مشاجرات صحابہ سے متعلق درست موقف - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-06-15

مشاجرات صحابہ سے متعلق درست موقف



مشاجرات صحابہ سے متعلق درست موقف
 ✿  ✿  ✿ 
دکتور بدر بن ناصر العواد حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
 ✿ (( منہج سلف کا عام اصول تو یہی ہے کہ مشاجرات صحابہ سے متعلق خاموشی اختیار کی جائے، تاہم اس وقت اس معاملہ کی بابت لب کشائی میں کوئی حرج نہیں ہے جب اس کی ضرورت پڑ جائے ، مثلابدعتیوں کے شبہات پر رد کرنا مطلوب ہو ۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس اصول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اسی وجہ سے سلف نے مشاجرات صحابہ سے متعلق خاموشی اختیار کرنے کی تاکید کی ہے کیونکہ اس معاملہ میں ہم سے سوال نہیں کیا جائے گا ، جیسا کہ عمر بن عبدالعزیر رحمہ اللہ فرماتے تھے : «یہ ایسے خون تھے جن سے اللہ نے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ہے تو میں نہیں پسند کروں گا کہ اپنی زبان کو ان کے خون سے آلودہ کروں» ۔ 
اور بعض سلف نے ایسے موقع پر قرآن کی یہ آیت پڑھی : ﴿یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کیا وه ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے﴾ .
لیکن جب کوئی ایسا بدعتی منظر عام پر آئے جو جھوٹی اور باطل چیزوں کا سہارا لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کرے ، تو ایسے موقع پر ضروری ہوجاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دفاع کیا جائے ، اور علم اور انصاف کے ساتھ  ان باتوں کا ذکر کیا جائے جن سے اس بدعتی کے (مزعومہ) دلائل کا رد کیا جاسکے ۔“ [منهاج السنة النبوية 6/ 254]
.
لیکن ایسی صورت میں دو چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
① مشاجرات صحابہ سے متعلق جو روایات ملیں ان کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیں، کیونکہ اس معاملے میں بکثرت جھوٹ بولا گیاہے ، اور بہت ساری باتیں اپنی طرف سے بڑھادی گئی ہیں ، نیز واقعات کو خوب توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
② مشاجرات صحابہ سے متعلق جو روایات ثابت ہوجائیں ، ان کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بہتر سے بہتر عذر تلاش کیا جائے۔))
[النصب والنواصب : ص 34 - 35]
.
عربی الفاظ یہ ہیں:
 ✿ ((وإذا كان الإمساك هو الأصل العام لمنهج السلف ، فإنه لاحرج من الخوض فيما شجر بين الصحابة إذا دعت الحاجة إلي ذلك كالرد علي شبه المبتدعة .
قال الإمام ابن تيمية في بيان هذا الاصل : 
”ولهذا أوصوابالإمساك عما شجر بينهم؛ لأنا لا نسأل عن ذلك .كما قال عمر بن عبد العزيز: تلك دماء طهر الله منها يدي، فلا أحب أن أخضب بها لساني . وقال آخر: ﴿تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ .
 لكن إذا ظهر مبتدع يقدح فيهم بالباطل، فلا بد من الذب عنهم، وذكر ما يبطل حجته بعلم وعدل“ [منهاج السنة النبوية 6/ 254]
ولكن لا بد من أمرين :
 ➊ أحدهما : التثبت والتحقق فيما يروي عنهم فقد كثر الكذب والزيادة والتحريف فيه.
 ➋ ثانيهما : التماس أحسن المخارج لهم فيما ثبت عنهم في هذا الباب .))
[النصب والنواصب : 34 - 35]
(انتخاب وترجمہ : کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment