پچھلا
علی رضی اللہ عنہ کا اثر
علی رضی اللہ عنہ کی طرف صراحتا یہ فتوی منسوب ہے کی آپ ایک وقت میں دی گئی تین طلاق کو ایک طلاق مانتے تھے
امام ابن مغیث المتوفی (459) لکھتے ہیں:
”فقال علي ابن أبي طالب وا بن مسعود رضي الله عنهما: تلزمه طلقة واحدة وقاله ابن عباس رضي الله عنه...وقال مثله الزبير بن العوام وعبدالرحمن بن عوف رضي الله عنهما روينا ذلك كله عن ابن وضاح“
”علی بن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (بیک وقت تین طلاق دینےسے) ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی قول ہے...نیز یہی قول زبیر بن العوام اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کا بھی ہے ... ان سے یہ اقوال ہم نے ابن وضاح سے روایت کیا ہے“ [المقنع لابن مغیث : ص 80]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
”نقل عن علي وبن مسعود وعبد الرحمن بن عوف والزبير مثله نقل ذلك بن مغيث في كتاب الوثائق له وعزاه لمحمد بن وضاح“
”تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی علی ، ابن مسعود ، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، اسے ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں نقل کیا ہے اور محمدبن وضاح کی روایت کی طرف منسوب کیا ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 363]
لیکن اس فتوی کی سند دستیاب نہیں ہے۔
تاہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسی طرح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی دو سال تک امت کا جو اجماعی موقف تھا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی اس سے علی رضی اللہ عنہ کا اختلاف کرنا ثابت نہیں ہے۔
بعض حضرات کچھ ضعیف ومردود روایات پیش کرکے یہ دعوی کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ ایک وقت کی تین طلاق کو تین شمار کرتے تھے ذیل میں ان روایات کی پوزیشن ملاحظہ ہو:
✿ پہلی روایت:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
”أخبرنا أبو عمرو الرزجاهى حدثنا أبو بكر الإسماعيلى قال قرأت على أبى محمد إسماعيل بن محمد الكوفى حدثنا أبو نعيم الفضل بن دكين حدثنا حسن عن عبد الرحمن بن أبى ليلى عن على رضى الله عنه فيمن طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها قال : لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو دخول سے قبل تین طلاق دے دیا تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 334]
یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، سند میں موجود ”أبو محمد إسماعيل بن محمد الكوفى“ یہ ”أبو محمد إسماعيل بن محمد المزنی الكوفى“ ہے ۔امام ذہبی نے اسے أبو بكر الإسماعيلي کا استاذ اور ابونعیم کا شاکر بتلایا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار 6/ 920]
یہ بہت بڑا جھوٹا اور کذاب شخص تھا ۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے :
”كذاب“ ، ”یہ بہت بڑا جھوٹا ہے“ [كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ت الأزهري: ص: 85]
نیز أبو نعيم الفضل بن دكين کا استاذ حسن بھی نام معلوم کون ہے ۔
✿ دوسری روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا وكيع ، عن الأعمش ، عن حبيب ، قال : جاء رجل إلى علي ، فقال : إني طلقت امرأتي ألفا !قال : بانت منك بثلاث ، واقسم سائرهن بين نسائك“
”حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک شخص علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دی ہے ! اس پر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین طلاق سے تیری عورت جدا ہوگئی اور باقی طلاقوں کو تو اپنی دیگر بیویوں میں تقسیم کردے“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 13 واسنادہ ضعیف و منقطع واخرجہ ایضا الدارقطنی 5/ 38 من طریق فضيل بن عياض عن الأعمش بہ ]
یہ روایت ضعیف ہے اس میں تین علتیں:
اول:
اعمش ”عن“ سے روایت کررہے ہیں اوریہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں۔تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ : ص 339 تا 395۔
دوم:
”حبيب بن أبي ثابت الكوفي“ بھی تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 37]
اور یہاں انہوں نے اپنا ماخذ بتایا ہی نہیں ہے۔
سوم:
”حبيب بن أبي ثابت“ کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے چنانچہ:
امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) نے کہا:
”حبيب بن أبي ثابت ، لقي ابن عباس ، وسمع من عائشة ، ولم يسمع من غيرهما من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم“
”حبيب بن أبي ثابت نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ہے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ سےسنا ہے اور ان دو صحابہ کے علاوہ کسی اور صحابی سے انہوں نے نہیں سنا ہے“ [العلل لابن المديني، ت الأزهري: ص: 113 وانظر: جامع التحصيل للعلائي: ص: 158،تحفة التحصيل في ذكر رواة المراسيل ص: 60]
✿ تیسری روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا ابن فضيل ، عن الأعمش ، عن حبيب ، عن رجل من أهل مكة ، قال : جاء رجل إلى علي فقال : إني طلقت امرأتي ألفا ؟ قال : الثلاث تحرمها عليك ، واقسم سائرهن بين أهلك“
”حبیب بن ابی ثابت مکہ کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دی ہے ! اس پر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین طلاقیں تیری بیوی کو تجھ پر حرام کرتی ہیں اور باقی طلاقوں کو تو اپنی دیگر بیویوں میں تقسیم کردے“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 14 واسنادہ ضعیف واخرجہ ایضا البیھقی فی السنن الكبرى 7/ 547 من طریق أبی نعيم عن الأعمش بہ]
یہ وہی ماقبل والی روایت ہے اس میں حبیب نے اپنے سے اوپر کا واسطہ ذکر کیا ہے لیکن نام نہیں بتایا ، یہ روایت بھی تین وجوہات کے سبب ضعیف ہیں ۔
پہلی اور دوسری وجہ تو وہی ہے جس کا ذکر ماقبل میں ہوچکا ۔
اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ”حبیب بن ابی ثابت“ نے جس شخص کے واسطے سے یہ روایت بیان کی ہے اس کانام نہیں بتایا لہٰذا اس شخص کا مجہول ہونا بھی اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک وجہ ہے۔
✿ چوتھی روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا حاتم بن إسماعيل ، عن جعفر ، عن أبيه ، عن علي قال : إذا طلق البكر واحدة فقد بتها ، وإذا طلقها ثلاثا لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب کوئی شخص باکرہ (غیرمدخولہ) کو ایک طلاق دے تو وہ طلاق بائن ہوگی اور جب تین طلاق دے دے تو اس کے لئے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ کسی اور سے بھی شادی نہ کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 22 اسنادہ منقطع واخرجہ البیھقی فی السنن الكبرى ط الهند: 7/ 335 من طریق أبی نعيم عن حاتم بن إسماعيل نحوہ]
یہ روایت منقطع ہونے کے سبب ضعیف ہیں کیونکہ جعفر کے والد ”محمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب أبو جعفر الباقر“ کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے ۔بلکہ یہ تو علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے سولہ ( 16) سال بعد پیدا ہوئے ہیں علی رضی اللہ عنہ کی وفات رمضان سن 40 ہجری میں ہوئی ہے چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
”مات في رمضان سنة أربعين“ ، ”علی رضی اللہ عنہ کی وفات رمضان سن 40 ہجری میں ہوئی ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4753]
اور محمد بن على بن الحسين کی پیدائش سن 56 ہجری میں ہوئی چنانچہ:
امام صفدي رحمه الله (المتوفى764) نے کہا:
”مولده سنة ست وخمسين“ ، ”ان کی تاریخ پیدائش سن 56 ہجری ہے“ [الوافي بالوفيات للصفدي: 4/ 77]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہی تاریخ پیدائش ثابت کی ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 9/ 351]
معلوم ہوا کہ ”محمد بن على بن الحسين“ کا علی رضی اللہ عنہ سے سننا محال و ناممکن ہے اسی لئے محدثین نے پوری صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ م ”حمد بن على بن الحسين“ کی علی رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل یعنی منقطع ہے چنانچہ:
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
”محمد بن علي بن الحسين، عن علي، مرسل“ ، ”محمد بن على بن الحسين کی علی رضی اللہ عنہ سے رویت مرسل (منقطع) ہے“ [المراسيل لابن أبي حاتم ت قوجاني: ص: 185 واسنادہ صحیح]
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
”حديث جعفر عن أبيه عن على مرسل“ ، ”جعفرکے والد محمد بن على بن الحسين کی علی رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل (منقطع) ہے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 6/ 122]
امام ذهبي (المتوفى748) اور امام علائی (المتوفى:761) وغیرہما نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھیں:[سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 401، جامع التحصيل للعلائي: ص: 266، تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 9/ 352]
معلوم ہوا کہ یہ روایت صریح اور واضح طور پر منقطع ہے ،شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”منقطع ابو جعفر لایروی عن علی“
”یہ روایت منقطع ہے ابوجعفر( محمد بن علي بن الحسين) علی سے (ڈائریکٹ) روایت نہیں کرتے“ [مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 10/ 120 حاشہ 4]
✿ پانچویں روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا حميد بن عبد الرحمن ، عن علي بن عمر بن حسين ، عن جعفر ، عن أبيه ، عن علي ؛ في رجل طلق امرأته حمل بعير ، قال : لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی بیوی کو اونٹ کے بوجھ کے برابر طلاق سے دی کہ وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 78]
یہ روایت بھی ضعیف و مردود ہے ۔
اس کے اندر ایک علت تو وہی ہے جو پچھلی روایت میں بیان ہوئی یعنی جعفر کے والد ”محمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب أبو جعفر الباقر“ کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ اس میں ایک دوسری علت یہ بھی ہے کہ اس سند میں موجود ”علي بن عمر بن حسين“ غیرمعروف ہے۔
شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مجھول منقطع ، علي بن عمر بن حسين مجھول ، و ابو جعفر لایروی عن علی“
”یہ روایت مجھول راوی سے ہے اور منقطع ہے، علي بن عمر بن حسين مجھول ہے، اور ابوجعفر( محمد بن علي بن الحسين) علی سے (ڈائریکٹ) روایت نہیں کرتے“ [مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 10/ 215 حاشیہ 5]
معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی ضعیف و مردود ہے۔
✿ چھٹی روایت:
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227)نے کہا:
”حدثنا سعيد قال: نا هشيم، قال: أنا ابن أبي ليلى، عن رجل حدثه عن أبيه، عن علي، رضي الله عنه مثل ذلك (یعنی رجل طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قال: «الثلاث والواحدة للبكر سواء )“
”علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس آدمی نے اپنی عورت کو دخول سے قبل تین طلاق دے دیا تو اس کے حق میں تین طلاق اور ایک طلاق برابر ہے“ [سنن سعيد بن منصور: 1/ 307 واسنادہ ضعیف جدا]
یہ روایت درج ذیل وجوہات کی بناپرسخت ضعیف ہے۔
اول:
علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والا نامعلوم ہے اس کا نام تک ذکر نہیں ۔
دوم:
ابن ابی لیلی کا شیخ ”رجل“ بھی نامعلوم ہے اس کا نام تک ذکر نہیں ۔
سوم :
ابن ابی لیلی یہ م ”حمد بن عبد الرحمن بن أبى ليلى الکوف“ ی ہے ، اور یہ سخت ضعیف ہے۔
امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160) نے کہا:
”ما رأيت أحدا أسوأ حفظا من ابن أبي ليلى“
”میں نے ابن ابی لیلی سے زیادہ برے حافظہ والا نہیں دیکھا“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 322 واسنادہ صحیح]
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
”كان سيء الحفظ مضطرب الحديث“
”یہ سیئ الحفظ اور مضطرب الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 323]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
”كان رديء الحفظ كثير الوهم فاحش الخطأ يروي الشيء على التوهم ويحدث على الحسبان فكثر المناكير في روايته فاستحق الترك تركه أحمد بن حنبل ويحيى بن معين“
”یہ بدتر حافظے والا ، بہت زیادہ وہم کا شکار ہونے والا اور فحش غلطی کرنے والا ہے ، یہ وہم وگمان کی بناپر حدیثین بیان کردیتا تھا جس کے سبب اس کی احادیث میں منکرات کی بھرمار ہوگی اور نتیجۃ یہ متروک ہونے کے قابل ٹہرا امام احمد اور امام ابن معین نے اسے ترک کردیا“ [المجروحين لابن حبان: 2/ 244]
محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
”ممن أجمع على ضعفه“ ، ”یہ ان لوگوں میں سے ہے جس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے“ [تذكرة الحفاظ لابن القيسراني ص: 236]
اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے محدثین نے اس پر جرح کی بعض نے اس کے سچے ہونے کی گواہی دی ہے لیکن اس کے سیی الحفظ اور ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق واجماع ہے جیساکہ ابن طاھر القیسرانی نے کہا ہے کما مضی ۔
✿ ساتویں روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن أبي سليمان، عن الحسن بن صالح، عن مطرف، عن الحكم، أن عليا، وابن مسعود، وزيد بن ثابت قالوا: إذا طلق البكر ثلاثا فجمعها، لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره، فإن فرقها بانت بالأولى، ولم تكن الأخريين شيئا“
”حكم بن عتيبة الكندى علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود و زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے حوالے روایت کرتے ہیں کہ ان حضرات نے کہا: جب کوئی شخص (اپنی) باکرہ (غیرمدخولہ بیوی) کو بیک زبان تین طلاق دے دی جائے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ، اور اگر الگ الگ جملے میں تین طلاق دے تو ایک جملہ سے عورت جدا ہوجائے گی اور بقیہ دو کا کوئی شمار نہ ہوگا“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 336]
یہ روایت ضعیف ومردود ہے کیونکہ اسے علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والا ”الحكم بن عتيبة الكندى“ ہے اور اس کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں بلکہ اس کی پیدائش علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے دس (10) سال بعد ہوئی ہے ۔چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کی وفات رمضان سن 40 ہجری میں ہوئی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
”مات في رمضان سنة أربعين“ ، ”علی رضی اللہ عنہ کی وفات رمضان سن 40 ہجری میں ہوئی ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4753]
اور الحكم بن عتيبة الكندى کی پیدائش سن پچاس(50) ہجری میں ہوئی ہے چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
”ولد سنة خمسين في ولاية معاوية“ ، ”اس کی پیدائش امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں سن پچاس (50) ہجری میں ہوئی ہے“ [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 4/ 144]
أبو بكر ابن منجويه(المتوفى428) نے کہا:
”ولد سنة خمسين في ولاية معاوية“ ، ”اس کی پیدائش امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں سن پچاس (50) ہجری میں ہوئی ہے“ [رجال صحيح مسلم لابن منجويه 1/ 140]
نیز دیکھئے: [تهذيب الكمال للمزي: 7/ 120]
معلوم ہوا کہ ”الحكم بن عتيبة الكندى“ کا علی رضی اللہ عنہ سے کوئی روایت سننا ناممکن ہو محال ہے ۔لہٰذا علی رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت منقطع وضعیف ہوگی ۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) علی رضی اللہ عنہ سے الحكم بن عتيبة کی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
”وهذا منقطع ، الحكم لم يدرك عليا“ ، ”یہ منقطع ہے الحكم بن عتيبة نے علی رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایا ہے“ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 14/ 399]
نیز دیکھئے:[تحفة التحصيل في ذكر رواة المراسيل ص: 81]
واضح رہے کہ اس روایت میں الحكم بن عتيبة نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابن مسعود اور زيد بن ثابت رضی اللہ عنہما سے بھی یہی بات نقل کررکھی ہے ۔لیکن ان دونوں صحابہ سے بھی اس کی ملاقات نہیں کیونکہ یہ دونوں صحابہ اس کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی پہلے بتیس (32) یا تینتیس (33) ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے:[التاريخ الأوسط للبخاري ت زائد: 1/ 60 ، تهذيب الكمال للمزي: 16/ 126]
اور زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات پینتالیس (45) ہجری میں ہوئی ہے۔دیکھئے:[الوفيات لابن قنفذ ص: 61 ،تاريخ مولد العلماء ووفياتهم 1/ 144]
✿ آٹھویں روایت:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
”حَدثنا مُحمد بن عَبد الوهاب بن هشام، حَدثنا علي بن سلمة اللبقي، حَدثنا أَبو أسامة، عن الأَعمَش، قال: كان بالكوفة شيخ يقول: سَمعتُ علي بن أبي طالب يقول: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد يرد إلى واحدة، والناس عنقا واحدا إذ ذاك يأتونه ويسمعون منه، قال: فأتيته فقرعت عليه الباب فخرج إلي شيخ، فقلت له: كيف سمعت علي بن أبي طالب يقول: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد؟ قال: سمعت علي بن أبي طالب يقول: إذا طلق رجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فإنه يُرد إلى واحد. قال: فقلت له: أَنَّى سمعت هذا من علي؟ قال: أُخرج إليك كتابي، فأخرج كتابه فإذا فيه: بسم الله الرحمن الرحيم، هذا ما سمعت علي بن أبي طالب يقول: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا في مجلس واحد فقد بانت منه، ولا تحل له حتى تنكح زوجا غيره. قال: قلتُ: ويحك هذا غير الذي تقول! قال: الصحيح هذا، ولكن هؤلاء أرادوني على ذلك“
”امام اعمش کہتے ہیں کہ کوفہ میں ایک شیخ تھا جو کہتا تھا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدمی ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو اسے ایک مانا جائے گا۔اورلوگ جوق درجوق اس کے پاس آتے اور اس سے سنتے ۔کہتے ہیں کہ پھر میں اس کے پاس آیا اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تو میرے سامنے یہ شیخ نکلا تو میں نے اس سے پوچھا تم نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے کیسے سنا ہے کہ جب کوئی شخص ایک مجلس میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے ؟ تو اس نے کہا: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدمی ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو اسے ایک مانا جائے گا۔کہتے ہیں پھر میں نے اس سے کہا: تم نے علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہاں سنا ہے ؟ اس نے کہا میں آپ کو اپنی کتاب دکھا تاہوں ، پھر اس نے اپنی کتاب نکالی تو اس میں لکھا تھا:بسم الله الرحمن الرحيم یہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی اور اس کے لئے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ۔کہتے ہیں پھر میں نے کہا: تیرا ستیاناس ہو یہ تو اس کے برعکس ہے جو تو بیان کرتا ہے ! تو اس نے کہا: صحیح یہی ہے لیکن یہ لوگ مجھ سے یہی سننا چاہتے ہی“ [الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 1/ 332 ومن طریق ابن عدی اخرجہ الخطیب فی الكفاية ، ت السورقي: ص: 150و البيهقي فی السنن الكبرى ط الهند: 7/ 339 وذکرہ السیوطی فی الدر المنثور 1/ 669]
امام اعمش نے جس کوفی شیخ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے اس کا نام ذکر نہیں کیا ہے نا معلوم یہ شخص کون ہے ! اس لئے اس کا کوئی بیان ہی معتبر نہیں ۔
نیز اس روایت سے اس کا کذاب ہوناظاہر ہے کیونکہ یہ باعتراف خود اپنی لکھی گئی بات کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر روایت بیان کرتا ہے جو صریح جھوٹ ہے اس لئے اس جھوٹے شخص کی کسی بات کا اعتبار نہیں ۔
✿ نوی روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
”عن إبراهيم بن محمد، عن شريك بن أبي نمر قال: جاء رجل إلى علي، فقال: إني طلقت امرأتي عدد العرفج قال: تأخذ من العرفج ثلاثا، وتدع سائره“
”شریک بن ابی نمر کہتے ہیں کہ ایک شخص علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : میں نے اپنی بیوی کو عرفج (ایک پودے کانام) کی تعداد کے برابر طلاق دی ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: عرفج سے تین کی عدد لے لو اور باقی چھوڑ دو“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 394]
یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔اسے بیان کرنے والا امام عبدالرزاق کا استاذ ”إبراهيم بن محمد یہ إبراهيم بن محمد بن أبى يحيى الأسلمى“ ہے اور یہ کذاب ہے ۔
امام يحيى بن سعيد رحمه الله (المتوفى 198)نے کہا:
”كنا نتهمه بالكذب“ ، ”ہم اسے کذب سے متہم کرتے تھے“ [ضعفاء العقيلي: 1/ 63 واسنادہ صحیح]۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
”إبراهيم بن أبي يحيى ليس بثقة كذاب“
”ابراہم بن ابی یحی ثقہ نہیں ہے یہ بہت بڑا جھوٹا ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 2/ 126]۔
امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)نے کہا:
”ابراهيم بن أبي يحيى كَذَّاب“
”ابراہم بن ابی یحیی بہت بڑا جھوٹا ہے“ [سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 124]۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
”إبراهيم بن أبي يحيى كذاب متروك الحديث“
”ابراہیم بن ابی یحیی بہت بڑا جھوٹا اور متروک الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 2/ 126]۔
یہ صرف وہ اقوال ہیں جن میں اہل فن نے راوی مذکور کو کذاب کہا ہے ، اس کے علاوہ جو شدید جرحیں اس پر ہوئی ہیں اس کے لئے تہذیب اور عام کتب رجال کی طرف مراجعت کی جائے۔
معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔
اس کے علاوہ علی رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو بیان کرنے والے ”شريك بن عبد الله بن أبى نمر“ ہیں اورعلی رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں پانچویں طبقہ کا راوی بتلایا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2788]
اوراس طبقہ کے رواۃ کی صرف ایک دو صحابہ ہی سے ملاقات ہے ۔[تقريب التهذيب لابن حجر، ت عوامة: ص: 74]
یعنی کبار صحابہ سے ان کی ملاقات نہیں ہے۔
لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہونے کے ساتھ ساتھ سندا منقطع بھی ہے ۔
تنبیہ:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے كہا :
”أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يوسف، أنا أبو سعيد بن الأعرابي، نا الحسن بن محمد بن الصباح الزعفراني، نا يزيد بن هارون، أنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن عبيدة السلماني، عن علي رضي الله عنه قال: ما طلق رجل طلاق السنة فيندم أبدا“
”علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : جو سنت کے مطابق طلاق دے گا وہ ہمیشہ ندامت میں نہیں رہے گا“ [السنن الكبرى للبيهقي، ت عطا: 7/ 532 رقم 14917 ، وأخرجه أيضا الضيا المقدسي في المختارة : 2/ 248 ، من طريق يزيد به ، وانظر: المطالب العالية 8/ 411]
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ اس اثر کا مفہوم مخالف یہ نکلا کہ اگر کوئی طلاق بدعی دے گا یعنی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو وہ نادم ہوگا ۔
تو عرض ہے کہ یہ مفہوم مخالف نکل سکتا ہے کہ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ تین طلاق کے وقوع پر علی رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے ، کیونکہ یہ مسلم ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تین طلاق دینے والوں کے لئے سرکاری فرمان جاری کردیا تھا کہ ان کی تین طلاق نافذ کردی جائے گا۔
تو علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول اسی تناظر میں ہوسکتا ہےکہ اگر کوئی سنی طلاق دے تو رجوع کرسکتا ہے اس کو رجوع سے کوئی روکنے والا نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی بدعی طلاق دے گا فرمان فارقی کے تحت اس کی بیوی الگ کردی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لئے پچھتاتا رہے گا۔
یا درہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح یہ صریح فتوی ثابت نہیں ہے کہ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجائے گی ، بلکہ ان سے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی مروی ہے جیساکہ ماقبل میں گذرا۔
تنبیہ:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے كہا :
”أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يوسف، أنا أبو سعيد بن الأعرابي، نا الحسن بن محمد بن الصباح الزعفراني، نا يزيد بن هارون، أنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن عبيدة السلماني، عن علي رضي الله عنه قال: ما طلق رجل طلاق السنة فيندم أبدا“
”علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : جو سنت کے مطابق طلاق دے گا وہ ہمیشہ ندامت میں نہیں رہے گا“ [السنن الكبرى للبيهقي، ت عطا: 7/ 532 رقم 14917 ، وأخرجه أيضا الضيا المقدسي في المختارة : 2/ 248 ، من طريق يزيد به ، وانظر: المطالب العالية 8/ 411]
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ اس اثر کا مفہوم مخالف یہ نکلا کہ اگر کوئی طلاق بدعی دے گا یعنی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو وہ نادم ہوگا ۔
تو عرض ہے کہ یہ مفہوم مخالف نکل سکتا ہے کہ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ تین طلاق کے وقوع پر علی رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے ، کیونکہ یہ مسلم ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تین طلاق دینے والوں کے لئے سرکاری فرمان جاری کردیا تھا کہ ان کی تین طلاق نافذ کردی جائے گا۔
تو علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول اسی تناظر میں ہوسکتا ہےکہ اگر کوئی سنی طلاق دے تو رجوع کرسکتا ہے اس کو رجوع سے کوئی روکنے والا نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی بدعی طلاق دے گا فرمان فارقی کے تحت اس کی بیوی الگ کردی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لئے پچھتاتا رہے گا۔
یا درہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح یہ صریح فتوی ثابت نہیں ہے کہ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجائے گی ، بلکہ ان سے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی مروی ہے جیساکہ ماقبل میں گذرا۔
No comments:
Post a Comment