حدیث کو صحیح وضعیف کہنے میں محدثین کا اختلاف ،عام آدمی کیا کرے؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-06-04

حدیث کو صحیح وضعیف کہنے میں محدثین کا اختلاف ،عام آدمی کیا کرے؟

حدیث کو صحیح وضعیف کہنے میں محدثین کا اختلاف ،عام آدمی کیا کرے؟
سوال:
بعض اوقات کسی حدیث کی سند کچھ محدثین کے نزدیک "ضعیف" ہوتی ہے اور کچھ کے نزدیک "حسن" یا "حسن لغیرہ"،تو ایسی صورت میں ایک عام آدمی کیا کرے؟
یعنی اس حدیث پر عمل کرے یا نہ کرے؟
جواب:
جس طرح حدیث کا درجہ بتانے میں‌ محدثین و محققین کا اختلاف ہوجاتا ہے۔
اسی طرح فقہی مسئلہ بتانے میں‌ بھی فقہاء ومجتہدین کا اختلاف ہوجاتا ہے۔
تو جب کسی فقہی مسئلہ میں فقہاء ومجتہدین کے فیصلے متضاد ہوں‌ تو وہاں‌ پر ایک عام آدمی کیا کرے گا ؟؟
فقہی مسائل میں‌ فقہاءو مجتہدین کے اختلاف پر ایک عام آدمی جو کچھ بھی کرتاہے وہی اس اس وقت بھی کرے جب حدیث کے درجہ میں‌ محدثین و محققین کا اختلاف ہوجائے۔
اب رہا مسئلہ یہ کہ اس سوال کا جواب کیا ہے تو میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ کا کلام اوراس کاترجمہ پیش کردینا کافی سمجھتاہوں۔
جرح وتعدیل میں ایک مسئلہ اٹھتا ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق کے بارے میں کیا موقف اپنایا جائے ، تو اس سلسلے میں دارانی نامی ایک صاحب نے اپنا موقف پیش کیا جس پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے رد کیا اور اسی ضمن میں یہ عمومی اصول پیش کیا کہ کسی بھی فن میں اختلاف ہو تو لوگوں کو کیا کرنا چاہئے ، ملاحظہ ہو علامہ البانی رحمہ اللہ کا کلام اردو ترجمہ کے ساتھ:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الناس في هذا العلم وعلي غيره علي ثلاثة أنواع.
 ● عالم مجتهد
 ● طالب متبع
 ● جاهل مقلد
فالأول:يجتهد فيما اختلف فيه الناس ، لأنه باستطاعته أن يعرف صوابه من خطئه .
والثاني: يتبع من يثق بعلمه وتقواه وصلاحه ، ويحاول وأن يتعرف به علي الصواب ، ليکون علي بصيرة من دينه ، ولا يتنطع و يدعي العلم کما فعل الداراني.
والثالث :يقلد عالما ويحاول أن يکون من النوع الثاني ۔
وهذا کمبداء عام . والا فمثله لايحتاج أن يسائل مثل هذا السؤال الذي يترتب عليه تصحيح الحديث أو تضعيفه کما هو ظاهر.
[صحيح موارد الظمآن للعلامہ الالبانی : ص 53 , 54].
ترجمہ :
علم حدیث اوردیگرعلوم کے معاملے میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
 ● مجتہدعالم(اجتہاد کرنے والا عالم)
 ● متبع طالب علم(اتباع کرنے والاطالب علم)
 ● مقلدجاہل (تقلیدکرنے والاجاہل)
جو شخص پہلی قسم والوں میں سے ہو وہ ان امور میں اجتہاد کرے گا جن میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے کیونکہ وہ صحیح و غلط میں فیصلہ کرنے پر قادرہے ۔
اورجو دوسری قسم والوں میں سے ہوگا وہ ان مجتہدین کی پیری کرے گا جن کے علم ، تقوی اوردینداری پر اسے اعتماد ہوگا ، اورکوشش کرے گا کہ ان کے ذریعہ صحیح بات تک پہونچے، تاکہ بصیرت کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیراہو۔ لیکن یہ شخص بڑی بڑی باتیں نہ بولے اورعلم کا دعوی نہ کرے ، جیسے دارانی وغیرہ نے کیا ۔
اورجوشخص تیسری قسم والوں میں سے ہوگا وہ اہل علم کی تقلید کرے گا اورکوشش کرے گا کہ دوسری قسم والوں میں سے بنے ۔
یہ عمومی اصول ہے ورنہ جاہل جیسے لوگوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اس جیساسوال کریں جس پر حدیث کی تصحیح وتضعیف کا دارومدارہو ، جیساکہ واضح ہے۔
[صحيح موارد الظمآن للعلامہ الالبانی : ص 53 , 54].
میں سمجھتاہوں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بہت ہی عمدہ اورزبردست بات کہی ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کی وضاحت کی روشنی میں ہرشخص اپنے ساتھ انصاف کرے اوردیکھے کہ وہ اوپرذکردہ کس قسم میں سے ہے ، پھر وہ اپنے آپ کو جس قسم میں سے پائے اس قسم سے متعلق پیش کردہ اصول پرعمل کرے ۔[صحيح موارد الظمآن للعلامہ الالبانی : ص 53 , 54].

No comments:

Post a Comment