فتوی ابن عمر سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں کے الفاظ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-22

فتوی ابن عمر سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں کے الفاظ


عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر
فتوی ابن عمر سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں کے الفاظ
اس سے پہلے کہ  ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتوی سے متعلق اشکالات کا ازالہ پیش کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تفصیل کے ساتھ یہ بتادیا جائے کہ ان کے طلاق حیض والے واقعہ سے متعلق جو اقوال منقول ہیں اس میں کون سے الفاظ ان کے اپنے ہیں ، اور کون سے الفاظ ان کے شاگردوں کے ہیں، اوران سارے الفاظ کا درست معنی و مفہوم کیا ہے۔
اس کی وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ کچھ لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں کے الفاظ کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں ، اسی طرح ان الفاظ کے مفہوم ومراد کو بیان کرنے میں بھی غلطی کرجاتے ہیں ، چنانچہ بعض لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے موقوف قول کو مرفوع سمجھ بیٹھتے ہیں بلکہ حد ہوگئی کہ کچھ لوگوں نے ان کے شاگرد کے الفاظ کو بھی مرفوع باور کرلیا جوکہ مرفوع تو دور کی بات موقوف بھی نہیں ہے بلکہ مقطوع ہے۔
واضح رہے کہ آئندہ سطور میں ہم صرف انہیں روایات کو پیش کریں گے جن میں ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ حیض کے ساتھ اس سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ، یا  اس سے نیچے کسی راوی کا قول بھی موجود ہو نیز اس سلسلے میں بھی صرف وہی روایت پیش کی جائیں گی جو جو صحیح سندوں سے ثابت ہیں ، ہم بالترتیب سب سے پہلے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ دیکھیں گے ، پھر ان کے شاگردوں کے اقوال ذکر کریں گے، اس کے بعد ان سے بھی نچلے راوی کا جو قول ہے وہ ذکر کریں گے ، ملاحظہ ہو:

ابن عمررضی اللہ عنہ کے الفاظ
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق حیض والی روایت کو ان کے کئی شاگردوں نے نقل کیا ہے مگر اس روایت کے ساتھ ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو بھی نقل کرنے والے ان کے صرف تین شاگر دہیں جو درج ذیل ہیں:
➊ انس بن سیرین 
➋ یونس بن جبیر 
➌ سالم بن عبد الله 
اب بالترتیب ہم ان تینوں شاگردوں کی روایات کو دیکھتے ہیں ۔

پہلے شاگرد انس بن سیرین:
انس بن سیرین کی روایت درج ذیل دو طرق سے ثابت ہے:
طریق عبد الملك بن ميسرة
طریق شعبة بن الحجاج
❀ پہلا طریق : عبد الملك بن ميسرة
اس طریق کو عبد الملك بن ميسرة کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
● روایت خالدبن عبداللہ:
”قلت: فاعتددت بتلك التطليقة التي طلقت وهي حائض؟ قال: ما لي لا أعتد بها ؟ وإن كنت عجزت واستحمقت“ [صحيح مسلم رقم 1471]
● روایت يزيد بن هارون:
 ”قلت له : هل اعتددت بالتي طلقتها وهي حائض ؟ قال : فما لي لا أعتد بها ؟ وإن كنت قد عجزت واستحمقت“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 43 وإسناده صحيح]
● روایت محمد بن عبيد:
 ”هل اعتددت بالتي طلقتها وهي حائض ؟ قال : وما لي لا أعتد بها ؟ إن كنت عجزت واستحمقت“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 128 وإسناده صحيح]
● روایت يعلى بن عبيد :
 ”قلت: فاعتددت بتلك التطليقة التي طلقت وهي حائض؟، فقال: مالي لا أعتد بها ؟وإن كنت عجزت واستحمقت“ [مستخرج أبي عوانة 3/ 150وإسناده صحيح]

❀ دوسرا طریق: شعبة بن الحجاج:
اس طریق کو شعبہ کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
●روایت محمدبن جعفر:
ابن بشار کے الفاظ: ”قلت لابن عمر: أفاحتسبت بتلك التطليقة؟ قال: فمه؟“ [صحيح مسلم رقم 1471]
امام احمد کے الفاظ: ”قلت لابن عمر : أحسب تلك التطليقة؟ قال : فمه؟“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 78وإسناده صحيح]
●روایت بهز بن أسد:
امام احمد کے الفاظ: ”قلت : احتسب بها؟ قال : فمه؟“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 74 وإسناده صحيح]
امام احمد ہی کے الفاظ: ”قال : بهز أتحتسب ؟“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 61 وإسناده صحيح]
●روایت یزیدبن ھارون:
 ”فقلت لابن عمر: اعتدت بتلك التطليقة؟ قال: فمه؟“ [المنتقى لابن الجارود ص: 183 وإسناده صحيح]
●روایت هاشم بن القاسم:
 ”قال: فقلت له: أفتحتسب بها؟ قال: فمه؟“ [مستخرج أبي عوانة 3/ 149 وإسناده صحيح]
●روایت حجاج بن محمد:
ابن خزیمہ کے الفاظ: ”فقيل: أيحتسب بها؟ قال: فمه؟“ [شرح معاني الآثار 3/ 52 وإسناده صحيح]
ابوالولید کے الفاظ: ”فقلت له: أفتحتسب بها؟ قال: فمه؟“ [مستخرج أبي عوانة 3/ 149 وإسناده صحيح]
ابن حيوية کے الفاظ: ”قال: فقلت له: أفتحتسب بها؟ قال: فمه؟“ [مستخرج أبي عوانة 3/ 149 وإسناده صحيح]
علي بن الحسن کے الفاظ: ”فقلت له يعني لابن عمر: يحتسب بها؟ قال: فمه؟“ [السنن الكبرى للبيهقي 7/ 533 وإسناده صحيح]

 ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ انس بن سیرین رحمہ اللہ نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی طلاق حیض کو شمار کریں گے؟ تو انہوں نے جو جواب دیا مذکورہ روایات کی روشنی میں اس کے مجموعی الفاظ یہ ہیں:
 ”فمه ، ما لي لا أعتد بها، أرأيت وإن كنت عجزت واستحمقت“ 
 ”تو پھر کیا ؟ میں کیوں اسے شمار نہ کروں؟ گرچہ مجھ سے عاجزی اور ناسمجھی سرزد ہوگئی مگر اس سے کیا فرق پڑے گا؟“ 

دوسرے شاگرد یونس بن جبیر :
یونس بن جبیر کی روایت درج ذیل دو طرق سے ثابت ہے:
طریق محمد بن سیرین
طریق قتادہ بن دعامة
❀ پہلا طریق : محمد بن سیرین
اس طریق کو محمد بن سیرین کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
● روایت يزيد بن إبراهيم:
 حجاج بن منهال کے الفاظ : ”قلت: فتعتد بتلك التطليقة؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق“ [صحيح البخاري رقم 5333]
عبد الله بن مسلمة کے الفاظ : ”قلت: فيعتد بها؟، قال: فمه، أرأيت إن عجز واستحمق“ [ سنن أبي داود رقم 2184 وإسناده صحيح]

● روایت يونس بن عبيد:
یونس بن عبید سے اسے ”ابن علية“ نے نقل کیا ہے پھر ان سے ”يعقوب بن إبراهيم“ نے نقل کیا اور ان سے امام مسلم ور امام نسائی نے نقل کیاہے۔
امام مسلم کے الفاظ: ”فقلت له: إذا طلق الرجل امرأته وهي حائض، أتعتد بتلك التطليقة؟ فقال: فمه؟ أو إن عجز واستحمق؟“[صحيح مسلم رقم 1471]
امام نسائی کے الفاظ: ”قلت له: إذا طلق الرجل امرأته وهي حائض، أيعتد بتلك التطليقة؟ فقال: مه؟ وإن عجز واستحمق“ [سنن النسائي رقم 3400وإسناده صحيح]

● روایت أيوب بن كيسان:
اسماعیل ابن علية کے الفاظ: ”قلت: أفحسبت عليه؟ قال: «فمه، أو إن عجز، واستحمق“[صحيح مسلم رقم 1471]
حماز بن زید کے الفاظ:
(قتيبة کے یہاں) : ”قلت: فيعتد بتلك التطليقة؟ قال: فمه؟ أرأيت إن عجز واستحمق“ [سنن الترمذي ،رقم 1175وإسناده صحيح]
(مسدد وغیرہ کے یہاں): ”قلت: تعتد بتلك التطليقة، قال: فمه؟ أرأيت إن عجز واستحمق؟“ [مستخرج أبي عوانة رقم 4519 وإسناده صحيح]

●روایت هشام بن حسان:
عبد الأعلى کے الفاظ: ”قلت: أيعتد بتلك؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق؟“ [ سنن ابن ماجه رقم 2022 وإسناده صحيح]
وهب بن جرير کے الفاظ: ”قلت: وتعتد بتلك التطليقة؟، قال: فمه أرأيت إن عجز واستحمق؟“ [مستخرج أبي عوانة رقم4520 وإسناده صحيح]
ابن إدريس کے الفاظ: ”قيل لابن عمر: أكنت اعتددت بتلك التطليقة؟ , فقال: «ومالي لا أعتد بها وإن كنت عجزت واستحمقت“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 16 وإسناده صحيح]

❀ دوسرا طریق : قتادہ بن دعامة
اس طریق کوقتادہ کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
● روایت همام بن يحيى:
حجاج بن منهال کے الفاظ: ”قلت: فهل عد ذلك طلاقا؟ قال: «أرأيت إن عجز واستحمق؟“ [صحيح البخاري رقم 5258]

● روایت شعبہ:
شعبہ سے اسے سليمان بن حرب اور محمد بن جعفر نے نقل کیا ہے
  ◈ سليمان بن حرب کے الفاظ:
  ”قلت: تحتسب؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق“ [صحيح البخاري رقم 5252]
  ◈ محمد بن جعفر کے الفاظ:
 ان سے ابن المثنی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔
(ابن المثنی کے یہاں) :
مسلم عنه : ”فقلت لابن عمر: أفاحتسبت بها؟ قال: ما يمنعه؟ أرأيت إن عجز، واستحمق“ [صحيح مسلم رقم 1471]
نسائي عنه : ”قلت لابن عمر: فاحتسبت منها؟ فقال: ما يمنعها؟ أرأيت إن عجز واستحمق“ [سنن النسائي رقم 3555وإسناده صحيح]
(امام احمد کے یہاں) : ”فقلت لابن عمر : أفتحتسب بها ؟ قال : ما يمنعه؟ نعم أرأيت إن عجز واستحمق“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 79وإسناده صحيح]
نوٹ: ”نعم“ کا لفظ صرف امام احمد کے یہان ہے ، ابن المثنی کے یہاں نہیں ہے ، اور نہ ہی ہمام کی روایت میں ہے اور نہ ہی محمد بن سیرین کے طریق میں ہے۔جس سے ظاہر ہے کہ اس کا اضافہ  معنوی طور پر ہے

 ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ یونس بن جبیر رحمہ اللہ نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی طلاق حیض کو شمار کریں گے؟ تو انہوں نے جو جواب دیا مذکورہ روایات کی روشنی میں اس کے مجموعی الفاظ یہ ہیں:
 ”فمه، ما يمنعه ومالي لا أعتد بها نعم أرأيت إن عجز واستحمق“ 
 ”تو پھر کیا ؟ اس سے کیا مانع ہے ؟ ہاں ! اور میں کیوں اسے شمار نہ کروں؟ اگر عاجزی اور ناسمجھی سے ہی ایسا ہوجائے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟“ 

تیسرے شاگرد سالم بن عبد الله:
سالم بن عبداللہ سے یہ روایت ”امام زہری“ نے نقل کی ہے پھر ان سے دو طریق سے یہ روایت مروی ہے :
طریق محمد بن عبد الله الزهري
طریق محمد بن الوليد الزبيدي
❀ پہلا طریق : محمد بن عبد الله الزهري
اس طریق کو ”محمد بن عبد الله الزهري“ سے ”يعقوب بن إبراهيم“ نے بیان کیا ہے پھر ان سےان کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
روایت عبدبن حمید:
”وكان عبد الله طلقها تطليقة واحدة، فحسبت من طلاقها، وراجعها عبد الله كما أمره رسول الله“ [صحيح مسلم رقم 1471]
روایت امام احمد:
 ”وكان عبد الله طلقها تطليقة ، فحسبت من طلاقها وراجعها عبد الله كما أمره“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 130وإسناده صحيح]
روایت محمدبن یحیی:
 ”وكان عبد الله طلقها تطليقة، فحسب من طلاقها وراجعها عبد الله كما أمره رسول الله“ [مستخرج أبي عوانة رقم 4511 وإسناده صحيح]

❀ دوسراطریق : محمد بن الوليد الزبيدي
اس طریق کو ”محمد بن الوليد الزبيدي“ سے ان کے شاگرد ”محمد بن حرب“ نے بیان کیا ہے پھر ان سےان کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
روایت يزيد بن عبد ربه : ”قال ابن عمر: فراجعتها، وحسبت لها التطليقة التي طلقتها“ [صحيح مسلم رقم 1471]
روایت كثير بن عبيد : ”قال عبد الله بن عمر: فراجعتها وحسبت لها التطليقة التي طلقتها“ [سنن النسائي رقم 3391 وإسناده صحيح]

یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام زہری کے دونوں شاگردوں ”محمد بن عبد الله الزهري“ اور ”محمد بن الوليد الزبيدي“ کی روایت میں اختلاف ہے پہلے نے سالم کا اپنا قول نقل کیا ہے جبکہ دوسرے نے سالم کے ذریعہ ابن عمر کا قول نقل کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ سالم نے کبھی اس روایت پر خود کا تبصرہ پیش کیا ہے اور کبھی ابن عمر کا قول نقل کیا ہے ۔
لیکن جس روایت میں ابن عمر کا قول ذکر کیا ہے اس میں ”فراجعتها“ کے بعد ”وحسبت لها التطليقة التي طلقتها“ کے جو الفاظ ذکر کئے ہیں یہ دراصل معنوی طور پر وہی جواب ہے جسے ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو دیا تھا ۔جیساکہ مسلم کی درج ذیل روایت سے واضح ہے:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
 ”حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا خالد بن عبد الله، عن عبد الملك، عن أنس بن سيرين، قال: سألت ابن عمر عن امرأته التي طلق، فقال: طلقتها وهي حائض، فذكر ذلك لعمر، فذكره للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «مره فليراجعها، فإذا طهرت فليطلقها لطهرها»، قال: «فراجعتها، ثم طلقتها لطهرها»، قلت: فاعتددت بتلك التطليقة التي طلقت وهي حائض؟ قال: «ما لي لا أعتد بها، وإن كنت عجزت واستحمقت»“ 
 ”انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی اس بیوی کے بارے میں پوچھا جسے انہوں نے طلاق دیاتھا ، تو انہوں نے کہا: میں نے اسے حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سے کہو کہ اپنی بیوی واپس لیں ، پھر جب وہ پاک ہوجائے تو اس کی پاکی میں اسے طلاق دے سکتے ہیں ، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : پھر میں نے اسے واپس لیا اور اس کی طہر کی حالت میں اسے طلاق دیا۔
میں (انس بن سیرین) نے کہا: کیا آپ نے اس طلاق کو شمار کیا جسے آپ نے اس کی حیض کی حالت میں دیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا: میں کیوں نہ اسے شمار کروں گرچہ مجھ سےعاجزی اور ناسمجھی سرزد ہوئی ؟“ [صحيح مسلم 3/ 1097 رقم 1471]
اس روایت میں دیکھئے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں صرف ”فراجعتها“ کہہ کر صرف اپنی بیوی واپس لینے کاذکرکیا ، اس کے بعد جب ان سے اس طلاق کو شمار کرنے سے متعلق سوال ہوا تو انہیں نے کہا کہ میں اسے کیوں نہ شمار کروں ۔
معلوم ہو اکہ سالم بن عبداللہ نے بھی معنوی طور پر وہی بات ذکر کی ہے جسے ان کے دونوں شاگرد انس بن سیرین اور یونس بن جبیر نے ذکرکیا ہے۔

قارئین کرام!
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ جو ان کے تین شاگردوں ➊ انس بن سیرین ➋ یونس بن جبیر اور➌ سالم بن عبد الله  نے نقل کئے وہ پوری تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے ہیں ، ان الفاظ پر غور کرنے سے درج ذیل چیزیں سامنے آتی ہیں:
الف: 
ابن عمررضی اللہ عنہ کے جواب میں سختی  ظاہر ہے ۔
ب:
 ابن عمررضی اللہ عنہ کی کسی بھی روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے عہد رسالت میں ہی اپنی حیض والی طلاق  کو شمار کرلیا تھا بلکہ شاگردوں کے سوال وجواب سے صاف واضح ہے کہ جب شاگردوں کے سوالات سامنے آئے تو ان  کے جوابات میں انہوں نے اپنی طلاق حیض کو شمار کیا ۔
ج:
ابن عمررضی اللہ عنہ سے یہ سوال کئی بار ہوا لیکن انہوں نے  جواب میں کسی بھی دفعہ  کوئی مرفوع حدیث نہیں پیش کی ہے ، بلکہ محض اپنی رائے پیش کی ہے، اور اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قطعا منسوب نہیں کیا ہے۔
د:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طلاق حیض کو قطعا شمار نہیں کیا تھا اگر ایسا ہوتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ صرف ایک بار پوچھنے پر ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کردیتے ، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ کسی مسئلہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ ایسا جواب رکھتے ہوں جس پر ان کے علم میں صریح نص حدیث بھی موجود ہو ، پھر بھی وہ جواب پیش کرتے ہوئے نص حدیث کو چھوڑ کر محض اپنی رائے اورقیاس پیش کریں وہ بھی صرف ایک بارنہیں بلکہ ہر بار سوال پوچھے جانے پر ایسا ہی کریں۔

اب اگلی سطور میں وہ اقوال دیکھئے جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے اپنے اقوال نہیں ہے اور نہ ہی ان کے واسطے سے نقل کئے گئے ہیں بلکہ یہ ان کے شاگردوں یا بعد کے راوی کے الفاظ ہیں:

سالم بن عبد الله کے الفاظ
سالم نے دوسری روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ اپنے الفاظ میں کہا ہے:
”وكان عبد الله طلقها تطليقة واحدة، فحسبت من طلاقها، وراجعها عبد الله كما أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم“
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق دی تھی ، اور ان کی طلاق شمار کی گئی ، اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو واپس لیا جیساکہ انہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیاتھا“[صحيح مسلم رقم 1471]
یہ عبداللہ بن عمررضی اللہ کے الفاظ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے واسطے سے بیان کی ہوئی بات ہے بلکہ یہ سالم بن عبداللہ کا مرسل بیان ہے ۔
نافع مولی ابن عمر کے الفاظ
نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ اپنے الفاظ میں کہا ہے:
”قال عبيد الله: قلت لنافع: ما صنعت التطليقة؟ قال: واحدة اعتد بها“
”عبیداللہ نے کہا: میں نے نافع سے پوچھا: اس طلاق کا کیا ہوا؟ تو نافع نے جواب دیا: یہ ایک طلاق تھی جسے شمار کیا گیا“[صحيح مسلم رقم 1471]
اس میں بھی وہی بات ہے یعنی یہ نافع کا اپنا بیان ہے جو مرسل ہے ، کیونکہ اس کے لئے انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ہے۔

عبيد الله العدوي کے الفاظ
عبيد الله العدوي نے اس واقعہ کی اصل روایت  ابن عمررضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت نہیں کی ہے بلکہ نافع کے واسطے نقل کی ہے، اس لئے اس روایت میں یہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگرد نافع کے شاگرد ہیں ، لیکن انہوں نے یہ قول نافع یاکسی بھی واسطے سے نقل نہیں کیا ، بلکہ اپنے الفاظ میں براہ راست بیان کرتے ہوئے کہا ہے جیساکہ ان سے نچلے راوی نے کہا:
 ”قال عبيد الله: وكان تطليقه إياها في الحيض واحدة غير أنه خالف فيها السنة“
”عبیداللہ کہتے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے حالت حیض میں جو طلاق دی تھی ایک طلاق تھی یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس میں سنت کی مخالفت کی تھی“ [ مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص 49]
یہ عبیداللہ کا قول ہے جو اس روایت میں ابن عمر کے شاگرد( نافع) کے شاگرد ہیں۔

مؤخرالذکر ان تینوں اقوال میں سے کوئی بھی قول ابن عمررضی اللہ عنہ کا نہیں ہے بلکہ ان کے شاگردوں کا یا ان کے شاگرد کے شاگرد کا بیان ہے۔

No comments:

Post a Comment