امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اور شراب سے متعلق ایک روایت - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-05-31

امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اور شراب سے متعلق ایک روایت

امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اور شراب سے متعلق ایک روایت
(کفایت اللہ سنابلی)
سوال: مجھے اس روایت کے بارے میں جاننا ہے کہ یہ صحیح ہے یا ضعیف ہے اور محدثین نے اس حدیث کی اسناد کے بارے میں کیا کہا ہے؟
روایت مع سند ومتن یہ ہے: « حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللّٰهِ بنُ برَيْدَةَ ، قَالَ:’’دَخَلْتُ أَنَا وَأَبي عَلَي مُعَاوِيَةَ ، فَأَجْلَسَنَا عَلَي الْفُرُشِ ، ثُمَّ أُتِينَا بالطَّعَامِ ، فَأَكَلْنَا ، ثُمَّ أُتِينَا بالشَّرَاب ، فَشَرِب مُعَاوِيَةُ ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبي ، ثُمَّ قَالَ:مَا شَرِبتُهُ مُنْذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘، ثم قَالَ مُعَاوِيَةُ :كُنْتُ أَجْمَلَ شَباب قُرَيْشٍ ، وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا ، وَمَا شَيْء ٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَاب غَيْرُ اللَّبنِ ، أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي»
عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے ہمیں بستر پر بٹھایا ، پھر کھانا پیش کیا جو ہم نے کھایا، پھر پینے کے لیے شراب لائی گئی جسے پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نوش فرمایا، پھر میرے والد کو وہ برتن پکڑا دیا تو وہ کہنے لگے کہ جب سے نبی ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قریش کا خوبصورت ترین نوجوان تھا اور سب سے زیادہ عمدہ دانتوں والا تھا، مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔
[مسند أحمد بن حنبل، مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ، حَدِیثُ برَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ، ح: ۲۲۳۳۹]
.
مذکورہ روایت کی استنادی حالت
جواب: سب سے پہلے یہ روایت مع تخریج ملاحظہ ہو:
 «حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ:’’دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَي مُعَاوِيَةَ فَأَجْلَسَنَا عَلَي الْفُرُشِ، ثُمَّ أُتِينَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلْنَا، ثُمَّ’’أُتِينَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِيَةُ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي، ثُمَّ قَالَ:مَا شَرِبْتُهُ مُنْذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘ثُمَّ قَالَ مُعَاوِيَةُ:كُنْتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَيْشٍ وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا، وَمَا شَيْء ٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَابٌّ غَيْرُ اللَّبَنِ، أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي»
[مسند أحمد ط الرسالۃ:۲۶؍۳۸واخرجہ ایضا أبو زرعۃ الدمشقی فی تاریخہ:۱؍۱۰۲، وعنہ ابن عساکر:۲۷؍۱۲۷من طریق احمدبہ ]
ترجمہ: صحابیٔ رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بسترپربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھاناحاضرکیا جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اورپھر میرے والد کو پیش کیا ، اوراس کے بعد کہا:میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول ﷺ نے حرام قراردیا، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے خوبصورت تھا اورسب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی‘‘۔
.
ہمارے ناقص مطالعہ کے مطابق مذکورہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منکروضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی زیدبن حباب صدوق وحسن الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب اوہام واخطاء تھے جیساکہ متعدد محدثین نے صراحت کی ہے، مثلاً امام احمدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 «كَانَ رجلاً صَالحاً مَا نفذ فِي الحَدِيث إِلَّا بالصلاح لِأَنَّهُ كَانَ كثير الْخَطَأ قلت لَهُ من هُوَ قَالَ زيد بن الْحباب»
[العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد روایۃ ابنہ عبد اللّٰہ:۲؍۹۶]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵ھ)نقل کرتے ہیں:
 «سمعت أحمد قال زيد بن الحباب كان صدوقا وكان يضبط الألفاظ عن معاوية بن صالح ولكن كان كثير الخطأ»
[سؤالات أبی داؤد لأحمد: ص:۳۱۹]
معلوم ہوا کہ زیدبن حباب کے صدوق وحسن الحدیث ہونے کے باوجود بھی ان سے اوہام واخطاء کا صدور ہوتا تھا ، لہٰذا عام حالات میں ان کی مرویات حسن ہوں گی لیکن اگرکسی خاص روایت کے بارے میں محدثین کی صراحت یا قرائن وشواہد مل جائیں کہ یہاں موصوف سے چوک ہوئی ہے تو وہ خاص روایت ضعیف ہوگی ۔
اورمذکورہ روایت کا بھی یہی حال ہے کیونکہ زید بن حباب نے ابن ابی شیبہ سے اسی روایت کو اس طرح بیان کیا ہے:
امام ابن ابی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵ھ)نے کہا:
 «حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَال:حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ:قَالَ:’’دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَي مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَ أَبِي عَلَي السَّرِيرِ وَأَتَي بِالطَّعَامِ فَأَطْعَمَنَا، وَأَتَي بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ:مَا شَيْء ٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ وَالْحَدِيثُ الْحَسَنُ»
[مصنف ابن أبی شیبۃ:۶؍۱۸۸]
ترجمہ: صحابیٔ رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں چارپائی پربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھانا لائے جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی،اورآج بھی میرا یہی حال ہے۔
غورکریں یہ روایت بھی زیدبن حباب ہی کی بیان کردہ ہے لیکن اس میں وہ منکرجملہ قطعاً نہیں ہے جوامام احمدکی روایت میں ہے ، معلوم ہوا کہ زیدبن حباب نے کبھی اس روایت کو صحیح طورسے بیان کیا ہے جیساکہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ، اورکبھی ان سے چوک ہوگئی ہے جیساکہ مسند احمد کی روایت میں ہے۔
اورچونکہ مسنداحمد کی روایت میں ایک بے جوڑ اوربے موقع ومحل جملہ ہے اس لیے یہی روایت منکرقرار پائے گی۔
چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی جب اس روایت کومجمع الزوائدمیں درج کیا تو منکرجملہ کو چھوڑدیا، امام ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی۸۰۷ھ)نے لکھا:
 «عن عبد اللّٰه بن بريدة قال:دخلت مع أبي على معاوية فأجلسنا على الفراش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال معاوية:كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغراً وما من شيء أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب غير اللبن وإنسان حسن الحديث يحدثني. رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح وفي كلام معاوية شيء تركته»
[مجمع الزوائد للہیثمی:۵؍۵۵]
.
فائدہ:
 اس روایت کی تخریج کرنے والے امام احمدرحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو منکرقراردیاہے،چنانچہ:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
’’حسین بن واقد ،لہ أشیاء مناکیر‘‘[سؤالات المیمونی:۴۴۴]
ایک اورموقع پرکہا:’’ما أنکر حدیث حسین بن واقد وأبی المنیب عن بن بریدۃ‘‘[العلل ومعرفۃ الرجال:۱؍۳۰۱]
نیز فرمایا: عبد اللّٰہ بن بریدۃ الذی روی عنہ حسین بن واقد ما أنکرہا وأبو المنیب أیضا یقولون کأنہا من قبل ہؤلاء۔[العلل ومعرفۃ الرجال:۲؍۲۲]
عرض ہے کہ حسین بن واقد ثقہ راوی ہیں اوران کی مذکورہ روایت ابن ابی شیبہ کے یہاں جن الفاظ میں ہے اس میں کوئی نکارت نہیں ہے لہٰذا وہ روایت صحیح ہے جب کہ مسند احمد کی زیربحث روایت ضعیف ہے کیونکہ اسے امام احمدنے روایت کیا ہے اورآپ نے حسین بن واقد کی مرویات کو منکرقراردیاہے۔
ہمارے نزدیک راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ زیربحث روایت میں نکارت کا ذمہ دار حسین بن واقد نہیں بلکہ زید بن الحباب ہے کمامضٰی۔
.
متن روایت کا مفہوم
اس حدیث کے منکروضعیف ہونے کے باوجود بھی گرچہ اس میں ایک بے جوڑ اوربے موقع ومحل جملہ ہے، پھربھی اس جملہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا شراب پینا قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ سائل نے زیربحث روایت کا جو ترجمہ پیش کیا ہے وہ قطعا ًدرست نہیں،اس میں درج ذیل غلطیاں ہیں:
پہلی غلطی: 
متن حدیث میں مذکور شراب کا ترجمہ اردو والے شراب سے کرنا غلط ہے کیونکہ اردو میں جسے شراب کہتے ہیں اس کے لیے عربی میں خمر کالفظ استعمال ہوتا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ شراب کا ترجمہ مشروب سے کیا جائے یعنی پینے کی کوئی چیز۔
دوسری غلطی: 
متن کا یہ جملہ جب سے نبی ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا صحابیٔ رسول بریدہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ نہیں ہے جیساکہ سائل کے پیش کردہ ترجمہ میں ہے بلکہ یہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے جیساکہ سیاق سے صاف ظاہر ہے ۔
ان دونوں غلطیوں کی اصلاح کے بعد حدیث مذکور کا صحیح ترجمہ اس طرح ہوگا:
صحابیٔ رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بسترپربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھاناحاضرکیا جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اورپھر میرے والد کو پیش کیا ، اوراس کے بعد کہا:میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول ﷺ نے حرام قراردیا، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے خوبصورت تھا اورسب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔
.
مشروب یعنی پینے والی چیز کیا تھی ؟
مذکورہ روایت میں شراب سے مراد کوئی حلال مشروب یعنی پینے والی چیز تھی اس سے اردو والا شراب یعنی خمر مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ، نہ سیاق وسباق کے لحاظ سے اس کی گنجائش ہے اورنہ ہی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کی امید ہے۔
بلکہ اردو والا شراب یعنی خمر مراد لینے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بریدہ رضی اللہ عنہ پربھی حرف آتاہے کہ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہا تھوں ایسے مشروب کو کیوں لیا جو حرام تھا ، بلکہ ایسے دسترخوان پر بیٹھنا بھی کیونکرگوارا کیا جس پرشراب (خمر) کا دور چلتاہو، کیونکہ ایسے دسترخوان پربیٹھنا کسی عام مسلمان کے شایان شان نہیں چہ جائے کہ ایک صحابی اسے گواراکریں ۔
مزیدیہ کہ ایسے دسترخوان پربیٹھنے کی ممانعت بھی واردہوئی ہے اس سلسلے کی مرفوع حدیث (ترمذی۲۸۰۱وغیرہ) گرچہ ضعیف ہے لیکن خلیفۂ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے موقوفاً یہ ممانعت بسندِصحیح منقول ہے ، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی۲۱۱)نے کہا:
 «أخبرنا معمر عن زيد بن رفيع عن حرام بن معاوية قال كتب إلينا عمر بن الخطاب لا يجاورنكم خنزير ولا يرفع فيكم صليب ولا تأكلوا على مائدة يشرب عليها الخمر وأدبوا الخيل وامشوا بين الغرضين»
[مصنف عبد الرزاق:۶؍۶۱واسنادہ صحیح]
معلوم ہواکہ مذکورہ روایت میں مشروب سے خمر مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔
اسی طرح اس سے نبیذ مراد لینا بھی درست نہیں جیساکہ مسنداحمد کے مترجم نے کیا ہے ، چنانچہ سائل کا پیش کردہ ترجمہ معلوم نہیں کہاں سے ماخوذ ہے، لیکن بعینہٖ یہی ترجمہ مسند احمد کے مترجم نسخے میں موجود ہے۔ لیکن اس میں شراب کا ترجمہ نبیذ سے کیا ہے، جبکہ سائل کے ترجمہ میں نبیذ کو ہٹا کرسیدھا شراب ہی لکھ دیا گیاہے۔
بہرحال شراب کاترجمہ نبیذ سے کرنا بھی غلط ہے کیونکہ اول شراب کا معنی نبیذ نہیں ہوتا ، دوم روایت کے سیاق وسباق میں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ پینے والی چیز نبیذ تھی ۔
بلکہ روایت کے اخیر میں دودھ کا ذکر ہے اورامیرمعایہ رضی اللہ عنہ نے دودھ اپنا پسندیدہ مشروب بتلایا ہے اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ ہی پیا تھا یعنی شراب سے مراد دودھ ہی ہے۔
چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو نقل کرکے اس پر یہ باب قائم کیا ہے:
باب ما جاء فی اللبن۔[مجمع الزوائد للہیثمی:۵؍۵۵]
.
امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی؟
مذکورہ روایت کے بیچ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی جو یہ وضاحت ہے کی کہ:
میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول ﷺ نے حرام قراردیا۔
اس وضاحت میں جس چیز کے پینے کی بات ہورہی ہے وہ خمر یعنی شراب ہی ہوسکتی ہے کیونکہ اسے ہی اللہ کے نبی ﷺ نے حرام قراردیا ہے۔
اورما شربتہ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع محذوف ہے اور وہ خمر ہے ، اہل عرب کبھی کبھی ضمیر کے مرجع کو حذف کردیتے ہیں ، بلاغت کی اصطلاح میں اسے ’’الإِضمار فی مقام الإِظہار‘‘ کہتے ہیں یعنی جس ضمیرکا مرجع معلوم ہو اس مرجع کو بعض مقاصد کے تحت حذف کردینا ، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہاں ضمیرکے مرجع خمرکو حذف کیا ہے ، اورمقصد خمر کی قباحت و شناعت کا بیان ہے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خمر سے اتنی نفرت تھی کہ آپ نے اس کانام تک نہیں لیا ۔
اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اورشراب سے ان کی نفرت ظاہر ہوتی ہے۔
اورشراب سے نفرت کا اظہار کرکے معاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ کواپنا پسندیدہ مشروب قرار دیا،اس سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔
بلکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ بھی وضاحت کہ قبل ازاسلام بھی ان کے نزدیک دودھ ہی سب سے پسندیدہ مشروب تھا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا ، بلکہ اس کے بجائے وہ دودھ ہی نوش فرماتے تھے۔
یاد رہے کہ معراج میں اللہ کے نبی ﷺ کو شراب اور دودھ پیش کیا گیا توآپ ﷺ نے دودھ کو منتخب کیا ، بخاری کے الفاظ ہیں:
 «ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاء َيْنِ:فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ، فَقَالَ:اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ:أَخَذْتَ الفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ»
’’پھر دو برتن میرے سامنے لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے۔ میں نے دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (دودھ آدمی کی پیدائشی غذ ا ہے ) اگر اس کے بجائے آپ نے شراب پی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی‘‘
[بخاری:رقم:۳۳۹۴]
معلوم ہواکہ دودھ کو پسند کرنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ فطرت پر تھے یہ چیز بھی ان کے فضائل میں سے ہے، والحمدللہ۔
اب سوال یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی ؟؟؟
تو عرض ہے کہ مذکورہ روایت میں اس کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے اسی لیے ہم نے شروع میں کہا کہ یہ وضاحت محمود ہونے کے باوجود بھی بے موقع ومحل ہے۔
مسند احمد کے معلقین لکھتے ہیں:
 «وقوله:ثم قال:ما شَرِبتُه منذ حرَّمَه رسولُ اللّٰه صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ’’أي:معاوية بن أبي سفيان، ولعله قال ذلك لِما رأَي من الكراهة والإنكار فى وجه بريدة، لظنِّه أنه شرابٌ مُحرَّم، واللّٰه أعلم»
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ:میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسولﷺ نے حرام قراردیا، غالبا ًیہ بات معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہی جب انہوں نے بریدہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر کراہت و ناپسندیدگی کے آثاردیکھے بریدہ رضی اللہ عنہ کے اس گمان کی وجہ سے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حرام مشروب دے دیا ہے،واللہ اعلم
[مسند أحمد ط الرسالۃ:۲۶؍۳۸]
عرض ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ وضاحت کی یہ توجیہ کرنا غلط ہے کیونکہ اول تو صحابہ کرام سے یہ توقع نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح کی بدگمانی میں مبتلاہوجائیں ، نہ تو بریدہ رضی اللہ عنہ ، ایک جلیل القدر صحابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پرشراب کا شبہ کرسکتے ہیں اورنہ ہی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اس سوء ظن میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ عنہ کی کسی ناپسندیدگی کی وجہ، معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ان کی بدگمانی ہے۔
لہٰذا مسند احمد کے معلقین نے جو توجیہ پیش کی ہے وہ ہماری نظر میں بالکل درست نہیں۔
بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ممکن ہے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کچھ منافقین نے یہ افواہ اڑا رکھی ہو کہ وہ شراب پیتے تھے اس لیے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنے مہمانوں کے سامنے وضاحت کرتے رہے ہوں ، اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حالات کیا تھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، دشمنانِ اسلام اورمنافقین نے جوکچھ کیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے اس لیے بعید نہیں کہ سلف کے کردار کو مجروح کرنے کے لیے ان کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہو جس طرح ان کے بیٹے یزید رحمہ اللہ کے بارے میں بھی ظالموں اورفاسقوں بلکہ کفار و منافقین نے شراب خوری وغیرہ کی تہمتیں لگائی ہیں اوران کے ہم نوا آج بھی ایسا کررہے ہیں۔
ہماری پیش کردہ یہ توجیہ بھی محض ایک قیاس و ظن ہے ، کوئی قطعی بات نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ یہ ساری باتیں اس صورت میں کہی جائیں گی جب مذکورہ روایت کے ثبوت پرقرائن وشواہد مل جائیں ورنہ ہماری نظرمیں یہ روایت منکروضعیف ہے جیساکہ شروع میں وضاحت کی گئی واللہ اعلم۔

No comments:

Post a Comment