پچھلا
تین طلاق کے وقوع سے متعلق صحابہ کرام کے ضعیف آثار
عمر فاروق رضی اللہ اثر
تین طلاق کے وقوع پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا وہ اثر بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں حیض کی حالت میں طلاق دینے والے ایک شخص نے ان سے سوال کیا تھا ، یہ اثر ضعیف ہے ، اس پر تفصیل گذرچکی ہے ، اسی کتاب کا صفحہ دیکھیں۔
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا اثر
ماقبل میں صحیح مسلم کے حوالے سے گذرچکا ہے کہ عہد رسالت میں بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں اور عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال تک بھی اس بات پر امت کا اجماع رہا ،اس اجماعی موقف سے عثمان رضی اللہ عنہ کا اختلاف کرنا کسی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔
بعض لوگ ضعیف ومردود سندوں سے تين روایت پیش کرتےہیں کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق کو عثمان رضی اللہ عنہ نے تین طلاق شمار کیا ہے ذیل میں ان تينوں روایات کی حقیقت ملاحظہ ہو:
❀ پہلی روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا وكيع، والفضل بن دكين، عن جعفر بن برقان، عن معاوية بن أبي تحيا قال: جاء رجل إلى عثمان فقال: إني طلقت امرأتي مائة قال: ثلاث تحرمها عليك، وسبعة وتسعون عدوان“
”معاویہ بن ابی تحیا کہتے ہیں کہ ایک شخص عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ہے ۔اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین طلاق نے تیری بیوی کو تجھ پر حرام کردیا ہے اور ستانوے طلاق سرکشی ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الحوت: 4/ 62 اسنادہ منقطع وضعیف واخرجہ ابن حزم فی المحلی ت بيروت: 9/ 399 من طریق وکیع نحوہ و ذکرہ ابن القیم فی زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 236]
یہ روایت ضعیف ہے۔
ظفرتھانوی حنفی صاحب ابن القیم کی کتاب زاد المعاد سے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتےہیں:
”وماعثرت علی ترجمة معاوية بن أبي يحيى“
”معاویہ بن ابی یحیی کے ترجمہ پر میں واقف نہیں ہوسکا“ [اعلاء السنن، ت تقی عثمانی: 11/ 156]
عرض ہے کہ زاد المعاد میں ”معاوية بن أبي يحيى“ ہے لیکن صحیح ”معاوية بن أبي تحيا“ ہے جیساکہ كمال يوسف الحوت اور شیخ سعد بن ناصر الشثري کے محقق نسخے میں ہے ۔کتب رجال میں بھی ایسا ہی ہے دیکھئے: [التاريخ الكبير للبخاري، ط العثمانية: 7/ 332، الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 379]
ثقات ابن حبان میں ”معاوية بن أبي يحيى“ ہے لیکن حاشیہ میں محقق نے وضاحت کردی ہے کہ دیگر کتب رجال میں ”معاوية بن أبي تحيا“ ہے ۔ دیکھئے:[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 7/ 468]
ابن حبان نے اس راوی کو ثقات میں ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ کسی بھی محدث نے اسے ثقہ نہیں کہا ہے لہٰذا اس کے نامعلوم التوثیق ہونے کےسبب یہ روایت ضعیف ہے ۔
نیز اس کے ساتھ ساتھ سند منقطع بھی ہے کیونکہ ”معاوية بن أبي تحيا“ کا سماع کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے اس لئے یہ تابعی نہیں بلکہ تبع تابعی ہے امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں أتباع التابعين میں گنایا ہے اس لئے صحابہ سے اس کی روایت مرسل ومنقطع ہے اسی لئے امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کرنے کےساتھ یہ بھی کہا:
”يروي المراسيل“
”یہ مرسل روایات بیان کرتاہے“ [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 7/ 468]
اور زیر نظر روایت کو یہ صحابی عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کررہا ہے جب کہ یہ کسی بھی صحابی سے نہیں سنا اس لئے عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کی یہ روایت مرسل ومنقطع ہے ۔
بلکہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے تو عثمان رضی ا للہ کے نام کی صراحت کرتے ہوئے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت مرسل یعنی منقطع ہے چنانچہ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
”معاوية بن أبي تحيا روى عن عثمان، رضي الله عنه، مرسل“
”معاوية بن أبي تحيا نے عثمان سے روایت نقل کی ہے جو مرسل (یعنی منقطع) ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 379]
محمدعوامہ حنفی صاحب نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت پر حاشیہ میں امام ابوحاتم کا یہ قول نقل کررکھا ہے اور اس روایت کا کوئی دفاع نہیں کیا ہے دیکھئے:[مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 9/ 522 رقم 18104]
شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مجھول لجهالة معاوية بن أبي تحيا“
”یہ مجہول راوی سےہے ”معاویہ بن ابی تحیا“ کی جہالت کی وجہ سے“[مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 10/ 106 حاشہ 10]
معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف و منقطع بھی ہے لہٰذا ضعیف و مردود ہے۔
بعض لوگ اس کی ایک اور سند پیش کرتے ہیں لیکن وہ بھی منقطع ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع اورمن گھڑت بھی ہے چنانچہ:
✿ دوسری روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
”عن إبراهيم بن محمد، عن شريك بن أبي نمر قال: جاء رجل إلى علي، فقال: إني طلقت امرأتي عدد العرفج قال: «تأخذ من العرفج ثلاثا، وتدع سائره» .قال إبراهيم: وأخبرني أبو الحويرث، عن عثمان بن عفان مثل لك“
”شریک بن ابی نمر کہتے ہیں کہ ایک شخص علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : میں نے اپنی بیوی کو عرفج (ایک پودے کانام) کی تعداد کے برابر طلاق دی ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: عرفج سے تین کی عدد لے لو اور باقی چھوڑ دو۔ابراہم بن محمد نے کہا کہ مجھ سے ابوالحویرث نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی اسی طرح کی روایت بیان کی“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 394]
اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ کے اثر کے بعد ”ابراہیم“ نے ”ابوالحویرث“ کے طریق سے اسی اثر کو عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔لیکن یہ سند موضوع اور من گھڑت ہے ۔اسے بیان کرنے والا امام عبدالرزاق کا استاذ ”إبراهيم بن محمد“ یہ ”إبراهيم بن محمد بن أبى يحيى الأسلمى“ ہے اور یہ کذاب ہے ۔
امام يحيى بن سعيد رحمه الله (المتوفى 198)نے کہا:
”كنا نتهمه بالكذب“
”ہم اسے کذب سے متہم کرتے تھے“ [ضعفاء العقيلي: 1/ 63 واسنادہ صحیح]
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
”إبراهيم بن أبي يحيى ليس بثقة كذاب“
”ابراہم بن ابی یحی ثقہ نہیں ہے یہ بہت بڑا جھوٹا ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 2/ 126]۔
امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)نے کہا:
”ابراهيم بن أبي يحيى كَذَّاب“
”ابراہم بن ابی یحیی بہت بڑا جھوٹا ہے“ [سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 124]۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
”إبراهيم بن أبي يحيى كذاب متروك الحديث“
”ابراہیم بن ابی یحیی بہت بڑا جھوٹا اور متروک الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 2/ 126]۔
یہ صرف وہ ثابت اقوال ہیں جن میں اہل فن نے راوی مذکور کو کذاب کہا ہے ، اس کے علاوہ جو شدید جرحیں اس پر ہوئی ہیں اس کے لئے تہذیب اور عام کتب رجال کی طرف مراجعت کی جائے۔
معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔
اس کے علاوہ عثمان رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو بیان کرنے والے ”ابوالحویرث“ ہیں اورابوالحویرث کا کسی بھی صحابی سے روایت کرنا ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں چھٹے طبقہ کا راوی بتلایا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4011]
اوراس طبقہ کے کسی بھی راوی کا کسی صحابی سے روایت کرنا ثابت نہیں ہے ۔[تقريب التهذيب لابن حجر، ت عوامة: ص: 74]
لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہونے کے ساتھ ساتھ سندا منقطع بھی ہے ۔
✿ تیسری روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا أبو معاوية، عن عاصم، عن السميط السدوسي، قال: خطبت امرأة، فقالوا لي: لا نزوجك حتى تطلق امرأتك ثلاثا، فقلت: قد طلقتها ثلاثا، قال: فزوجوني ثم نظروا، فإذا امرأتي عندي، فقالوا: أليس قد طلقت امرأتك؟ قلت: بلى، كانت تحتي فلانة بنت فلان، فطلقتها، فأما هذه فلم أطلقها، فأتيت شقيق بن مجزأة بن ثور وهو يريد الخروج إلى عثمان، فقلت: سل أمير المؤمنين عن هذه، فسأله فقال: نيته“
”سمیط السدوسی کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح دیا تو(اس کے گھر کے ) لوگوں نے مجھ سے کہا: ہم تم سےاس کی شادی نہیں کریں گے جب تک کہ تم اپنی بیوی کو تین طلاق نہ دے دو ، تو انہیں نے کہا: میں اسے تین طلاق دیتاہوں ، کہتے ہیں پھر ان لوگوں نے میری شادی کرادی ، اس کے بعدان لوگوں نے دیکھا کہ میری بیوی میرے پاس موجود ہے ، تو ان لوگوں نے کہا: کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تھی ؟ تو میں نے کہا: کیوں نہیں ، میرے نکاح میں فلاں بنت فلاں تھی تو میں نے اسے طلاق دے دی ، لیکن رہی یہ عورت تو میں نے اسے طلاق نہیں دی ہے ، پھر میں شقيق بن مجزأة بن ثور کے پاس آیا وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جارہے تھے تو میں نے کہا: آپ امیر المؤمنین سے اس مسئلہ کے بارے میں بھی پوچھ لیجئے گا ، تو انہوں نے ان سے سوال کیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کی نیت کا اعتبار ہوگا“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 360 وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه 1/ 288 من طريق أبي معاويه به ، وأخرجه مسدد من طريق حماد بن زيد عن أبي معاويه به كما في المطالب العالية 2/ 104]
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والے شقيق بن مجزأة بن ثور کی معتبر توثیق ثابت نہیں ہے۔
انہیں ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور ان کی صریح توثیق نہیں کی ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب میں ابن حبان کی کتاب ثقات کے حوالے کے علاوہ کوئی توثیق ذکر نہیں کی ہے ، پھر بھی تقریب میں انہیں صدوق مخضرم کہا ہے ، ابن حجر رحمہ اللہ نے غالبا ان پر جرح نہ ہونے اور ان کے مخضرم اور امیر ہونے کے سبب حسن ظن رکھتے ہوئے انہیں صدوق کہا ہے، لیکن حسن ظن سےانہیں سچا و دیانت دار مانا جاسکتا ہے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان کا ضبط اور حافظہ بھی ٹھیک رہا ہو، اور اصطلاحی ثقہ وصدوق ہونے کے لئے راوی کا دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ضابط ہونا بھی ضروی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس روایت سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے نیت کے اعتبار سے طلاق کو واقع قرار دیا ، لیکن انہیں نے تینوں طلاق کو واقع قراردیا ، اس بات کی صراحت روایت میں نہیں ہے ۔
”حدثنا أبو معاوية، عن عاصم، عن السميط السدوسي، قال: خطبت امرأة، فقالوا لي: لا نزوجك حتى تطلق امرأتك ثلاثا، فقلت: قد طلقتها ثلاثا، قال: فزوجوني ثم نظروا، فإذا امرأتي عندي، فقالوا: أليس قد طلقت امرأتك؟ قلت: بلى، كانت تحتي فلانة بنت فلان، فطلقتها، فأما هذه فلم أطلقها، فأتيت شقيق بن مجزأة بن ثور وهو يريد الخروج إلى عثمان، فقلت: سل أمير المؤمنين عن هذه، فسأله فقال: نيته“
”سمیط السدوسی کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح دیا تو(اس کے گھر کے ) لوگوں نے مجھ سے کہا: ہم تم سےاس کی شادی نہیں کریں گے جب تک کہ تم اپنی بیوی کو تین طلاق نہ دے دو ، تو انہیں نے کہا: میں اسے تین طلاق دیتاہوں ، کہتے ہیں پھر ان لوگوں نے میری شادی کرادی ، اس کے بعدان لوگوں نے دیکھا کہ میری بیوی میرے پاس موجود ہے ، تو ان لوگوں نے کہا: کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تھی ؟ تو میں نے کہا: کیوں نہیں ، میرے نکاح میں فلاں بنت فلاں تھی تو میں نے اسے طلاق دے دی ، لیکن رہی یہ عورت تو میں نے اسے طلاق نہیں دی ہے ، پھر میں شقيق بن مجزأة بن ثور کے پاس آیا وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جارہے تھے تو میں نے کہا: آپ امیر المؤمنین سے اس مسئلہ کے بارے میں بھی پوچھ لیجئے گا ، تو انہوں نے ان سے سوال کیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کی نیت کا اعتبار ہوگا“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 360 وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه 1/ 288 من طريق أبي معاويه به ، وأخرجه مسدد من طريق حماد بن زيد عن أبي معاويه به كما في المطالب العالية 2/ 104]
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والے شقيق بن مجزأة بن ثور کی معتبر توثیق ثابت نہیں ہے۔
انہیں ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور ان کی صریح توثیق نہیں کی ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب میں ابن حبان کی کتاب ثقات کے حوالے کے علاوہ کوئی توثیق ذکر نہیں کی ہے ، پھر بھی تقریب میں انہیں صدوق مخضرم کہا ہے ، ابن حجر رحمہ اللہ نے غالبا ان پر جرح نہ ہونے اور ان کے مخضرم اور امیر ہونے کے سبب حسن ظن رکھتے ہوئے انہیں صدوق کہا ہے، لیکن حسن ظن سےانہیں سچا و دیانت دار مانا جاسکتا ہے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان کا ضبط اور حافظہ بھی ٹھیک رہا ہو، اور اصطلاحی ثقہ وصدوق ہونے کے لئے راوی کا دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ضابط ہونا بھی ضروی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس روایت سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے نیت کے اعتبار سے طلاق کو واقع قرار دیا ، لیکن انہیں نے تینوں طلاق کو واقع قراردیا ، اس بات کی صراحت روایت میں نہیں ہے ۔
No comments:
Post a Comment