”ریان“ روزہ داروں کے لئے مخصوص دروازہ (سلسلہ رمضانی دروس حدیث) {7} - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-05-16

”ریان“ روزہ داروں کے لئے مخصوص دروازہ (سلسلہ رمضانی دروس حدیث) {7}

”ریان“ روزہ داروں کے لئے مخصوص دروازہ (سلسلہ رمضانی دروس حدیث) {7}
● ● ● ●
تحریر : کفایت اللہ سنابلی
● ● ● ●
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فِي الجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ، فِيهَا بَابٌ يُسَمَّى الرَّيَّانَ، لاَ يَدْخُلُهُ إِلَّا الصَّائِمُونَ» 
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں ایک دروازے کا نام ریان ہے۔ جس سے داخل ہونے والے صرف روزے دار ہوں گے۔[صحيح البخاري: 4/ 119 رقم 3257]۔
اس حدیث میں روزہ داروں کی یہ فضیلت بتائی گئی ہے کہ جنت میں ان کا داخلہ ایک خصوصی دروازے سے ہوگا جس کا نام ’’ریان‘‘ ہوگا۔
آئیے اس اس خصوصی دروازے سے متعلق کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں۔
✿ جنت کے بقیہ دروازوں کے نام:
پیش کردہ حدیث میں جنت کے ایک دروازہ کا نام بتایا گیا ہے جبکہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں جیساکہ اسی حدیث میں شروع میں کہا گیا ’’فِي الجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ‘‘ یعنی جنت میں آٹھ دروازے ہیں ۔
اب ان ناموں میں سے ایک کا نام تو مذکورہ حدیث میں بتایا مگربقیہ دروازوں کے نام اس حدیث میں مذکور نہیں لیکن دیگراحادیث میں ان بقیہ دروازوں کے نام بھی آگئے ہیں ۔
مثلا ملاحظہ ہو یہ حدیث:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، نُودِيَ مِنْ أَبْوَابِ الجَنَّةِ: يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ "، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا، قَالَ: «نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ» 
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہو گا اسے ”باب ریان“ سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہو گا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔[صحيح البخاري 3/ 25]۔
 ● حافظ ابن حجررحمہ اللہ بعض دیگر روایات کی روشنی میں مزید دروازوں‌ کی تفصیل اس طرح پیش کی ہے۔
 ◄ 1: بَابِ الصَّلاَةِ
 ◄ 2:بَابُ الجِهَادِ
 ◄ 3:بَابُ الرَّيَّانِ
 ◄ 4:بَابُ الصَّدَقَةِ
 ◄ 5: بَابُ الْحَجّ
 ◄ 6:الْبَابُ الْأَيْمَنُ
 ◄ 7:بَابُ الْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ
 ◄ 8:بَابُ الذِّكْرِ او بَابَ الْعِلْمِ
[فتح الباري لابن حجر 7/ 28]۔
✿ تمام دروازوں کا نام عمل سے ، جبکہ ریان کا نام صلہ سے:
جنت کے تمام دروازوں کے ناموں میں غورکیا جائے تو روزہ داروں کے لئے مخصوص دروازے ریان میں خاص خوبی یہ نظر آتی ہے کہ اس کانام عمل کے ثواب وصلہ پررکھاگیا ہے جبکہ جنت کے دیگر دروازوں کے نام اعمال پررکھے گئے ہیں۔
مثلا نمازیوں کے لئے جو دروازہ ہے اس کا نام باب الصلواۃ ہے یعنی نماز کا جو عمل ہے اسی پراس کا نام رکھا گیا ہے۔یہی حال دیگرتمام دروازوں کا ہے۔
لیکن روزہ داروں کے لئے جو دروازہ ہے اس کا نام عمل پر نہیں رکھا گیا ہے یعنی اس کا نام باب الصوم (روزہ کا دروازہ)نہیں ہے ، بلکہ باب الریان ہے جس کا معنی سیراب کرنے والا دروازہ ، اوریہ روزہ کا عمل نہیں بلکہ روزہ کا صلہ ہے، اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دنیا میں روزہ دار حضرات روزہ کی حالت میں پیاس کی شدت برداشت کرتے تھے ، لہٰذا بروزقیامت جنت میں ان کا داخلہ ریان نامی دروازے سے ہوگا جس کا مطلب یہ کہ اب وہ کبھی بھی پیاس کی شدت کے شکارنہیں ہوں گے۔
علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لأنهم بتعطيشهم أنفسهم في الدنيا يدخلون من باب الريان ليأمنوا من العطش
کیونکہ روزے دار دنیا میں خود کو پیاسارکھنے کی وجہ سے ریان کے دروازے سے داخل ہوں گے تاکہ پیاس سے محفوظ رہیں[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 6/ 324].
بلکہ زیر تشریح حدیث کے ایک طریق میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے ، چنانچہ نسائی کی روایت ہے:
مَنْ دَخَلَ فِيهِ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا»
جوریان نامی دروازے سے داخل ہوگا وہ جنت کا مشروب پیے گیا اور جو جنت کا مشروب پی لے گاوہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا[سنن النسائي 4/ 168 رقم 2236واسنادہ صحیح]۔
✿ اصحاب الریان کون سے روزہ دار ؟؟؟ 
اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ریان کی بشارت جن روزہ داورں کے لئے ہے ان سے مراد فرائض کے ساتھ ساتھ بکثرت نفل روزے رکھنے والے ہیں۔
اس لئے کہ فرض نماز وروزے تو سب کے لئے لازم ہیں ، لہٰذا امتیاز نوافل ہی کے اعتبار سے دیکھا جائے ، مثلا کوئی شخص تمام فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بکثرت نفل نمازوں کو اداکرنے والا ہے تو وہ باب الصلاۃ کا مستحق ہے اسی طرح کوئی تمام فرائض کے ساتھ بکثرت نفل روزوں کا عادی ہے تو باب الریان کا مستحق ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتےہیں:
وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْمُرَادَ مَا يُتَطَوَّعُ بِهِ مِنَ الْأَعْمَالِ الْمَذْكُورَة لَا وَاجِبَاتِهَا
اس میں اشارہ ہے کہ اس سے مراد مذکورہ اعمال میں سے نفل اعمال انجام دینے والے ہیں نہ کہ فرائض[فتح الباري لابن حجر: 7/ 28]۔
✿ کچھ لوگ ہردروازے سے:
جنت کے دروازوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ابھی آپ کے سامنے بخاری کی حدیث پیش کی گی گئے جس میں ابوبکررضی اللہ عنہ نے سوال کیا :
یا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔[صحيح البخاري: 3/ 25 رقم 1897]۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کچھ خوش نصیب لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہیں جنت کے ہردروازے سے بلایا جائے گااور یہ جس دروازے سے چاہیں جنت میں داخل ہوسکتے ہیں۔خلیفہ اول ابوبکررضی اللہ عنہ انہیں لوگوں میں سے ہوں گے۔اورایسااس وجہ سے کیونکہ آپ ہرطرح کی عبات میں فرائض کے ساتھ نوافل بھی بکثرت ادا کرتے تھے جیساکہ مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوتاہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا؟» قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَا، قَالَ: «فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً؟» قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَا، قَالَ: «فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا؟» قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَا، قَالَ: «فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا؟» قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ، إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ»
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے آج کس نے روزہ دار صبح کی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کس نے آج مریض کی عیادت کی، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ سب کام جب کسی ایک آدمی میں جمع ہو جاتے ہیں تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوتا ہے۔[صحيح مسلم 2/ 713 رقم 1028]۔
اس حدیث میں غورکریں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاق سے ایک ہی مجلس میں نوافل سے متعلق یہ سوالات کئے تھے اور سب کے جواب میں ابوبکررضی اللہ عنہ ہی نےاپنے عمل کا ثبوت دیا ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کس طرح ہرطرح کی عبادات میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی ازحد اہتمام کرتے تھے اسی لئے آپ جنت کے ہردروازے سے بلائے جائیں گے ۔
اورجوشخص بھی اس طرح کی عبادات انجام دے گا وہ بھی اس فضیلت کا مستحق ہوگا۔
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ ✿ 

No comments:

Post a Comment