یزید بن معاویہ کا دفاع کیوں؟؟؟
”عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ القِيَامَةِ»“
”صحابی رسول ابوالدرداء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا جو اسے عیب دار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کر دے گا۔“ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 327 والحدیث صحیح باتفاق العلما ء ، رقم 1931]۔
اس حدیث میں اس بات کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا جائے بلکہ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدس عمل کو جہنم سے نجات کا ذریعہ بتایا گیا ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی عزت کادفاع کرنا ایک مستحب اور بے حدپسندیدہ کام ہے اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے اگرایسی شخصیات کی عزتوں کا دفاع کیا جائے جو صاحب فضیلت ہوں تو اس عمل کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے مثلا اگر کسی صحابی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے اور ان پر غلط اورجھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں تو ایسے صحابی کی عزت کا دفاع کرنا بہت بڑی عبادت اوربہت بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے۔
اسی طرح صحابہ کے بعد تابعین کی جماعت امت مسلمہ کی افضل ترین جماعت ہے اگر اس جماعت کے کسی فرد کی عزت پر حملہ کیا جائے اور اس پرجھوٹے الزامات لگائے جائیں تو ان کا دفاع کرنا بھی بہت بڑے ثواب کا کام ہے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ۔
یزید بن معاویہ رحمہ اللہ تابعین میں سے ہیں بلکہ صحابی رسول امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں۔اوران پربھی جھوٹے ، مکار اورسبائی درندوں نے بہت سارے الزامات لگائے ہیں اور ان کی عزت پر بہت حملہ کیا ہے اس لئے ان کا دفاع کرنا بھی پیش کردہ حدیث پرعمل کرنے میں شامل ہے۔ یادرہے کہ:
اللہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یزید بن معاویہ کی بخشش کی بشارت دی ہے (بخاری رقم 2924 نیز دیکھیں رقم 1186)۔
صحابہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں نیک اورصالح ترین شخص کہا ہے [أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔۔اسی طرح حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں امیرالمؤمنین کہا ہے[تاريخ الأمم والرسل والملوك- الطبري 3/ 299 واسنادہ صحیح]۔
تابعین میں محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ نے انہیں عبادت گذار ، خیر کا متلاشی ، سنت کا پاسداراور علم دین کا شیدائی کہا ہے [البداية والنهاية: 8/ 233 ،تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274 واسنادہ صحیح]۔
اس کے برخلاف یزید کے مذمت میں جوباتیں کہی جاتی ہیں ان میں سے ایک بھی خیرالقرون کے حوالہ سے ثابت نہیں ہیں اورصدیوں بعد پیداہونے والے بعض اہل علم کی شاذ آراء بے دلیل ہونے کےسبب مردود اورباطل ہیں۔
معلوم ہوا کہ یزیدبن معاویہ کی صرف خوبیاں ہی ثابت ہیں اس لئے ان پر بے دلیل لگائے گئے الزامات کا رد کرنا اور ان کی شخصیت کا دفاع کرنا مذکورہ حدیث کی روشنی میں بہت بڑے ثواب کا کام ہے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ یزید کے بہانے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک پہنچنے اور ان کی کردار کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دفاع یزید کی ذمہ داری اوربڑھ جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment