پچھلا
چھٹی دلیل
طلاق حیض کے وقوع پر عقلی اور قیاسی دلائل کا جائزہ
ظہار وغیرہ کی مثال:
بعض لوگ عقلی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالت حیض میں گرچہ طلاق دینا حرام ہے لیکن اس کا حرام ہونا اس کے اثر کر اور اس پر لگنے والے حکم کو ختم نہیں کرسکتا جیسا کہ ظہار کا معاملہ کہ یہ حرام ہے لیکن اس حرام کے ارتکاب سے اس کا اثر ہوتا ہے اور اس سے ظہار کرنے والے کی عورت تب تک کے لئے حرام ہوجاتی ہے جب تک کہ وہ کفارہ نہ ادا کرے ، یہی معاملہ طلاق بدعی کا ہے کہ یہ گرچہ حرام ہے لیکن اس کا اثر ہوگا ۔
عرض ہے کہ :
اولا:
یہ قیاس ہے اور نص کی موجودگی میں قیاس باطل ہے، اور طلاق حیض کے عدم وقوع پر نص موجودہے۔
ثانیا:
اس کے عین معارض قیاس بھی موجود ہے مثلا حالت احرام میں نکاح حرام ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہے ، یعنی حالت احرام میں نکاح کرنے سے نکاح نہیں مانا جاتا ۔
عورت عدت میں ہو تو اس سے نکاح حرام اور ناجائز ہے ، اور اگر کسی نے اس دوران ایسی عورت سے نکاح کرلیا تو اس نکاح باطل ہوتا ہے ، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ، ایسے ہی حالت حیض میں بھی عورت كو طلاق دينا حرام ہے اس لئے اگر کسی نے اس حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیا تو اس کی طلاق باطل ہوگی اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔
لہٰذا تعارض قیاسین کے سبب مذکورہ قیاس باطل ہے ۔
ثالثا:
بعض افعال کی دو شکلیں حلال اور حرام ہوتی ہیں ، جیسے نکاح اور بیع کا مسئلہ ہے۔ اس لئے ان افعال میں فعل حلال ہوگا تو اس کا اثر ہوگا اور فعل حرام ہوگا تواس کا اثر نہیں ہوگا۔
اور بعض افعال کی صرف اور صرف ایک شکل حرام کی ہوتی ہے، جیسے مرتد ہونا یا اجنبی عورت پر تہمت لگانا ، اس لئے اس کا جو بھی اثر ہے وہ اس کے ساتھ لازم وملزوم ہوتا ہے۔
اب ظہار پر غور کریں تو اس میں حلال اور حرام کی دو شکل نہیں ہے بلکہ یہ صرف اور صرف حرام ہے ، اس لئے یہ ارتداد اور تہمت وغیرہ جیسے ان افعال کی طرح ہے جس کا اثر اس کے ساتھ لازم وملزوم ہوتاہے ۔
جبکہ طلاق میں دو شکل ہے ایک حلال اور ایک حرام کی ، اس لئے طلاق یہ نکاح اور بیع وغیرہ جیسے ان افعال کی طرح ہے جن میں حلال اور حرام کی دونوں شکلیں ہوتی ہیں اور حلال کی صورت میں اس کا اثر ہوتاہے اور حرام کی صورت میں اس کا اثر نہیں ہوتاہے ۔
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”وأما قولكم: إن تحريمه لا يمنع ترتب أثره عليه، كالظهار، فيقال أولا: هذا قياس يدفعه ما ذكرناه من النص، وسائر تلك الأدلة التي هي أرجح منه، ثم يقال ثانيا: هذا معارض بمثله سواء معارضة القلب بأن يقال: تحريمه يمنع ترتب أثره عليه كالنكاح، ويقال ثالثا: ليس للظهار جهتان: جهة حل، وجهة حرمة، بل كله حرام، فإنه منكر من القول وزور، فلا يمكن أن ينقسم إلى حلال جائز، وحرام باطل، بل هو بمنزلة القذف من الأجنبي والردة، فإذا وجد لم يوجد إلا مع مفسدته، فلا يتصور أن يقال: منه حلال صحيح، وحرام باطل، بخلاف النكاح والطلاق والبيع، فالظهار نظير الأفعال المحرمة التي إذا وقعت قارنتها مفاسدها، فترتبت عليها أحكامها، وإلحاق الطلاق بالنكاح والبيع والإجارة والعقود المنقسمة إلى حلال وحرام وصحيح وباطل أولى“
”تمہارا یہ کہنا کہ طلاق کا حرام ہونا اس کے اثر کے مرتب ہونے سے مانع نہیں ہے جیسے ظہار کا معاملہ ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ : اولا: یہ قیاس ہمارے ذکرکردہ نصوص کے خلاف ہے اس لئے مردود ہے،لہٰذا ان تمام نصوص کو ہی ترجیح دی جائے گی ۔ ثانیا: یہ قیاس اسی جیسے قیاس کے معارض ہے جسے (جدل ومناظرہ کی اصطلاح میں) معارضہ قلب کہا جاتا ہے ۔کیونکہ ہم بھی قیاس کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ طلاق کا حرام ہونا اس کے اثر کے مرتب ہونے سے مانع نہیں ہے جیسے نکاح کا معاملہ ہے ۔ ثالثا: ظہار میں حلال اور حرام کی دو شکل نہیں ہوتی ہے ، بلکہ یہ ہرطرح حرام ہی ہے کیونکہ یہ منکر اور زیادتی ہے ۔اس لئے اسے حلال جائز اور حرام باطل میں تقسیم نہیں کرسکتے بلکہ یہ اجنبی کی تہمت اور ردت کی طرح ہے ، اس لئے اس طرح کا فعل جب پایا جائے گا تو اس کا برا اثر بھی لازما پایا جائے گا ، لہٰذا ان سے متعلق یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی فعل حلال اور صحیح ہے یا حرام اورباطل ہے ، برخلاف نکاح ، طلاق اور بیع کے ۔ تو ظہار ان حرام افعال کی طرح ہے کہ جب وہ واقع ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کا برا اثر لازم وملزوم ہوتا ہے، اس لئے اس پر حکم بھی مرتب ہوتا ہے ۔ اور طلاق کو نکاح ، بیع ، اجارہ اور عقود جیسے معاملات ساتھ شامل کرنا ہی راجح ہے جن کی حلال اور حرام نیز صحیح اور باطل دونوں شکلیں پائی جاتی ہیں“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 218]
طلاق بدعت پر لفظ طلاق کے استعمال سے استدلال :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ طلاق بدعت کے لئے بھی لفظ طلاق استعمال ہوا ہے یہ دلیل ہے کہ ایسی طلاق شمار ہوگی تبھی تو اس کے لئے بھی طلاق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حرام تجارت کو منع کرتے ہوئے لفظ بیع اور ماں سے شادی کو منع کرتے ہوئے لفظ نکاح اور عید کے دن روزہ سے منع کرتے ہوئے لفظ صوم استعمال کیا گیاہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ایسی تجارت ، ایسی شادی ، ایسے روزہ پر کوئی عمل کرلے تو اس کا عمل صحیح شمار ہوگا ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حرام شادی اور تجارت سے متعلق نصوص ذکرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”فتسميته لهذا نكاحا وبيعا لم يمنع أن يكون فاسدا باطلا“
”ایسی شادی اور ایسی تجارت کو نکاح اور بیع کا نام دینا اس بات سے مانع نہیں ہوسکتا کہ یہ شادی اور یہ تجارت فاسد اور باطل ہے“ [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 27]
زاہد کوثری صاحب کی فلسفہ سنجی کا جواب:
طلاق بدعت پر لفظ طلاق کے استعمال سے استدلال :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ طلاق بدعت کے لئے بھی لفظ طلاق استعمال ہوا ہے یہ دلیل ہے کہ ایسی طلاق شمار ہوگی تبھی تو اس کے لئے بھی طلاق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حرام تجارت کو منع کرتے ہوئے لفظ بیع اور ماں سے شادی کو منع کرتے ہوئے لفظ نکاح اور عید کے دن روزہ سے منع کرتے ہوئے لفظ صوم استعمال کیا گیاہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ایسی تجارت ، ایسی شادی ، ایسے روزہ پر کوئی عمل کرلے تو اس کا عمل صحیح شمار ہوگا ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حرام شادی اور تجارت سے متعلق نصوص ذکرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”فتسميته لهذا نكاحا وبيعا لم يمنع أن يكون فاسدا باطلا“
”ایسی شادی اور ایسی تجارت کو نکاح اور بیع کا نام دینا اس بات سے مانع نہیں ہوسکتا کہ یہ شادی اور یہ تجارت فاسد اور باطل ہے“ [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 27]
زاہد کوثری صاحب کی فلسفہ سنجی کا جواب:
زاہد کوثری صاحب طلاق کے عدم وقوع کی ایک عقلی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”علي أن القول ببطلان الطلاق في الحيض يجعل الطلاق بيد المراة حيث لايعلم الحيض والطهر إلا من جهتها ، فاذا طلق الرجل وقالت المراة إن الطلاق كان في الحيض يعيد الرجل الطلاق ويكرره في أوقات إلي أن تعترف بأن الطلاق كان في الطهر ، أو يسأم الرجل ويعاشرها معاشرة غير شرعية وهو يعلم أنه طلقها ثلاثا في ثلاثة أطهار وفي ذلك من المفاسد مالا يخفي علي متفقه“
”طلاق حیض کو باطل کہنے سے طلاق عورت کے ہاتھ میں ہوجاتی ہے ، کیونکہ عورت کے حیض یا طہر کو اسی کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے ، تو اگر کوئی آدمی طلاق دے اور بیوی یہ کہے کہ طلاق حیض کی حالت میں ہوئی ہے تو شوہر کو دوبارہ طلاق دینا پڑے گا اور اسے تب تک طلاق طلاق دہراتے رہنا پڑے گا جب تک کہ عورت اعتراف نہ کرلے کہ طلاق طہر میں تھی ، یا دل برداشتہ ہوکر اس کے ساتھ غیر شرعی طریقہ پر گذار کرتا رہے جب کہ اسے پتہ ہے کہ وہ تین طہر میں تین طلاق دے چکا ہے ، اور اس میں وہ برائیاں ہیں جو کسی سمجھدار پر مخفی نہیں“ [الإشفاق في أحكم الطلاق ص 22،23]
عرض ہے کہ :
اولا:
پھر تو اس عقلی دلیل کی رو سے حالت حیض میں طلاق ناجائز نہیں بھی حلال اور جائز ہونا چاہئے۔کیونکہ شوہر بغیری بیوی سے پوچھ کر حالت حیض میں طلاق دینے سے بچ ہی نہیں سکتا۔
ثانیا:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب حیض کی حالت میں طلاق دی تھی ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو واپس لینے کا حکم دیا تھا ، اور یہ حکم دیا تھا ، اب دوسرے طہر میں ان کو طلاق دینا ، اب زاہد کوثری صاحب کی منطق سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا پابند کرنا بھی درست نہیں ہے ، کیونکہ انہیں اس پر عمل کرنے کے لئے بیوی کے اعتراف کا محتاج ہونا پڑے گا۔
ثالثا:
عورت پاک ہے یا ناپاک اسے عورت ہمیشہ نہیں چھپا سکتی ہے کیونکہ حیض کی حالت میں عورت فرض و نفل کوئی بھی نماز نہیں پڑھ سکتی ، لیکن اگر اس نے نماز پڑھنا شروع کردیا تو یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت پاک ہوچکی ہے ، ہاں جن کی بیویاں بے نمازی ہوں انہیں پوچھنا ہی پڑے گا۔
رابعا:
عورت کے طہر یا حیض کی کیفیت کیسے معلوم کرکے کیسے طلاق دی جاتی ہے اس کا ایک واضح طریقہ صحابی رسول عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عمل کرکے بتادیا ہے ، یہ مکمل واقعہ آگے آرہاہے ۔ دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ
No comments:
Post a Comment