عرفہ کا روزہ ذی الحجہ کی نو(9) تاریخ کے ساتھ خاص ہے۔ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-22

عرفہ کا روزہ ذی الحجہ کی نو(9) تاریخ کے ساتھ خاص ہے۔

عرفہ کا روزہ ذی الحجہ کی نو(9) تاریخ کے ساتھ خاص ہے۔
✿ ✿ ✿ 
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ عرفہ کے روزے کا جو حکم دیا گیا اس کا ذی الحج کی نوتاریخ سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ جس دن حجاج کرام عرفہ میں وقوف کریں‌ گے ، اسی دن ساری دنیا کے لوگ روزہ رکھیں‌ گے۔

عرض ہے کہ یہ بات محل نظر ہے کیونکہ قران کے مطابق عرفہ صرف نو تاریخ کے ساتھ خاص ہے۔​


اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
 {وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (3)} [الفجر: 1 - 3]۔

ترجمے :
قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی ( جوناگڈھی)
فجر کی قسم ، اور دس راتوں کی ،اور جفت اور طاق کی (جالندھری)
قسم ہے فجر کی،اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی (مودودی)
اس صبح کی قسم ، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی (احمد رضا)


مذکورہ آیت میں ’’وَالْوَتْرِ‘‘ کا مطلب طاق ہے اور اس سے مراد یوم عرفہ ہے، جیساکہ متعدد روایات سے معلوم ہوتاہے ۔
ملاحظہ ہو:

امام احمد رحمه الله (المتوفى:241)نے کہا:
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنِي خَيْرُ بْنُ نُعَيْمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَشْرَ عَشْرُ الْأَضْحَى، وَالْوَتْرَ يَوْمُ عَرَفَةَ، وَالشَّفْعَ يَوْمُ النَّحْرِ»
[مسند أحمد(22/ 389) رقم 14511 واخرجہ ایضا النسائی فی السنن الكبرى (4/ 194) و (10/ 334) و (10/ 335) و الطبري فی تفسیرہ (24/ 397) والحاکم فی المستدرك على الصحيحين (4/ 245) وصححہ ووافقہ الذھبی ، و البیھقی فی شعب الإيمان (5/ 304) و فضائل الأوقات (ص: 340) و البزار کما فی كشف الأستار عن زوائد البزار (3/ 81) و الشجری فی ترتيب الأمالي الخميسية (2/ 78) کلھم من طریق زیدبن الحباب بہ]۔


اس روایت کے سارے رجال ثقہ ہیں ۔
امام هيثمي رحمه الله (المتوفى:807) نے کہا:
رواه البزار وأحمد ورجالهما رجال الصحيح غير عياش بن عقبة وهو ثقة.[مجمع الزوائد للهيثمي: 7/ 45]۔

اس حدیث‌ کو درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے۔

امام أبو جعفر النحاس أحمد بن محمد (المتوفى: 338هـ) دیکھئے: تفسير القرطبي (20/ 40 ) ، البحر المحيط في التفسير( 10/ 470)۔

امام حاكم رحمه الله (المتوفى:405)، دیکھئے: المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 245)۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748)، دیکھئے: تعلیق علی المستدرک حوالہ سابق۔

امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى:795)، دیکھئے: تفسير ابن رجب الحنبلي: 2/ 562، نیز: لطائف المعارف لابن رجب: ص: 268۔


لیکن مذکورہ سند میں ایک کمزوری یہ ہے کہ اس میں ابوالزبیرمدلس ہے اورانہوں نے عن سے روایت کیا ہے۔

لیکن یہی بات ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسندصحیح منقول ہےاورظن غالب یہی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ماخذ حدیث رسول ہی ہے ، لہذا اس سے مذکورہ روایت کی تائید ہوجاتی ہے ۔

ملاحظہ ہوا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت :

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى:310)نے کہا:
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ، قَالَ: ثنا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، قَالَ: ثنا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الشَّفْعُ: يَوْمُ النَّحْرِ، وَالْوَتْرُ: يَوْمُ عَرَفَةَ
[تفسير الطبري = جامع البيان ط هجر 24/ 349]۔

یہ سند بالکل صحیح ہے اس میں کوئی کمزوری نہیں ، اس کے سارے رواۃ کتب ستہ کے رواۃ ہیں اورثقہ ہیں‌، مختصرتعارف ملاحظہ ہو:

زرارة بن أوفى العامرى الحرشى۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى:230)نے کہا:
كان ثِقَةً[الطبقات الكبرى لابن سعد، ط العلمية: 7/ 110]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى:852)نے کہا:
ثقة عابد[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 215]۔

عوف بن أبى جميلة العبدى الهجرى۔

امام احمد رحمه الله (المتوفى:241)نے کہا:
ثِقَة صَالح الحَدِيث [العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 1/ 410]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى:852)نے کہا:
ثقة رمي بالقدر[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 349]۔


إسماعيل بن إبراهيم الأسدى ، المعروف بابن علية۔

امام عبد الرحمن بن مهدى رحمه الله (المتوفى:198)نے کہا:
ثقة[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 153 وسندہ صحیح]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى:852)نے کہا:
ثقة حافظ [تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 105]


يعقوب بن إبراهيم بن كثير، العبدى القيسى۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
كان ثقة حافظًا متقنًا[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 16/ 404]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى:852)نے کہا:
ثقة [تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 519]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح قراردیا ہے ، چنانچہ آپ فرماتے ہی:
وأخرج عن ابن عباس من طريق صحيحة أنه قال: الوتر يوم عرفة والشفع يوم الذبح. وفي رواية أيام الذبح. [فتح الباري لابن حجر: 6/ 365]۔


تنبیہ :
وترکی تفسیرکے سلسلے میں دیگر روایات بھی منقول ہیں مگر میرے ناقص علم کے مطابق ان میں سے ایک بھی بسندصحیح ثابت نہیں ، جیساکہ متعدد محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔


أبو حيان الأندلسي (المتوفى: 745هـ) کہتے ہیں:
وَاخْتَارَهُ النَّحَّاسُ. وَقَالَ حَدِيثُ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ: هُوَ الَّذِي صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَصَحُّ إِسْنَادًا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ( البحر المحيط في التفسير 10/ 470)

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى:852)نے کہا:
وقد أخرج الترمذي من حديث عمران بن حصين "أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن الشفع والوتر فقال: "هي الصلاة، بعضها شفع، وبعضها وتر " ورجاله ثقات إلا أن فيه راويا مبهما، وقد أخرجه الحاكم من هذا الوجه فسقط من روايته المبهم فاغتر فصححه. [فتح الباري لابن حجر: 8/ 702]۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قران کی روشنی میں عرفہ نو تاریخ کے ساتھ خاص ہے ، صرف یہی تفسیر احادیث‌ و آثار سے بسندصحیح ثابت ہے۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقوله: {والشفع والوتر} قد تقدم في هذا الحديث أن الوتر يوم عرفة، لكونه التاسع، وأن الشفع يوم النحر لكونه العاشر. وقاله ابن عباس، وعكرمة، والضحاك أيضا.(تفسير ابن كثير ت سلامة 8/ 391)


اگرکوئی کہے کہ ان دلائل سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرفہ نوتاریخ کو ہے لیکن عرفہ کا روزہ بھی نو تاریخ کو یہ صراحت اس میں نہیں ۔
تو عرض ہے کا روزے کا حکم عرفہ کے دن ہے اورعرفہ کا دن قرانی آیت کے مطابق جفت تاریخ میں ممکن ہی نہیں ۔
لہٰذا جب جفت تاریخ میں عرفہ ممکن ہی نہیں ، تو پھر جفت تاریخ میں‌ ہم عرفہ کا روزہ بھی نہیں رہ سکتے ۔

واضح رہے کہ انڈیا وغیرہ میں حجاج کے وقوف کی رعایت کرتے ہوئے ، عرفہ کا جو رزہ رکھا جاتا ہے وہ بہر صورت انڈیا ہی کے دنوں میں رکھا جاتا ہے نہ کہ مکے والے دن کے حساب سے ، اس لئے کہ مکہ والے دن اورانڈیا والے دن میں سورج کے طلوع افتاب میں‌ فرق ہے یعنی سحری وافطار میں ہم اپنے یہاں‌ کے دن کا اعتبار کرتے اوراپنے یہاں کا یہ دن طاق نہیں جفت ہوتا ہے ۔

اورقران کے مطابق عرفہ کا تعلق صرف طاق تاریخ کے ساتھ ہے، لہٰذا جفت تاریخ میں‌ رکھا گیا روزہ عرفہ کا روزہ نہیں‌ کہلایا جاسکتا۔

No comments:

Post a Comment