مدخلی ، سروری مناقشے اور خارجیت کے مظاہر
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی
متوازن فکر اور معتدل سوچ اور پھر ان کے مطابق رویہ بنانا انسانی زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ معتدل سوچ اور معتدل رویہ انسان کے لیے کامیابی کی دلیل ہوتی ہے اور ضمانت بھی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انساان بلاوجہ لوگوں کی دل آزاری اور فکری و ذہنی انتشار کا سبب نہیں بنتا ہے اور نئی الجھنیں اور پریشانیاں نہیں لاتا ہے۔
عدم توازن کا مظاہرہ صرف ایک ڈھنگ سے نہیں ہوتا ہے اس کا اظہار بہت سے طریقوں سے ہوتا ہے اور سب سے خطرناک عدم توازن اس وقت یہ ہے کہ سماجی اور اجتماعی امور کے ذمہ دار اصول و ضوابط کے بغیر کام کریں اور ہر شے کو اپنی مٹھی میں بند کر لیں اور فساد عام کا ذریعہ بنیں اخلاقی اقدار، دینی اصول، سماجی انصاف اور منصبی ذمہ داری کی پرواہ نہ کریں۔ بس ہر شے کو اپنی نفس ناطقہ بنا لیں اور مفاد عامہ کو نظر انداز کرکے مفاد ذات کا مسئلہ بنا لیں۔ اور ہر فاسق فاجر سے تال میل کرنا کمال جانیں اور لیپ پوت کو کامیابی کا نسخہ بنا لیں۔ یہ گاڑھی منافقت اور بے ایمانی انتہائی درجہ کا عدم توازن ہے۔ اس سے صرف فساد پھیلتا ہے اور سارا اجتماعی نظم کوڑھ زدہ بن جاتا ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ بگڑی ذہنیت بگڑی قیادتیں اسے کمال سمجھتی ہیں۔
عدم توازان کی ایک نہایت سطحی شکل یہ ہے اور وہ بھی فساد عام کا نتیجہ ہے کہ انسان دین کے نام پر کسی معمولی سی بات کو اساسی اور اصولی مسئلہ بنا دے، یا ایک مباح شے کو عین اسلام یا عین کفر بتانا شروع کردے۔ یاذہنی کج یا اپج کو کلی دین کا درجہ بنا دے۔ باہمی نزاعات کو عین دین بتانا شروع کردے، کفر سازی اور فتنہ سازی کو مہم جوئی بنا ڈالے۔ علم کی بو بھی سونگھنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن علّامہ بننے کی کوشش کرے۔ دعوت و افتاء کا کاروبار کرنے لگے اور اس غیر ذمہ دارانہ عمل پر لوگ اچھلنا شروع کردیں۔
.
بے اعتدالی کی یہ ساری شکلیں اس وقت علمی و دعوتی دائرے میں نظر آتی ہیں اور ان پر اتنا اصرار ہے کہ خارجیت شاداب ہورہی ہے اور اس کے علائم صاف نظر آرہے ہیں۔ بگاڑ کی ان ساری شکلوں کو در اصل بڑھا وا بگڑی دینی قیادتون کی بد نیتی اور بد عملی سے ملتا ہے جو ساز باز اور منافقت کو اپنا وطیرہ بنا لیتی ہیں۔ اور اپنی قیادت کو مضبوط بنانے کے لیے ہر ایک سے تال میل کرنے کو اور ہر منافق کو اپنے ساتھ ٹانک لینے کو قائدانہ گن مانتی ہیں۔ ایسی قیادتیں (یحسبون کل صیحۃ علیھم) کے تحت کام کرتی ہیں اور ناکام قیادت کو بچانے کے لیے بد کاروں سے مفاہمت کو شرطِ اولیں مان اور سمجھ رکھا ہے۔ اس طرح اباحیت کا دروازہ یہی لوگ کھولتے ہیں اور ہر کہ و مہ کو فساد پھیلانے کا موقع دیتے ہیں۔
ان فتنہائے نوع بہ نوع میں اس وقت سب سے بڑا دو فتنہ ہے۔
(۱) سیکولر تعلیم کا پس منظر رکھنے والے اور رکھنے والیاں مفتی، داعی، خطیب، دینی رہنما، مربی اور مزکّی بننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ محراب و ممبر سنبھالتے ہیں اور ٹی وی پر آتے ہیں اور اکڑ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ علماء نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی اس لیے میدان میں ان کو قدم رکھنا پڑا۔ ایسے ادّعا کو پبلک بھی بہت پسند کرتی ہے یہ ادعا اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ان حضرات کو برابر یہ جد و جہد کرنی پڑتی ہے کہ علماء بے کار ہیں، کم فہم ہیں، لڑاکو ہیں، شکم پرور ہیں اس لیے وہ مسترد ہیں ان کی نہ سنو۔ اب ان کے علم سے زیادہ صاف ستھرا اور شاندار علم ان کا ہے بہت سے اپنی شین کاف کے گاڑھے پن سے عوام سے یہ بات منوالے جاتے ہیں۔ کچھ اپنی لمبی داڑھی لمبے کرتے سے لوگوں کے دماغ پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ کچھ اپنی منصوبہ بندی عیاری اور چالاکی سے لوگوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں اور علماء تک ان کی چاکری کرنے لگتے ہیں اور ان پر فدا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بمبئی اور مضافات بمبئی میں جماعت اہل حدیث میں ایسا ہو رہا ہے کہ انہیں محراب و منبر مل رہا ہے۔ ورنہ تاریخ اہل حدیث میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انھیں محراب و ممبر ملا ہو۔ کبھی سلفیت نے گوارا نہیں کیا کہ دینی کاموں کی انجام دہی کے لیے جو اہل نہیں ہیں انھیں یہ مقام و منصب ملے۔ لیکن یہاں کے لوگ اور یہاں کی ڈھلمل قیادت نے یہ بھی کر دکھا یا جو کبھی نہ ہوا، جو چیز کبھی جماعت میں گوارا نہیں ہو سکتی تھی اباحیت پسندی کے مزاج نے اسے پسند فر ما لیا۔ اصول و ضابطوں کے مطابق دعوت حق کو پروان چڑھانے کے بجائے ذات و مفاد کو پروان چڑھانے اور استبداد کی دکان سجانے کے ہولناک منظر نے ایسے ایسے لوگوں کو بڑھاوا دے دیا ہے کہ ان سے دعوت مسلک اور جماعت کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ والعیاذ باللہ۔
جمہوریت کا دور ہے [باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی] کا دور دورہ ہے۔ عوام کی پسند ناپسند معیار خطابت و دعوت ہے اور اسی راہ پر سب چل رہے ہیں۔ سب کی یہی ڈگر بن گئی ہے۔ ایسی حالت میں کون کس کو روک ٹوک سکتا ہے اور کون کس کی سن سکتا ہے۔
علومِ اسلامیہ پر، دین پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ کوئی بھی سیکھے اور ان کا حق ادا کرے اور دینی میدانِ عمل سنبھالے۔ لیکن یہ کیا کہ چند کتابیں پڑھ لی گئیں، دین کے درو بست کی خبر نہیں۔ اصول و ضوابط کا پتہ نہیں۔ چند تقریریں کسی بھی زبان میں رٹ لیں اور ’’ہلدی کی ایک گانٹھ پنساری بن بیٹھے‘‘ ہر کام کے کچھ اصول و ضابطے ہوتے ہیں ان کو نظر انداز کرکے کوئی وہ کام نہیں کر سکتا نہ دنیا اسے کا اہل تسلیم کرسکتی ہے۔ الا یہ کہ جعلسازی کا پردہ حائل ہو جائے۔ دین کے اصول اور ضابطے اس سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں بھی بہت دور رس ہوتی ہیں۔ یہاں بھی ان اصول و ضابطوں کے مطابق ہی اگر کام ہوتو اسے دنیا و آخرت میں درجۂ قبولیت حاصل ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ لیکن اگر جعلسازی کا پردہ حائل ہو تو سارے اصول و ضوابط دکھلائی نہیں دیتے اور لوگ بے اصولی کے کاموں کو بھی سراہنے لگتے ہیں۔
.
۲۔ دوسرا فتنہ جو اس وقت جگہ جگہ موجود ہے۔ وہ سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کا ہی ہے۔ یہ لوگ فکر و خیال کی انتہا پسندی کے اس عروج پر ہیں کہ ان کے نزدیک ہندوستان میں ایک بھی عالم نہیں ہے جس سے وہ استفادہ کر سکیں۔ یہ گروہ انتہائی درجہ کا سطحی،دین سے بے خبر، اجڈ اور خوش فہم ہے۔ یہ لوگ شخصیت پرست، ا نٹر نیٹ پرست، ٹی وی پرست ہیں۔ ان کے نزدیک نہ دین کی اہمیت ہے نہ علم کی نہ علماء کی۔ یہ [سفہاء الاحلام احداث الاسنان] کی ٹیم ہے۔ یہ اتنے جاہل ہیں کہ ان کو کوئی بھی عیار دین کے نام پر فریب دے سکتا ہے اور دے رہا ہے۔ ان کا کل دین، ایمان، علم [ربیعی سروری] مناقشے ہیں۔
ربیعی اور سروری مناقشے کیا ہیں؟ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
ڈاکٹرربیع المدخلی ایک معتبر محدث عالم اور مصنف ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ چند سال انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں پڑھایا اور بقیہ عمر جامعہ اسلامیہ میں گذار دی۔ کلیۃ الحدیث کے استاذ سے لے کر الدراسات العلیاء کے صدر تک رہے اور ایک بہترین استاذ، صالح اور مخلص سلفی عالم کی حیثیت سے ان کی پہچان بنی۔ علامہ البانی، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ اور شیخ صالح فوزان نے ان کی دعوتی اور تحریری کاموں کی بھر پور تائید و توثیق کی۔
شیخ سرور زین العابدین ایک شامی سلفی عالم ہیں۔ انھوں نے بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں تدریس کا کام کیا ہے۔ ان دونوں علماء کے درمیان عقیدہ و منہج پر کافی قلمی مباحثے ہوئے ہیں۔ جانا یہ جاتا ہے کہ شیخ سرور اخوانی تحریکیت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور خاص اخوانی حاکمیت کے نظریے کے وہ حامل ہیں۔ اس مناقشے نے اتنا طول کھینچا کہ موافقت مخالفت میں ربیعی اور سروری دو گروپ بن گئے۔ اس مناقشے نے طول یوں بھی پکڑا کہ سید قطب سارے عالم عرب میں چھائے ہوئے تھے۔ ہر حلقے میں ان کی تحریروں کی طوطی بولتی تھی۔ شیخ ربیع نے سب سے پہلے تفصیل کے ساتھ ان کی تحریروں کا جائزہ لیا اور ان کی اندر موجود کمیوں کو آشکارا کیا خاص کر ان کمیوں کا جن کا تعلق دین کے اصولی اور منہجی امور سے تھا۔ اس پر اخوانی تحریکی اور وہ سلفی جنھوں نے اخوانیت کی شراب محبت پی رکھی تھی اور ان کی تحریکیت کو قبول کر رکھا تھا اتنے سیخ پا ہوئے کہ ان کے خلاف اندر باہر ایک محاذ کھول دیا اور انھیں مطعون اور مسترد کرنے کے سارے علمی غیر علمی حربے استعمال کر ڈالے۔ اس طرح مناقشے نے مستقلاً ایک طویل مناقشت اور منافست میں بدل گئے۔ یہ مناقشہ تقریباً تیس سالوں سے چل رہا ہے اور دونوں کے طرف دار بن گئے ہیں اور کتاب، پمفلٹ، رسائل، ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے ذریعے یہ مناقشہ جاری ہے۔ یہ مناقشہ در اصل علماء کے درمیان تھا لیکن اسے عوامی بنا دیا گیا۔ اسے عوامی بنانے میں فتنہ پروری کا ہاتھ ہے۔ یہی مناقشہ لوگوں کے سلفی ہونے نہ ہونے کا معیار بن گیا ہے۔ جن نادانوں نے اسے معیار بنا دیا ہے اب اس معیار کے مطابق ہندوستان میں شاید کوئی سلفی عالم نہیں رہ گیا ہے۔ جہلاء، خارجی سوچ کے سفہاء الأحلام احداث الأسنان ربیعی تلوار لیے سارے اہل حدیث علماء کا سر قلم کر رہے ہیں۔
بات تو اصولی طور پر شیخ ربیع ہی کی صحیح تھی لیکن مناقشات جب طول پکڑتے ہیں اور دونوں فریق بن کر اپنے لیے طرف دار بٹور لیتے ہیں تو معاملہ [دھت تیری کی] کی بن جاتی ہے اور بات ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے تک پہونچتی ہے اور کم سے کم مناقشت میں آلودگی آجانے سے وہ عام حق و باطل کے پرکھ کا معیار نہیں رہ جاتی ہے اسے ایک خاص دائرے سے نکال کر عام معیار نہیں بنا سکتے۔ اصلا صحیح مناقشت سے صرف باطل کی صفائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کا کام بس یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے، خاص ماحول اور خاص بو اور مزا ہوتا ہے۔ بڑی نادانی ہوگی کہ جھاڑو کو قلم بنایا جائے اور تیزاب کو شربت کہا جائے۔
.
خارجی ذہنیت کے حامل جو اپنی خاص پہچان بنانا چاہتے ہیں وہ ان مناقشات کو [تصنیف الناس] کا اصول بنائے ہوئے ہیں اور کم عقل بیٹھ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون عالم ہے کون نہیں ہے؟ کون مسترد ہے کون مقبول ہے؟ کون اہل حدیث ہے کون اہل حدیث نہیں ہے؟ان کے لیے دین کی تعلیمات بس اتنی ہیں کہ سروری ربیعی مناقشات کو پڑھیں اور آنکھ کان بند کر لیں نہ کسی کی سننے کی ضرورت ہے نہ مزید پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سفہاء الاحلام تمام دنیا کے مسلمانوں کے متعلق حکم لگانے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں اور اگر ان کی سوچ رویے اور حماقتوں پر کوئی خارجیت کا حکم لگا دے تو مرنے لگتے ہیں۔ اپنے بارے میں چھوئی موئی اور دوسروں کے متعلق صرف کانٹا ہی کانٹا۔ اگر یہ اتنے جری ہیں کہ دوسروں کے علم و عمل اور عقیدے کو زیرو بنا رہے ہیں تو اپنے متعلق بھی حکم سننے کا یارا رکھیں۔
جس وقت یہ مناقشہ شروع ہوا تھا شیخ ابو بکر زید نے اپنی کتاب [تصنیف الناس] لکھی۔ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی اسی وقت یہ شکایت ان سے تھی کہ انھوں نے تخاذل اختیار کیا ہے۔ اخوانیوں نے اس کتاب کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا لیکن اب جس طرح کم عقل ربیعی سروری مناقشے کو استعمال کر رہے ہیں کسی کو اہل حدیث کسی کو غیر اہل حدیث، کسی کو جاہل اور کسی کو عالم، کسی کو مستند کسی کو غیر مستند بنائے پھرتے ہیں اب اس کتاب کی بات حقیقت بن رہی ہے اور جہلاء اس مناقشے کو معیار بنا کر علماء کے متعلق اپنا فیصلہ فرما رہے ہیں۔ یہ رویہ اختیار کر کے ایسے لوگ خارجیت کی کئی علامتیں اپنے اندر پیدا کر چکے ہیں۔
۱۔ عموما اس فتنے میں مبتلا سیکولر تعلیم یافتہ ہیں یعنی دینی اصول و مبادی سے بے خبر ہیں۔ یعنی سفہاء الاحلام میں ان کا شمار ہے۔
۲۔ ان کی اکثریت أحداث الأسنان کی ہے یعنی کم عمر الھڑ لڑکوں کی ہے۔
۳۔ ان کو اپنی جانکاری پر خوش فہمی ہے یہ فتوی بازی کرنے میں بڑی تیزی دکھلاتے ہیں۔
۴۔ انھیں اپنے تقوی پر بھی بڑا غرور ہے۔ یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔
۵۔ یہ بے مسئلہ کو مسئلہ بناتے ہیں۔
۶۔ یہ دین کی تعلیمات کے بجائے علماء کے مناقشات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
۷۔ یہ فساد پھیلانے میں بڑے تیز ہیں۔ اور خاص دینی دعوت و تبلیغ میں زبردست رکاوٹ ہیں۔
ان کے اندر خارجیت کی یہ سات علامتیں موجود ہیں۔ انھیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے اور فتنہ پروری سے باز آجانا چاہیے۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ اپنے آس پاس کے مستند علماء سے جڑ کے رہیں اور کسی کم عقل کے بھٹکانے سے بھٹکیں نہیں۔
اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اگر ہماری یہ آواز شیخ ربیع حفظہ اللہ تک پہونچے تو ان سے گذارش ہے کہ ان کے نام سے دکان لگانے فتنہ پھیلانے اور خارجیت کی ضلالت میں پڑے لوگوں کو نصیحت کریں کہ وہ ان حرکتوں سے باز آجائیں اور فقط دین سیکھیں اور عمل کریں اور اللہ تعالی سے توبہ کریں اور مسلمانوں کو اپنی گمراہیوں اور فتنوں سے بچائیں۔
در اصل اس دور میں کم عمروں اور کم عقلوں کا مزاج ہڑ بونگی ہوتا ہے عموماً یہ سیاست بازی جتھہ بندی نیتائی اور شہرت کے رسیا ہوتے ہیں۔ ان کے اندر سنجیدگی اور وقار نام کی نہیں ہوتی۔ اس لیے سماجی اور اجتماعی نزاکتوں اور دینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے الگ ڈھرا الگ شناخت بنانے میں بڑا لطف اٹھاتے ہیں۔ اور فتنہ پھیلانے میں انھیں بڑا مزا آتا ہے۔
یہ اپنے رویہ سے دین، علم، علماء، شرافت و مروت اور حیا سب کی پامالی کرتے ہیں اور اچھا نوجوان بھی چھچھورا بن کر رہ جاتا ہے۔ یا پھر انحراف اور انعزال اس کا مقدر بن جاتا ہے اور جو خود کو نیتا بنائے پھرتا ہے وہ کم سنوں اور کم فہموں کی زندگی میں زہر بھر دیتا ہے۔ جو ان کا نیتا بنتے ہیں وہ اپنے رویے سے انتہائی درجے کے مجرم بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی کم فہم کم عقل نیتا ہمیشہ نوجوانوں کی گمراہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ شیخ ربیع کے نام پر سارے سفہاء الاحلام اور أحداث الأسنان سلفیت کے نادان دوست ہیں اور عقل و شرافت انھیں راست نہیں آئی اور اپنی نیتائی کی دکان کھولے ہوئے ہیں۔ اور صرف لوگوں کے بھٹکنے کا سبب بنتے ہیں۔
.
No comments:
Post a Comment