پچھلا
نویں حدیث : حدیث عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”أخبرنا عارم بن الفضل، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع، وسعد بن إبراهيم، أنه طلقها ثلاثا يعني عبد الرحمن بن عوف لتماضر فورثها عثمان منه بعد انقضاء العدة“
”نافع اور سدبن ابراہیم کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی تماضر کو تین طلاق دے دی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی کو عدت کے بعد ان کا وارث بنایا“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 8/ 299]
یہ روایت منقطع ہے ، سعید بن ابراہیم کی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے۔
امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) نے کہا:
”سعد بن إبراهيم لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم“
”سعدبن ابراہیم کی صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی ملاقات نہیں ہے“ [تاريخ دمشق لابن عساكر: 20/ 209 وإسناده صحيح]
نیز عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات 32 ہجری میں ہوئی ہے [تهذيب الكمال للمزي: 17/ 328]
اور نافع مولی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی وفات 116 ہجری یا اس کے تین چار سال بعد ہوئی ہے [تهذيب الكمال للمزي: 29/ 305]
درمیان میں کم وبیش 80 سے بھی زائد سال کافاصلہ ہے۔ اور نافع کی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے معاصرت یا ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے
نیز اس روایت میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے یہ تین طلاق ایک ساتھ ہی دی تھی ، جبکہ دیگر صحیح روایت میں یہ صراحت آگئی ہے کہ عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ الگ الگ وقت طلاق دی تھی ، اور وفات سے پہلے جو طلاق دی تھی وہ آخری بچی ہوئی علیحدہ طلاق تھی ، چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”أخبرنا محمد بن مصعب القرقساني، حدثنا الأوزاعي، عن الزهري، عن طلحة بن عبد الله، أن عثمان بن عفان ورث تماضر بنت الأصبغ الكلبية من عبد الرحمن وكان طلقها في مرضه تطليقة وكانت آخر طلاقها“
”طلحہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تماضربنت اصبغ کو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا وارث بنایا تھا ، اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی بیماری میں ایک طلاق تھی ، اور یہ آخری طلاق تھی“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 8/ 299]
اس کی سند ضعیف ہے لیکن اگلی صحیح روایت اس کی شاہد ہے جس سے مل کی یہ روایت بھی صحیح ہوجاتی ہے۔
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”أخبرنا يزيد بن هارون، أخبرنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن جده قال: كان في تماضر سوء خلق وكانت على تطليقتين فلما مرض عبد الرحمن جرى بينه وبينها شيء، فقال لها: والله لئن سألتني الطلاق لأطلقنك، فقالت: والله لأسألنك، فقال: إما لا فأعلميني إذا حضت وطهرت، قال: فلما حاضت وطهرت أرسلت إليه تعلمه، قال: فمر رسولها ببعض أهله فظن أنه لذلك فدعاه، فقال: أين تذهب؟ قال: أرسلتني تماضر إلى عبد الرحمن أعلمه أنها قد حاضت ثم طهرت، قال: ارجع إليها فقل لها: لا تفعلي فوالله ما كان ليرد قسمه فرجعت إليها فقلت لها فقالت: أنا والله لا أرد قسمي أبدا اذهبي إليه فأعلميه، قال: فذهبت إليه فأعلمته فطلقها“
”إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ (عبدالرحمن بن عوف ) کی بیوی تماضر کے اندر بدخلقی کی تھی اور عبدالرحمن بن عوف انہیں دو طلاق دے چکے تھے ، تو جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو ان کے اور ان کی بیوی کے بیچ جھگڑا ہوا ، تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! اگر تم مجھ سے طلاق چاہو تو میں تمہیں طلاق دینے کے لئے تیار ہوں ، تو ان کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے طلاق ہی چاہئے ، تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو جب تم حیض سے پاک ہوجانا تو بتادینا، چنانچہ جب ان کی بیوی حیض سے پاک ہوئی تو یہ خبر ان تک پہنچانے کے لئے ایک آدمی کو ان کے پاس بھیجا ، یہ خبر لانے والا جب عبدالرحمن بن عوف کے گھر کے ایک شخص کے پاس سے گذرا تو وہ سمجھ گئے وہ اسی وجہ سے آیا ہوگا ، تو انہوں نے اسے بلا یا اور پوچھا : کہاں جارہے ہو ؟ تو اس نے کہا : مجھے تماضر(عبدالرحمن بن عوف کی بیوی) نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں نے انہیں یہ بتادوں کہ ان کی بیوی تماضر حیض سے پاک ہوچکی ہیں ، تو انہوں نے کہا: تم تماضر کے پاس واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ : ایسا مت کریں کیونکہ اللہ کی قسم ! عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی قسم واپس نہیں لے سکتے ۔ پھر میں ان کی بیوی تماضر کے پاس آیا اور ان سے یہ بات کہی، تو اس پر ان کی بیوی نے کہا : اللہ کی قسم ! میں ہرگز اپنی قسم واپس نہیں لے سکتی ، اب ان کے پاس جاؤ اور انہیں بتادو ، پھر میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے اسے طلاق دے دیا“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 8/ 299وإسناده صحيح علي شرط الشيخين]
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”وصح عنه أنه ورث امرأة عبد الرحمن بن عوف الكلبية، وقد طلقها - وهو مريض - آخر ثلاث تطليقات“
”عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ روایت صحیح ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کا وارث بنایا اور انہوں نے اسے بیماری کی حالت میں طلاق دی تھی ، اور یہ تین طلاقوں میں سے آخری طلاق تھی“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 9/ 487]
أبو بكر الجصاص الحنفي (المتوفى 370) یہی روایت پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”فبين في هذا الحديث أنه لم يطلقها ثلاثا مجتمعة“
”تو اس حدیث یہ بیان آگیا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نےتینوں طلاقیں ایک ساتھ نہیں دی تھیں“ [أحكام القرآن للجصاص 1/ 464]
ابن التركماني حنفی رحمه الله (المتوفى750) نے بھی یہی بات کہی ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر بطور دلیل جب یہ کہا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی ، تو ابن التركماني حنفی رحمه الله (المتوفى750) نے امام شافعی کی پیش کردہ روایت کو ضعیف قرار دیا اور اس کے بعد کئی روایات پیش کرکے یہ بتا یا کہ عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ نے الگ الگ وقت میں تین طلاق دی تھی دیکھئے:[الجوهر النقي 7/ 330]
معلوم ہوا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آخری بار ایک ہی طلاق تھی ، لہٰذا جن روایات میں تین طلاق کی بات ہے اس سے الگ الگ وقت میں تین طلاق مراد ہے ، اسے ایک ہی وقت میں تین طلاق سمجھنا غلط ہے ، محمدبن راشد نامی راوی سے بھی یہی غلط فہمی ہوئی ہے اس نے تین طلاق کو ایک وقت میں سمجھ انداز ے اسی طرح روایت کردیا ، اس کی اسی طرح کی غلطیوں کے سبب ابن حبان رحمہ اللہ نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہم اور اندازے روایت بیان کردیا کرتے تھے ، چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”ثنا أبو أحمد محمد بن إبراهيم الجرجاني , نا عمران بن موسى بن مجاشع السختياني , نا شيبان بن فروخ , نا محمد بن راشد , عن سلمة بن أبي سلمة بن عبد الرحمن , عن أبيه , أن عبد الرحمن بن عوف «طلق امرأته تماضر بنت الأصبغ الكلبية وهي أم أبي سلمة ثلاث تطليقات في كلمة واحدة فلم يبلغنا أن أحدا من أصحابه عاب ذلك“
”ابوسلمہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی تماضر بنت الأصبغ -یہ ابوسلمہ کی ماں ہیں - کو ایک ہی جملے میں تین طلاق دی تو اس بارے میں ہمیں کوئی ایسی خبر نہیں پہنچی کہ کسی صحابی نے اسے معیوب جانا ہو“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 23 رقم 3921 ایضا 5/ 20 رقم 3917 وأخرجه البيهقي في سننه 7/ 329 من طريق محمد بن راشد به ]
یہ روایت ضعیف ہے ،سند میں موجود ”محمدبن راشد“ گرچہ سچے راوی ہیں مگر ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ:
خود امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”محمد بن راشد ضعيف عند أهل الحديث“ ، ”محمد بن راشد محدثین کی نظر میں ضعیف ہے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 4/ 231]
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
”ليس بالقوي“ ، ”یہ القوی نہیں ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 95]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
”كان من أهل الورع والنسك ولم يكن صناعة الحديث من بزه فكان يأتي بالشيء على الحسبان ويحدث على التوهم، فكثر المناكير في روايته واستحق ترك الاحتجاج به“
”یہ نیک اور پرہیزگار تھے ، لیکن حدیث میں ان کو مہارت نہیں تھی ، یہ گمان اور اندازے سے کچھ چیزیں بیان کردیتے تھے اور وہم کے شکار ہوکر بھی روایت کردیتے تھے ، اس لئے ان کی روایت میں منکر احادیث کی کثرت ہوگئی اور اس لائق ہوگئے ان سے احتجاج ترک کردیا جائے“ [المجروحين لابن حبان، ت حمدي: 2/ 262]
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
”محمد بن راشد ضعيف“ ، ”محمد بن راشد ضعیف ہے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 423]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
”صدوق يهم“ ، ”یہ صدوق ہیں اور وہم کے شکار ہوتے ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5875]
اور ان کی یہ بیان کردہ روایت صحیحین کی شرط پر ثابت ابن سعد والی مذکورہ روایت کے خلاف ہے ، لہٰذا یہ منکر اور ضعیف ہے۔
ابن التركماني حنفی رحمه الله (المتوفى750) نے بھی اس کی تضعیف ثابت کی ہے دیکھئے: [الجوهر النقي 7/ 330]
No comments:
Post a Comment