دعوائے اجماع کی تردید - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-25

دعوائے اجماع کی تردید


پچھلا
  دعوائے اجماع کی تردید
طلاق حیض کے وقوع پر دعوائے اجماع کی تردید کے لئے یہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ اجماع ظنی والا ہے جس کا کوئی ثبوت   نہیں ہے ۔دوسرے یہ کہ اس مسئلے میں اختلاف بھی ثابت ہے اور اہل علم نے اختلاف کی صراحت بھی کی ہے ۔
بعض صحابہ کا موقف:
چناچنہ ابن عمررضی اللہ عنہ کا ابھی یہ فتوی گذرا ہے کہ انہوں نے طلاق حیض کو شمار نہ نہ کرنے کا فتوی دیا ہے ۔ اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتوی بھی گذشتہ صفحات میں گذرچکا ہے کہ وہ بھی طلاق حیض کے وقوع کے قائل نہ تھے ۔
بعض لوگ عہد صحابہ وتابعین میں طلاق حیض کے وقوع پر اجماع کا دعوی درج ذیل روایت کی بنیاد پر کرتے ہیں:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن الثوري، عن ليث، عن الشعبي، عن شريح أن رجلا طلق امرأته ثلاثا وهي حائض، أتعتد بعد هذه الحيضة ثلاث حيض، ولا تحتسب بهذه الحيضة التي طلقها فيها؟ فقال: هو الذي الناس عليه“ 
”قاضی شریح سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاق دے دی ، تو کیا وہ اس حیض کے بعد تین حیض عدت گذارے گی ، اور اس حیض کو شمار نہیں کرے گی جس میں اسے طلاق دی گئی ہے ؟ تو انہوں نے کہا: یہ لوگوں کا موقف ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 311]
یہ قول قاضی شریح سے ثابت ہی نہیں ہے۔
سند میں ”الليث بن أبى سليم“ ہے ، اور یہ ضعیف راوی ہے ، دیکھئے ہماری کتاب [یزید بن معاویہ ص527 تا 529]
لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ عہد صحابی میں اس مسئلہ میں اختلاف تھا جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ کے اقوال کی طرف اشارہ گذرا ، نیز آگے ابن حجررحمہ اللہ کی بھی وضاحت آرہی ہے کہ صحابہ میں اس مسئلہ میں اختلاف تھا۔
بعض تابعین کا موقف
اور صحابہ کے بعد تابعین ودیگر ائمہ و اہل علم میں سے بھی بہت سے لوگوں کی طرف یہی قول منسوب ہے ان میں سرفہرست مدینہ کے فقہاء سبعہ ہیں جو کبار تابعین ہیں ، چنانچہ:
أبو الحسن علي بن محمد بن محمد بن حبيب البصري البغدادي، الشهير بالماوردي (المتوفى 450 ) نے کہا:
”طلاق البدعة في حيض أو في طهر مجامع فيه. فهو محظور محرم بوفاق. واختلف في وقوعه مع تحريمه...وحكي عن ابن علية والسبعة وبعض أهل الظاهر أنه غير واقع“ 
 ”طلاق بدعت یہ ہے کہ حالت حیض میں یا جماع والے طہر میں طلاق دی جائے اور یہ بالاتفاق حرام وناجائز ہے اور اس کے حرام ہونے کے باوجود اس کے وقوع میں اختلاف ہے ، ابن علیہ اور فقہاء سبعہ اور بعض اہل ظاہر سے منقول ہے کہ اس طرح کی طلاق واقع نہیں ہوتی“ [الحاوي الكبير 10/ 115 وانظر: بحر المذهب للروياني 10/ 6]
اور فقہاء سبعہ درج ذیل ہیں :
 سعيد بن المسيب القرشى(المتوفی90) رحمہ اللہ
أبو عبد الله عروة بن الزبير المدنى (المتوفی94) رحمہ اللہ
عبيد الله بن عبد الله بن عتبة الهذلى(المتوفی94) رحمہ اللہ
أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف القرشى(المتوفی94) رحمہ اللہ
سليمان بن يسار الهلالى المدنى (المتوفی100) رحمہ اللہ
 خارجة بن زيد بن ثابت الأنصارى(المتوفی100) رحمہ اللہ
قاسم بن محمد بن أبي بكرالمدنى (المتوفی106) رحمہ اللہ

اور سعید ابن المسیب کا قول الگ سے بھی نقل کیا گیا ہے چنانچہ:
امام أحمد بن محمد بن إبراهيم الثعلبي (المتوفى 427 ) سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
 ”لا يقع لأنّه خلاف ما أمروا“ ، ”یہ طلاق واقع نہیں ہوتی ہے کیونکہ یہ کتاب وسنت کے حکم کے خلاف ہے“ [تفسير الثعلبي 9/ 332]
امام القرطبي رحمه الله (المتوفى671) سعید ابن المسیب سے نقل کرتے ہیں کہ:
 ”لا يقع الطلاق في الحيض لأنه خلاف السنة“ ، ”حیض کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ، کیونکہ یہ خلاف سنت ہے“[تفسير القرطبي، ت أحمد: 18/ 151]

ان کے علاوہ دو اور تابعین خلاس بن عمرو رحمہ اللہ المتوفی(قبل100) اور طاووس بن كيسان اليمانى(المتوفی106) رحمہ اللہ سے بھی یہی قول منقول ہےچنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
 ”وفيها خلاف قديم عن طاوس وعن خلاس بن عمرو وغيرهما أنه لا يقع ومن ثم نشأ سؤال من سأل بن عمر عن ذلك“
 ”اس مسئلہ میں طاووس اور خلاس بن عمرو وغیرہما سے قدیم اختلاف ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ، اسی وجہ سے وہ سوال پیدا ہوا جسے ابن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 351]

یہاں ملاحظہ کیجئے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس مسئلہ میں اختلاف کو بہت قدیم بتارہے اور دوسرے اقوال کے لئے تابعین کا حوالہ دے رہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس بابت پوچھے جانے والے سوالات کی وجہ ہی یہی بتارہے ہیں کہ اس مسئلہ میں اختلاف تھا۔
لہٰذا عہد صحابہ وتابعین کے بعد جن اہل علم نے اجماع کا دعوی کا ہے ان کا دعوی اجماع قطعی نہیں بلکہ اجماع ظنی کا ہے اور وہ بھی درست نہیں ہے۔

طلاق حیض کے وقوع پر دیگر اہل علم کے اقوال:
اب آگے کچھ اور اہل علم کے اقوال دیکھیں جو طلاق حیض کو واقع نہیں مانتے ہیں۔

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) کا قول:
آپ  فرماتے ہیں:
”من أراد طلاق امرأة له قد وطئها: لم يحل له أن يطلقها في حيضتها، ولا في طهر وطئها فيه فإن طلقها طلقة أو طلقتين في طهر وطئها فيه، أو في حيضتها: لم ينفذ ذلك الطلاق وهي امرأته كما كانت“ 
 ”جو شخص اپنی مدخولہ بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرے وہ اس کی حیض والی حالت میں طلاق نہیں دے سکتا ، اور نہ ہی ایسے طہر میں جس میں اس کے ساتھ ہمبستری کی ہو ، اگر وہ اسے ایک یا دو طلاق اس طہر میں دے دے جس میں اس سے ہمبستری کی ہو یا اس کی حیض والی حالت میں اسے طلاق دے دے، تو یہ طلاق نافذ نہیں ہوگی اور وہ عورت اس کی اسی طرح بیوی رہے گی جیسے پہلے تھی“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 363]
بعض مالکیہ کا قول:
مذہب مالکی کے بعض ائمہ کا بھی یہی قول ہے کہ طلاق حیض واقع نہیں ہوتی ہے چنانچہ:
خليل بن إسحاق المالكي المصري (المتوفى776) کہتے ہیں:
”وبذلك ‌قال ‌بعض ‌البغداديين“ 
 ”اورطلاق حیض کے عدم وقوع کی بات بعض بغدادی مالکیہ نے بھی کہی ہے“ [ التوضيح في شرح مختصر ابن الحاجب:4 / 315]

ابن ناجي التنوخي (المتوفى 837 ) فرماتے ہیں:
”وشذ بعض التابعين في قوله بعدم اللزوم إذا طلق في الحيض قال خليل: وبذلك قال بعض البغداديين“ 
 ”اور بعض تابعین نے یہ شاذ قول اختیار کیا ہے کہ جب کوئی حالت حیض میں طلاق دے گا تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی ،اور خليل بن إسحاق نے کہا کہ : یہی قول بعض بغدادی مالکیہ کا بھی ہے“ [شرح ابن ناجي على متن الرسالة 2/ 51]

 ابن عقيل البغدادي الحنبلی، (المتوفى: 513 ) کا قول:
شيخ الحنابلہ ابن عقيل البغدادي الحنبلی، (المتوفى: 513 ) کا بھی یہی موقف ہے ، چنانچہ نھی فساد کو مستلزم ہے یا نہیں اس مسئلہ میں آپ نے مخالف کا استدلال نقل کیا جس میں طلاق حیض اور اذان کے وقت بیع وغیر ہ کی بات تھی اس کے بعد فرمایا:
”وأما استشهادُهم بالبَيْعِ وقتَ النداءِ، وغيرِ ذلك من المسائلِ، فلا نُسلمه، بل جميعُ ذلك يقتضي الفَساد“
 ”اور انہوں نے اذان کے وقت بیع اور اس طرح کے دیگر جن مسائل سےاستدلال کیا ہے تو غیرمقبول ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں فساد ہی کا تقاضا کرتی ہیں“[الواضح في أصول الفقه 3/ 250]

ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763) لکھتے ہیں:
”ومنع ابن عقيل في الواضح في مسألة النهي ‌وقوعه ‌في ‌حيض، لأن النهي للفساد“
”ابن عقیل نے اپنی کتاب واضح میں نھی کے مسئلے میں طلاق حیض کے وقوع کا انکار کیا ہے کیونکہ نھی فساد کے لئے ہوتی ہے“[ الفروع وتصحيح الفروع: 9/ 19]

امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”وهذا اختيار ابن عقيل في كتابه «‌الواضح في اصول الفقه» صرح به في مسالة النهي يقتضي الفساد“ 
 ”ابن عقیل نے اپنی کتاب « ‌الواضح في اصول الفقه» میں اسی بات (طلاق حیض کے عدم وقوع) کو اختیار کیا ہے جیساکہ نھی فساد کی متقاضی ہے اس مسئلہ میں انہوں نے اس کی صراحت کی ہے“ [ إغاثة اللهفان ص63]

 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفى728) کا قول:
آپ بھی طلاق حیض کو واقع نہیں مانتے ہیں دیکھئے [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 72، 98 تا101]
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751)  کا قول:
آپ بھی طلاق حیض کو واقع نہیں مانتے ہیں دیکھئے [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 6/ 165]
امير صنعاني رحمه الله (المتوفي1182) کا قول:
آپ بھی طلاق حیض کو واقع نہیں مانتے ہیں دیکھئے [سبل السلام 3/ 359]
امام شوكاني رحمه الله (المتوفى1250)کا قول:
آپ بھی طلاق حیض کو واقع نہیں مانتے ہیں دیکھئے [الدراري المضيَّة 2/ 10]
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ (المتوفی1307) کا قول:
آپ بھی طلاق حیض کو واقع نہیں مانتے ہیں دیکھئے [الروضة الندية 2/ 48]

بعض معاصرین کا موقف:
عصر حاضر کے درج ذیل اہل علم کا بھی یہی فتوی ہے کہ طلاق حیض واقع نہیں ہوتی ہے۔
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ [ نظام الطلاق في الإسلام ص 19]
شیخ بن باز رحمہ اللہ [مجموع فتاوى الشيخ عبدالعزيز بن باز 21/ 280] 
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ [ثمرات التدوين من مسائل ابن عثيمين مسألة 471] 
شیخ محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ [تنویر الآفاق فی مسئلۃالطلاق: ص 342]
شيخ عبد الرزاق عفيفي [ فتاوى اللجنة الدائمة 20/ 58]
شیخ علی الخفیف رحمہ اللہ [فرق الزواج في المذاهب الإسلامية: ص 40]






No comments:

Post a Comment