به ، وأخرجه أيضا الطحاوي في شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 57 من طريق محمد بن إياس بن البكير عن ابن عمر به ]
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ طلاق البتہ تک کو بھی تین طلاق قرار دیتے تھے جو ان کے والد کےفرمان کے تحت آتا بھی نہیں تھا چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا عبدة ، عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر؛ في البتة ثلاث تطليقات“
”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلاق البتہ کو تین طلاق قراردیا“[مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 387 ،رقم 18427 وإسناده صحيح ]
اسی پر بس نہیں بلکہ خلیہ (تو خالی ہے ) اور بریہ (تو الگ ہے) کو بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ تین طلاق قرار دیتے تھے
امام مالك رحمه الله (المتوفى 179) نے کہا:
”عن نافع، أن عبد الله بن عمر كان يقول: «في الخلية والبرية، إنها ثلاث تطليقات كل واحدة منهما“
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خلیہ اور بریہ کے بارے میں کہتے تھے ، ان میں سے ہر ایک سے تین طلاق ہے“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 552 وإسناده صحيح]
تو جب ابن عمررضی اللہ عنہ پہلے تین طلاق کو ایک ماننے کے بعد بھی بعد میں لوگوں کی تادیب وتربیت کے لئے اسے تین ماننے کا فتوی دے سکتے ہیں ، تو ٹھیک اسی طرح وہ طلاق حیض کو غیر واقع ماننے کے باوجود بھی بعد میں اپنے والد کے سرکاری فرمان کی رعایت اسے واقع قرار دے سکتے ہیں ۔
اس کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ حالت حیض میں تین طلاق دینے والے کے لئے بھی یہ کہتے کہ تمہاری تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، اور اپنی حدیث کے مطابق انہیں یہ فتوی نہیں دیتے کہ وہ اس صورت میں اپنی بیوی کو واپس لیں اور بعد میں طلاق کا ارادہ ختم ہوگیا تو بیوی کو اپنا لیں ، جیساکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی حکم دیا تھا چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، أن ابن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما، طلق امرأة له وهي حائض تطليقة واحدة، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يراجعها ثم يمسكها حتى تطهر، ثم تحيض عنده حيضة أخرى، ثم يمهلها حتى تطهر من حيضها، فإن أراد أن يطلقها فليطلقها حين تطهر من قبل أن يجامعها: «فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء» وكان عبد الله إذا سئل عن ذلك قال لأحدهم: إن كنت طلقتها ثلاثا، فقد حرمت عليك حتى تنكح زوجا غيرك وزاد فيه غيره، عن الليث، حدثني نافع، قال ابن عمر: «لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا“
”ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنی بیوی واپس لیں اور اسے روکے رکھیں جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائے پھر جب اسے حیض آئے تو اگلے طہر تک اسے روکے رکھیں ، اس کے بعد اگر طلاق کا ارادہ باقی ہو تو جماع سے پہلے طلاق دے دیں ، یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ عورتوں کو طلاق دی جائے ، اور اس سلسلے میں (طلاق حیض کے بارے میں ) جب ابن عمررضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ : اگر تم نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاق دے دی ہے تو وہ تم پر حرام ہوگئی جب تک کہ تمہارے علاوہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ اور اگر تم نے حالت حیض میں ایک بار یا دو بار طلاق دی ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیوی واپس لینے کا حکم دیا ہے“[صحيح البخاري 7/ 58رقم5332 صحيح مسلم 2/ 1093رقم 1471 والزيادة عنده رواها ابن رمح عن الليث]
”حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، أن ابن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما، طلق امرأة له وهي حائض تطليقة واحدة، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يراجعها ثم يمسكها حتى تطهر، ثم تحيض عنده حيضة أخرى، ثم يمهلها حتى تطهر من حيضها، فإن أراد أن يطلقها فليطلقها حين تطهر من قبل أن يجامعها: «فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء» وكان عبد الله إذا سئل عن ذلك قال لأحدهم: إن كنت طلقتها ثلاثا، فقد حرمت عليك حتى تنكح زوجا غيرك وزاد فيه غيره، عن الليث، حدثني نافع، قال ابن عمر: «لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا“
”ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنی بیوی واپس لیں اور اسے روکے رکھیں جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائے پھر جب اسے حیض آئے تو اگلے طہر تک اسے روکے رکھیں ، اس کے بعد اگر طلاق کا ارادہ باقی ہو تو جماع سے پہلے طلاق دے دیں ، یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ عورتوں کو طلاق دی جائے ، اور اس سلسلے میں (طلاق حیض کے بارے میں ) جب ابن عمررضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ : اگر تم نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاق دے دی ہے تو وہ تم پر حرام ہوگئی جب تک کہ تمہارے علاوہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ اور اگر تم نے حالت حیض میں ایک بار یا دو بار طلاق دی ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیوی واپس لینے کا حکم دیا ہے“[صحيح البخاري 7/ 58رقم5332 صحيح مسلم 2/ 1093رقم 1471 والزيادة عنده رواها ابن رمح عن الليث]
ملاحظہ فرمائیں کہ حالت حیض میں بھی تین طلاق دینے والے کی تینوں طلاق کو ابن عمر رضی اللہ عنہ شمار کرلیتے تھے ، اوراسی پر اس کی بیوی کے الگ ہونے کا فتوی دیتے تھے ، اور اپنی حدیث کے مطابق بیوی واپس لینے کی گنجائش نہیں دیتے بلکہ اپنی حدیث کو ایک طلاق اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے دوسری طلاق کے لئے بتاتے، حالانکہ ان کی حدیث مطلق ہے لہٰذا اس کے مطابق حیض والی کسی بھی طلاق سے بیوی کو الگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے واپس لینا ہوگا اور اگلے دوسرے طہر میں شوہر کو اختیار ہوگا کہ بیوی کو روکے یا طلاق دے ۔
لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ اگر ایسا فتوی دیتے یعنی حالت حیض میں تین طلاق دینے والے کے لئے یہ کہتے کہ تم بیوی واپس لو اور اس کے بعد اگلے دوسرے طہر میں تمہیں اختیار ہے کہ بیوی کو باقی رکھو یا طلاق دو ،تو ایسی صورت میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی زد سے وہ لوگ بچ جاتے تھے جو حیض کی حالت میں بیک تین طلاق دیتے ، اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سد باب کے لئے حالت حیض والی تین طلاق کو بھی تین شمار کرلیا ۔
اور جب حیض والی تین طلاق کو شمار کرلیا تو اس سے طلاق حیض کو شمار کرنا لازم آیا ، اس لئے اپنی ایک طلاق حیض کو بھی انہوں نے شمار کرلیا تاکہ کوئی اسے لیکر حجت نہ کرے ۔
چنانچہ جب کوئی ان سے ان کی ایک طلاق حیض کو شمار کئے جانے سے متعلق سوال کرتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ قدرے سختی اور ڈانٹ ڈپ کے ساتھ جواب دیتے اور اسے شمار کرنے کی بات کہتے ، جیساکہ ان کے جواب کے سارے الفاظ نقل کئے جاچکے ہیں۔
اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ طلاق حیض کو شمار کرنے کے پیچھے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مصلحت وحکمت کیا تھی ۔
چنانچہ جب کوئی ان سے ان کی ایک طلاق حیض کو شمار کئے جانے سے متعلق سوال کرتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ قدرے سختی اور ڈانٹ ڈپ کے ساتھ جواب دیتے اور اسے شمار کرنے کی بات کہتے ، جیساکہ ان کے جواب کے سارے الفاظ نقل کئے جاچکے ہیں۔
اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ طلاق حیض کو شمار کرنے کے پیچھے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مصلحت وحکمت کیا تھی ۔
No comments:
Post a Comment