حدیث عائشہ اور رفاعہ القرضی رضی اللہ عنہما - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-17

حدیث عائشہ اور رفاعہ القرضی رضی اللہ عنہما


پچھلا 
حدیث عائشہ اور رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہما
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول“ 
 ”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس کی بیوی نے کسی اور شخص سے شادی کرلیا۔ دوسرے شوہر نے بھی اسے طلاق دے دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کیا پہلے شوہر کے لیے اب یہ عورت حلال ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا“ [صحيح البخاري 7/ 43 رقم 5261]

عرض ہے کہ:
اس حدیث میں صحابی رسول رفاعہ القرضی رضی اللہ عنہ سے متعلق ہی تذکرہ ہے کیونکہ اسی سند یعنی ”يحيى، عن عبيد الله، عن القاسم بن محمد، عن عائشة“ ہی کے طریق اسے ابویعلی نے روایت کیا ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ طلاق دینے والے اس صحابی نے طلاق البتہ یعنی تیسری بار طلاق  دی تھی اوراسی کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے تین طلاق سے تعبیر کیا ہے چنانچہ:
امام أبو يعلى رحمه الله (المتوفى307) نے کہا:
 ”حدثنا عبد الله بن عمر بن أبان، حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة، عن عبيد الله، عن القاسم بن محمد، عن عائشة قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امرأته البتة - يعني ثلاثا - فتزوجت رجلا فطلقها قبل أن يدخل بها، أترجع إلى الأول؟ فقال: «لا. حتى يذوق من عسيلتها ما ذاق صاحبه»“ 
 ”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا س‬ے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال ہوا جس نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ یعنی تین طلاق دے تھی اور اس کی بیوی نے دوسرے شوہر سے شادی کیا اوراس نے دخول سے پہلے طلاق دے دی ، کہ کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کی طرف واپس جاسکتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا“ [مسند أبي يعلى الموصلي 8/ 373 رقم 4964 وإسناده صحيح]

اب رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ کے واقعہ والی حدیث دیکھئے جو اماں عائشہ رضی للہ عنہا ہی سے مروی ہے اس میں بھی یہی وارد ہے کہ انہوں نے طلاق البتہ دی کما سیاتی ،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث میں بھی انہیں کا واقعہ مذکور ہے ، اور رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ والے واقعہ میں یہ صراحت آگئی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو الگ الگ وقت میں تین طلاق دی تھی ، پہلے دو طلاق دے کررجوع کرچکے تھے اور پھر تیسری بار طلاق دی تھی جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں ہے چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”حدثنا حبان بن موسى، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها: أن رفاعة القرظي طلق امرأته فبت طلاقها، فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، إنها كانت عند رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات، فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله ما معه يا رسول الله إلا مثل هذه الهدبة، لهدبة أخذتها من جلبابها، قال: وأبو بكر جالس عند النبي صلى الله عليه وسلم، وابن سعيد بن العاص جالس بباب الحجرة ليؤذن له، فطفق خالد ينادي أبا بكر: يا أبا بكر، ألا تزجر هذه عما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما يزيد رسول الله صلى الله عليه وسلم على التبسم، ثم قال: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك“ 
 ”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا س‬ے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ طلاق فیصلہ کن تھی۔ طلاق کے بعد اس عورت سے عبدالرحمن بن زبیررضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا۔ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حضرت رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق بھی دے دی، پھر مجھ سے عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا لیکن اللہ کی قسم ! ان کے پاس تو اس پھندنے کی طرح ہے۔ اس نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر بتایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن عاص کے بیٹے حجرے کے صحن میں بیٹھے تھے تاکہ انہیں اندر آنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آواز دی: اے بکر! اس عورت کو روکتے نہیں ہوکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کس طرح بے باک ہوکر باتیں کررہی ہے؟ لیکن رسول اللہ ﷺ یہ باتیں سن کر تبسم کے علاوہ کچھ نہ کرتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”غالباً تو رفاعہ کے پاس دوبارہ چاہتی ہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تو اس (دوسرے شوہر) کامزہ نہ چکھ لے اور وہ تیرا مزہ نہ چکھ لے“ [صحيح البخاري 8/ 22 رقم 6084]

اس حدیث میں یہ صراحت آگئی کہ ”فطلقها آخر ثلاث تطليقات“ (انہوں نے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق بھی دے دی)۔جس سے واضح ہوگیا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث میں بھی جو تین طلاق کا ذکر ہے وہ الگ الگ وقت میں دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ طلاق پر نہیں ٹوکا، اس پوری حقیقت کے سامنے آنے کے بعد اس حدیث  سے بیک وقت تین طلاق کے وقوع پر استدلال درست نہیں ہے۔

کیا حدیث عائشہ میں زوجہ رفاعہ کے علاوہ کسی دوسرے واقعہ کا ذکر ہوسکتاہے؟
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
 ”ويحتمل أن يكون من أبهم في حديث عائشة هذا غير هذه القصة فقد روى النسائي من طريق عائشة أيضا أن عمرو بن حزم طلق الرميصاء فنكحها رجل فطلقها قبل أن يمسها“ 
 ”یہ بھی احتمال ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں جس کا نام مبہم ہے وہ رفاعہ القرظی کے علاوہ کوئی دوسرا ہو ، کیونکہ نسائی نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ عمروبن حزم نے رمیصاء کو طلاق دیا تو دوسرے شخص نے ان سے شادی کرلی ، پھر دوسرے شخص نے دخول سےپہلے طلاق دے دیا“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 1/ 324]
نسائی کی طرف اس روایت کو منسوب کرنے میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ کو وہم ہوا کیونکہ یہ نسائی نہیں بلکہ طبرانی وغیرہ کی روایت ہے ، اور نسائی کی روایت اماں عائشہ رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ عبیداللہ بن عباس سے ہے۔لیکن دوسرے مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یہ نسبت درست کرلی ہے چنانچہ فرمایا:
 ”وكذا وقع في رواية حماد بن سلمة عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة أن عمرو بن حزم طلق الغميصاء فنكحها رجل فطلقها قبل أن يمسها فسألت النبي صلى الله عليه وسلم فقال لا حتى يذوق الآخر عسيلتها وتذوق عسيلته وأخرجه الطبراني ورواته ثقات فإن كان حماد بن سلمة حفظه فهو حديث آخر لعائشة في قصة أخرى غير قصة امرأة رفاعة وله شاهد من حديث عبيد الله بالتصغير بن عباس عند النسائي في ذكره الغميصاء لكن سياقه يشبه سياق قصة رفاعة“ 
”اسی طرح کا واقعہ ”حمادبن سلمہ عن ھشام بن عروہ عن ابیہ عن عائشہ“ کے طریق مروی روایت میں ہے کہ عمروبن حزم نے غمیصاء کو طلاق دے دی تو ان سے دوسرے شخص نے شادی کرلی اوراس نے بھی دخول سے پہلے طلاق دےدیا تو اس عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو اوریہ عورت اس سے لطف اندوز ہو، اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال ثقہ ہیں ، اگر حمادبن سلمہ کے حافظہ نے غلطی نہیں کی ہے تو یہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ہے جس میں زوجہ رفاعہ کے علاوہ دوسری عورت کا ذکر ہے، اور اس کا ایک شاہد بھی ہے جو عبیداللہ بن عباس سے مروی ہے اسے نسائی نے غمیساء کا تذکرہ کرتے ہوئے روایت کیا ہے ، لیکن اس کا سیاق رفاعہ والے واقعہ کی طرح ہی ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 469]

عرض ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ کی طرف منسوب حمادبن سلمہ والی یہ روایت صحیح نہیں ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی آخر میں اس کے حافظہ پر سوال اٹھاکر اشارہ کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمادبن سلمہ نے ”هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة“ کے طریق سے اسے بیان کیا ہے اور اسی طریق سے ھشام بن عروہ کے دوسرے تمام شاگرد جب اس واقعہ کو روایت کرتے ہیں تو بالاتفاق رفاعہ القرظی ہی کا واقعہ ذکر کرتے ہیں ،مثلا:
 ① أبومعاويه عن هشام بن عروة (صحيح البخاري رقم 5265 )
 ② یحیی بن سعیدعن هشام بن عروة (صحيح البخاري رقم 5317 )
 ③ علي بن مسهر عن هشام بن عروة (سنن الدارمي رقم 2314 وإسناده صحيح)
 ④ محاضر بن المورع عن هشام بن عروة (مستخرج أبي عوانة رقم 4325 وإسناده صحيح)
 ⑤ عبد العزيز بن محمد عن هشام بن عروة (مستخرج أبي عوانة رقم 4327 وإسناده صحيح)
 ⑥ زائدة بن قدامة عن هشام بن عروة (مستخرج أبي عوانة رقم 4328 وإسناده صحيح)

بلکہ امام زہری رحمہ اللہ نے عروہ سے براہ راست اسے روایت کیاہے اور انہوں نے بھی زوجہ رفاعہ ہی کا واقعہ ذکر کیا ہے ، [صحيح البخاري 8/ 22 رقم 6084]
 ملاحظہ فرمائیں !
 یہ تمام رواۃ بالاتفاق ایک ہی طریق سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں رفاعہ القرظی کا واقعہ بیان کررہے ہیں ، ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے صرف اور صرف حماد بن سلمہ نے اس طریق سے دوسرے واقعہ کو بیان کردیا ۔
دراصل یہ دوسرا واقعہ اماں عائشہ رضی للہ عنہا نے نہیں بلکہ عبیداللہ بن عباس نے بیان کررکھا ہے جیساکہ نسائی ومسند احمد وغیرہ کی روایت ہے، اس میں ایک جملے میں طلاق ثلاث کا ذکر نہیں ہے اسے هشيم نے اپنی سند سے روایت کیا ہے ، چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
 ”حدثنا هشيم ، أخبرنا يحيى بن أبي إسحاق ، عن سليمان بن يسار ، عن عبيد الله بن العباس ، قال : جاءت الغميصاء - أو الرميصاء - إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، تشكو زوجها ، وتزعم أنه لا يصل إليها ، فما كان إلا يسيرا . حتى جاء زوجها ، فزعم أنها كاذبة ، ولكنها تريد أن ترجع إلى زوجها الأول . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ليس لك ذلك حتى يذوق عسيلتك رجل غيره“ 
 ”عبیداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ غیمصاء یا رمیصاء اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے شوہر کی شکایت لیکر آئی اور دعوی کیا کہ ان کے شوہر ان کے ساتھ کچھ نہیں کرپاتے ہیں ، پھر تھوڑی ہی دیر میں ان کے شوہر بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے کہا: یہ جھوٹی ہے ، اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے ، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ ممکن نہیں ہے جب تک کہ دوسرا شخص تم سے لطف اندوز نہ ہوجائے“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 214 وانظر: سنن النسائي 6/ 148]
ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ہشیم کی بیان کردہ عبیداللہ بن العباس سے مروی حدیث ہے ، لیکن حماد بن سلمہ نے غلطی سے ھشام کی سند سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اسے روایت کردیا ، ان کی اسی طرح کی بعض غلطیوں کو دیکھ کر بعض ائمہ نے ان کے حافظ پر جرح کی ہے چنانچہ:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
 ”هو ثقة صدوق يغلط“ ، ”یہ ثقہ وصدوق ہیں اور غلطی کرتے ہیں“ [الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 349]
بلکہ بعض نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ آخری عمر میں سوئے حفظ کے شکار ہوگئے تھے لیکن علی الاطلاق ایسا کہنا درست نہیں ہے البتہ ان سے کبھی کبھی غلطی کرنا ثابت ہے۔
 بہرحال حماد بن سلمہ کی روایت ایک بڑی جماعت کی روایت کے خلاف ہونے کے سبب ضعیف ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی کہا ہے کہ:
”والمحفوظ ما اتفق عليه الجماعة عن هشام“ ، ”محفوظ روایت وہی ہے جسے ھشام سے روایت کرنے میں ایک جماعت نے اتفاق کیا ہے“[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 465]
خلاصہ یہ کہ اماں عائشہ رضی للہ عنہ سے زوجہ رفاعہ کے علاوہ کوئی دوسرا واقعہ بیان کرنا ثابت نہیں ہے۔

احناف اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کو الگ حدیث بتاکر السنن الکبری للبیہقی سے بھی نقل کرتے جس کے الفاظ یہ ہیں:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
”أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أخبرنى أبو الوليد الفقيه أخبرنا الحسن بن سفيان حدثنا أبو بكر بن أبى شيبة حدثنا ابن فضيل عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة رضى الله عنها : أنها سئلت عن الرجل يتزوج المرأة فيطلقها ثلاثا فقالت قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم لا تحل للأول حتى يذوق الآخر عسيلتها وتذوق عسيلته“ 
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی عورت سے شادی کرکے اسے تین طلاق دے دے تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عورت پہلے کے حلال نہیں ہوسکتی جب تک دوسرا بھی اس سے لطف اندوز ہوجائے اور یہ عورت بھی اس سے لطف اندوز ہوجائے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 374]
عرض ہے کہ اس میں بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو حدیث ذکر کی ہے وہ رفاعہ القرظی والے واقعہ سے متعلق ہی ہے۔ چنانچہ اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے أبو بكر بن أبى شيبة حدثنا ابن فضيل عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة کی سند سے روایت کیا ہے اور عین اسی سند سے اسے أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى430) نے اس طرح روایت کیا ہے :
 ”ثنا عبد الله بن يحيى الطلحي ثنا عبيد بن غنام ثنا أبو بكر بن أبي شيبة ثنا ابن فضيل وثنا أبو محمد بن حيان ثنا أبو يحيى الرازي ثنا هناد بن السري ثنا أبو معاوية قالا عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قالت جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن زوجي طلقني وتزوجت زوجا غيره فدخل بي ولم يكن معه إلا مثل الهدبة فلم يقربني إلا هبة واحدة فلم يصل مني إلى شيء أفأحل لزوجي الأول فقال لا تحلين لزوجك الأول حتى تذوقي الآخر عسيلتك وتذوقين عسيلته“ 
 ”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے شوہر نے مجھ کو طلاق دے دی ہے اور میں نے ان کے بعد دوسرے شوہر سے شادی کی تو انہیں نے میرے ساتھ دخول کیا لیکن ان کے پاس کپڑے کے پھندنے جیسا تھا تو انہیں نے میرے ساتھ ایک بار کوشش کی مگر کچھ نہیں کرسکے ، تو کیا اب میں پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگئی ؟ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے پہلے شوہر کے لئے تب تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرا بھی تمہارے سے لطف اندوز ہوجائے اور تم بھی اس کے ساتھ لطف اندوز ہوجاؤ“ [المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم 4/ 146]

ملاحظہ فرمائیں یہ پورا واقعہ رفاعہ القرضی رضی اللہ عنہ والا ہی ہے ۔بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة ہی کی سند سے اسے روایت کیا ہے اوراس میں رفاعہ القرضی رضی اللہ عنہ کا نام بھی ہے ۔دیکھئے [صحیح بخاری رقم 5317]
لہذا اس ایک حدیث کو الگ الگ حدیث دکھا کر الگ الگ دلیل کے طور پر پیش کرنا غلط ہے ۔
أنور شاه كشميري رحمه الله (المتوفى1353) فرماتے ہیں:
 ”واعلم أن الحديث لم يجمع إلا قطعة قطعة، فتكون قطعة منه عند واحد، وقطعة أخرى عند واحد، فليجمع طرفة، وليعمل بالقدر المشترك، ولا يجعل كل قطعة منه حديثا مستقلا“ 
 ”جان لیجئے کہ حدیث الگ الگ ٹکڑے کے ساتھ جمع کی گئی ہے ، تو اس کا ایک ٹکڑا کسی ایک محدث کے پاس ہوتا ہے ، اور دوسرا ٹکڑا کسی دوسرے محدث کے پاس ہوتا ہے ، تو ان تمام طرق کو جمع کرنا چاہئے ، اور سب میں جب مشترک بات ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور ہر الگ الگ ٹکڑے کو مستقل حدیث نہیں قرار دیناچاہئے“ [فيض الباري على صحيح البخاري 4/ 243]
مولانا احمد رضاخان بریولوی لکھتے ہیں:
 ”صدہا مثالیں اس کی پائیے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور سے روایت کرتے ہیں ، کوئی پوری ، کوئی ایک ٹکڑا ، کوئی دوسرا ، کوئی کس طرح ، کوئی کس طرح ، جمع طرق سے پوری بات کا پتہ چلتا ہے“ [فتاوی رضویہ 5/ 301]
لہٰذا دیوبندی اور بریلوی حضرات کو چاہئے کہ ایک حدیث کے تمام طرق کو جمع کرکے ہی کوئی نتیجہ نکالیں۔

الغرض اس ضمن میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی تمام روایات میں رفاعہ القرظی ہی کا واقعہ ہے ، کسی میں اجمال ہے تو کسی میں تفصیل ہے، لیکن احناف اپنی کتابوں میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مجمل حدیث کو الگ پیش کرتے ہیں ، اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی جس روایت میں رفاعہ القرظی کا ذکر ہے اس روایت کے صرف وہی الفاظ پیش کرتے ہیں جس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے ،  اس طرح یہ لوگ ایک ہی واقعہ کو الگ الگ دلیل بناکر پیش کرتے ہیں  ، حالانکہ یہ سب ایک ہی واقعہ ہے اور اس سلسلے کی ایک روایت میں یہ صراحت آگئی ہے کہ اس واقعہ میں ایک ساتھ تین طلاق نہیں دی گئی۔

اماں عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور ضعیف حدیث
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”نا أحمد بن علي بن العلاء , نا أبو عبيدة بن أبي السفر , نا أبو أسامة , عن زائدة بن قدامة , عن علي بن زيد , عن أم محمد , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره، ويذوق كل واحد منهما عسيلة صاحبه“ 
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اپنی عورت کو تین طلاق دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے اور پھر دونوں میں سے ہر ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوجائے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 59]

یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
 ”حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، قال : أخبرنا علي بن زيد ، عن أم محمد ، عن عائشة ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في رجل طلق امرأته ثلاثا ، ثم تزوجها آخر ، ثم طلقها من قبل أن يمسها ، قال : لا ينكحها الأول حتى تذوق من عسيلته ، ويذوق من عسيلته“ 
 ”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے پھر اس کی بیوی سے دوسرا شخص شادی کرلے پھر وہ بھی دخول سے پہلے طلاق دے تو پہلا اس سے شادی نہیں کرسکتا کہ جب تک کہ یہ عورت دوسرے سے لطف اندوز نہ ہوجائے اور دوسرا بھی اس سے لطف اندوز ہوجائے“ [مسند أحمد ط الميمنية: 6/ 96]

اس روایت کے آخری الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی روایت ہے جس پر اوپر بات ہوچکی ہے لیکن یہاں ضعیف رواۃ نے اسے الگ ہی شکل دے دی ہے۔

یہ روایت سخت سخت ضعیف ہے اس میں درج ذیل علتییں:
پہلی علت:
اسی روایت کو حماد بن سلمة کے طریق سے ابوداؤد الطیالسی نے اس طرح روایت کیا ہے:
 ”حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عمته، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تحل له حتى تذوق من عسيلته“ 
 ”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی یہاں تک اس سے لطف اندوز ہوجائے“ [مسند أبي داود الطيالسي 3/ 140]
اس میں ام محمد کی جگہ ”عمته“ ہے۔یہ عورت نامعلوم ہے اور یہ ام محمد نہیں ہے، کیونکہ یہ علی بن زید کی پھوپھی ہے جبکہ ام محمد ان کے والد کی بیوی ہے کماسیاتی۔

دوسری علت:
 ”أم محمد“ اس کانام أمية یا أمينة ہے یہ علی بن زید کے والد کی بیوی ہے امام ذہبی نے اسے مجہول خواتین میں گنایاہے [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 604]

تیسری علت:
 ”علي بن زيد“ یہ ”علی بن زید بن جدعان“ ہے یہ سخت ضعیف ومتروک ہے۔
محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) فرماتے ہیں:
 ”علي بن زيد هذا متروك الحديث“ ، ”علی بن زید یہ متروک الحدیث ہے“ [تذكرة الحفاظ لابن القيسراني ص: 148]
اسی طرح امام جوزجانی ، امام احمد اور امام ابن معین رحمہم اللہ نے بھی اس پر سخت جرح کی ان کے علاوہ بھی کئی ائمہ نے اس پر جرح کی تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب[  یزید بن معاویہ : ص: 386]

No comments:

Post a Comment