پچھلا
تین طلاق : قائلین وقوع کے دلائل کا جائزہ
پہلی دلیل
تین طلاق کے وقوع پر آیات سے استدلال کاجائزہ
مطلق آیات سے استدلال
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر طلاق دینے کے لئے طلاق کا مطلق لفظ وارد ہو اہے مثلا:
{وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ}
”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو“ [البقرة: 231]
یہ اور اس جیسی آیات میں کسی بھی طرح کی تقیید نہیں ہے اس لئے جس طرح بھی طلاق دی جائے طلاق واقع ہوجائے گی۔
جوابا عرض ہے کہ:
اولا:
اگر واقعی ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی طرح بھی طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر انہیں آیات سے یہ بھی ثابت کرنا چاہئے کہ کسی طرح بھی طلاق دینا جائزہے !
یعنی ایک ساتھ تین طلاق دینا بھی جائزہے ، حالت حیض میں بھی طلاق دینا جائز ہے اسی طرح جماع والے طہر میں بھی طلاق دینا جائز ہے وغیرہ وغیرہ!
اگر کہا جائے کہ قرآن وحدیث ہی میں دوسرے مقامات پر یہ وضاحت آگئی ہے کہ ان حالتوں میں طلاق دینا درست نہیں ہے تو ہم کہتے ہیں ٹھیک اسی طرح قرآن وحدیث میں دوسرے مقامات پر یہ وضاحت بھی آگئی ہے کہ ان حالتوں میں دی گئی طلاق معتبر نہ ہوگی۔
پیرکرم شاہ بریلوی ازہری لکھتے ہیں:
”اس کے جواب میں یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیتیں مطلق ہیں ، دوسری آیت اور سنت نبوی نے ان کے اطلاق کو مقید کردیا ہے اور ان کے احکام و شرائط کو بیان کردیا ہے ، نیز ان آیات میں ایک ساتھ طلاقیں دینے کی بھی تو کہیں تصریح نہیں ہے“ [دعوت فکرونظر : ص244 مطبوع مع مجموعہ مقالات علمیہ]
پیرکرم شاہ بریلوی ازہری لکھتے ہیں:
”اس کے جواب میں یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیتیں مطلق ہیں ، دوسری آیت اور سنت نبوی نے ان کے اطلاق کو مقید کردیا ہے اور ان کے احکام و شرائط کو بیان کردیا ہے ، نیز ان آیات میں ایک ساتھ طلاقیں دینے کی بھی تو کہیں تصریح نہیں ہے“ [دعوت فکرونظر : ص244 مطبوع مع مجموعہ مقالات علمیہ]
ثانیا:
اللہ نے قرآن میں یہ بھی کہا ہے:
{وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ}
”اللہ نے بیع (تجارت) کو حلال قرار دیا ہے“ [البقرة: 275]
اب کیا اس آیت کی بناپر یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر طرح کی بیع اور ہر طرح کی تجارت صحیح اور معتبر ہوگی کیونکہ اس آیت میں مطلق بیع کا ذکر ہے ؟
فماکان جوابکم فھوجوابنا
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
”طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرمرتبہ کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے“ [2/البقرة: 229]
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں طلاقوں کی کوئی حد متعین نہ تھی ، لیکن اسلام نے اس کی حد اس طرح متعین کردی کی ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع کا اختیار دیا اور تیسری کے بعد رجوع کی گنجائش ختم کردی ، اس تحدید کا اصل مقصود بے شمار طلاقوں کو تین تک محدود کرنا ہے اس لئے یہ تین طلاقیں کسی بھی طرح دی جائیں واقع ہوجائیں گے [حرام کاری سے بچئے :ص 77]
عرض ہے کہ:
قرآن وحدیث میں صرف تین طلاق کی تحدید پر اکتفاء نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے ، مثلا یہ کہ ایک دفعہ میں صرف ایک ہی طلاق دی جائے ، اسی طرح عدت یعنی بغیر جماع والے طہر میں طلاق دی جائے وغیرہ وغیرہ ۔
اور ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ والی آیت میں تو اس بات کا صراحتا ذکر ہے کہ ابتدائی دو طلاقوں میں سے کوئی طلاق دینے کے بعد صرف دو ہی اختیار ہے ، یا تو بیوی سے معروف طریقہ پر رجوع کیا جائے یا معروف طریقہ پر اسے رخصت کردیا جائے ۔
اس لئے خاص اس آیت سے اکٹھی تین طلاق کے وقوع پر استدلال کرنا دن کو رات اور رات کو دن بنانے کے مترادف ہے ، کیونکہ یہ آیت تو اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینا حرام اور ناجائز اور اور حرام اور ناجائز افعال میں اصل یہ ہے کہ وہ مردود وباطل ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، اس بابت مکمل تفصیل ہم پیش کرچکے ہیں ، دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ سے استدلال
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
”طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرمرتبہ کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے“ [2/البقرة: 229]
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں طلاقوں کی کوئی حد متعین نہ تھی ، لیکن اسلام نے اس کی حد اس طرح متعین کردی کی ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع کا اختیار دیا اور تیسری کے بعد رجوع کی گنجائش ختم کردی ، اس تحدید کا اصل مقصود بے شمار طلاقوں کو تین تک محدود کرنا ہے اس لئے یہ تین طلاقیں کسی بھی طرح دی جائیں واقع ہوجائیں گے [حرام کاری سے بچئے :ص 77]
عرض ہے کہ:
قرآن وحدیث میں صرف تین طلاق کی تحدید پر اکتفاء نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے ، مثلا یہ کہ ایک دفعہ میں صرف ایک ہی طلاق دی جائے ، اسی طرح عدت یعنی بغیر جماع والے طہر میں طلاق دی جائے وغیرہ وغیرہ ۔
اور ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ والی آیت میں تو اس بات کا صراحتا ذکر ہے کہ ابتدائی دو طلاقوں میں سے کوئی طلاق دینے کے بعد صرف دو ہی اختیار ہے ، یا تو بیوی سے معروف طریقہ پر رجوع کیا جائے یا معروف طریقہ پر اسے رخصت کردیا جائے ۔
اس لئے خاص اس آیت سے اکٹھی تین طلاق کے وقوع پر استدلال کرنا دن کو رات اور رات کو دن بنانے کے مترادف ہے ، کیونکہ یہ آیت تو اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینا حرام اور ناجائز اور اور حرام اور ناجائز افعال میں اصل یہ ہے کہ وہ مردود وباطل ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، اس بابت مکمل تفصیل ہم پیش کرچکے ہیں ، دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ:
”فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ“ سے استدلال
اللہ کا ارشاد ہے:
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا }
”اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وه کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کرده حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے“ [الطلاق: 1]
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے طریقہ طلاق کی مخالفت کو اپنے اوپر ظلم کہا ہے اور اپنے اوپر ظلم تبھی ہوگا جب طلاق واقع ہوجائے گی اور بیوی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔
عرض ہے کہ :
اولا:
اگر ظلم کا یہی مطلب ہے کہ طریقہ طلاق کی مخالفت کرنے سے بیوی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی طریق طلاق کی مخالفت نہ کرے تو کبھی بھی اپنی بیوی سے محروم نہیں ہوسکتا ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی تین طلاق تین الگ الگ طہر میں سنت کے مطابق دے اس طرح کہ ابتدائی ہر طلاق کے بعد رجوع کیا ہو یا عدت گذرنے کے بعد نکاح جدید کیا ہو پھر تیسری طلاق بھی سنت کے مطابق دیا ہو ، تو ایسی صورت میں بھی وہ بیوی سے محروم ہوجاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تین طلاق سنت کے مطابق دینے پر تو اس نے کوئی ظلم نہیں کیا پھر اپنی بیوی سے کیوں محروم ہوگیا ؟
ثانیا:
اس آیت میں تین طلاق کی ممانعت کا ذکر نہیں ہے کہ یہ کہا جائے اگر کسی نے تین طلاق دیا تو اس نے خود پر ظلم کیا ۔
بلکہ اس آیت میں طلاق رجعی کا ذکر ہے اور اس کے بعد کئی چیزوں کا حکم اور کئی چیزوں سے ممانعت ہے ، یعنی عدت (جماع سے پہلے طہر ) میں طلاق دینا ، عدت کو شمار کرنا ، بیوی کو گھر سے نہ نکالنا ، بیوی کا خود گھر سے نہ نکلنا ۔
لہٰذا جب اس آیت میں طلاق رجعی کا ذکر ہے پھر اوپر مذکورہ چیزوں کا ذکر ہے تو ظلم کا تعلق بھی انہیں مذکور چیزوں سے ہوگا نہ کہ طلاق ثلاثہ سے جس کا یہاں ذکر ہی نہیں ۔
ثالثا:
اس آیت میں عدت کے اندر یعنی طہر میں جماع سے قبل طلاق دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے ، اب اگرکوئی اس کی مخالفت کرتے ہوئے حیض میں یا جماع والے طہر میں ایک ہی طلاق دے تو یقینا یہ ظلم کرنے والا ہے ، مگر اس ظلم سے وہ گنہگار تو ہوگا مگر وہ بیوی سے محروم نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں بالاتفاق وہ بیوی کو واپس لے سکتا ہے۔
اس لئے یہ کہنا کہ ظلم کا مطلب بیوی سے محروم ہونا ہے یہ سراسر غلط ہے ۔
رابعا:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ }
”جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وه اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ، یا بھلائی کے ساتھ الگ کردو اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم وزیادتی کے لئے نہ روکو، جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا“ [البقرة: 231]
اس آیت میں تو بیوی کو تکلیف دینے کی غرض سے اسے روکنے کو اللہ تعالی اپنے آپ پر ظلم کہہ رہا ہے ۔
اب بتلایا جائے کہ یہاں اپنے آپ پر ظلم کیسے ہوا ؟ یہاں تو بیوی کو پانے کے باوجود بھی شوہر کے لئے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کررہاہے ۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ بیوی کو پانے کے باوجود بھی شوہر اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہوسکتا ہے ، کیونکہ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرکے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ، یہ بات طلاق بدعت میں بھی ہے کہ بیوی کو واپس پانے کے باوجود بھی شوہر اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے کیونکہ اس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کرکے گناہ کا کام کیا ہے۔
خامسا:
یہاں ظلم سے مراد گناہ کا کام کرنا ہے اور وہ گناہ اس آیت میں مذکور احکامات کی خلاف ورزی ہے، قرآن میں متعدد مقامات پر گناہ کا کام کرنے کواپنے آپ پر ظلم کہا گیاہے چند آیات ملاحظہ ہوں:
یہاں ظلم سے مراد گناہ کا کام کرنا ہے اور وہ گناہ اس آیت میں مذکور احکامات کی خلاف ورزی ہے، قرآن میں متعدد مقامات پر گناہ کا کام کرنے کواپنے آپ پر ظلم کہا گیاہے چند آیات ملاحظہ ہوں:
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ }
”جب (حضرت موسیٰ) ﴿علیہ السلام﴾ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو“ [البقرة: 54]
{مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِي هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ }
”جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اُس کی مثال اُس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ اُن لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے برباد کر کے رکھ دے“ [آل عمران: 117]
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}
”ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اسی لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والامہربان پاتے“ [النساء: 64]
اس طرح کی اور بھی آیات ہیں جن پر گناہ کرنے کو اپنے آپ پر ظلم کہا گیا ہے قرآنی آیات دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں اس لئے یہاں بھی ظلم سے مراد گناہ کا کام کرنا ہے۔
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا }
”اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (بغیر جماع والے طہر ) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وه کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کرده حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے“ [الطلاق: 1]
اس آیت میں ”فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ“ سے استدلال کا جواب دیا چکا ہے ، اور اب اسی آیت میں آگے مذکور احداث امر یعنی { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } ( شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے) سے کس طرح طلاق ثلاثہ کے وقوع پر استدلال کیا جاتا ہے وہ مولانا منیر احمد منور صاحب کی زبانی سنئے فرماتے ہیں:
”اللہ تعالی نے فرمایا: { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } شاید اللہ تعالی طلاق دینے کے بعد طلاق دہندہ کے دل میں ندامت پیدا کردے پس اگر اس نے تین طہروں میں متفرق طلاقیں دی ہوں گی تو پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کرسکتا ہے اس میں ندامت کی کوئی بات نہیں ، ندامت اس صورت میں ہوگی جب تین طلاقیں واقع ہوجائیں اور یہ رجوع نہ کرسکے“ [حرام کاری سے بچئے :ص 73]
یعنی موصوف کی نظر میں ایک طلاق دینے والا نادم ہوہی نہیں سکتا ، اسی طرح دوسری بار طلاق دینے والا بھی نادم نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ رجوع کرسکتا ہے۔
تو سوال یہ کہ اگر ایک یا دو طلاق کے بعد طلاق دہندہ نادم نہیں ہوسکتا ، تو رجوع کیوں کررہا ہے ؟؟ بھائی اگر اسے کوئی ندامت نہیں ہے یعنی طلاق دینے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے تو وہ طلاق پر باقی رہے گا رجوع کیوں کرے گا؟
رجوع کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ نادم ہوگیا یعنی اسے طلاق پر پچھتا وا ہے اور اس کے سامنے رجوع کا موقع تھا اس لئے ندامت کے بعد رجوع کرلیا ۔
اور حیرت کی بات ہے کہ مولانا منیر اور ان کے ہمنواؤں نے ایک یا دو بار طلاق دینے والے سے ندامت کا انکار کرکے آیت { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } کو یہ معنی پہنا دیا کہ یہ احداث امر، تین طلاق کے بعد ہی ہوگا ، یعنی تین طلاق کے بعد وہ صرف ندامت کے آنسو بہائے گا اور رجوع نہیں کرسکے گا ۔
حالانکہ یہاں احداث امر سے مراد ہی یہی ہے کہ وہ ندامت کے بعد رجوع کرلے گا ، آیت کا پورا سیاق یہی کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے طلاق رجعی ذکرنے کے بعد عدت میں میاں بیوی کو ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے اور اسی کا ثمرہ اور فائدہ بتاتے ہوے کہا ہے کہ { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } ( شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے) یعنی شوہر رجوع کرلے اور میاں بیوی دوباہ مل جائیں ۔یہی مفہوم صحابہ وتابعین نے اور ائمہ سلف نے متفقہ طور پرسمجھا ہے ، چنانچہ :
فاطمة بنت قيس رضی اللہ عنہا اس آیت سے متعلق فرماتی ہیں :
”هذا لمن كانت له مراجعة، فأي أمر يحدث بعد الثلاث؟“
”یہ حکم اس کے لئے جس سے رجوع ممکن ہو (یعنی جس کو طلاق رجعی دی گئی ہو) ورنہ تین طلاق کے بعد تو کوئی امر نہیں ہوسکتا“ [صحيح مسلم رقم 2/ 1117 رقم 1480]
تفسیر عبدالرزاق کی روایت ہے:
”فأي أمر يحدث بعد الثلاث؟ وإنما هو في مراجعة الرجل امرأته“
”تین طلاق کے بعد کوئی احداث امر نہیں ہوسکتا ، یہ حکم بیوی سے رجوع کرنے کے سلسلے میں ہے“ [تفسير عبد الرزاق رقم 3236 وإسناده صحيح]
امام عکرمہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”{ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } قال فاي امر يحدث بعد الثلاثاء“
”اللہ نے { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } کہا ہے اور تین طلاق کے بعد کوئی احداث امر نہیں ہوسکتا“ [أحكام القرآن للجهضمي ص: 244وإسناده صحيح ]
امام شعبی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”{ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } قال: لا تدري لعلك تندم فيكون لك سبيل إلى الرجعة“
”اللہ تعالی کا فرمان ہے: { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } اس کا مطلب یہ کہ تمہیں کیا پتہ کہ تم اس کے بعد نادم ہو اور تمہارے لئے رجوع کا راستہ باقی رہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 575وإسناده صحيح ]
امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”( لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا ) قال: هذا في مراجعة الرجل امرأته“
”اللہ تعالی کافرمان { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } یہ شوہر کے اپنی بیوی سے رجوع کرنے سے متعلق ہے“ [تفسير الطبري 23/ 442وإسناده صحيح ]
بلکہ اما طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے تو اس مفہوم پر اجماع نقل کرتے ہوئے کہا:
”ثم قال { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } , وأجمعوا أن ذلك الأمر هو المراجعة“
”پھر اللہ نے فرمایا: { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } اور اس پر اجماع ہے کہ اس امر سے مراد رجعت ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 70]
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ صحابہ وتابعین اور امت نے اجماعی طور پر احداث امر سے رجعت مراد لیا ہے اور ارباب تقلید اس کا مفہوم یہ بتارہے ہیں کہ اس سے رجعت نہیں مراد ہے بلکہ تین طلاق دینے کے بعد محض ندامت کے آنسو بہانا مراد ہے۔سبحان اللہ !
ان کی منطق تو دیکھئے فرماتے ہیں کہ تین طلاق کے بعد ہی ندامت ہوسکتی ہے ، اس سے پہلے نہیں کیونکہ اس سے پہلے تو رجوع کرسکتا ہے ۔
اب ان سے کوئی پوچھے تین طلاق سے پہلے بھی جب کوئی ایک ہی طلاق دے گا تو کیا وہ ندامت کا شکار نہیں ہوسکتا؟ اور جب وہ رجوع کرکے تو بغیر ندامت کے جشن مناتے ہوئے رجوع کرے گا ؟
نیز اوپر امام شعبی رحمہ اللہ کا قول گذر چکا ہے وہ ندامت کے بعد اسی سبب رجوع کرنے کی بات کررہے ہیں ۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
”وقوله: { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا }أي: إنما أبقينا المطلقة في منزل الزوج في مدة العدة، لعل الزوج يندم على طلاقها ويخلق الله في قلبه رجعتها، فيكون ذلك أيسر وأسهل“
”اللہ کا فرمان { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے دوران عدت مطلقہ کو شوہر کے گھر میں ہی باقی رکھا ہے تاکہ شوہر اس عدت کے دوران اس کے طلاق دینے پر نادم ہو اور اللہ تعالی اس کے دل میں رجعت کا خیال پیدا کرے تو یہ اس کے لئے سہل وآسان ہو“ [تفسير ابن كثير ت سلامة 8/ 144]
ملاحظہ فرمائیں کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بھی طلاق رجعی کے بعد دوران عدت شوہر کے لئے ندامت کی بات کررہے ہیں کہ وہ نادم ہو کر رجوع کرلے گا۔
مولانا منور صاحب نے ندامت کو تیسری طلاق کے بعد ہی خاص کرنے پر علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر سے بھی استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسی لئے حضرت علی نے فرمایا : ما طلق رجل طلاق السنة فيندم أبدا (سنن بیہقی ج 7ص 532) شرعی طریقہ کے مطابق طلاق دینے والا کبھی نادم نہیں ہوتا [حرام کاری سے بچئے :ص 75]
عرض ہے کہ:
منور صاحب نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا ہے کہ(کبھی نادم نہیں ہوتا) بلکہ یہ کہا ہے کہ ”فيندم أبدا“ (ہمیشہ نادم نہیں رہتا)، چنانچہ :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے كہا :
”أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يوسف، أنا أبو سعيد بن الأعرابي، نا الحسن بن محمد بن الصباح الزعفراني، نا يزيد بن هارون، أنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن عبيدة السلماني، عن علي رضي الله عنه قال: ما طلق رجل طلاق السنة فيندم أبدا“
”علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : جو سنت کے مطابق طلاق دے گا وہ ہمیشہ ندامت نہیں رہے گا“ [السنن الكبرى للبيهقي، ت عطا: 7/ 532 رقم 14917 ، وأخرجه أيضا الضيا المقدسي في المختارة : 2/ 248 ، من طريق يزيد به ، وانظر: المطالب العالية 8/ 411]
علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سنت کے مطابق طلاق دے گا ، یعنی بغیر جماع والے طہر میں طلاق دے گا اور ایک رجعی طلاق دے گا پھر اس کے بعد بیوی کو اپنے گھر میں ہی رکھے گا تو ندامت کے بعد رجوع کرسکتا ہے ، اس طرح اس کی ندامت ختم ہوسکتی ہے ۔ لیکن اگر کوئی سنت کے خلاف طلاق دے گا تو ہمیشہ نادم ہی رہے گا ۔
یعنی علی رضی اللہ عنہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سرے سے ندامت کا انکار نہیں کررہے بلکہ دائمی ندامت کا انکار کررہے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ بھی پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عارضی ندامت کا اثبات کررہے ہیں ۔
اس طرح علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول مولانا منور صاحب کے حق میں نہیں بلکہ ہمارے ہی حق میں ہے۔
نوٹ: علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ خود طلاق بدعت کے وقوع کے قائل تھے ، اس کی وضاحت آگے آثار پر بحث کے ضمن میں آرہی ہے۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
”وقد قال بعض هؤلاء: إنه إنما حرم الطلاق الثلاث لئلا يندم المطلق: دل على لزوم الندم له إذا فعله. وهذا يقتضي صحته.فيقال له: هذا يتضمن أن كل ما نهى الله عنه يكون صحيحا كالجمع بين المرأة وعمتها؛ لئلا يفضي إلى قطيعة الرحم. فيقال: إن كان ما قاله هذا صحيحا هنا دليل على صحة العقد؛ إذ لو كان فاسدا لم تحصل القطيعة وهذا جهل“
”بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ : تین طلاق کو اس لئے حرام قراردیا تاکہ مطلق کو ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے ،یہ دلیل ہے کہ اگر طلاق دینے والا ایسی طلاق دے گا تو ندامت کا شکار ہوگا ، جس کا مطلب یہ نکلا کہ یہ طلاق صحیح ہوگی ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر یہی چیز ہر اس بات سے متعلق لازم آئے گی جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے ، کہ اگر اس کا ارتکاب کرلیا جائے تو وہ صحیح ہوگی ، جیسے ایک عورت اور اس کی پھوپھی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ قطع رحمی لازم نہ آئے تو اگر مذکورہ بات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گاکہ عورت اور اس کی پھوپھی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا صحیح ہے ، کیونکہ اگر ایسا نکاح فاسد ہوتا تو قطع رحمی لازم نہیں آتی ، اور یہ جہالت ہے“ [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 26]
{فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
”پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعده کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواه کر لو اور اللہ کی رضامندی کے لیے ٹھیک ٹھیک گواہی دو۔ یہی ہے وه جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو“ [الطلاق: 2، 3]
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس میں ”تقوی“ یعنی (اللہ سے ڈرنے) کامطلب یہ ہے کہ کوئی ایک ساتھ تین طلاق نہ دے ، اور ”مخرج“ (مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردینے) کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ سے ڈرتے ہوئے ایک ہی طلاق دے گا تو مشکل سے نکلنے کی راہ اس طرح پیدا ہوگی کہ اسے بیوی سے رجوع کرنے کا موقع ملے گا۔
عر ض ہے کہ :
اولا:
اگر ”تقوی“ اور ”مخرج“ یعنی {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} (جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے) کا یہی معنی ہے کہ طریقہ طلاق کی مخالفت کرنے سے بیوی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی طریقہ طلاق کی مخالفت نہ کرے تو کبھی بھی اپنی بیوی سے محروم نہیں ہوسکتا ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی تین طلاق تین الگ الگ طہر میں سنت کے مطابق دے اس طرح کہ ابتدائی ہر طلاق کے بعد رجوع کیا ہو یا عدت گذرنے کے بعد نکاح جدید کیا ہو پھر تیسری طلاق بھی سنت کے مطابق دیا ہو ، تو ایسی صورت میں بھی وہ بیوی سے محروم ہوجاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہاں ”تقوی“ کے باوجود بھی ”مخرج“ سے محروم کیوں ہوگیا؟
ثانیا:
اس آیت سے پہلے تین طلاق کی ممانعت کا ذکر نہیں ہے کہ یہ کہا جائے اگر کوئی اس سے باز نہیں آیا یعنی تین طلاق ہی دیا تو اس کے لئے راہ تنگ ہوجائے گی اس طرح کہ وہ اپنی بیوی کو کھودے گا۔
بلکہ اس آیت سے پہلے طلاق رجعی کا ذکر ہے پھر کئی چیزوں کا حکم اور کئی چیزوں سے ممانعت ہے ، یعنی عدت میں طلاق دینا ، عدت کو شمار کرنا ، بیوی کو گھر سے نہ نکالنا ، بیوی کا خود گھر سے نہ نکلنا ، معروف طریقہ سے رجوع کرنا ، یا معروف طریقہ سے جدا کردینا ، دوگواہ بنانا ۔
لہٰذا جب انہیں چیزوں ذکر ہے تو ”تقوی“ اور ”مخرج“ یعنی اللہ ڈرنے اور راہ تنگ ہونے والی بات بھی صرف انہیں چیزوں سے متعلق ہے۔
ثالثا:
”تقوی“ اور ”مخرج“ یعنی {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} (جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے) سے پہلے اللہ نے عدت میں یعنی طہر میں جماع سے قبل طلاق دینے کا حکم دیا ہے ، اب اگر کوئی اس حکم کی مخالفت کرے یعنی اللہ سے نہ ڈرتے ہوئے حیض یا جماع والے طہر میں ایک طلاق دے دے تو ظاہر ہے کہ اس پر یہ بات صادق آئے گی کہ وہ ”تقوی“ کے خلاف گیا اور ”مخرج“ سے محروم ہوا ، یعنی وہ اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا اس کے لئے مشکل سے نکلنے کے راہ بند ہوئی ۔لیکن اس صورت میں مشکل سے نکلنے کی راہ بند ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کھودے گا۔کیونکہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ حیض یا جماع والے طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد بھی وہ اپنی بیوی کو واپس لے سکتا ۔
اس سے ثابت ہوا کہ ”تقوی“ اور ”مخرج“ کی بات بیوی کو نہ کھونے والی حالت پر بھی صادق آتی ہے۔
رابعا:
ایک ساتھ تین طلاق کے بعد اگر اسے ایک شمار کرے بیوی لوٹا دی جائے تو اس پر بھی ”تقوی“ اور ”مخرج“ کی بات صادق آتی ہے ، وہ اس طرح کی ہے تین طلاق ایک ہی شمار ہونے کے سبب اس کی بیوی تو اسے ملی لیکن ”تقوی“ کے خلاف جانے یعنی غلط طریقہ سے طلاق دینے کی پاداش میں ”مخرج“ سے محروم ہوگیا یعنی بیوی کے ساتھ پر سکون زندگی گذارنے سے محروم کردیا گیا ، جس سے نجات حاصل کرنے ہی کے لئے اس نے طلاق دیا تھا ۔
یا یہ کہ اختلاف اور طلاق کی وجہ معاشی تنگی رہی ہو تو اگر وہ ”تقوی“ کے خلاف جائے گا تو بیوی واپس پانے کے بعدبھی ”مخرج“ سے محروم رہے گا یعنی معاشی تنگی ختم نہ ہوگی ، لیکن اگر وہ ”تقوی“ کا ثبوت دے تو ”مخرج“ سے ہمکنار ہوگا یعنی معاشی تنگی دور ہوگی ۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اللہ نے یہیں پر ”تقوی“ اور ”مخرج“ کے فورا بعد رزق کی بات کی ہے چنانچہ فرمایا:
{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
”اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو“ [الطلاق: 2، 3]
علامہ معلی رحمہ اللہ ”تقوی“ اور ”مخرج“ سے تین طلاق کے وقوع پر استدلال کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ويجاب عن هذا بأن هذه الجملة وردت بعد أوامر ونواهي ليس فيها النهي عن جمع الطلاق، على أن من جملة الأوامر الطلاق للعدة، ومعلوم أن من طلَّق واحدة لغير العدة لا تبين منه امرأته اجماعًا.فهذا يدل أن المخرج في الآية ليس في خصوص عدم البينونة، فمن لم يتق الله فطلق لغير العدة، ضيَّقَ الله تعالى عليه بوجوب الرجعة، ومن لم يتق الله فقال: هي طالقٌ ثلاثًا، أو ألفًا، يُضيَّق الله عليه بأن لا تقع إلا واحدة، فإن وافق ذلك هواه ضيَّق الله عليه من جهة أخرى، كأن يوقع الخلاف بينه وبين امرأته، فيضطر إلى مفارقتها، أو يعيش معها في نَكَدٍ، أو غير ذلك“
”اس کا جواب یہ ہے یہ جملہ(یعنی مشکل سے نکلنے کی راہ) ایسے احکامات اور ایسے نواہی کے بعد وارد ہوا ہے کہ جس میں تین طلاق کو جمع کرنے کی بات نہیں ہے ، اور احکامات میں عدت (جماع سے قبل طہر )میں طلاق دینے حکم بھی ہے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ گرچہ کوئی ایک ہی طلاق دے لیکن عدت کے باہر(یعنی حیض یا جماع والے طہر میں ) دے تو اس کی بیوی بالاجماع اس سے جدا نہیں ہوگی ، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت میں ( مشکل سے نکلنے کی راہ) کا تعلق بیوی کو کھودینے کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ جو اللہ سے نہ ڈرتے ہوئے غیر عدت(یعنی حیض یا جماع والے طہر) میں طلاق دے تو اللہ تعالی اس کے لئے بھی راہ تنگ کردے گا اس پر اس بات کو واجب کرکے کہ وہ بیوی کو واپس لے ، اسی طرح اگر کوئی اللہ سے نہ ڈرتے ہوئے اپنی بیوی کو تین یا ہزار طلاق دے تو اللہ تعالی اس کے بھی راہ تنگ کردے گا اس طرح کی اس کی ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اور یہ چیز اگر اس کی مرضی کے موافق ہوئی تو دوسرے اعتبار اللہ تعالی اس پر راہ تنگ کردے گا اس طرح کہ اس کے اور اس کی بیوی کے بیچ اختلاف ہوتا رہے گا ، پھر وہ اسے چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا یا اس کے ساتھ مشکلات وغیرہ سے بھری زندگی گذارے گا“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 601]
رہی بات یہ کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فتوی میں تین طلاق دینے والے شخص کی تین طلاق کو واقع قراردیا اور اس سے یہ بات کہی ہے کہ تم اللہ سے نہیں ڈرے اس لئے تمہارے لئے مشکل سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے ۔دیکھئے :ص
تو عرض ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بطور سزا یہی فرمان جاری کیا تھا ، کہ اب تین طلاق دینے والے کو اس کی بیوی سے الگ کردیا جائے گا ، اس لئے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ سزا نافذ کرتے ہوئے اسے بھی ”تقوی“ اور ”مخرج“ والی بات میں شامل کردیا ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ”تقوی“ اور ”مخرج“ کا صرف یہ معنی لیتے تھے کہ اس کا تعلق تین طلاق کے وقوع سے ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ خود ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دوسرے مواقع پر تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہاں انہوں نے ”تقوی“ اور ”مخرج“ والی بات منطبق نہیں کی ، دیکھئے: ص
﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾
”اگر اس کے بعد اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دیا تو اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہ کرلے“ [البقرة: 230]
مولانا منیر احمد منور صاحب اس آیت سے دو طرح استدلال تین طلاق کے وقوع پر استدلال کیا ہے ۔
✿ پہلا طریقہ استدلال :
مولانا منیر احمد منور صاحب لکھتے ہیں:
”اس میں حرف ”فاء“ ہے اور عربی میں حرف ”فاء“ کا معنی ہے تعقیب مع الوصل یعنی ایک چیز کا دوسری چیز کے پیچھے فورا اور متصل آنا ۔ مثال کے طور پر اگر زید آیا اور اس کی آمد کے فورا بعد بغیر وقفہ کے چلا گیا تو اس کو عربی میں یوں ادا کریں گے: ”جاء زید فذھب خالد“ (زید آیا تو فورا خالد چلا گیا) اور اگر زید کی آمد کے بعد کچھ وقفہ اور تاخیرکرکے خالد گیا تو اس کو عربی میں یوں کہیں گے : ”جاء زید ثم ذھب خالد“ زید آیا اس کے کچھ دیر اور وقفہ کے بعد خالد چلا گیا ۔ لہٰذا {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ } کا معنی یہ ہوگا کہ اگر دو رجعی طلاقوں کے بعد فورا اور متصل تیسری طلاق دے دے تو وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگردوسری اور تیسری طلاق خاوند بغیر وقفہ کے اکٹھی دے دے تو یہ دونوں واقع ہوجاتی ہیں ، حالانکہ یہ ایک مجلس میں اکٹھی دی گئی ہیں ، پس اسی طرح اگر تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تووہ بھی واقع ہوجاتی ہیں“ [حرام کاری سے بچئے :ص 77]
عرض ہے کہ:
اولا:
آن جناب کے اس استدلال کی عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ حرف ”فاء“ تعقیب مع الوصل کے لئے ہی آتا ہے ، اور یہ بنیاد ہی غلط ہے ۔
کیونکہ فائے تعقیب میں تعقیب ہمیشہ وصل کے ساتھ نہیں ہوتی ہے بلکہ حالات کے لحاظ سے کبھی وصل کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی فصل اور وقفہ کے ساتھ بھی ہوتی ہے ، چنانچہ:
ولي الدين أبو زرعہ العراقي ( 826 ) فرماتے ہیں:
”وقال المحققون: تعقيب كل شيء بحسبه، فيقال: تزوج فلان فولد له، إذا لم يكن بينهما إلا مدة الحمل، وإن طالت“
”محققین کا کہنا ہے کہ ہر چیز کی تعقیب اس کے حساب سے ہوگی ، جیسے کہا جاتا ہے کہ ”تزوج فلان فولد له“ (فلاں نے شادی اس کے بعد اس کے یہاں لڑکا ہوا ) ایسا تب کہا جاتا ہے جب شادی اور لڑکے کی ولادت کے بیچ حمل کی مدت کا وقفہ ہوتا ہے گرچہ یہ وقفہ طویل ہو“ [الغيث الهامع شرح جمع الجوامع ص: 212]
غور کریں اس مثال میں شادی کے بعد بچے کی ولادت کو حرف فاء سے ذکر کیا گیا جو تعقیب کے لئے ہے لیکن یہ تعقیب مع الوصل اور بغیر وقفہ کے نہیں ہے بلکہ بیچ میں مدت حمل کا اچھا خاصا وقفہ ہے ۔
ملا علي القاري حنفی (المتوفى1014) رحمہ اللہ نے بھی یہی مثال دیتے ہوئے یہی بات کہی ہے ، فرماتے ہیں:
”لأن تعقيب كل شيء بحسبه كتزوج فولد له“
”ہر چیز کی تعقیب اس کے حساب سے ہوگی ، جیسے کہا جائے ”تزوج فولد له“ ”اس نے شادی کی اس کے بعد اس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا“ [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 4/ 1620]
فقہ حنفی کی کتاب رد المحتار مع الدر المختار میں بھی یہی بات ہے دیکھئے:[ الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار 3/ 179 ]
مولانا سرفراز صفدر دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
”اگر ان کے نزدیک ہر مقام پر حرف فاء تعقیب بلا مہلہ کے لئے آتا ہے تو وہ {إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا} الآیۃ میں، اور {فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ} میں ، اور {إذا صليتم علي الميت فاخلصوا له الدعاء} میں ، اور {تزوج فلان فولد له} وغیرہ وغیرہ مقامات میں کیا ارشاد فرمائیں گے ؟“ [احسن الکلام 1/ 315 حاشیہ]
قرآن مجید میں بھی اس کی کئی مثالیں ہیں مثلا اللہ تعالی نے کہا:
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً }
”کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی آسمان سے پانی نازل کرتا ہے اس کے بعد زمیں ہری بھری ہوجاتی ہے“ [الحج: 63]
ظاہر کہ بارش نازل ہونے ہی فورا زمین ہری بھری نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک وقفہ کے بعد ایسا ہوتا ہے ۔
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) اس کی وضاحت کرتے ہوئے اور حدیث سے بھی اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
”وقوله: {فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً } [الحج: 63]، الفاء هاهنا للتعقيب، وتعقيب كل شيء بحسبه، كما قال: { خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامً} [المؤمنون: 14] ، وقد ثبت في الصحيحين: أن بين كل شيئين أربعين يوما ومع هذا هو معقب الفاء“
”اللہ نے جو یہ کہا کہ {فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً }[الحج: 63](اس کے بعد زمین ہری بھری ہوجاتی ہے) تو یہاں حرف ”فاء“ تعقیب کے لئے ہیں اور ہر چیز کی تعقیب اس کی حساب سے ہوتی ہے ، جیساکہ اللہ کے نے دوسری جگہ کہا: { خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامً} [المؤمنون: 14] (ہم نے نطفہ کے جما ہوا خون بنایا ، اس کے بعد ہم نے خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنایا ، اس کے بعد ہم نے ہڈیوں کو گوشت پہنا دیا) اور بخاری ومسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ ان میں ہر دو چیز کے بیچ چالیس دن کا وقفہ ہوتا ہے ، اس کے باوجود بھی یہاں حرف ”فاء“ سے تعقیب ہے“ [تفسير ابن كثير ت سلامة 5/ 450]
قرآن و حدیث کی مثالوں اور اہل علم کی تصریحات سے واضح ہوگیا کہ حرف ”فاء“ کے ذریعہ تعقیب ہمیشہ مع الوصل اور فورا بعد نہیں ہوتی ہے بلکہ وقفہ اور مہلت کے ساتھ بھی ہوتی ہے ، تیسیر طلاق سے متعلق مذکورہ آیت کا بھی یہی معاملہ ہے ۔
بلکہ تیسری قرآن میں تیسری طلاق سے پہلے تو پوری صراحت کے ساتھ وقفہ کا ذکر ہے اور وہ وقفہ امساک یا تسریح کا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے تیسری طلاق سے جہاں دو طلاقوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے طلاقوں کے بعد وقفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
”طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرمرتبہ کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے“ [2/البقرة: 229]
معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد، بغیر امساک یا تسریح کے دوسری مرتبہ طلاق دینے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ اگلی طلاق دینے کے لئے امساک یا تسریح کا وقفہ ہونا ضروی ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ } میں جو حرف ”فاء“ ہے اس سے تعقیب مع الفصل مراد ہے ، یعنی وقفہ کے بعد تیسری طلاق دینا مراد ہے۔
لہٰذا مولانا منیر صاحب کے استدلال کی عمارت بے بنیاد اورقرآن کی تصریحات اور سیاق کے سراسر خلاف ہے ۔
ثانیا:
اگر بالفرض یہ مان لیں کہ یہاں فاء تعقیب مع الوصل کے معنی میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ اگر کوئی الگ الگ وقت میں فصل کے ساتھ تین طلاق دے تو ایسی تین طلاق کے بعد بھی بیوی حرام نہیں ہوگی ، کیونکہ حرام کی بات تو طلاق وصل کے ساتھ خاص ہوگئی ، اور اس کا کوئی قائل نہیں لہٰذا یہاں فاء کو تعقیب مع الوصل کے معنی میں لینا باطل ثابت ہوا۔
✿ دوسرا طریقہ استدلال :
مولانا منیر احمد منور صاحب اس آیت سے دوسرا طریقہ استدلال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” اس آیت میں اصل مقصود ہے تین طلاقوں کا حکم بیان کرنا کہ تین طلاقوں کے بعد عورت کا پہلے خاوند کے لئے حلال ہونا حلالہ کی شرط کے ساتھ مشروط ہے ، اور قرآن و حدیث اور آثار صحابہ وتابعین سے ثابت ہے کہ تین طلاقیں شرعی طریقہ سے دی جائیں یا غیر شرعی طریقہ سے دی جائیں ، وقوع کے بعد دونوں کا حکم ایک ہے اس لئے {فَإِنْ طَلَّقَهَا } کا ظاہر تین طلاق کی ان دونوں قسموں کو شامل ہے رہا ان کا معصیت ہونا وہ قرآن وحدیث کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے“ [حرام کاری سے بچئے :ص 77]
یہاں مولانا منیر صاحب اس آیت سے براہ راست استدال کیا ہی نہیں ہے ، بلکہ قرآن وحدیث وآثار صحابہ کے دیگر حوالوں کا سہارا لیکر یہ کہا ہے کہ جب ان دیگر حوالوں سے دونوں طرح یعنی شرعی اور غیر شرعی طریقہ پر طلاق واقع ہوجاتی ہےتو آیت {فَإِنْ طَلَّقَهَا } کا ظاہر بھی دونوں کا شامل ہے ۔
عرض ہے کہ:
جن دیگر حوالوں کا سہارا موصوف نے لیا ہے ہم نے اس کتاب میں ان تمام حوالوں کی حقیقت بیان کردی ہے لہٰذا ان حوالوں کا سہارا کار آمد نہیں ہے۔
”يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا“ سے استدلال
اللہ کا ارشاد ہے:{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا }
”اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (بغیر جماع والے طہر ) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وه کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کرده حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے“ [الطلاق: 1]
اس آیت میں ”فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ“ سے استدلال کا جواب دیا چکا ہے ، اور اب اسی آیت میں آگے مذکور احداث امر یعنی { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } ( شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے) سے کس طرح طلاق ثلاثہ کے وقوع پر استدلال کیا جاتا ہے وہ مولانا منیر احمد منور صاحب کی زبانی سنئے فرماتے ہیں:
”اللہ تعالی نے فرمایا: { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } شاید اللہ تعالی طلاق دینے کے بعد طلاق دہندہ کے دل میں ندامت پیدا کردے پس اگر اس نے تین طہروں میں متفرق طلاقیں دی ہوں گی تو پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کرسکتا ہے اس میں ندامت کی کوئی بات نہیں ، ندامت اس صورت میں ہوگی جب تین طلاقیں واقع ہوجائیں اور یہ رجوع نہ کرسکے“ [حرام کاری سے بچئے :ص 73]
یعنی موصوف کی نظر میں ایک طلاق دینے والا نادم ہوہی نہیں سکتا ، اسی طرح دوسری بار طلاق دینے والا بھی نادم نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ رجوع کرسکتا ہے۔
تو سوال یہ کہ اگر ایک یا دو طلاق کے بعد طلاق دہندہ نادم نہیں ہوسکتا ، تو رجوع کیوں کررہا ہے ؟؟ بھائی اگر اسے کوئی ندامت نہیں ہے یعنی طلاق دینے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے تو وہ طلاق پر باقی رہے گا رجوع کیوں کرے گا؟
رجوع کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ نادم ہوگیا یعنی اسے طلاق پر پچھتا وا ہے اور اس کے سامنے رجوع کا موقع تھا اس لئے ندامت کے بعد رجوع کرلیا ۔
اور حیرت کی بات ہے کہ مولانا منیر اور ان کے ہمنواؤں نے ایک یا دو بار طلاق دینے والے سے ندامت کا انکار کرکے آیت { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } کو یہ معنی پہنا دیا کہ یہ احداث امر، تین طلاق کے بعد ہی ہوگا ، یعنی تین طلاق کے بعد وہ صرف ندامت کے آنسو بہائے گا اور رجوع نہیں کرسکے گا ۔
حالانکہ یہاں احداث امر سے مراد ہی یہی ہے کہ وہ ندامت کے بعد رجوع کرلے گا ، آیت کا پورا سیاق یہی کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے طلاق رجعی ذکرنے کے بعد عدت میں میاں بیوی کو ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے اور اسی کا ثمرہ اور فائدہ بتاتے ہوے کہا ہے کہ { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } ( شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے) یعنی شوہر رجوع کرلے اور میاں بیوی دوباہ مل جائیں ۔یہی مفہوم صحابہ وتابعین نے اور ائمہ سلف نے متفقہ طور پرسمجھا ہے ، چنانچہ :
فاطمة بنت قيس رضی اللہ عنہا اس آیت سے متعلق فرماتی ہیں :
”هذا لمن كانت له مراجعة، فأي أمر يحدث بعد الثلاث؟“
”یہ حکم اس کے لئے جس سے رجوع ممکن ہو (یعنی جس کو طلاق رجعی دی گئی ہو) ورنہ تین طلاق کے بعد تو کوئی امر نہیں ہوسکتا“ [صحيح مسلم رقم 2/ 1117 رقم 1480]
تفسیر عبدالرزاق کی روایت ہے:
”فأي أمر يحدث بعد الثلاث؟ وإنما هو في مراجعة الرجل امرأته“
”تین طلاق کے بعد کوئی احداث امر نہیں ہوسکتا ، یہ حکم بیوی سے رجوع کرنے کے سلسلے میں ہے“ [تفسير عبد الرزاق رقم 3236 وإسناده صحيح]
امام عکرمہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”{ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } قال فاي امر يحدث بعد الثلاثاء“
”اللہ نے { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } کہا ہے اور تین طلاق کے بعد کوئی احداث امر نہیں ہوسکتا“ [أحكام القرآن للجهضمي ص: 244وإسناده صحيح ]
امام شعبی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”{ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } قال: لا تدري لعلك تندم فيكون لك سبيل إلى الرجعة“
”اللہ تعالی کا فرمان ہے: { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } اس کا مطلب یہ کہ تمہیں کیا پتہ کہ تم اس کے بعد نادم ہو اور تمہارے لئے رجوع کا راستہ باقی رہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 575وإسناده صحيح ]
امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”( لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا ) قال: هذا في مراجعة الرجل امرأته“
”اللہ تعالی کافرمان { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } یہ شوہر کے اپنی بیوی سے رجوع کرنے سے متعلق ہے“ [تفسير الطبري 23/ 442وإسناده صحيح ]
بلکہ اما طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے تو اس مفہوم پر اجماع نقل کرتے ہوئے کہا:
”ثم قال { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } , وأجمعوا أن ذلك الأمر هو المراجعة“
”پھر اللہ نے فرمایا: { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } اور اس پر اجماع ہے کہ اس امر سے مراد رجعت ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 70]
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ صحابہ وتابعین اور امت نے اجماعی طور پر احداث امر سے رجعت مراد لیا ہے اور ارباب تقلید اس کا مفہوم یہ بتارہے ہیں کہ اس سے رجعت نہیں مراد ہے بلکہ تین طلاق دینے کے بعد محض ندامت کے آنسو بہانا مراد ہے۔سبحان اللہ !
ان کی منطق تو دیکھئے فرماتے ہیں کہ تین طلاق کے بعد ہی ندامت ہوسکتی ہے ، اس سے پہلے نہیں کیونکہ اس سے پہلے تو رجوع کرسکتا ہے ۔
اب ان سے کوئی پوچھے تین طلاق سے پہلے بھی جب کوئی ایک ہی طلاق دے گا تو کیا وہ ندامت کا شکار نہیں ہوسکتا؟ اور جب وہ رجوع کرکے تو بغیر ندامت کے جشن مناتے ہوئے رجوع کرے گا ؟
نیز اوپر امام شعبی رحمہ اللہ کا قول گذر چکا ہے وہ ندامت کے بعد اسی سبب رجوع کرنے کی بات کررہے ہیں ۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
”وقوله: { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا }أي: إنما أبقينا المطلقة في منزل الزوج في مدة العدة، لعل الزوج يندم على طلاقها ويخلق الله في قلبه رجعتها، فيكون ذلك أيسر وأسهل“
”اللہ کا فرمان { لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا } اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے دوران عدت مطلقہ کو شوہر کے گھر میں ہی باقی رکھا ہے تاکہ شوہر اس عدت کے دوران اس کے طلاق دینے پر نادم ہو اور اللہ تعالی اس کے دل میں رجعت کا خیال پیدا کرے تو یہ اس کے لئے سہل وآسان ہو“ [تفسير ابن كثير ت سلامة 8/ 144]
ملاحظہ فرمائیں کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بھی طلاق رجعی کے بعد دوران عدت شوہر کے لئے ندامت کی بات کررہے ہیں کہ وہ نادم ہو کر رجوع کرلے گا۔
مولانا منور صاحب نے ندامت کو تیسری طلاق کے بعد ہی خاص کرنے پر علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر سے بھی استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسی لئے حضرت علی نے فرمایا : ما طلق رجل طلاق السنة فيندم أبدا (سنن بیہقی ج 7ص 532) شرعی طریقہ کے مطابق طلاق دینے والا کبھی نادم نہیں ہوتا [حرام کاری سے بچئے :ص 75]
عرض ہے کہ:
منور صاحب نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا ہے کہ(کبھی نادم نہیں ہوتا) بلکہ یہ کہا ہے کہ ”فيندم أبدا“ (ہمیشہ نادم نہیں رہتا)، چنانچہ :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے كہا :
”أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يوسف، أنا أبو سعيد بن الأعرابي، نا الحسن بن محمد بن الصباح الزعفراني، نا يزيد بن هارون، أنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن عبيدة السلماني، عن علي رضي الله عنه قال: ما طلق رجل طلاق السنة فيندم أبدا“
”علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : جو سنت کے مطابق طلاق دے گا وہ ہمیشہ ندامت نہیں رہے گا“ [السنن الكبرى للبيهقي، ت عطا: 7/ 532 رقم 14917 ، وأخرجه أيضا الضيا المقدسي في المختارة : 2/ 248 ، من طريق يزيد به ، وانظر: المطالب العالية 8/ 411]
علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سنت کے مطابق طلاق دے گا ، یعنی بغیر جماع والے طہر میں طلاق دے گا اور ایک رجعی طلاق دے گا پھر اس کے بعد بیوی کو اپنے گھر میں ہی رکھے گا تو ندامت کے بعد رجوع کرسکتا ہے ، اس طرح اس کی ندامت ختم ہوسکتی ہے ۔ لیکن اگر کوئی سنت کے خلاف طلاق دے گا تو ہمیشہ نادم ہی رہے گا ۔
یعنی علی رضی اللہ عنہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سرے سے ندامت کا انکار نہیں کررہے بلکہ دائمی ندامت کا انکار کررہے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ بھی پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عارضی ندامت کا اثبات کررہے ہیں ۔
اس طرح علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول مولانا منور صاحب کے حق میں نہیں بلکہ ہمارے ہی حق میں ہے۔
نوٹ: علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ خود طلاق بدعت کے وقوع کے قائل تھے ، اس کی وضاحت آگے آثار پر بحث کے ضمن میں آرہی ہے۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
”وقد قال بعض هؤلاء: إنه إنما حرم الطلاق الثلاث لئلا يندم المطلق: دل على لزوم الندم له إذا فعله. وهذا يقتضي صحته.فيقال له: هذا يتضمن أن كل ما نهى الله عنه يكون صحيحا كالجمع بين المرأة وعمتها؛ لئلا يفضي إلى قطيعة الرحم. فيقال: إن كان ما قاله هذا صحيحا هنا دليل على صحة العقد؛ إذ لو كان فاسدا لم تحصل القطيعة وهذا جهل“
”بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ : تین طلاق کو اس لئے حرام قراردیا تاکہ مطلق کو ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے ،یہ دلیل ہے کہ اگر طلاق دینے والا ایسی طلاق دے گا تو ندامت کا شکار ہوگا ، جس کا مطلب یہ نکلا کہ یہ طلاق صحیح ہوگی ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر یہی چیز ہر اس بات سے متعلق لازم آئے گی جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے ، کہ اگر اس کا ارتکاب کرلیا جائے تو وہ صحیح ہوگی ، جیسے ایک عورت اور اس کی پھوپھی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ قطع رحمی لازم نہ آئے تو اگر مذکورہ بات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گاکہ عورت اور اس کی پھوپھی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا صحیح ہے ، کیونکہ اگر ایسا نکاح فاسد ہوتا تو قطع رحمی لازم نہیں آتی ، اور یہ جہالت ہے“ [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 26]
”يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا“ سے استدلال
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:{فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
”پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعده کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواه کر لو اور اللہ کی رضامندی کے لیے ٹھیک ٹھیک گواہی دو۔ یہی ہے وه جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو“ [الطلاق: 2، 3]
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس میں ”تقوی“ یعنی (اللہ سے ڈرنے) کامطلب یہ ہے کہ کوئی ایک ساتھ تین طلاق نہ دے ، اور ”مخرج“ (مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردینے) کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ سے ڈرتے ہوئے ایک ہی طلاق دے گا تو مشکل سے نکلنے کی راہ اس طرح پیدا ہوگی کہ اسے بیوی سے رجوع کرنے کا موقع ملے گا۔
عر ض ہے کہ :
اولا:
اگر ”تقوی“ اور ”مخرج“ یعنی {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} (جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے) کا یہی معنی ہے کہ طریقہ طلاق کی مخالفت کرنے سے بیوی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی طریقہ طلاق کی مخالفت نہ کرے تو کبھی بھی اپنی بیوی سے محروم نہیں ہوسکتا ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی تین طلاق تین الگ الگ طہر میں سنت کے مطابق دے اس طرح کہ ابتدائی ہر طلاق کے بعد رجوع کیا ہو یا عدت گذرنے کے بعد نکاح جدید کیا ہو پھر تیسری طلاق بھی سنت کے مطابق دیا ہو ، تو ایسی صورت میں بھی وہ بیوی سے محروم ہوجاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہاں ”تقوی“ کے باوجود بھی ”مخرج“ سے محروم کیوں ہوگیا؟
ثانیا:
اس آیت سے پہلے تین طلاق کی ممانعت کا ذکر نہیں ہے کہ یہ کہا جائے اگر کوئی اس سے باز نہیں آیا یعنی تین طلاق ہی دیا تو اس کے لئے راہ تنگ ہوجائے گی اس طرح کہ وہ اپنی بیوی کو کھودے گا۔
بلکہ اس آیت سے پہلے طلاق رجعی کا ذکر ہے پھر کئی چیزوں کا حکم اور کئی چیزوں سے ممانعت ہے ، یعنی عدت میں طلاق دینا ، عدت کو شمار کرنا ، بیوی کو گھر سے نہ نکالنا ، بیوی کا خود گھر سے نہ نکلنا ، معروف طریقہ سے رجوع کرنا ، یا معروف طریقہ سے جدا کردینا ، دوگواہ بنانا ۔
لہٰذا جب انہیں چیزوں ذکر ہے تو ”تقوی“ اور ”مخرج“ یعنی اللہ ڈرنے اور راہ تنگ ہونے والی بات بھی صرف انہیں چیزوں سے متعلق ہے۔
ثالثا:
”تقوی“ اور ”مخرج“ یعنی {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} (جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے) سے پہلے اللہ نے عدت میں یعنی طہر میں جماع سے قبل طلاق دینے کا حکم دیا ہے ، اب اگر کوئی اس حکم کی مخالفت کرے یعنی اللہ سے نہ ڈرتے ہوئے حیض یا جماع والے طہر میں ایک طلاق دے دے تو ظاہر ہے کہ اس پر یہ بات صادق آئے گی کہ وہ ”تقوی“ کے خلاف گیا اور ”مخرج“ سے محروم ہوا ، یعنی وہ اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا اس کے لئے مشکل سے نکلنے کے راہ بند ہوئی ۔لیکن اس صورت میں مشکل سے نکلنے کی راہ بند ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کھودے گا۔کیونکہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ حیض یا جماع والے طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد بھی وہ اپنی بیوی کو واپس لے سکتا ۔
اس سے ثابت ہوا کہ ”تقوی“ اور ”مخرج“ کی بات بیوی کو نہ کھونے والی حالت پر بھی صادق آتی ہے۔
رابعا:
ایک ساتھ تین طلاق کے بعد اگر اسے ایک شمار کرے بیوی لوٹا دی جائے تو اس پر بھی ”تقوی“ اور ”مخرج“ کی بات صادق آتی ہے ، وہ اس طرح کی ہے تین طلاق ایک ہی شمار ہونے کے سبب اس کی بیوی تو اسے ملی لیکن ”تقوی“ کے خلاف جانے یعنی غلط طریقہ سے طلاق دینے کی پاداش میں ”مخرج“ سے محروم ہوگیا یعنی بیوی کے ساتھ پر سکون زندگی گذارنے سے محروم کردیا گیا ، جس سے نجات حاصل کرنے ہی کے لئے اس نے طلاق دیا تھا ۔
یا یہ کہ اختلاف اور طلاق کی وجہ معاشی تنگی رہی ہو تو اگر وہ ”تقوی“ کے خلاف جائے گا تو بیوی واپس پانے کے بعدبھی ”مخرج“ سے محروم رہے گا یعنی معاشی تنگی ختم نہ ہوگی ، لیکن اگر وہ ”تقوی“ کا ثبوت دے تو ”مخرج“ سے ہمکنار ہوگا یعنی معاشی تنگی دور ہوگی ۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اللہ نے یہیں پر ”تقوی“ اور ”مخرج“ کے فورا بعد رزق کی بات کی ہے چنانچہ فرمایا:
{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
”اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو“ [الطلاق: 2، 3]
علامہ معلی رحمہ اللہ ”تقوی“ اور ”مخرج“ سے تین طلاق کے وقوع پر استدلال کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ويجاب عن هذا بأن هذه الجملة وردت بعد أوامر ونواهي ليس فيها النهي عن جمع الطلاق، على أن من جملة الأوامر الطلاق للعدة، ومعلوم أن من طلَّق واحدة لغير العدة لا تبين منه امرأته اجماعًا.فهذا يدل أن المخرج في الآية ليس في خصوص عدم البينونة، فمن لم يتق الله فطلق لغير العدة، ضيَّقَ الله تعالى عليه بوجوب الرجعة، ومن لم يتق الله فقال: هي طالقٌ ثلاثًا، أو ألفًا، يُضيَّق الله عليه بأن لا تقع إلا واحدة، فإن وافق ذلك هواه ضيَّق الله عليه من جهة أخرى، كأن يوقع الخلاف بينه وبين امرأته، فيضطر إلى مفارقتها، أو يعيش معها في نَكَدٍ، أو غير ذلك“
”اس کا جواب یہ ہے یہ جملہ(یعنی مشکل سے نکلنے کی راہ) ایسے احکامات اور ایسے نواہی کے بعد وارد ہوا ہے کہ جس میں تین طلاق کو جمع کرنے کی بات نہیں ہے ، اور احکامات میں عدت (جماع سے قبل طہر )میں طلاق دینے حکم بھی ہے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ گرچہ کوئی ایک ہی طلاق دے لیکن عدت کے باہر(یعنی حیض یا جماع والے طہر میں ) دے تو اس کی بیوی بالاجماع اس سے جدا نہیں ہوگی ، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت میں ( مشکل سے نکلنے کی راہ) کا تعلق بیوی کو کھودینے کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ جو اللہ سے نہ ڈرتے ہوئے غیر عدت(یعنی حیض یا جماع والے طہر) میں طلاق دے تو اللہ تعالی اس کے لئے بھی راہ تنگ کردے گا اس پر اس بات کو واجب کرکے کہ وہ بیوی کو واپس لے ، اسی طرح اگر کوئی اللہ سے نہ ڈرتے ہوئے اپنی بیوی کو تین یا ہزار طلاق دے تو اللہ تعالی اس کے بھی راہ تنگ کردے گا اس طرح کی اس کی ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اور یہ چیز اگر اس کی مرضی کے موافق ہوئی تو دوسرے اعتبار اللہ تعالی اس پر راہ تنگ کردے گا اس طرح کہ اس کے اور اس کی بیوی کے بیچ اختلاف ہوتا رہے گا ، پھر وہ اسے چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا یا اس کے ساتھ مشکلات وغیرہ سے بھری زندگی گذارے گا“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 601]
رہی بات یہ کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فتوی میں تین طلاق دینے والے شخص کی تین طلاق کو واقع قراردیا اور اس سے یہ بات کہی ہے کہ تم اللہ سے نہیں ڈرے اس لئے تمہارے لئے مشکل سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے ۔دیکھئے :ص
تو عرض ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بطور سزا یہی فرمان جاری کیا تھا ، کہ اب تین طلاق دینے والے کو اس کی بیوی سے الگ کردیا جائے گا ، اس لئے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ سزا نافذ کرتے ہوئے اسے بھی ”تقوی“ اور ”مخرج“ والی بات میں شامل کردیا ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ”تقوی“ اور ”مخرج“ کا صرف یہ معنی لیتے تھے کہ اس کا تعلق تین طلاق کے وقوع سے ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ خود ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دوسرے مواقع پر تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہاں انہوں نے ”تقوی“ اور ”مخرج“ والی بات منطبق نہیں کی ، دیکھئے: ص
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ } سے استدالال
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾
”اگر اس کے بعد اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دیا تو اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہ کرلے“ [البقرة: 230]
مولانا منیر احمد منور صاحب اس آیت سے دو طرح استدلال تین طلاق کے وقوع پر استدلال کیا ہے ۔
✿ پہلا طریقہ استدلال :
مولانا منیر احمد منور صاحب لکھتے ہیں:
”اس میں حرف ”فاء“ ہے اور عربی میں حرف ”فاء“ کا معنی ہے تعقیب مع الوصل یعنی ایک چیز کا دوسری چیز کے پیچھے فورا اور متصل آنا ۔ مثال کے طور پر اگر زید آیا اور اس کی آمد کے فورا بعد بغیر وقفہ کے چلا گیا تو اس کو عربی میں یوں ادا کریں گے: ”جاء زید فذھب خالد“ (زید آیا تو فورا خالد چلا گیا) اور اگر زید کی آمد کے بعد کچھ وقفہ اور تاخیرکرکے خالد گیا تو اس کو عربی میں یوں کہیں گے : ”جاء زید ثم ذھب خالد“ زید آیا اس کے کچھ دیر اور وقفہ کے بعد خالد چلا گیا ۔ لہٰذا {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ } کا معنی یہ ہوگا کہ اگر دو رجعی طلاقوں کے بعد فورا اور متصل تیسری طلاق دے دے تو وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگردوسری اور تیسری طلاق خاوند بغیر وقفہ کے اکٹھی دے دے تو یہ دونوں واقع ہوجاتی ہیں ، حالانکہ یہ ایک مجلس میں اکٹھی دی گئی ہیں ، پس اسی طرح اگر تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تووہ بھی واقع ہوجاتی ہیں“ [حرام کاری سے بچئے :ص 77]
عرض ہے کہ:
اولا:
آن جناب کے اس استدلال کی عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ حرف ”فاء“ تعقیب مع الوصل کے لئے ہی آتا ہے ، اور یہ بنیاد ہی غلط ہے ۔
کیونکہ فائے تعقیب میں تعقیب ہمیشہ وصل کے ساتھ نہیں ہوتی ہے بلکہ حالات کے لحاظ سے کبھی وصل کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی فصل اور وقفہ کے ساتھ بھی ہوتی ہے ، چنانچہ:
ولي الدين أبو زرعہ العراقي ( 826 ) فرماتے ہیں:
”وقال المحققون: تعقيب كل شيء بحسبه، فيقال: تزوج فلان فولد له، إذا لم يكن بينهما إلا مدة الحمل، وإن طالت“
”محققین کا کہنا ہے کہ ہر چیز کی تعقیب اس کے حساب سے ہوگی ، جیسے کہا جاتا ہے کہ ”تزوج فلان فولد له“ (فلاں نے شادی اس کے بعد اس کے یہاں لڑکا ہوا ) ایسا تب کہا جاتا ہے جب شادی اور لڑکے کی ولادت کے بیچ حمل کی مدت کا وقفہ ہوتا ہے گرچہ یہ وقفہ طویل ہو“ [الغيث الهامع شرح جمع الجوامع ص: 212]
غور کریں اس مثال میں شادی کے بعد بچے کی ولادت کو حرف فاء سے ذکر کیا گیا جو تعقیب کے لئے ہے لیکن یہ تعقیب مع الوصل اور بغیر وقفہ کے نہیں ہے بلکہ بیچ میں مدت حمل کا اچھا خاصا وقفہ ہے ۔
ملا علي القاري حنفی (المتوفى1014) رحمہ اللہ نے بھی یہی مثال دیتے ہوئے یہی بات کہی ہے ، فرماتے ہیں:
”لأن تعقيب كل شيء بحسبه كتزوج فولد له“
”ہر چیز کی تعقیب اس کے حساب سے ہوگی ، جیسے کہا جائے ”تزوج فولد له“ ”اس نے شادی کی اس کے بعد اس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا“ [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 4/ 1620]
فقہ حنفی کی کتاب رد المحتار مع الدر المختار میں بھی یہی بات ہے دیکھئے:[ الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار 3/ 179 ]
مولانا سرفراز صفدر دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
”اگر ان کے نزدیک ہر مقام پر حرف فاء تعقیب بلا مہلہ کے لئے آتا ہے تو وہ {إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا} الآیۃ میں، اور {فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ} میں ، اور {إذا صليتم علي الميت فاخلصوا له الدعاء} میں ، اور {تزوج فلان فولد له} وغیرہ وغیرہ مقامات میں کیا ارشاد فرمائیں گے ؟“ [احسن الکلام 1/ 315 حاشیہ]
قرآن مجید میں بھی اس کی کئی مثالیں ہیں مثلا اللہ تعالی نے کہا:
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً }
”کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی آسمان سے پانی نازل کرتا ہے اس کے بعد زمیں ہری بھری ہوجاتی ہے“ [الحج: 63]
ظاہر کہ بارش نازل ہونے ہی فورا زمین ہری بھری نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک وقفہ کے بعد ایسا ہوتا ہے ۔
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) اس کی وضاحت کرتے ہوئے اور حدیث سے بھی اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
”وقوله: {فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً } [الحج: 63]، الفاء هاهنا للتعقيب، وتعقيب كل شيء بحسبه، كما قال: { خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامً} [المؤمنون: 14] ، وقد ثبت في الصحيحين: أن بين كل شيئين أربعين يوما ومع هذا هو معقب الفاء“
”اللہ نے جو یہ کہا کہ {فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً }[الحج: 63](اس کے بعد زمین ہری بھری ہوجاتی ہے) تو یہاں حرف ”فاء“ تعقیب کے لئے ہیں اور ہر چیز کی تعقیب اس کی حساب سے ہوتی ہے ، جیساکہ اللہ کے نے دوسری جگہ کہا: { خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامً} [المؤمنون: 14] (ہم نے نطفہ کے جما ہوا خون بنایا ، اس کے بعد ہم نے خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنایا ، اس کے بعد ہم نے ہڈیوں کو گوشت پہنا دیا) اور بخاری ومسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ ان میں ہر دو چیز کے بیچ چالیس دن کا وقفہ ہوتا ہے ، اس کے باوجود بھی یہاں حرف ”فاء“ سے تعقیب ہے“ [تفسير ابن كثير ت سلامة 5/ 450]
قرآن و حدیث کی مثالوں اور اہل علم کی تصریحات سے واضح ہوگیا کہ حرف ”فاء“ کے ذریعہ تعقیب ہمیشہ مع الوصل اور فورا بعد نہیں ہوتی ہے بلکہ وقفہ اور مہلت کے ساتھ بھی ہوتی ہے ، تیسیر طلاق سے متعلق مذکورہ آیت کا بھی یہی معاملہ ہے ۔
بلکہ تیسری قرآن میں تیسری طلاق سے پہلے تو پوری صراحت کے ساتھ وقفہ کا ذکر ہے اور وہ وقفہ امساک یا تسریح کا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے تیسری طلاق سے جہاں دو طلاقوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے طلاقوں کے بعد وقفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
”طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرمرتبہ کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے“ [2/البقرة: 229]
معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد، بغیر امساک یا تسریح کے دوسری مرتبہ طلاق دینے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ اگلی طلاق دینے کے لئے امساک یا تسریح کا وقفہ ہونا ضروی ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ } میں جو حرف ”فاء“ ہے اس سے تعقیب مع الفصل مراد ہے ، یعنی وقفہ کے بعد تیسری طلاق دینا مراد ہے۔
لہٰذا مولانا منیر صاحب کے استدلال کی عمارت بے بنیاد اورقرآن کی تصریحات اور سیاق کے سراسر خلاف ہے ۔
ثانیا:
اگر بالفرض یہ مان لیں کہ یہاں فاء تعقیب مع الوصل کے معنی میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ اگر کوئی الگ الگ وقت میں فصل کے ساتھ تین طلاق دے تو ایسی تین طلاق کے بعد بھی بیوی حرام نہیں ہوگی ، کیونکہ حرام کی بات تو طلاق وصل کے ساتھ خاص ہوگئی ، اور اس کا کوئی قائل نہیں لہٰذا یہاں فاء کو تعقیب مع الوصل کے معنی میں لینا باطل ثابت ہوا۔
✿ دوسرا طریقہ استدلال :
مولانا منیر احمد منور صاحب اس آیت سے دوسرا طریقہ استدلال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” اس آیت میں اصل مقصود ہے تین طلاقوں کا حکم بیان کرنا کہ تین طلاقوں کے بعد عورت کا پہلے خاوند کے لئے حلال ہونا حلالہ کی شرط کے ساتھ مشروط ہے ، اور قرآن و حدیث اور آثار صحابہ وتابعین سے ثابت ہے کہ تین طلاقیں شرعی طریقہ سے دی جائیں یا غیر شرعی طریقہ سے دی جائیں ، وقوع کے بعد دونوں کا حکم ایک ہے اس لئے {فَإِنْ طَلَّقَهَا } کا ظاہر تین طلاق کی ان دونوں قسموں کو شامل ہے رہا ان کا معصیت ہونا وہ قرآن وحدیث کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے“ [حرام کاری سے بچئے :ص 77]
یہاں مولانا منیر صاحب اس آیت سے براہ راست استدال کیا ہی نہیں ہے ، بلکہ قرآن وحدیث وآثار صحابہ کے دیگر حوالوں کا سہارا لیکر یہ کہا ہے کہ جب ان دیگر حوالوں سے دونوں طرح یعنی شرعی اور غیر شرعی طریقہ پر طلاق واقع ہوجاتی ہےتو آیت {فَإِنْ طَلَّقَهَا } کا ظاہر بھی دونوں کا شامل ہے ۔
عرض ہے کہ:
جن دیگر حوالوں کا سہارا موصوف نے لیا ہے ہم نے اس کتاب میں ان تمام حوالوں کی حقیقت بیان کردی ہے لہٰذا ان حوالوں کا سہارا کار آمد نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment