حدیث فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-18

حدیث فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا


پچھلا
حدیث فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا
صحابی رسول ابوعمرو بن حفض رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو طلاق دی تھی یہ واقعہ کئی روایات میں منقول ہے اور ان میں سے بعض روایات میں بالکل صراحت ہے کہ ابوعمرو بن حفض رضی اللہ عنہ نے الگ الگ وقت میں یہ طلاق تھی ، جبکہ بعض روایات میں اجمالا اس کا بیان ہے ۔
فریق مخالف اس سلسلے کی صرف وہی روایات پیش کرتا ہے جس میں اجمالا تین طلاق کا ذکر ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بیک وقت تین طلاق دی گئی اور وہ نافذ بھی ہوئیں۔
ذیل میں ہم سب سے پہلے اس سلسلے کہ وہ روایات پیش کرتے ہیں جن میں صراحت ہے کہ ابوعمرو بن حفض رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وقت میں یہ تینوں طلاق نہیں دی تھی۔

✿ امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”حدثنا حسن بن علي الحلواني، وعبد بن حميد، جميعا عن يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، أن أبا سلمة بن عبد الرحمن بن عوف، أخبره، أن فاطمة بنت قيس، أخبرته أنها كانت تحت أبي عمرو بن حفص بن المغيرة، فطلقها آخر ثلاث تطليقات، فزعمت أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تستفتيه في خروجها من بيتها، فأمرها أن تنتقل إلى ابن أم مكتوم الأعمى“ 
 ”فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ کے پاس تھی اور انہوں نے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دےدی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گھر سے نکلنے کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابن ام مکتوم کے گھر چلی جاؤ“ [صحيح مسلم 3/ 1116 رقم 1480ترقیم دار السلام 3702]
 اس حدیث میں صراحت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے تیسری طلاق بعد میں دی تھی ، یعنی تینوں طلاق ایک ساتھ نہیں دی تھی۔

✿ امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
 ”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، وعبد بن حميد، واللفظ لعبد، قالا: أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن أبا عمرو بن حفص بن المغيرة، خرج مع علي بن أبي طالب إلى اليمن، فأرسل إلى امرأته فاطمة بنت قيس بتطليقة كانت بقيت من طلاقها...الخ“ 
 ”عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن روانہ ہوا، اور اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو اس کی (تین) طلاقوں میں سے جو ایک طلاق باقی تھی بھیج دی ...الخ“ [صحيح مسلم 3/ 1117 رقم 1480ترقیم دار السلام 3704]

اس حدیث میں بھی واضح ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے آخری طلاق بعد میں تھی ۔

✿ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
 ”حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا أبى ، عن ابن إسحاق قال : حدثني عمران بن أبي أنس ، أخو بني عامر بن لؤي ، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ، عن فاطمة بنت قيس أخت الضحاك بن قيس قالت : كنت عند أبي عمرو بن حفص بن المغيرة ، وكان قد طلقني تطليقتين ، ثم إنه سار مع علي بن أبي طالب إلى اليمن حين بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه ، فبعث إلي بتطليقتي الثالثة...الخ“ 
 ”فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ابوعمروبن حفص رضی اللہ عنہ کے پاس تھی وہ مجھے دو طلاق دے چکے تھے ، پھر وہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی طرف روانہ ہوئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہاں بھیجا تھا تو انہوں نے مجھے تیسری طلاق بھی بھیج دی...الخ“ [مسند أحمد ط الميمنية: 6/ 413 وإسناده صحيح]

ان تمام احادیث سے واضح ہے کہ ابوعمروبن حفص رضی اللہ عنہ نے پہلے دو طلاق تھی ، اور پھر کافی عرصہ بعد انہوں نے تیسری طلاق دی ۔یعنی انہوں نے ایک ہی وقت میں تین طلاق نہیں تھی ۔لہٰذا ان کے واقعہ سے متعلق جن احادیث میں بھی اجمالی طور پر تین طلاق کا ذکر ہے اس کی تفصیل یہی ہے کہ یہ تینوں طلاق ایک ہی ساتھ نہیں دی گئی تھیں۔

احناف کا متضاد طرزعمل:
واضح رہے کہ اسی حدیث میں صراحتا یہ  ذکر ہے جس عورت کو تین طلاق دی جاچکی ہے اس کا خرچ اور اس کی رہائش کا انتظام شوہرکے ذمہ نہیں ہے ، لیکن احناف اس معاملے میں اس حدیث کو رد کردیتے ہیں ، اور اسے قبول نہیں کرتے ، لیکن طلاق کے مسئلہ میں اس سے استدال کرنے بیٹھ جاتے ہیں ۔احناف کے اسی متضاد طرزعمل پر گرفت کرتے ہوئے بریلوی مکتب فکرکے عالم مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی فرماتے ہیں:
”نیز اس حدیث میں جو حکم صراحتا مذکور ہے کہ وہ عورت جسے طلاق مغلظہ دی گئی ہو اس کا نفقہ اور سکونت خاوند کے ذمہ نہیں اس حکم صریح کو کسی امام نے بھی تسلیم نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ فاطمہ بنت قیس کی یہ روایت پایہ اعتبار سے ساقط ہے“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص227 ]

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ احناف اس حدیث کے جن الفاظ سے تین طلاق  کے وقوع پر استدلال کرتے ہیں ، عین انہیں الفاظ سے جب شوافع تین طلاق دینے کے جواز پر استدال کرتے ہیں تو احناف ان کی تردید کرتے ہوئے یہ وضاحت کرنے لگتے ہیں کہ اس میں تین طلاق الگ الگ وقت میں دی گئی تھی چنانچہ:
اس حدیث کے بعض الفاظ سے شوافع نے یہ استدلال کیا کہ ایک ہی وقت میں تین طلاق دینا جائز ہے تو اس کی تردید کرتے ہوئے أبو بكر الجصاص الحنفي (المتوفى 370) نے کہا:
”فبين في هذا الحديث ما أجمل في الحديث الذي قبله أنه إنما طلقها آخر ثلاث تطليقات“ 
 ”تواس حدیث اس اجمال کا بیان آگیا ہے جو اس سے پہلے والی حدیث میں تھا ، وہ یہ کہ ابوعمر بن حفص نے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی تھی“ [أحكام القرآن للجصاص 1/ 464]


ابن التركماني الحنفی رحمه الله (المتوفى750) بھی شوافع پررد کرے ہوئے فرماتے ہیں:
”ثم انه لم يرسل الثلاث جملة ففى الصحيح انه طلقها آخر ثلاث تطليقات وروى طلقها طلقة بقيت من طلاقها“ 
 ”أبو عمرو بن حفص نے تین طلاق ایک ہی جملے میں نہیں دیا تھا ، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ تین طلاق میں سے آخری طلاق انہوں نے دی تھی تھی، اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی جو باقی رہ گئی تھی“ [الجوهر النقي 7/ 329]

اب انصاف سے بتلائیے کہ شوافع کو جواب دینا ہو تو اس حدیث میں مذکور تین طلاق الگ الگ وقت کی ہوجاتی ہے ، اور جب احناف کو خود استدلال کرنا ہو تو یہ تین طلاقیں ایک وقت کی ہوجاتی ہیں ، کیا یہ متضاد طرز عمل نہیں ہے ؟


اب اس سلسلے میں فریق مخالف کی طرف سے پیش کردہ بعض روایات پر نظر کرتے ہیں:

❀ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
 ”حدثنا يحيى بن سعيد ، قال : حدثنا مجالد ، قال : حدثنا عامر ، قال : قدمت المدينة فأتيت فاطمة بنت قيس فحدثتني ، أن زوجها طلقها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ...قالت : فقال لي أخوه : اخرجي من الدار ... قال : يا رسول الله ، إن أخي طلقها ثلاثا جميعا“ 
 ”فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ان کے شوہر نے عہد رسالت میں انہیں طلاق دےدیا تھا ، آپ فرماتی ہیں کہ پھر ان کے بھائی نے مجھ سے کہا کہ آپ گھرسے نکل جائیں تو ...(پھر یہ معاملہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا )...تو ان کے بھائی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے بھائی نے ان مکمل تینوں طلاق دے چکے ہیں“[مسند أحمد ط الميمنية: 6/ 373 وأخرجه الطبراني في العجم الكبير 24/ 383 من طريق حبيب عن عامر الشعبي به]

عرض ہے کہ اس حدیث میں یہ قطعا صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے تینوں طلاق ایک ساتھ دی تھی ، بلکہ یہاں ان کے بھائی صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے بھائی تینوں طلاق دے چکے ہیں ، اور اوپر احادیث پیش کی جاچکی ہیں کہ یہ تینوں طلاق انہوں نے ایک ہی وقت میں نہیں دیا تھا۔

❀ امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273) نے کہا:
”حدثنا محمد بن رمح قال: أنبأنا الليث بن سعد، عن إسحاق بن أبي فروة، عن أبي الزناد، عن عامر الشعبي، قال: قلت لفاطمة بنت قيس: حدثيني عن طلاقك، قالت: «طلقني زوجي ثلاثا، وهو خارج إلى اليمن، فأجاز ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم»“ 
”عامر شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا س‬ے کہا: مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیے۔ انہوں نے فرمایا: میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دے دیں جب کہ وہ یمن نکل رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے نافذ قرار دے دیا“[سنن ابن ماجه 1/ 652 رقم 2024 وإسناده صحيح ضعیف جدا]
امام ابن ماجہ نے اس پر یہ بات قائم کیا ہے
”باب من طلق ثلاثا في مجلس واحد“ ، ”جو ایک مجلس میں تین طلاق دے“ 
امام ابن ماجہ کی اس تبویب کا سہارا لیکر بعض لوگ کہتے کہ اس حدیث کا تعلق ایک مجلس کی تین طلاق سے ہے ۔
عرض ہے کہ:
اول تو خود احناف اس حدیث کو ایک مجلس کی تین طلاق نہیں مانتے ۔
دوم یہ کہ ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی روایت کردہ حدیث کے الفاظ کو دیکھتے ہوئے یہ بات قائم کیا ہے اوران کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
 ”طلقني زوجي ثلاثا، وهو خارج إلى اليمن“
 ”میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دے دیں جب وہ یمن نکل رہے تھے“ 
اس سے ابن ماجہ رحمہ اللہ نے یہ سمجھا کہ یہ ایک مجلس کی تین طلاق تھی ، حالانکہ یہ الفاظ اس مفہوم پر صریح نہیں ہیں ، بالخصوص جبکہ دیگر طرق میں صراحت آگئی ہے کہ یہ الگ الگ مجلس کی طلاقیں تھی ۔
اور بالفرض مان بھی لیں کہ ان الفاظ میں ایک مجلس کی گنجائش ہے ، تو الفاظ ثابت ہی نہیں ہیں بلکہ موضوع اور من گھڑت ہیں ، اس لئے ان سے ایک مجلس کا استدلال بھی غلط ہے ، کیونکہ اس کی سند میں ”إسحاق بن أبي فروة“ ہے اور یہ کذاب یعنی بہت بڑا جھوٹا اور متروک راوی ہے ۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا :
 ”كذاب“ ، ”یہ بہت بڑا جھوٹا ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 228 وإسناده صحيح]

امام عمرو بن على الفلاس رحمه الله (المتوفى249)نے کاہ:
 ”متروك الحديث“ ، ”یہ متروک الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 228]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”تركوه“ ، ”لوگوں نے اسے ترک کردیا ہے“ [التاريخ الكبير للبخاري، ط العثمانية: 1/ 396]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) نے کہا:
 ”متروك الحديث“ ، ”یہ متروک الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 228 وإسناده صحيح]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
 ”متروك الحديث“ ، ”یہ متروک الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 228]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
 ”متروك الحديث“ ، ”یہ متروک الحدیث ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 19]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”متروك“ ، ”یہ متروک ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم368]

معلوم ہوا یہ روایت جھوتی اور من گھڑت ہے ، اور اس میں ایک مجلس کی صراحت بھی نہیں ہے۔
فریق مخالف اس طرح کی اجمالی روایات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک روایت  ایسی بھی پیش کرتے ہیں جن میں یہ صراحت ہے کہ یہ تینوں طلاق ایک ساتھ دی گئی تھیں ، لیکن یہ روایت ضعیف ہے اور شروع میں منقول صحیح احادیث کے خلاف بھی ہے ، چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”ثنا أبو أحمد محمد بن إبراهيم الجرجاني , نا عمران بن موسى بن مجاشع السختياني , نا شيبان بن فروخ , نا محمد بن راشد نا سلمة بن أبي سلمة , عن أبيه , «أن حفص بن المغيرة طلق امرأته فاطمة بنت قيس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث تطليقات في كلمة واحدة , فأبانها منه النبي صلى الله عليه وسلم ولم يبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم عاب ذلك عليه“ 
 ”ابوسلمہ (تابعی) کہتے ہیں کہ حفص بن المغیرہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس کو عہد رسالت میں ایک ہی جملے میں تین طلاق دی تو اس سے ان کی بیوی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جدا کردیا ، اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معیوب بتایا ہو“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 23 وإسناده ضعيف منقطع وھو منکر وأخرجه أبونعيم في معرفة الصحابة 1/ 902 من طريق شيبان بن فروخ به وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 329 من طريق محمد بن راشد به ، وذكره ابن منده في معرفة الصحابة ص: 446 من طريق شيبان بن فروخ به]

سلمہ کے والد ”ابو سلمہ“ یعنی ”ابوسلمہ بن عبد الرحمن الزهري“ صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں۔[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 8142]
لہٰذا سند منقطع  ہے۔

سند میں موجود ”محمدبن راشد“ گرچہ سچے راوی ہیں مگر ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ:

خود امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”محمد بن راشد ضعيف عند أهل الحديث“ ، ”محمد بن راشد محدثین کی نظر میں ضعیف ہے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 4/ 231]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
 ”ليس بالقوي“ ، ”یہ القوی نہیں ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 95]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
 ”كان من أهل الورع والنسك ولم يكن صناعة الحديث من بزه فكان يأتي بالشيء على الحسبان ويحدث على التوهم، فكثر المناكير في روايته واستحق ترك الاحتجاج به“
 ”یہ نیک اور پرہیزگار تھے ، لیکن حدیث میں ان کو مہارت نہیں تھی ، یہ گمان اور اندازے سے کچھ چیزیں بیان کردیتے تھے اور وہم کے شکار ہوکر بھی روایت کردیتے تھے ، اس لئے ان کی روایت میں منکر احادیث کی کثرت ہوگئی اور اس لائق ہوگئے ان سے احتجاج ترک کردیا جائے“ [المجروحين لابن حبان، ت حمدي: 2/ 262]

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
 ”محمد بن راشد ضعيف“ ، ”محمد بن راشد ضعیف ہے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 423]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
 ”صدوق يهم“ ، ”یہ صدوق ہیں اور وہم کے شکار ہوتے ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5875]

اور اس کی یہ بیان کردہ روایت اوپر منقول صحیح روایت  کے خلاف ہے ، لہٰذا یہ منکر اور ضعیف ہے۔
ابن التركماني حنفی رحمه الله (المتوفى750) نے بھی اس سند کی تضعیف ثابت کی ہے دیکھئے: [الجوهر النقي 7/ 330]




No comments:

Post a Comment