کیا معاویہ اور مغیرہ رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ پرلعن وطعن کرتے تھے ؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-30

کیا معاویہ اور مغیرہ رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ پرلعن وطعن کرتے تھے ؟



امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
«أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ قُلْتُ مَنِ التِّسْعَةُ» قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: «اثْبُتْ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قَالَ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ» قُلْتُ: مَنِ الْعَاشِرُ قَالَ: «أَنَا» » [السنن الكبرى للنسائي 7/ 333]

یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ھلال بن یساف نے یہ روایت عبداللہ بن ظانم سے نہیں سنی ہے۔

امام نسائی رحمہ اللہ جو اس روایت کے راوی ہیں وہ خود اپنی اسی کتاب میں دوسری جگہ اس روایت پرجرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
هلال بن يساف لم يسمعه من عبد الله بن ظالم
ہلال بن یساف نے اس روایت کو عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا ہے[سنن النسائي الكبرى 5/ 58]

لہٰذا یہ روایت منقطع ہونے کے سبب ضعیف ہے۔


نوٹ:
واضح رہے کہ حدیث میں مذکور مرفوع حصہ کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے یہ حدیث دیگر کئی سندوں سے صحیح وثابت ہے ۔
لیکن عبداللہ بن ظالم والی یہ روایت ثابت نہیں ہے جس میں مرفوع حصہ کے ساتھ ساتھ دیگر عجیب وغریب باتوں کا بھی بیان ہے ۔
.
حدیث عبداللہ بن ظالم کی تضعیف کرنے والے محدثین


اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔

(1) امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)
آپ نے فرمایا:
عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم عشرة في الجنة قاله عبيد بن سعيد عن سفيان عن منصور عن هلال بن يساف عن عبد الله بن ظالم التميمي سمع سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم وقال مسدد عن خالد عن حصين مثله ولم يقل التميمي وقال أبو الأحوص عن منصور عن هلال عن سعيد عن النبي صلى الله عليه و سلم وزاد بعضهم بن حيان فيه ولم يصح وليس له حديث إلا هذا وبحسب أصحابي القتل روى عنه عبد الملك بن ميسرة [التاريخ الكبير للبخاري 5/ 124]

اس عبارت میں امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن ظالم کی دو حدیث پیش کی ہے۔
پہلی حدیث کی مختلف سندیں پیش کرنے بعد (ولم يصح) کہہ کر اس کی تضعیف کردی ہے۔

درج ذیل محدثین نے امام بخاری کی عبارت سے عبداللہ بن ظلم کی حدیث کی تضعیف ہی سمجھی ہے۔

آدم بن موسى الخواري (المتوفى305)
یہ امام بخاری کے شاگرد ہیں ان سے امام عقیلی رحمہ اللہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حدثني آدم بن موسى، قال: سمعت البخاري قال: عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يصح.[الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 254 واسنادہ صحیح]
معلوم ہوا کہ امام بخاری کے شاگر آدم بن موسی نے اپنے استاذ امام بخاری سے اس حدیث کی تضعیف نقل کی ہے۔

أبو بِشْرابن حماد الدولابي (المتوفى310)
یہ امام بخاری کے شاگرد ہیں ان سے امام ابن عدی روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخاري: عَبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد، عن النبي صَلي الله عَليه وسلم، ولم يصح[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 7/ 10 ابن حماد ضعیف لکن تابعہ آدم بن موسی کمامضی]
معلوم ہوا کہ امام بخاری کے شاگر ابوبشرابن حماد الدولابی نے اپنے استاذ امام بخاری سے اس حدیث کی تضعیف نقل کی ہے۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)
آپ نے عبداللہ بن ظالم کو ضعفاء میں نقل کیا پھر صحیح سند سے امام بخاری سے اس حدیث کی تضعیف کو روایت کیا جیسا کہ اوپر گذرا ۔دیکھئے:[الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 254 واسنادہ صحیح]
پھرسندوں کا اختلاف ذکر کرے اس روایت کی تضعیف ہی کی طرف اشارہ کیا ۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)
آپ نے بھی ابو بشرالدولابی کی سند سے امام بخاری سے اس حدیث کی تضعیف نقل کی اور آخر میں فرمایا:
وهذا الحديث هو الذي أراده البُخاري[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 7/ 10]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)
آپ نے کہا:
عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد بحديث العشرة في الجنة، قال البخاري: لم يصح[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 2/ 448]

معلوم ہوا کہ تمام محدثین نے یہی سمجھا کہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف ہی کہا ہے۔
لہٰذا آج کے کسی شخص کا امام بخاری کے قول (ولم یصح) کا کوئی اور مطلب بنانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔


(2) امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)
امام نسائی رحمہ اللہ جو اس روایت کے راوی بھی ہیں وہ خود اپنی کتاب میں ایک جگہ اس روایت پرجرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
هلال بن يساف لم يسمعه من عبد الله بن ظالم
ہلال بن یساف نے اس روایت کو عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا ہے[سنن النسائي الكبرى 5/ 58]

(3) امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)
آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس حدیث کی تضعیف نقل کی ہے جیساکہ اوپر نقل کیا جاچکا ہے ۔دیکھئے:[الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 254 واسنادہ صحیح]
اس کے بعد اس کی سندوں کے اختلاف کا ذکر کرکے اس کی تعلیل و تضعیف کی ہے۔
امام ذہبی نے لکھا :
ساق العقيلي علله
یعنی امام عقیلی نے اس حدیث کی علتیں بیان کی ہیں[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 2/ 448]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا:
وقال العقيلي عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد كوفي لا يصح حديثه[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 5/ 270]
معلوم ہوا کہ امام ذہبی اور ابن حجر رحمہما اللہ نے بھی یہی سمجھا ہے کہ امام عقیلی نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔


(4) امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)
آپ نے اس روایت کو الکامل میں عَبد الله بن ظالم کی منکر روایات میں شمار کیا ہے ۔اورامام بخاری سے تضعیف نقل کی ہے اور اس پر کوئی تعاقب نہیں کیا ہے دیکھئے:[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 7/ 10]
واضح رہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کا منہج ہے کہ وہ اپنی اس کتاب میں راوی کی منکر روایات ذکر کرتے ہیں ۔


(5) امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)
آپ نے پوری صراحت کے ساتھ کہا:
والذي عندنا أن الصواب قول من رواه، عن الثوري، عن منصور، عن هلال، عن فلان بن حيان، أو حيان بن فلان، عن عبد الله بن ظالم، لأن منصور أحد الإثبات، وقد بين في روايته عن هلال أنه لم يسمعه من ابن ظالم، وأن بينهما رجلا[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 4/ 412]

امام دارقطنی رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ کس قدر اعلی نقد ہے ان شاء اللہ اس کی وضاحت آگے ہوگی۔


(6) امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748):
آپ امام حاکم کے کلام پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ذكر البخاري عبد الله بن ظالم، فقال: لم يصح حديثه[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 3/ 358]

معلوم ہوا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو ضعیف مانتے ورنہ وہ امام حاکم رحمہ اللہ پر تعاقب نہیں کرتے ۔

یہ کل چھ محدثین ہیں اور سب کے سب علل کے ماہرین ہیں بلکہ فن علل میں بہت اعلی مقام پر ہیں ۔بلکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے ضعفاء پر مستقل کتاب نہ لکھی ہو۔
اور یہ سب اس حدیث کی تضعیف کررہے اس کے باجود بھی آج کوئی صاحب صرف ناچیز کا نام لیکر یہ تاثر دیں کہ اس حدیث کو ضعیف کہنے والا صرف میں ہی ہوں تو یہ کہاں کی انصاف ہے۔
.
حدیث عبداللہ بن ظالم کی تخریج
اس حدیث کو ھلال بن یساف کے طریق سے درج ذیل دو لوگوں نے روایت کیا ہے:
 ● منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى
 ● حصين بن عبد الرحمن السلمى الکوفی
.
منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى کی روایت

منصور سے یہ روایت تین راویوں سے منقول ہے :


اول: سفیان ثوری
دوم: ابوالاحوص الحنفی
سوم: محمد بن يوسف الفريابي


اول: سفیان ثوری کی روایت :
سفیان ثوری سے اسے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:

(1)عبد الله بن إدريس(کتب ستہ کے زبردست ثقہ راوی)
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
حدثنا محمد بن العلاء، عن ابن إدريس، أخبرنا (حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم، و) سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم المازني، ذكر سفيان رجلا فيما بينه وبين عبد الله بن ظالم المازني قال: سمعت سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل قال: لما قدم فلان إلى الكوفة أقام فلان خطيبا، فأخذ بيدي سعيد بن زيد فقال: ألا ترى إلى هذا الظالم، فأشهد على التسعة إنهم في الجنة، ولو شهدت على العاشر لم إيثم، - قال ابن إدريس: والعرب تقول آثم -، قلت: ومن التسعة؟ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وهو على حراء «اثبت حراء إنه ليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد» قلت: ومن التسعة؟ قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وسعد بن أبي وقاص، وعبد الرحمن بن عوف "، قلت: ومن العاشر؟ فتلكأ هنية ثم قال: أنا[سنن أبي داود 4/ 211 رقم4648]

(2)معاوية بن هشام الأسدى(کتب ستہ کے ثقہ راوی)
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى 290)نے کہا:
حدثني محمد بن أبان البلخي قثنا معاوية بن هشام قثنا سفيان، عن منصور، عن هلال، عن حيان بن غالب قال: جاء رجل إلى سعيد بن زيد، ثم أنشأ يحدث قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على حراء، فتحرك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اثبت حراء، فليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد» ، قال: وعليه النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، وعمر، وعلي، وعثمان، وطلحة، والزبير، وسعد بن مالك، وعبد الرحمن بن عوف، وسعيد بن زيد[فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/ 113]

(3)القاسم بن يزيد الجرمي( سنن نسائی کے ثقہ راوی)
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرني محمد بن عبد الله بن عمار قال: حدثنا قاسم الجرمي قال: حدثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن فلان بن حيان، عن عبد الله بن ظالم قال: استقبلت سعيد بن زيد قال: «أمراؤنا يأمروننا أن نلعن إخواننا، وإنا لا نلعنهم» ولكن نقول: عفا الله عنهم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ستكون بعدي فتن يكون فيها ويكون» فقال رجل: لئن أدركناها لنهلكن قال: «بحسبكم القتل» قال: ثم جاء رجل فقال: إني أحببت عليا لم أحبه شيئا قط قال: «أحببت رجلا من أهل الجنة» ثم أنشأ يحدث قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وعبد الرحمن، وسعد، ولو شئت عددت العاشر يعني نفسه فقال: «اثبت حراء، فإنه ليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد»[السنن الكبرى للنسائي 7/ 332]

(4)عبيد بن سعيد القرشي (صحیح مسلم ، سنن نسائی اورسنن ابن ماجہ کے ثقہ راوی)
ان سے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:
يوسف بن يعقوب الصفار
أبو بكر بن أبي عاصم (المتوفى 287)نے کہا:
ثنا يوسف بن يعقوب الصفار، ثقة من أهل الخير، ثنا عبيد بن سعيد القرشي، ثنا سفيان الثوري، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن فلان بن حيان القرشي، عن عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، قال: أتاني رجل فقال: أخبرني عن علي فإني أحببته حبا لم أحبه أحدا قط. قال: أحسنت أحببت رجلا من أهل الجنة، قال: فأخبرني عن عثمان فإنى أبغضته بغضا لم أبغضه أحدا قط. قال: بئس ما صنعت، أبغضت رجلا من أهل الجنة. ثم أنشأ يحدث، قال: تحرك حراء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اسكن حراء فإنه ليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد» . قال: وعليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وعبد الرحمن بن عوف، وسعد بن مالك. قال: ولو شئت أن أخبركم بالعاشر أخبرتكم. يعني نفسه.[السنة لابن أبي عاصم 2/ 618]
إسحاق بن إبراهيم
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا إسحاق بن إبراهيم قال: حدثنا عبيد بن سعيد قال: حدثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن ابن حيان، عن عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد قال: تحرك حراء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم. فذكر مثله[السنن الكبرى للنسائي 7/ 327]
محمد بن أبان أبو بكر
أبو سعيد الشاشي (المتوفى 335 )نے کہا
حدثنا أحمد بن زهير بن حرب، نا محمد بن أبان أبو بكر، نا عبيد بن سعيد، أنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن فلان بن حيان، عن عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد قال: جاءه رجل فذكر، عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم نحوه[المسند للشاشي 1/ 249]
أبو كريب
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360) نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا أبو كريب، حدثنا عبيد بن سعيد، ثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن فلان بن حيان، عن عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله[المعجم الكبير للطبراني 1/ 150]

یہ رواۃ عبید بن سعید القرشی سے ایک ہی طرح روایت کررہے ہیں لیکن عبید بن سعید القرشی کی روایت امام بخاری رحمہ اللہ تعلیقا بغیرسند کے اس طرح ذکر کی ہے:
عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم عشرة في الجنة قاله عبيد بن سعيد عن سفيان عن منصور عن هلال بن يساف عن عبد الله بن ظالم التميمي سمع سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم[التاريخ الكبير للبخاري 5/ 124]

عرض ہے کہ اول تو یہ روایت معلق ہے اس کی مکمل سند میں تلاش نہیں کرسکا ۔
دوسرے یہ کہ عبید بن سعید کے درج بالا تمام شاگردوں کے متفقہ بیان کے خلاف ہے اس لئے معتبر نہیں۔

(5) ، (6)
مذکورۃ رواۃ کے علاوہ عبيد الله بن عبيد الرحمن الأشجعي نے بھی سفیان کے طریق سے ایسے ہی روایت کیا ہے دیکھئے:[سنن أبي داود 4/ 211]
اسی طرح أبو خالد القرشي نے بھی سفیان کے طریق سے ایسے ہی روایت کیا ہے دیکھئے:[الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 256]
لیکن ان دونوں روایات کی سند مجھے نہیں مل سکی ، لیکن اوپر چار رواۃ سے ان دونوں کی متابعت ثابت ہے۔

معلوم ہوا کہ سفیان ثوری کے چھہ (6) شاگردوں نے اس سند کو اسی طرح عن سفيان، عن منصور، عن هلال ، عن بن حيان، عن بن ظالم کی سند سے روایت کیا ہے یعنی ھلال اورابن ظالم کے بیچ ابن حیان کے واسطے کو باقی رکھا ہے ۔

لیکن ان چھ شاگردوں کے علاوہ سفیان ہی کے طریق سے أبو حذيفة موسى بن مسعود النهدى البصرى نے اسی کو روایت کیا تو ابن حیان کا واسطہ ساقط کردیا چنانچہ :
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405) نے کہا:
حدثنا أبو بكر بن إسحاق ، أنا علي بن عبد العزيز ، ومحمد بن غالب قالا : حدثنا أبو حذيفة (ح) وثنا دعلج بن أحمد السجزي ، ببغداد ، حدثنا عبد العزيز بن معاوية البصري ، حدثنا أبو حذيفة ، حدثنا سفيان الثوري ، عن منصور ، عن هلال بن يساف ، عن عبد الله بن ظالم ، عن سعيد بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : عشرة في الجنة : فذكر أبا بكر ، وعمر ، وعثمان ، وعليا ، وطلحة ، والزبير ، وعبد الرحمن بن عوف ، وسعد بن أبي وقاص ، وسعيد بن زيد ، وعبد الله بن مسعود رضي الله عنهم.
هذا حديث تفرد بذكر ابن مسعود فيه أبو حذيفة وقد احتج البخاري بأبي حذيفة إلا أنهما لم يحتجا بعبد الله بن ظالم[المستدرك للحاكم، ط الهند: 3/ 316]

أبو حذيفة موسى بن مسعود النهدى البصرى پر کئی محدثین نے جرح کی ہے چند کے حوالے ملاحظہ ہوں:

امام محمد بن بشار (المتوفى252) نے کہا:
ضعيف في الحديث[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 79 واسنادہ صحیح]

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279) نے کہا:
ضعيف في الحديث[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 78]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
كثير الوهم [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 274]

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
كثير الوهم[المستدرك للحاكم، ط الهند: 1/ 33]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق سيء الحفظ[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7010]

بلکہ بعض محدثین نے تو خاص سفیان سے اس کی روایت میں اس پر جرح کی ہے مثلا:

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
وروى أبو حذيفة عن سفيان بضعة عشر ألف حديث، وفي بعضها شيء[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 163]

معلوم ہوا کہ یہ راوی سئی الحفظ ہے اورخاص سفیان سے اس کی روایت پر بھی کلام ہے ۔
اس لئے سفیان سے ایک جماعت کی روایت کے خلاف اس کی روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اس روایت میں اس نے سند کے ساتھ ساتھ متن میں بھی یہ گڑبڑی کی کہ عشرہ مبشرہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھی شامل کرلیا یہ واضح غلطی جس کی طرف امام حاکم نے بھی اشارہ کردیا ہے ۔
پتہ چلا کہ اس روایت میں یہ روای وہم کا شکار ہوا ہے اس لئے اس کا بیان معتبر نہیں ۔

سفیان کے ایک اور شاگر د وکیع نے بھی یہ روایت بیان کی ہے لیکن ان کی سندوں میں شدید اضطراب ہے ملاحظہ ہو:
(1) وكيع حدثنا سفيان، عن منصور، وحصين، عن هلال بن يساف عن<؟ > عبد الله بن ظالم، عن سعيد [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 255]
اس میں ابن حیان کا واسطہ ساقط ہے۔
(2) وكيع حدثنا سفيان، عن حصين، ومنصور، عن هلال بن يساف عن <؟ ، ؟ > سعيد [مسند أحمد 1/ 187]
اس میں ابن حیان اور ابن ظالم کا واسطہ ساقط ہے۔
(3) وكيع حدثنا سفيان، عن منصور، وحصين، عن(؟ ، ؟ ) عبد الله بن ظالم عن سعيد [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 255]
اس میں ہلال اور ابن حیان کا واسطہ ساقط ہے۔
(4) وكيع حدثنا سفيان، حصين، عن <؟ ، ؟ > ابن ظالم، عن سعيد [مسند أحمد 1/ 187]
اس میں بھی ہلال اور ابن حیان کا واسطہ ساقط ہے اور روایت منصور کے بجائے حصین سے ہے۔
(5) وكيع حدثنا سفيان، عن منصور: عن<؟ ، ؟ ،؟ > سعيد [مسند أحمد 1/ 187]
اس میں ھلال، ابن حیان اور ابن ظالم تینوں کا واسطہ ساقط ہے۔

واضح رہے کہ وکیع نے سفیان سے روایت کرنے میں کئی مقامات پر غلطی کی ہے چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) سفیان سے وکیع کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
ليس يرويه أحد غير وكيع ما أراه إلا خطأ
اسے وکیع کے علاوہ کوئی اورروایت نہیں کرتا میں یہی سمجھتاہوں کہ وکیع نے غلطی کی ہے[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 1/ 325]

اورایک دوسرے مقام پر امام أحمد بن حنبل رحمه الله نے سفیان سے وکیع کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
أخطأ فيه وكيع
اس میں وکیع نے غلطی کی ہے[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 2/ 401]

الغرض یہ کہ وکیع کی سند شدید اضطراب کے سبب غیر معتبر ہے ۔
اس لئے سفیان ثوری کا وہی طریق محفوظ اور صحیح ہے جسے امام سفیان ثوری سے ایک جماعت نے بیان ہے ۔
اوریہ طریق (عن سفیان عن منصور، عن هلال ، عن بن حيان، عن بن ظالم ) ہے یعنی ھلال اور ابن ظالم کے بیچ ایک واسطہ ہے۔

دوم : ابوالاحوص الحنفی کی روایت :
منصور بن المعتمر سے اسی روایت کو ابوالاحوص الحنفی نے بھی روایت کیا ہے چنانچہ :
أبو بكر بن أبي عاصم (المتوفى 287)نے کہا:
ثنا أبو بكر، ثنا أبو الأحوص، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد قال: أشهد على تسعة أنهم في الجنة ولو شهدت على العاشر لصدقت. قال: قلت: وما ذاك؟ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم على حراء، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وسعد، وعبد الرحمن بن عوف، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اثبت حراء فإنه ليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد» . قلت: فمن العاشر؟ قال: أنا.[السنة لابن أبي عاصم 2/ 618]

اس میں ھلال اور ابن ظالم کے بیچ واسطہ ساقط ہے لیکن ابوالاحوص حنفی کی متابعت کسی نے نہیں کی ہے اس لئے اس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔کیونکہ حفظ واتقان میں ابوالاحوص سفیان ثوری کے ہم پلہ نہیں بلکہ امام ابوحاتم نے ابوالاحوص کو زائدہ اور زہیرسے بھی کم رتبہ بتلایا ہے۔چنانچہ کہا:
صدوق دون زائدة وزهير في الإتقان
یعنی ابوالاحوص یہ صدوق ہیں اور حفظ واتقان زائدہ اورزہیرسے کم تر ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 259]
جبکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں
سفيان فقيه حافظ زاهد امام أهل العراق وأتقن أصحاب أبى إسحاق وهو احفظ من شعبة وإذا اختلف الثوري وشعبة فالثورى
سفیان ثوری ، فقیہ ،حافظ ، اہل عراق کے امام ، ابواسحاق کے اصحاب میں سب زیادہ متقن اور شعبہ سے بھی بڑے حافظ ہیں ،اور جب سفیان ثوری اور شعبہ کے بیان میں اختلاف ہو تو سفیان ثوری ہی کا بیان معتبرہوگا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 224]

نیز متعدد ائمہ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو امام شعبہ رحمہ اللہ سے بھی بڑا حافظ بتلایا تو بھلا ابوالاحوص کا سفیان ثوری سے کیا مقابلہ ہوسکتاہے۔لہٰذا سفیان ثوری رحمہ اللہ کے خلاف ابوالاحوص کی بات نامعتبرہے۔

واضح رہے کہ ابوالاحوص نے یہ یہی روایت حصین سے بھی بیان کی ہے کماسیاتی اس لئے ظاہر ہے کہ اس نے حصین والی سند کو منصور والی روایت پر فٹ کردیا ہے۔

بلکہ کبھی ابوالاحوص اس روایت کو ایک ساتھ حصین ومنصور دونوں سے روایت کرتے تھے چنانچہ:
أبو سعيد الشاشي (المتوفى 335 ) نے کہا:
حدثنا ابن المنادي، حدثنا إبراهيم بن يوسف، أخبرنا أبو الأحوص بن سليم الحنفي، حدثنا حصين بن عبد الرحمن، ومنصور، عن هلال بن يساف، عن ابن ظالم، عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أشهد على التسعة أنهم في الجنة, ولو شهدت على العاشر لصدقت، كان رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم على جبل حراء, فارتج بهم الجبل، فقال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: اثبت حراء، فإنه ليس عليك إلا نبي, أو صديق, أو شهيد, قال: وكان على الجبل رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم, وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وسعد بن أبي وقاص، وعبد الرحمن بن عوف, قال: قلت: من العاشر؟ قال: أنا, ولن أخبر به أحدا بعدك[مسند الشاشي 1/ 240]

اس لئے بالکل ظاہر ہے کہ انہوں نے منصور اور حصین دونوں کی سندوں کو ایک کردیا ہے جبکہ دونوں کی سند الگ ہے جیساکہ سفیان ثوری جیسے حافظ و متقن نے بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ سفیان ثوری نے بھی حصین و منصور دونوں کی روایت بیان کی ہے مگر منصور کی سند الگ بتلائی ہے اور حصین کی سند الگ بتلائی ہے ۔حصین سے ثوری کی روایت آگے آرہی ہے۔


سوم: محمد بن يوسف الفريابي
منصور بن المعتمر سے یہی روایت محمد بن يوسف الفريابي کے طریق سے مروی ہے جس میں ھلال اور ابن حیان کا واسطہ ساقط ہے مگر فریابی تک سند سخت ضعیف ہے چنانچہ:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن محمد بن سعيد بن أبي مريم، ثنا محمد بن يوسف الفريابي، ثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن (؟) عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «سيكون بعدي فتن يكون فيها ويكون» فقلنا: إن أدركنا ذلك هلكنا؟ قال: «بحسب أصحابي القتل»[المعجم الكبير للطبراني 1/ 150]

عرض ہے اس کی سند میں امام طبرانی کا استاذ (عبد الله بن محمد بن سعيد بن أبي مريم أبو بكر الجمحي مولاهم المصري) سخت ضعیف ہے دیکھئے:[إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ص: 387]
اس لئے اس کی روایت مردود ہے اس کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔

اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام منصور بن المعتمر نے اس روایت کو (عن هلال ، عن بن حيان، عن بن ظالم ) کی سند سے بیان کیا ہے یعنی یعنی ھلال اور ابن ظالم کے بیچ ایک واسطہ ہے۔
.
حصين بن عبد الرحمن السلمى الکوفی کی روایت


حصین بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن ظالم کی یہی روایت ھلال کے طریق سے بیان کیا تو اس نے ھلال اور بن ظالم کے بیچ کا واسطہ ساقط کردیا ہے جیساکہ حصین کے کئی شاگردوں نے بیان کی ہے ۔ ان میں سے بعض شاگرد تو وہی ہے جنہوں نے اپنے شیخ منصور سے اسی سند کو اس واسطے کا ساتھ بیان کیا ہے جیسا کہ ماقبل میں گذر چکا ہے اور یہ سفیان اور ابوالاحوص ہیں۔

سفیان کا طریق :
امام الحميدي (المتوفى 219 ) نے کہا:
ثنا سفيان، ثنا حصين بن عبد الرحمن السلمي، عن هلال بن يساف عن (؟) ابن ظالم، عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عشرة من قريش في الجنة أنا في الجنة، وأبو بكر في الجنة، وعمر في الجنة، وعثمان في الجنة، وعلي في الجنة، والزبير في الجنة، وطلحة في الجنة، وعبد الرحمن بن عوف في الجنة، وسعد بن أبي وقاص في الجنة» ثم سكت سعيد فقالوا من العاشر؟ فقال سعيد أنا[مسند الحميدي 1/ 197]

أبو الأحوص کا طریق :
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا أبو الأحوص , عن حصين , عن هلال بن يساف عن (؟) عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد , قال : أشهد على تسعة أنهم في الجنة , ولو شهدت على العاشر لصدقت , قال : قلت : وما ذاك , قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم على حراء , وأبو بكر , وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير وسعد بن مالك , وعبد الرحمن بن عوف , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اثبت حراء فإنه ليس عليك إلا نبي , أو صديق , أو شهيد , قال : قلت : من العاشر , قال : أنا.[مصنف ابن أبي شيبة: 12/ 14]

ان دونوں کے اور بھی دیگر کوئی رواۃ مثلا شعبہ، ھشیم ، ادریس ، جریر ،خالد بن عبداللہ وغیرہم نے حصین سے اسی طرح روایت کیا ہے:
عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290) نے کہا:
حدثنا عبد الله قال حدثني أبي قثنا محمد بن جعفر قثنا شعبة عن حصين ح وحدثني عبيد الله بن عمر القواريري قال حدثني هشيم وحدثني سريج بن يونس وزهير أبو خيثمة قالا نا هشيم وحدثني أبو بكر بن أبي شيبة قثنا أبو الأحوص عن حصين وحدثني عثمان بن أبي شيبة قال نا بن إدريس وجرير عن حصين وحدثني وهب بن بقية الواسطي قال أنا خالد بن عبد الله عن حصين قال أبي ونا علي بن عاصم قال حصين أنا عن هلال بن يساف عن (؟) عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل وهذا لفظ حديث هشيم : إنه قال أشهد على التسعة انهم في الجنة ولو شهدت على العاشر لم آثم[فضائل الصحابة 1/ 109]

نوٹ: وکیع نے بھی حصین سے روایت کیا ہے مگر وکیع کی سندوں میں شدید اضطراب ہے جیساکہ ثوری سے ان کی روایت کے ضمن میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔

معلوم ہوا کہ حصین کی بیان کردہ سند میں ھلال اور ابن ظالم کے بیچ ایک واسطہ ساقط ہے۔
.
ترجیح


اب ظاہر ہے کہ دو راویوں کے بیچ واضح اختلاف ہے ۔
ایک راوی اس حدیث کی سند میں ھلال اور ابن ظالم کے بیچ ابن حیان کا واسطہ بیان کررہے ہیں اور یہ منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى ہیں ۔
اوردوسرے راوی ھلال اور ابن ظالم کے بیچ یہ واسطہ بیان نہیں کررہے ہیں یہ حصين بن عبد الرحمن السلمى الکوفی ہیں۔

اوریہ دونوں ثقہ ہیں ۔
اس لئے دیکھنا ہے کہ ان میں کس کی روایت راجح ہے ۔
تو اصل مسئلہ زیادت ثقہ کا ہے یعنی منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى نے سند میں ایک راوی کا اضافہ کیا ہے یہ ثقہ کی زیادت ہے ۔
اور زیادت ثقہ سے متعلق دو موقف ہے:

ایک اہل ظاہر و بعض فقہاء کا موقف ہے کہ ثقہ کی زیادت مطلق قبول کی جائے گی ۔
اس اصول سے منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى کی زیادت قبول کی جائے گی کیونکہ ثقہ ہی نہیں بلکہ زبردست ثقہ ہیں۔

دوسرا موقف ائمہ حدیث کا ہے کہ قرآئن کی روشنی میں فیصلہ ہوگا انہیں قرائن میں سے ایک قرینہ یہ ہے کہ اعلی درجے کا حافظ و ثقہ اگر زیادت بیان کرے اور جو زیادت بیان نہیں کررہاہے وہ حفظ و اتقان میں اس سے کم تر ہو تو ایسی صورت میں حافظ و متقن کی زیادت قبول کی جائے گی ۔
اس اصول سے بھی منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى کی زیادت قبول کی جائے گی کیونکہ حصین بن عبدالرحمن الکوفی کی بنست بہت ہی اعلی درجے کے ثقہ ہیں ۔ بلکہ ان کے مقابلے میں حصین بن عبدالرحمن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

کیونکہ حصین بن عبدالرحمن الکوفی کے حافظہ پر جرح بھی ہوئی جبکہ منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى پر کوئی جرح نہیں ہوئی اور ائمہ حدیث نے ان کی زبردست توثیق کی ہے اور انہیں اعلی درجے کا حفظ و اتقان والا بتلا یا ہے بلکہ :

امام عبد الرحمن بن مهدى (المتوفى198)نے کہا:
منصور أثبت أهل الكوفة
منصور اہل کوفہ میں سب سے اثبت ہیں[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 550 واسنادہ صحیح]

امام إبراهيم بن موسى الرازى (المتوفى220) نے کہا:
أثبت أهل الكوفة منصور
اہل کوفہ میں سب سے اثبت منصور ہیں [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 178 واسنادہ صحیح ]

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے بھی کہا:
كان أثبت أهل الكوفة
یہ (منصور) کوفہ میں سب سے اثبت تھے [معرفة الثقات للعجلي: 2/ 299]

بلکہ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) تو علی الاطلاق کہتے ہیں:
منصور من أثبت الناس
منصور تمام لوگوں میں سب سے اثبت ہیں [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 178]

منصور کے شاگر سفیان ثوری بیان کرتے ہیں:
كنت لا أحدث الأعمش عن أحد إلا رده، فإذا قلت: منصور، سكت
میں امام اعمش سے جس (اہل کوفہ) کی جس کی بھی روایت بیان کرتا وہ اسے رد کردیتے (یعنی اس میں غلطی نکال دیتے ) لیکن جب منصور کی حدیث بیان کرتا تو خاموش ہوجاتے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 177 واسنادہ صحیح]

سفیان ثوری کی یہ شہادت بھی دیکھئے فرماتے ہیں:
ما خلفت بعدي بالكوفة آمن على الحديث من منصور بن المعتمر
میں نے کوفہ میں منصور سے بڑھ کر کسی کو حدیث کے معاملے میں مامون نہیں پایا [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 178 واسنادہ صحیح]

امام منصور روایت حدیث میں اس قدر محتاط تھے کہ غیر ثقہ سے روایت ہی بیان نہیں کرتے تھے دیکھئے: [تهذيب الكمال للمزي: 28/ 549]
اسی لئے امام يحيى بن سعيد القطان رحمه الله (المتوفى 198) نے کہا:
إذا حدثت عن منصور فقد ملأت يدك من الخير لا ترد غيره
جب منصور کی سند سے تمہیں حدیث بیان کردی جائے تو تم نے اپنے ہاتھ خیر سے بھر لئے اب کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں [سنن الترمذي ت شاكر 3/ 549 واسنادہ صحیح ]

اور سب سے زبردست تبصرہ تو امام ابن مھدی نے کیا ہے ان کا تبصرہ تو زیر بحث روایت میں فیصلہ کن کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ:

امام عبد الرحمن بن مهدى (المتوفى198)نے کہا:
أربعة بالكوفة لا يختلف في حديثهم فمن اختلف عليهم فهو يخطئ، ليس هو هم، منهم منصور بن المعتمر
کوفہ میں چار محدثین ایسے ہیں کہ ان کی بیان کردہ احادیث سے اختلاف نہیں کیا جائے گا اور جس نے ان سے اختلاف کیا وہی غلطی پر ہے وہ ان جیساکہ نہیں ان میں منصور بن المعتر ہیں
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 177 واسنادہ صحیح]

سبحان اللہ !
کتنی زبردست توثیق ہے کہ منصور کی بیان کردہ روایت سے کوئی اختلاف کرے تو اختلاف کرنے والا ہی غلط ہوگا۔
اس سنہری قول سے تو روز روشن کی طرح عیاں ہوگا کہ منصور کے خلاف حصین بن عبدالرحمن الکوفی کی بیان کردہ روایت ہی غلط ہے ۔

اس تفصیل سے واضح ہوجاتاہے کہ منصور بن المعتمر بن عبد الله السلمى کے مقابلے میں حصين بن عبد الرحمن السلمى الکوفی کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
لہٰذا منصور ہی کی روایت درست ہے ۔ اور ان کی روایت کے مطابق سند میں ابن حیان موجود ہے جو مجہول ہے ۔
اور جس نے اسے ساقط کرکے سند بیان کی ہے اس کی سند منقطع ہے ۔

اب اگر انصاف سے دیکھا جائے تو مزید کچھ اور کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
کیونکہ واضح دلیل سے ثابت ہوگا کہ حصین کی روایت منقطع ہے۔ اب اس انقطاع کی تائید میں یا منصور کی روایت کی ترجیح میں ائمہ فن کے اقوال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
لیکن پھر بھی ہم آگے ائمہ فن کی تصریحات بھی پیش باذن اللہ پیش کرتے ہیں۔
.
ائمہ فن کی تصریح


ماقبل کی تفصیل کی روشنی میں کسی کو ادنی شک نہیں ہونا چاہئے امام منصور کی بیان کردہ سند ہی راجح ہے کیونکہ امام منصور بن المعتمر ثقاہت و اتقان کے جس مقام پر ہیں اس میں ان کا کوئی معاصر ان کی برابری نہیں کرسکتا اس لئے ہر انصاف پسند شخص کی آواز یہی ہوگی کی امام منصور کی بیان کردہ روایت ہی راجح ہے ۔

امام دارقطنی جیسا ماہر علل زیر بحث حدیث کی تمام سندوں پر بے لاگ تبصرہ کرنے کے بعد آخر میں پکار اٹھتاہے:
والذي عندنا أن الصواب قول من رواه، عن الثوري، عن منصور، عن هلال، عن فلان بن حيان، أو حيان بن فلان، عن عبد الله بن ظالم، لأن منصور أحد الإثبات، وقد بين في روايته عن هلال أنه لم يسمعه من ابن ظالم، وأن بينهما رجلا
ہمارے نزدیک صحیح بات ان راویوں کی ہے جنہوں نے عن الثوري، عن منصور، عن هلال، عن فلان بن حيان، أو حيان بن فلان، عن عبد الله بن ظالم کی سند سے روایت کیا ہے کیونکہ منصور اثبات میں سے ایک ہیں اور انہوں نے اپنی روایت میں بیان کردیا ہے کہ ہلال نے اس روایت کو ابن ظالم سے نہیں سنا بلکہ ھلال اور ابن ظالم کے بیچ ایک شخص موجود ہے۔[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 4/ 412]

امام دارقطنی کا یہ قول آنے کے بعد پتہ چلا کہ امام نسائی رحمہ اللہ یہ فیصلہ کرنے میں اکیلے نہیں ہیں کہ اس روایت کو ھلال نے ابن ظالم سے نہیں سنا بلکہ امام دارقطنی جیسے ماہر علل نے بھی یہی بات کہی ہے ۔ اور ان دونوں کے برخلاف کسی بھی محدث نے ایک حرف بھی نہیں کہا ہے۔
.
علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کا تساہل


علامہ أحمد محمد شاكر فرماتے ہیں:
هلال بن يساف، بكسر الياء: تابعي ثقة، سبق الكلام عليه في 610، وقد جزم البخاري في الكبير 3/ 2 /202 بأنه أدرك علياً وسمع أبا مسعود البدري الأنصاري، وأبو مسعود مات سنة 40، فأن يكون سمع سعيد بن زيد أولى،
ہلال بن یساف ثقہ تابعی ہیں ان پر حدیث نمبر (610)کے تحت گفتگو ہوچکی ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ کبیر (3/ 2 /202) میں کہا ہے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کو پایا ہے اور ابومسعود البدری سے سنا ہے اور ابومسعود البدری کی وفات 40 ہجری میں ہوئی ہے تو سعید بن زید سے ان کا سماع بدرجہ اولی ممکن ہے ۔[مسند أحمد ت شاكر 2/ 289]

عرض ہے کہ سعید بن زید تو دور کی بات ہلال نے تو سعید بن زید کے شاگرد ابن ظالم سے بھی یہ روایت نہیں سنی ہے جیساکہ ماقبل میں اسے ثابت کیا جاچکا ہے اور ائمہ فن کی تصریحات بھی پیش کی جاچکی ہے۔
علامہ احمد شاکر کے کلام کا ماحصل یہ ہے کہ جب دو راویوں کی بیچ معاصرت ثابت ہو تو ان کی روایت کو سماع پر محمول کیا جاتا ہے۔
اصولی طور پر یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جن دو ہم عصر راویوں کے بارے میں یہ ثبوت مل جائے کہ انہوں نے ایک دوسرے سے نہیں سنا ہے تو وہاں بھی معاصرت سے سماع پر استدلال کیا جائے کیونکہ معاصرت کا یہ لازمی مطلب قطعا نہیں ہوتا کہ ہر معاصر اپنے معاصر سے ملا بھی ہو بلکہ اگر ملنا بھی ثابت ہو تو بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اس ملاقات میں اس سے حدیثیں بھی سنا ہو ۔
کتب رجال میں کتنے ایسے راوی موجود ہیں جن کے سماع کا ایسے راوی سے محدثین نے انکار کیا ہے جن کے وہ معاصر رہ چکے ہیں چنانچہ:
أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
الزهري لم يسمع من أبان بن عثمان شيئا, لا أنه لم يدركه, قد أدركه, وأدرك من هو أكبر منه, ولكن لا يثبت له السماع منه كما أن حبيب بن أبي ثابت لا يثبت له السماع من عروة بن الزبير, وهو قد سمع ممن هو أكبر منه غير أن أهل الحديث قد اتفقوا على ذلك واتفاق أهل الحديث على شيء يكون حجة
زہری نے أبان بن عثمان سے کچھ نہیں سنا ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے ان کا زمانہ نہیں پایا ہے بے شک ان کا زمانہ پایا ہے بلکہ ان سے بڑی عمر والوں کا بھی زمانہ پایا ہے لیکن ان (أبان بن عثمان )سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ۔ جس طرح حبيب بن أبي ثابت کا عروہ بن زبیرسے سماع ثابت نہیں ہے جبکہ انہوں نے ان سے بڑی عمر والوں سے بھی سن رکھا ہے ۔ مگرمحدثین کا اس عدم سماع پر اتفاق ہے اور ان کا کسی چیز پر اتفاق کرلینا حجت ہے [المراسيل لابن أبي حاتم ص: 192]

بلکہ کتنے ایسے راوی ہیں جن کے سماع کا ایسے راوی سے محدثین نے انکار کیا ہے جن کے وہ نہ صرف معاصر رہ چکے ہیں بلکہ ان سے مل بھی چکے ہیں یا دیکھ بھی چکے ہیں لیکن اس ملاقات و رؤ یت میں ان سے حدیثیں نہیں سنیں مثلا امام ابواسحاق رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ چکے ہیں لیکن ان سے احادیث نہیں سنے چنانچہ:
أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کا:
لم يسمع أبو إسحق من ابن عمر إنما رآه رؤية
ابواسحاق نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا بلکہ انہیں صرف دیکھا ہے [المراسيل لابن أبي حاتم الرازي ص: 24]

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) نے کہا:
الأعمش لم يسمع من أنس بن مالك إنما رآه رؤية بمكة يصلي
اعمش نے انس بن مالک سے نہیں سنا ہے صرف ان کو مکہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے[المراسيل لابن أبي حاتم الرازي ص: 17]

بلکہ اس سے بھی آگے بڑھیں ایک راوی کسی سے مل چکا ہوتا ہے اور اس سے کچھ احادیث بھی سن چکا ہوتا ہے پھر بھی اس سے اس کی بعض روایت کو منقطع بتلایا جاتا ہے کیونکہ وہ خاص اس روایت کو اس راوی سے نہیں سنا ہوتا ہے ۔ مثلا ابو اسرائیل یہ اپنے استاذ الحکم بن عتیبہ سے مل بھی چکے ہیں اور ان سے احادیث بھی سن چکے ہیں لیکن ان کی ایک خاص حدیث کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں:
وأبو إسرائيل لم يسمع هذا الحديث من الحكم بن عتيبة
ابو اسرائیل نے یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے نہیں سنی ہے[سنن الترمذي ت شاكر 1/ 379]

ظاہرہے کہ اب امام ترمذی کا قول یہ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ابواسرائیل الحکم بن عتیبہ کا معاصر ہے بلکہ اس سے مل بھی چکا ہے حتی کی اس سے احادیث بھی سن چکا ہے۔

اس لئے اگر کسی خاص حدیث کے بارے میں دلیل مل جائے کہ اس حدیث کو کسی راوی نے اپنے سے اوپر والے سے نہیں سنا ہے یا ائمہ حدیث اس بات کی صراحت کردیں تو خاص اس حدیث میں سماع نہیں مانا جائے گرچہ دونوں کے بیچ معاصرت رہی ہو یا ملاقات بھی ہوئی یا دیگر احادیث کا سماع بھی ہوا ہو ان سب کے باوجود بھی خاص حدیث میں دلیل یا ائمہ فن کی تصریح کے سبب سماع نہیں مانا جائے گا۔

لہٰذا زیر بحث حدیث میں بھی ھلال کا ابن ظالم سے سماع نہیں مانا جائے گا کیونکہ یہاں عدم سماع کی دلیل بھی موجود ہے اور ائمہ فن کی تصریح بھی موجود ہے۔
.
علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کے تساہل کا راز



اب رہی بات یہ کہ کیا یہ چیز علامہ احمد شاکر جیسے محدث کو معلوم نہ تھی کہ خاص مقام پر عدم سماع وانقطاع ثابت ہونے سے معاصرت وغیرہ کو سماع کی دلیل نہیں بنایا جائے گا ۔
تو عرض ہے کہ یقینا علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کو بھی یہ بات معلوم ہے لیکن یہاں وہ معاصرت سے سماع کا اثبات اس لئے کررہے ہیں کیونکہ وہ اصلا اس بات ہی کے منکر ہیں کہ یہاں عدم سماع و انقطاع کا خصوصی ثبوت ہے۔
چنانچہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے معاصرت سے سماع پر استدلال کرنے کے بعد آگے چل کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہاں انقطاع کی خاص دلیل موجود نہیں ہے۔

دراصل علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ امام ابوداؤد نے دو روایات کی بناپر ھلال اور ابن ظالم کے بیچ ایک واسطہ مانا ہے ۔
پھر احمد شاکر رحمہ اللہ نے یہ تحقیق پیش کی ہے کہ انقطاع پر دلالت کرنے والی یہ دونوں روایات ثابت ہی نہیں ہے اس لئے خاص انقطاع ثابت نہیں ہوا لہٰذا معاصرت کو سماع پر ہی محمول کیا جائے گا۔
عرض ہے کہ اصولی طور پر یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر خاص انقطاع کا ثبوت نہ ملے تو معاصرت کو سماع پر محمول کیا جائے گا ۔
لیکن زیر بحث معاملہ میں خاص انقطاع کو غیر ثابت کہنا یہ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کی بہت بڑی چوک ہے جس کی وضاحت ہم پیش کئے دیتے ہیں ۔

در اصل علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں خاص انقطاع کی دو دلیل ہے :

ایک محمد بن العلاء أبي كريب کی روایت
دوسری عبيد الله الأشجعي کی روایت

پھر ان دونوں روایات کو علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے ضعیف ثابت کیا ہے ذیل میں اہم ان کی اس تضعیف کا جائزہ لیتے ہیں:

محمد بن العلاء أبي كريب کی روایت:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
حدثنا محمد بن العلاء(أبي كريب)، عن ابن إدريس، أخبرنا حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم،
و سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم المازني، ذكر سفيان رجلا فيما بينه وبين عبد الله بن ظالم المازني قال: سمعت سعيد بن زيد۔۔۔۔۔الخ[سنن أبي داود 4/ 211 رقم4648]

اس روایت میں (و سفیان عن منصور۔۔) کہہ کر سند کی جو تحویل ہے اس کے قائل ابن ادریس ہیں ، یعنی ابن ادریس نے جس طرح اپنے استاذ حصین سے یہ روایت نقل کی ہے اسی طرح ابن ادریس نے اپنے استاذ سفیان ثوری سے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔یعنی الگ الگ دونوں سندوں کو لکھا جائے تو یہ شکل ہوگی :

حدثنا محمد بن العلاء، عن ابن إدريس، أخبرنا حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم،
حدثنا محمد بن العلاء، عن ابن إدريس،أخبرنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم المازني، ذكر سفيان رجلا فيما بينه وبين عبد الله بن ظالم المازني

یعنی اس روایت میں ابن ادریس کے دو استاذ ہیں ایک حصین اور دوسرے سفیان ثوری ۔
ابن ادریس نے اپنے استاذ حصین والی سند کو ھلال اور ابن ظالم کے بیچ بغیر کسی واسطے کے روایت کیا ہے۔
جبکہ اپنے دوسرے استاذ سفیان ثوری والی سند کو ھلال اور ابن ظالم کے بیچ کسی اور شخص کے ذکر کے ساتھ روایت کیا ہے۔

لیکن علامہ شاکر رحمہ اللہ کو زبردست وہم ہوا ہے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ سفیان ثوری والی جو دوسری سند ہے اسے سفیان ثوری سے نقل کرنے والے محمد بن العلاء أبو كريب ہیں نہ کہ ابن ادریس ۔
یعنی تحویل سند (و سفیان عن منصور۔۔) کے ناقل علامہ احمد شاکر کی نظر میں محمد بن العلاء أبو كريب ہیں یعنی علامہ احمد شاکر کی سمجھ کے مطابق الگ الگ دونوں سندوں کو لکھا جائے تو یہ شکل ہوگی :
حدثنا محمد بن العلاء، عن ابن إدريس، أخبرنا حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم،
حدثنا محمد بن العلاء، عن سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم المازني، ذكر سفيان رجلا فيما بينه وبين عبد الله بن ظالم المازني

ظاہر ہے کہ اس سمجھ کے اعتبار سے سفیان ثوری والا طریق ثابت نہیں ہوگا کیونکہ سفیان ثوری سے اسے نقل کرنے والے محمد بن العلاء أبو كريب قرار پائیں گے اور ان کی سفیان ثوری سے ملاقات ہی نہیں ۔

اب علامہ احمد شاکر کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
ورواه أبو داود عن محمد بن العلاء أبي كريب عن ابن إدريس عن حصين، فذكر فيه أيضاً عبد الله بن ظالم، وذكر في إسناده أيضاً أن أبا كريب رواه "عن سفيان عن منصور عن هلال بن يساف عن عبد الله بن ظالم المازني، قال: ذكر سفيان رجلا فيما بينه وبين عبد الله بن ظالم المازني".۔۔۔۔۔وهذا كلام غير محرر من أبي داود، أتى من انقطاع الرواية، فإن أبا كريب لم يدرك الثوري، الثوري مات سنة 161 وأبو كريب مات سنة 248 عن 87 سنة،
امام ابوداؤد نے اسے عن محمد بن العلاء أبي كريب عن ابن إدريس عن حصين کی سند سے ذکر کیا ہے اس میں عبداللہ بن ظالم کا ذکر ہے ۔امام ابوداؤ نے اپنے سند میں یہ بھی ذکرکیا کہ محمد بن العلاء أبو كريب نے اسے عن سفيان عن منصور عن هلال بن يساف عن عبد الله بن ظالم المازني کی سند سے بھی روایت کیا ہے اور کہا کہ سفیان نے ھلال اور ابن ظالم کے بیچ ایک شخص کا اضافہ کردیا ہے ۔ یہ ابوداؤد کا غیردرست کلام ہے جو منقطع روایت پر مبنی ہے کیونکہ محمد بن العلاء أبي كريب کو سفیان ثوری کا زمانہ نہیں ملا ہے سفیان ثوری کی وفات 161 ہجری میں ہوئی ہے اور محمد بن العلاء أبي كريب کی وفات 248 ہجری میں ہوئی ہے یعنی 87 سال کا فاصلہ ہے[مسند أحمد ت شاكر 2/ 289 ، 290]

قارئین غور فرمائیں علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کتنے زبردست وہم کے شکار ہوگئے انہوں نے تحویل سند والی روایت کو ابن ادریس کے بجائے محمد بن العلاء أبو كريب کا بیان سمجھ لیا اور اس بناپر پر سفیان ثوری والی روایت ہی کو منقطع ٹہرا دیا جبکہ یہ واضح غلطی ہے ۔
اور بالفرض مان بھی لیں کہ یہاں سفیان ثوری والی سند محمد بن العلاء أبو كريب ہی نے بیان کیا ہے جو منقطع ہونے کے سبب ثابت نہیں تو بھی ماقبل میں ہم نے سفیان ثوری کے کئی شاگردوں مثلا معاوية بن هشام الأسدى ، القاسم بن يزيد الجرمي اور عبيد بن سعيد القرشي سے بسند صحیح یہ روایت پیش کی ہے اس لئے اس کے ثابت ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔

عبيد الله الأشجعي کی روایت:
علامہ احمد شاکر نے ھلال اور ابن ظالم کے بیچ انقطاع ثابت کرنے والی جس دوسری دلیل کو غلط قراردیا وہ ہے یہ:
قال أبو داود: رواه الأشجعي، عن سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن ابن حيان، عن عبد الله بن ظالم بإسناده نحوه [سنن أبي داود 4/ 211]

علامہ احمد شاکرکا کہنا ہے کہ امام ابوداؤد نے اسے اشجعی کے حواے سے نقل کیا ہےاور اشجعی سے امام ابوداؤد کی ملاقات نہیں ہے اس لئے یہ بھی ثابت نہیں ۔
پہلی روایت ابوکریب کی تھی وہ غیرثابت نکلی اور دوسری روایت اشجعی کی تھی وہی بھی غیر ثابت نکلی اس لئے ان دو غیر ثابت روایت کی بنیاد پر یہ نہیں مانا جاسکتا کہ سفیان ثوری نے ھلال کے بعد مزید واسطہ ذکرکیاہے ملاحظہ ہوں علامہ احمد شاکر کے الفاظ:
وأبو داود لم يدرك الأشجعي. فروى كل منهما شيئاً لم يسمعه، فأخطآ فيه، جعلا رواية الثوري عن منصور فيها "عبد الله بن ظالم"، وجعلا أن هلالاً يسمعه من ابن ظالم، بل من رجل مجهول سماه أبو داود فيما حكى عن الأشجعي "ابن حيان"
ابوداؤ نے اشجعی کا زمانہ پایا ہی نہیں تو دونوں (ابو کریب اور ابوداؤد ) نے ایسی چیز روایت کی جسے سنا ہی نہیں اس لئے غلطی کی ، ان دونوں نے ثوری عن منصور کی روایت میں "عبد الله بن ظالم" کا اضافہ کیا پھر ھلال کو ابن ظالم سے نہ سننے والا بناکر کسی مجہول شخص سے سننے والا بتایا ، اور ابو داؤد نے اشجعی سے نقل کرتے ہوئے اس مجہول کا نام "ابن حيان" بتایا ہے[مسند أحمد ت شاكر 2/ 289 ، 290]

عرض ہے کہ سفیان ثوری والی اس دوسری روایت سے متعلق علامہ احمد شاکر کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ ثابت نہیں کیونکہ ابوداؤد نے اشجعی سے بلاسند نقل کیا ہے۔
لیکن سفیان ثوری والی سند کے لئے صرف یہ اشجعی والی روایت ہی نہیں بلکہ ماقبل میں ہم نے سفیان ثوری کے کئی شاگردوں مثلا معاوية بن هشام الأسدى ، القاسم بن يزيد الجرمي اور عبيد بن سعيد القرشي سے بسند صحیح یہ روایت پیش کی ہے اس لئے سفیان ثوری والی اس سند کے ثابت ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کی نظر میں اس سند کے اندر خصوصی انقطاع کا ثبوت نہیں ہے اسی لئے انہوں نے معاصرت سے سماع پر استدلال کیا ہے ۔
اگرعلامہ احمد شاکر رحمہ اللہ تخریج میں اور کتب کی طرف رجوع کرتے اور انہیں سفیان ثوری والی سند کا ثبوت دوسری کتب میں مل جاتا تو وہ بھی یہاں معاصرت سے سماع پر قطعا استدلال نہیں کرتے ۔

بہرحال علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے انقطاع کی خاص دلیل کو ثابت نہ سمجھ کر معاصرت سے سماع پر استدلال کیا تھا ۔ لیکن اب جبکہ ہم نے خاص انقطاع کو ثابت کردیا ہے تو اس کے بعد بھی علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کے فیصلہ کا حوالہ دینا اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں ۔
.
حدیث عشرہ کی صحیح سند


واضح رہے کہ عبداللہ بن ظالم والی حدیث کے ضعیف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے اندر جو مرفوع حصہ بیان ہوا ہے وہ بھی ضعیف ہے ۔
کیونکہ دس صحابہ کے لئے جنت کی بشارت والا مرفوع حصہ دیگرکئی صحیح سندوں سے ثابت ہے ذیل میں ہم اس مرفوع حصہ کو ایک صحیح سند سے پیش کرتے ہیں:


امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279) نے کہا:
حدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عبد الرحمن بن حميد، عن أبيه، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أبو بكر في الجنة، وعمر في الجنة، وعثمان في الجنة، وعلي في الجنة، وطلحة في الجنة والزبير في الجنة، وعبد الرحمن بن عوف في الجنة، وسعد في الجنة، وسعيد في الجنة، وأبو عبيدة بن الجراح في الجنة»
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید (سعید بن زید) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں (رضی اللہ علیہم اجمعین)“[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 647 رقم 3747 رجالہ ثقات واسنادہ صحیح متصل ]

ترمذی کی یہ روایت سندا متصل ہے اس کے سارے رجال ثقہ ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح ہے والحمدللہ۔

No comments:

Post a Comment