آصف حسین رافضی اپنی تحریر کے آئینے میں ‏بجواب کفایت اللہ سنابلی اپنی تحقیق کے آئینے میں 2 (قسط دوم ) - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-23

آصف حسین رافضی اپنی تحریر کے آئینے میں ‏بجواب کفایت اللہ سنابلی اپنی تحقیق کے آئینے میں 2 (قسط دوم )




آصف حسین رافضی اپنی تحریر کے آئینے میں 2
‏بجواب
کفایت اللہ سنابلی اپنی تحقیق کے آئینے میں
.
تحریر: انصاری محبوب (قسط دوم )
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر (11) کی حقیقت:
آصف صاحب یہاں کتاب سے دو مختلف مقامات سے عبارتیں نقل کر کے لکھتے ہیں:
”ھماری سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔۔دونوں روایتوں میں مجہول شخص روایت کررہا ہے لیکن ایک جگہ کتاب کے صفحات بڑا کر اسکو نقل کیا جاتا ہے دوسری جگہ اس کو مردود قرار دیا جارہا ہے۔۔۔عجیب“ 
عرض ہے آصف صاحب آپ کی سمجھ سے یہ عبارتیں بالاتر ہی ہوگی کیونکہ آپ کے سقیم فہم کا مشاہدہ ہم نے کئی مقام پر کیا ہے اس لئے آپ کا یہ شکوہ ہم دور بھی کردیتے ہیں پہلی عبارت میں مستدل مفہوم کی صحیح روایت سے تائید ہو رہی تھی۔۔جبکہ دوسری عبارت کا معاملہ ایسا نہیں اس لئے اس دوسری عبارت والی روایت مردود ہے بڑا افسوس ہے آپ پر اتنی آسان بات تک آپ سمجھنے سے قاصر ہیں اور لکھنے بیٹھے تناقض!
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر (12) کی حقیقت:
اس اعتراض میں بھی ڈاکٹر صاحب نے کتاب سے دو الگ الگ مقامات سے عبارتیں پیش کی اور کہتے ہیں :
 ”اسے کہتے ہے۔۔۔ھم کریں تو واویلا اور آپ کریں تو سبحان اللہ“ 
مختصرا عرض ہے پہلے مقام پر حقائق سے رو گردانی کرتے ہوئے محض جذباتی رنگ دینے کا ذکر ہے جبکہ دوسرے مقام پر اصلا مبنی برحقیقت بات کہی گئی ہے جس میں بے بنیاد الزامات کا رد ہے اور یہی تو اس کتاب کا موضوع بحث ہے کہ یہ جملہ الزامات جو یزید بن معاویہ پر لگائے جاتے ہیں وہ ثابت نہیں ، اس لئے آپ کا یہ واویلا بے محل ہے ۔
.
 ✿ نام نہاد تضاد نمبر (13 )کی حقیقت :
آصف صاحب نے یہاں دو عبارتیں پیش کرکے ہمیشہ کی طرح تناقض تناقض کی گردان گائی ہے جبکہ یہاں کوئی تضاد دور دور سے نظر نہیں آتا ، بے جوڑ عبارتیں جمع کرکے تضاد کی راگ الاپا ہے تضاد تب ہوتا جب پہلی بات میں جو کچھ کہا گیا ہوتا ، دوسری بات میں اس کے برعکس کوئی بات کہ دی گئی ہوتی ، جبکہ دوسری بات میں ایسی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں تو یہ تضاد کیسا ؟؟؟
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر (14) کی حقیقت:
عادت کے مطابق یہاں بھی ڈاکٹر صاحب کو ایک تضاد نظر آرہا تھا اس پر وہ دو عبارتیں پیش کرتے ہیں ، پر اس مرتبہ شیخ کی دوسری کتاب سے یعنی انوار البدر سے عبارتیں پیش کرتے ہیں ان دونوں عبارتوں سے اخذ کردہ نام نہاد تضاد کا خلاصہ یہ ہے کہ:
 ”شیخ حفظہ اللہ نے امام ابن عدی رحمہ اللہ کے ایک ہی کلام کو ایک جگہ قبول کرتے ہیں اور دوسری جگہ رد کرتے ہیں یہ ہے“ ۔
جوابا عرض ہے:
 ڈاکٹر صاحب کی جس فہم و فراست کا مشاہدہ ہم نے پہلے کیا تھا یہاں بھی یہی دیکھنے کو مل رہا ہے ، دراصل پہلی عبارت میں شیخ حفظہ اللہ نے ابن حجر رحمہ اللہ سے وہ کلام نقل کیا ہے جس میں ابن عدی رحمہ اللہ کی طرف سے امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام کی تشریح تھی ، وہ بھی ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کی تغلیط میں ، جبکہ دوسری عبارت میں ابن عدی رحمہ اللہ نے جو مفہوم امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام سے اخذ کی ہے اس پر بحث ہے ، بالفاظ دیگر پہلی عبارت میں ابن حجر رحمہ اللہ کی قول کی تردید تھی ، اور دوسری عبارت میں ابن عدی رحمہ اللہ کے قول کی تردید تھی ، اور ان دونوں نقول کی نوعیت ہی بلکل مختلف ہے ، اب اس پر کوئی یہ کہے کہ یہاں ابن عدی کے ایک کلام کو ایک جگہ لے لیا گیا اور دوسری جگہ اسی کلام کو رد کردیا گیا ، تو ایسا شخص نرا جاھل اور اعلی درجے کا احمق ہی ہوسکتا ہے۔
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر ”15“ کی حقیقت:
معترض نے یہاں بھی کتاب کے دو الگ مقامات سے عبارتیں نقل کی اور کہا: اگر سنابلی صاحب کا دعوی ہے کہ پہلا اعتراض الزامی تھا تو اس بات کی کسی جگہ صراحت نہیں کی ہے بلکہ حافظ زبیر علی زائی کو طعن کرنے کے لیئے سیاہی ضائع کی ہے ۔
اولا تو پہلی عبارت کوئی الزامی نہیں تھی پتہ نہیں ہمارے اس سقم فہم محکک کو کیا سوجھی جو الزامی کا نوٹ لکھ مارا ، خیر پہلی عبارت دوسری عبارت کے قطعا مخالف یا متضاد نہیں ۔
 ڈاکٹر صاحب نے یہاں کچھ خاص تبصرہ نہیں کیا ہے کہ ان کا مدعا سمجھنے کی کوشش کی جاتی ، تاہم ہمیں یہاں جو ظاہر ہورہا ہے وہ یہ کی ڈاکٹر صاحب کا مقصود یہ ہے کہ شیخ حفظہ اللہ نے عبدالوہاب کی مرویات میں ان کا اختلاط مضر نہیں یہ کہا جبکہ دوسری عبارت میں اختلاط کی بنیاد پر عبد الوہاب کی خاص روایت رد کر رہے ہیں۔
اگر ڈاکٹر صاحب کا یہی مقصود ہے تو شیخ حفظہ اللہ نے اس شبہ کا جواب خود ہی پیش کیا ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے خود ہی نقل کیا اسکین کی شکل میں ، پر افسوس ڈاکٹر صاحب اسے گول کر گئے ، اور یہاں اگر ڈاکٹر صاحب کی ان عبارات سے مراد کچھ اور ہے تو وہ اس کی وضاحت کریں۔
 شیخ حفظہ اللہ نے مذکورہ شبہ کا جواب دیتے ہوے لکھا ہے :
حافظ زبیر علی زئی صاحب نے کم از کم اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ اخیر میں مختلط ہوگئے تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ محض یہ بات بھی عبد الوہاب ثقفی کو متکلم فیہ کہنے کے لیئے کافی ہے اور محض اسی بات کی وجہ سے عبدالوہاب ثقفی کی ثقاہت کا درجہ ان رواة کے بالمقابل کم ہوجائے گا جو بالاتفاق ثقہ ہیں اور ان پر کسی نے کلام نہیں کیا ہے۔ 
(یزید بن معاویہ پر۔۔۔۔۔239،240)
شیخ حفظہ اللہ نے واضح طور پر کہا ہے اختلاط وغیرہ کی جرح متکلم فیہ بتلانے کے لئے بیان کی گئی تھی ، ان کے متکلم فیہ ہونے پر اس وقت بحث کی گئی جب ایک ہی روایت کو دیگر رواة کے خلاف انھوں نے مختلف طور سے بیان کیا جبکہ دیگر رواة الگ طور سے بیان کرتے ہیں وگرنہ شیخ حفظہ اللہ نے عام حالت میں ان کو معتبر سمجھتے ہیں۔
.
 ✿ نام نہاد تضاد نمبر (16) کی حقیقت:
اس مقام پر ڈاکٹر صاحب نے شیخ حفظہ اللہ کی کتاب سے اس بحث کو نقل کیا جو سب و شتم کی ممانعت پر تھی اور اس کے بالمقابل وہ عبارتیں پیش کی جن میں سبائیوں کو جھوٹے مکار وغیرہ کہا گیا ہے جوابا عرض ہے کہ اگر کسی نے واقعی میں جھوٹ اور مکاری کی خصلت کو اپنائے ہوئے تو اسے اس خصلت سے متصف بتلانا یہ اس پر سب و شتم نہیں ہے ۔ بلکہ جھوٹ اور مکاری کی خصلت کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی پر گھٹیا تہمتیں باندھنا اور اس کے لئے بازاری زبان استعمال کرنا یہ سب وشتم ہے ۔
.
✿ نام نہاد تضاد نمبر (17) کی حقیقت:
حسب سابق یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنی جہالت اور کم عقلی کا ثبوت دیا ہے، تعجب ہے کہ جن کو اردو عبارت تک سمجھ میں نہیں آتی وہ نہ جانے کیسے تناقضات گنوانے کا شوق پالتے ہیں ، موصوف نے یہاں کتاب سے ایک مقام کی عبارت نقل کی جس میں یہ ذکر کیا گیا تھا کی ابن عدی رحمہ اللہ کا اپنی کتاب الکامل میں ایک عام منہج یہی ہے کہ وہ منکر روایت ذکر کرتے ہیں اب اس کے برخلاف جو عبارت ڈاکٹر صاحب نے پیش کی وہ یہ کی شیخ حفظہ اللہ نے کتاب میں ایک مقام پر خود ایسی روایت کو صحیح کہا و استدلال کیا جو اسی کتاب یعنی الکامل میں بھی موجود تھی اور ڈاکٹر صاحب بڑے طمطراق انداز میں کہتے ہیں:
 ”سنابلی صاحب کی کتاب سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کو جلدی بھول جانے کی بیماری ہے اس لئے پہلے کچھ لکھتے ہے اور بعد میں خود اسکا رد کرتے ہے“ ۔
ڈاکٹر صاحب ایک اور عبارت نقل کرکے لکھتے ہیں:
 ”عجیب سنابلی صاحب نے اوپر اصول بنایا ہے کہ کتاب الضعفاء کی روایات منکر ہوتی ہے تو پھر منکر روایت صحیح کیسے ہوگی نکارہ متن میں ہوتا ہے“ 
 ڈاکٹر صاحب !
 آپ کے اعتراضات دیکھ کر ہم پر اچھی طرح واضح ہوچکا ہے کہ  آپ خود ایک بیماری میں ملوث ہیں وہ ہے آپ کا کند ذہن و کج فہم ہونا اتنی آسان اور عام فہم  باتیں بھی آپ کی سمجھنے سے قاصر ہیں ، دراصل شیخ حفظہ اللہ نے یہ بات بیان کی ہے کہ الکامل میں ابن عدی رحمہ اللہ کے نزدیک عمومی طور پر منکر روایات ذکر کی گئی ہیں اب ایسا لازم تو نہیں کی جو روایت ابن عدی رحمہ اللہ کے نزدیک منکر ہو وہ شیخ حفظہ اللہ کی نزدیک بھی منکر ہو شیخ نے ابن عدی رحمہ اللہ کا منہج بیان کیا تھا لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ ہر روایت سے متعلق ان کا یہ فیصلہ بھی درست ہے ۔ پھر اگر شیخ نے الکامل کی کسی روایت کو مقبول بتایا تو یہ تضاد کیسا ؟؟ 

(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment