قبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان کی آواز سننے والی روایت ! - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-05-03

قبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان کی آواز سننے والی روایت !

قبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان کی آواز سننے والی روایت !
.
سعیدبن عبدالعزیز کہتے ہیں کہ جب ایام حرہ کا واقعہ پیش آیا تو تین دنوں تک مسجد نبوی میں اذان اوراقامت نہیں ہوئی ، اورسعیدبن المسیب ان دنوں مسجد نبوی ہی میں ٹہرے رہے آپ کہتے ہیں جب نماز کا وقت ہوجاتا تو قبر نبوی سے اذان کی آواز سنائی دیتی اورمیں یہ آواز سن کر اقامت کہتا اورنماز اداکرتا۔
.
یہ رویات سعیدبن المسیب کے حوالے سے دولوگوں نے بیان کیا ہے
 ● سعيد بن عبد العزيز،التنوخى
 ● أبو حازم، سلمة بن دينار
 ●  محمد بن سعيد القرشی
.
سعيد بن عبد العزيزکی روایت​
امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا مروان بن محمد، عن سعيد بن عبد العزيز، قال: لما كان أيام الحرة لم يؤذن في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبي صلى الله عليه وسلم فذكر معناه[سنن الدارمي 1/ 227]۔

یہ روایت مرسل ہے کیونکہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ واقعہ حرہ کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
واقعہ حرہ 63 ہجری میں پیش آیا (عام کتب تاریخ).

اور’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ کی پیدائش 90 ہجری میں ہوئی ہے ، امام ذہبی فرماتے ہیں:
وُلِدَ: سَنَةَ تِسْعِيْنَ، فِي حَيَاةِ سَهْلِ بنِ سَعْدٍ[سير أعلام النبلاء 8/ 32]۔

یعنی موصوف واقعہ پیش آنے کے 27 ستائیس سال بعدپیداہوئے پھر ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ واقعہ کسی اورسے سناہے اوراس کانام نہیں لیا ، لہٰذا روایت مرسل ہے۔

یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ نے یہ روایت ’’سعیدابن المسیب‘‘ سے سنی ہو کیونکہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ کی پیدائش 90 ہجری میں ہوئی ہے جیساکہ اوپر حوالہ پیش کیا گیا اوران کے پیداہونے کےتقریبا تین سال بعد ہی ’’سعیدابن المسیب‘‘ کی وفات ہوگئی ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ، وَعَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ: تُوُفِّيَ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ.[سير أعلام النبلاء ط الرسالة 4/ 246]۔

معلوم ہوا کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ نے یہ روایت ’’سعیدابن المسیب‘‘ سے سنی ہو۔
.
ابوحازم سلمہ بن دینار کی روایت​
امام ابن سعدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا الوليد بن عطاء بن الأغر المكي قال: أخبرنا عبد الحميد بن سليمان عن أبي حازم قال: سمعت سعيد بن المسيب يقول: لقد رأيتني ليالي الحرة وما في المسجد أحد من خلق الله غيري، وإن أهل الشام ليدخلون زمرا زمرا يقولون: انظروا إلى هذا الشيخ المجنون، وما يأتي وقت صلاة إلا سمعت أذانا في القبر ثم تقدمت فأقمت فصليت وما في المسجد أحدغيري.[الطبقات الكبرى لابن سعد 5/ 132]۔

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أبو بكر بن عبد الباقي، قال: أنبأ أبو محمد الجوهري إذناً، قال: أنبأ ابن حيويه، قال: أنبأ ابن معروف، قال: أنبأ الفهم، قثنا ابن سعد، قال: أنبأ الوليد بن عطاء، قال: أنبأ عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي لَيَالِيَ الْحَرَّةِ وَمَا فِي الْمَسْجِدِ أَحَدٌ من خلق الله غيري، وأن أهل الشام ليدخلون زُمَرًا يَقُولُونَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ الْمَجْنُونِ، وما يأتي وقت صلاة، إلا سمعت أذاناً في الْقَبْرِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ، فَأَقَمْتُ فَصَلَّيْتُ، وَمَا فِي الْمَسْجِدِ أَحَدٌ غَيْرِي.[مثير العزم الساكن إلى أشرف الأماكن ط الراية 2/ 301]

امام ابن ابی خیثمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنا مُحَمَّد بن سُلَيْمَان لوين ، قال : حدثنا عَبْد الحميد بن سُلَيْمَان ، عن أبي حازم ، عن سعيد بن الْمُسَيَّب ، قال : لقد رأيتني ليالي الْحَرَّة وما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدٌ غيري ، ما يأتي وقت صلاةٍ إلا سمعت الآذان مِن القبْر [تاريخ ابن أبي خيثمة 4/ 119]۔

امام لالکائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ: ثنا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ لُوَيْنٌ قَالَ: ثنا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي لَيَالِي الْحَرَّةِ وَمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ غَيْرِي، وَمَا يَأْتِي وَقْتَ صَلَاةٍ إِلَّا سَمِعْتُ الْأَذَانَ مِنَ الْقَبْرِ، ثُمَّ أُقِيمُ فَأُصَلِّي، وَإِنَّ أَهْلَ الشَّامِ لَيَدْخُلُونَ الْمَسْجِدَ ُمَرًا، فَيَقُولُونَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ الْمَجْنُونِ [كرامات الأولياء للالكائي: 9/ 183]۔

امام ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سَهْلٍ الْخَشَّابُ النَّيْسَابُورِيُّ قَالَ: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْأَنْمَاطِيُّ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ لُوَيْنٌ قَالَ: ثنا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي لَيَالِيَ الْحَرَّةِ وَمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرِي وَمَا يَأْتِي وَقْتُ صَلَاةٍ إِلَّا سَمِعْتُ الْأَذَانَ مِنَ الْقَبْرِ ثُمَّ أَتَقَدَّمُ فَأُقِيمُ وَأُصَلِّي وَإِنَّ أَهْلَ الشَّامِ لَيَدْخُلُونَ الْمَسْجِدَ زُمَرًا فَيَقُولُونَ: انْظُرُوا إِلَى الشَّيْخِ الْمَجْنُونِ [دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني ص: 567]۔

ان تمام سندوں میں‌ ایک ’’عبد الحميد بن سليمان الخزاعى‘‘ موجود ہے جوضعیف ہے۔

امام دارقطنی نے اسے ضعفاء ومتروکین میں‌ ذکر کیا ہے۔
عبد الحميد بن سليمان مدني [الضعفاء والمتروكون للدارقطني ص: 27]۔

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يكن عبد الحميد بن سليمان أخو فليح بن سليمان بثقة،[معرفة الرجال لابن معين 1/ 57]۔

امام علی ابن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان فُلَيْح، وأخوه عبد الحَمِيْد، ضَعِيْفٌين[سؤالات محمد بن عثمان بن أبي شيبة لعلي بن المديني - الفاروق ص: 48]۔

امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان أخو فليح ، ليس بقوي [الجرح والتعديل موافق 6/ 14]۔

امام ابوزرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف الحديث [الجرح والتعديل: 6/ 14، وسندہ صحیح]۔

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان أخو فليح ضعيف [الضعفاء والمتروكين ص: 72]۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ مِمَّن يخطىء ويقلب الْأَسَانِيد فَلَمَّا كثر ذَلِك فِيمَا روى بَطل الِاحْتِجَاج بِمَا حدث صَحِيحا لغَلَبَة مَا ذكرنَا على رِوَايَته[المجروحين لابن حبان 2/ 141]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان اخو فليح عن أبي الزناد ضعفوه جدا[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 44]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان الخزاعي الضرير أبو عمر المدني نزيل بغداد ضعيف[تقريب التهذيب موافق رقم 1/ 249]
.
 محمد بن سعيد القرشی کی روایت​
پیش کردہ روایت کو سعیدابن المسیب سے ’’ محمد بن سعيد القرشی ‘‘ نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی حقیقت بھی ملاحظہ :

امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعيد عن أبيه قال: كان سعيد بن المسيب أيام الحرة في المسجد لم يبايع ولم يبرح، وكان يصلي معهم الجمعة ويخرج إلى العيد، وكان الناس يقتتلون وينتبهون وهو في المسجد لا يبرح إلا ليلا إلى الليل. قال فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر حتى أمن الناس وما رأيت خبرا من الجماعة .[الطبقات الكبرى لابن سعد 5/ 132]

یہ روایت موضوع ہے ، اس میں کئی علتیں ہیں:
پہلی علت:
''محمد بن سعید'' کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ، لہٰذا یہ نامعلوم التوثیق ہے۔
دوسری علت:
''طلحہ بن محمد '' مجہول ہے ۔
امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی277 ) نے کہا:
لا اعرف طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم 4/ 476]۔
تیسری علت:
امام ابن سعد کا استاذ ''محمدبن عمر '' کذاب ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی 204)نے کہا:
کتب الواقدی کذب[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:٢٠٨ وسندہ صحیح]۔
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی234)نے کہا:
ولا أرضاہ فِی الحدیث، ولا فِی الأنساب ولا فِی شیء .[تاریخ بغداد: ٥٢١٤ ]۔
امام سحاق بن راہَوَیْہ رحمہ اللہ (المتوفی 237)نے کہا:
عندی ممن یضع الحدیث [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:٢٠٨ وسندہ صحیح]۔
امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی507)نے کہا:
أجمعوا علی ترکہ[معرفة التذکرة لابن القیسرانی ص 163]۔
ان تینوں علتوں کی بنیاد پر یہ روایت موضوع ہے۔

No comments:

Post a Comment