یزید سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کا اپنے سابق موقف سے رجوع - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-06-02

یزید سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کا اپنے سابق موقف سے رجوع

یزید سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کا اپنے سابق موقف سے رجوع
 ✿  ✿  ✿ 
یزید بن معاویہ سے متعلق امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کی طرف یہ جھوٹ منسوب کردیا گیا کہ آپ یزید پرلعنت کرنا جائز سمجھتے تھے ، بلکہ لعنت کرتے بھی تھے ، حالانکہ امام احمدرحمہ اللہ سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ، اس سلسلے کی جو روایت پیش کی جاتی ہے اس کا جائزہ پیش خدمت ہے:

امام أبو يعلى بن الفراء (المتوفى458)نے کہا:
رأيت بخط أبى حفص العكبرى على ظهر جزء فيه ’’فصل‘‘ کتب إلى أبو القاسم فرج بن السوادي قال: حدثنا أبو على الحسين ابن الجندى قال: حدثنا أبو طالب العكبرى قال: سمعت أبا بكر محمد بن العباس قال: سمعت صالح بن أحمد بن حنبل يقول: قلت لأبى: إن قوما ينسبونا إلى توالى يزيد. فقال: يا بنى وهل يتولى يزيد أحد يؤمن باللّه. فقلت: فلم لا تلعنه. فقال: ومتى رأيتنى ألعن شيئا . لم لا تلعن من لعنه اللّه فى كتابه.فقلت: وأين لعن اللّه يزيد فى كتابه فقرأ: فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وتُقَطِّعُوا أَرْحامَكُمْ أُولئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وأَعْمى أَبْصارَهُمْ [المسائل العقدية من كتاب الروايتين والوجهين لابی یعلی :ص 94 واخرجہ ایضا ابن الجوزی فی الرد على المتعصب العنيد ص: 28 ]۔
امام صالح کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ لوگ ہماری طرف منسوب کرتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، تو انہوں نے کہا: بیٹا ! کیا کوئی ایسا شخص یزید سے محبت کرسکتا ہے جو اللہ پر ایمان رکھتاہو! تو میں نے کہا کہ: پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ تو انہوں نے کہا : تم نے مجھے کسی پر لعنت کرتے ہوئے کب دیکھا ہے ؟ اورتم اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے جس پر اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے؟ تو میں نے کہا: اللہ نے کہاں اپنی کتاب میں یزید پرلعنت کی ہے ؟ تو انہوں نے یہ آیت تلاوت کی :’’ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے ‘‘۔

عرض ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ اس میں یکے بعد دیگر مسلسل چار رواۃ مجہول ہیں اور وہ یہ ہیں:

أبو القاسم فرج بن السوادي ۔
أبو طالب العكبرى ۔
أبا بكر محمد بن العباس۔
أبو على الحسين ابن الجندى ۔


كتاب الروايتين کے محقق کو بھی ان رواۃ کے تراجم نہیں ملے ، البتہ محقق نے أبو القاسم فرج بن السوادي کے بارے میں یہ گمان ظاہر کیا ہے کہ یہ عبیداللہ بن عثمان الفرج ابوالقاسم ہوسکتے ہیں لیکن اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی ہے۔

معلوم ہوا کہ اس کی سند سخت ضعیف و مردود ہے ، کیونکہ پے درپے چار رواۃ مجہول و نامعلوم ہیں گویا کہ آدھی سند ہی کالعدم ہے ، اسی وجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو غیرثابت کہنے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی کہا ہے ، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ونقلت عنه رواية في لعنة يزيد وأنه قال ألا ألعن من لعنه الله واستدل بالاية لكنها رواية منقطعة ليست ثابته عنه والاية لا تدل على لعن المعين [منهاج السنة النبوية 4/ 573]۔
امام احمد رحمہ اللہ سے یزید پرلعنت کرنے سے متعلق ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ امام احمدرحمہ اللہ نے کہا: کیا میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اورمذکورہ آیت سے استدلال کیا ، لیکن یہ روایت منقطع اورغیرثابت ہے ،نیز آیت میں بھی فرد معین پر لعنت کرنے کی دلیل نہیں ہے۔


غور فرمائیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو منقطع کہا ہے جب کہ اس روایت کی جو سند ہم نے اوپر نقل کی ہے وہ مسلسل بالتحدیث ہے او ر ابن الجوزی نے بھی یہ سند اسی طرح نقل کی ہے ۔
دراصل ابن تیمہ رحمہ اللہ نے لغوی معنی میں اس سند کو منقطع کہا ہے کیونکہ اس سند میں مسلسل چار رواۃ مجہول ہیں گویا کہ نصف سند ہی کالعدم ہے یعنی منقطع ہے ۔
ابن تیمہ رحمہ اللہ سے قبل بھی متقدمین سے ایسی مثال ملتی ہے کہ انہوں نے لغوی اعتبار سے کسی روایت کو منقطع قررار دیا مثلا امام علی ابن المدینی رحمہ اللہ ایک روایت سے متعلق فرماتے ہیں:

فَرَوَاهُ مَنْصُورٌ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَفِي إِسْنَاده انقطاع مِنْ قِبَلِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي لَمْ يُسَمِّهِ خَيْثَمَةُ [العلل لابن المديني: ص: 101]۔
اسے منصور نے عن خيثمة عن رجل عن عبد الله کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے اس رجل کی وجہ سے جس کا نام خیثمہ نے نہیں لیا ہے۔

الغرض یہ ہے کہ مذکورہ قول کی سند میں مسلسل چار رواۃ مجہول ہیں لہٰذا یہ قول امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اس قول سے بری ہیں ، والحمدللہ۔

ہاں صرف اورصرف ایک قول صحیح سند کیساتھ امام احمدبن حبنل رحمہ اللہ سے منقول ہے جس میں امام موصوف نے یزید بن معاویہ پرجرح کی ہے لیکن بعد میں اس سے بھی رجوع کرلیا تفصیل آگے ملاحظہ ہو
.

امام أبو بكر،الخلال (المتوفى: 311 ) نے کہا:
أخبرني محمد بن علي قال ثنا مهنى قال سألت أحمد عن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان قال هو فعل بالمدينة ما فعل قلت وما فعل قال قتل بالمدينة من أصحاب النبي وفعل قلت وما فعل قال نهبها قلت فيذكر عنه الحديث قال لا يذكر عنه الحديث ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثا قلت لأحمد ومن كان معه بالمدينة حين فعل ما فعل قال أهل الشام قلت له وأهل مصر قال لا إنما كان أهل مصر معهم في أمر عثمان رحمه الله[السنة للخلال 3/ 520 ، رقم845 قال اللمحقق: إسناده صحيح وھو کذلک ]۔
مهنى بن يحيى کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے یزید بن معاویہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ وہی ہے جس نے مدینہ میں وہ کیا جو کیا ، میں نے کہا: کیا کیا؟ تو انہوں نے کہا: مدینہ میں متعدد صحابہ کو قتل کیا اوربھی کیا ، میں نے کہا: اورکیا کیا؟ تو انہوں نے کہا: مدینہ میں لوٹا ، میں نے کہا: تو کیا اس سے حدیث بیان کی جائے ؟ انہوں نے کہا : اس سے حدیث بیان نہ کی جائے اورکسی کے لئے مناسب نہیں کہ اس سے حدیث لکھے ، میں نے امام موصوف سے کہا: اس وقت مدینہ میں اس کے ساتھ کون لوگ تھے جب اس نے مدینہ میں وہ کیا جو کیا ؟ انہوں نے کہا: اہل شام تھے ، میں نے کہا: اوراہل مصر؟ انہوں نے کہا: نہیں ، مصر والے تو عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملے میں ان کے ساتھ تھے۔

یہی وہ قول ہے جو امام احمدرحمہ اللہ سے بسند صحیح ثابت ہے ، اورمعاصرین میں حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے بھی اس سے استدلال کیا لیکن آگے ہم بتلائیں گے حافظ موصوف ہی کے اصول کی روشنی میں اس سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس قول کی بنیادثابت نہیں نیز امام احمدرحمہ اللہ نے اس سے رجوع بھی کرلیا ہے۔
دراصل اس روایت میں یزید پرجرح کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق مدینہ میں لوٹ مار کی بات بھی امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نقل فرمارہے ہیں اور امام احمدبن حبنل رحمہ اللہ نے یزید کا دور نہیں پایا ہے لہٰذا روایت کا یہ حصہ منقطع السند اورغیرثابت ہے،یعنی اس حصہ کے اعتبار سے یہ روایت منقطع ہے، اوراس روایت کو صحیح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ تک سلسلہ سند صحیح ہے لیکن اس سے آگے عہدیزیدرحمہ اللہ تک سلسلہ سند مذکورہی نہیں لہٰذا یہ روایت اس لحاظ سے منقطع ٹہری ۔
رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
محدثین کو یہ حق توحاصل ہے کہ اپنے زمانہ سے قبل کے رواة پر حفظ و ضبط اورصدق و کذب کے لحاظ سے جرح کریں کیونکہ ان جروح کی بنیاد ان کی مرویات ہوتی ہیں ، علمی تنقید بھی اسی زمرہ میں آتی ہے ، لیکن کسی بھی محدث کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے سے قبل والے زمانہ کے کسی شخص پر لوٹ مار کا الزام عائد کرے کیونکہ اس کاتعلق علم غیب سے ہے اوریہ چیز شخص مذکور کے عہد تک صحیح سند کے بغیرنہیں معلوم کی جاسکتی ۔
لہٰذا ہم متاخرین کی زبانی ، متقدمین پر لوٹ مار کے ایسے الزامات کو قطعا نہیں قبول کرسکتے جس کی صحیح دلیل موجود نہ ہو۔
نیزامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے یزید پرروایت کے لحاظ سے یہاں جوجرح کی ہے اس کی دلیل بھی اسی لوٹ مار والی بات کو بنایا ہے ، اور یزید رحمہ اللہ کا یہ کردار سرے سے ثابت ہی نہیں لہٰذا غیرثابت شدہ امورکی بناد پر کی گئی جرح بھی مردود ہے، اوریزیدرحمہ اللہ کی شخصیت بے داغ ہے والحمدللہ۔
اورامام احمدرحمہ اللہ کو بھی اس بات کااحساس ہواکہ اس جرح کی کوئی دلیل نہیں ہے اسی لئے موصوف نے بعد میں اس سے رجوع کرلیا۔

لیکن رجوع کا ثبوت پیش کرنے سے قبل ہم یہ وضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یزید سے متعلق امام احمد بن حبنل رحمہ اللہ کے اس قول کونقل کرنے والے مهنى بن يحيى ہیں اورانہیں نے ابوحنیفہ سے متعلق بھی امام احمد کی شدید جرح نقل کی ہے ، چنانچہ :

امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنِي ابن رزق، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن سلمان الفقيه المعروف بالنجاد، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن أَحْمَد بن حنبل، قَال: حَدَّثَنَا مهنى بن يحيى، قال: سمعت أَحْمَد بن حنبل، يقول: ما قول أبي حنيفة والبعر عندي إلا سواء[تاريخ بغداد ت بشار 15/ 569 واسنادہ حسن ]۔
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا : میرے نزدیک جانوروں‌ کی گندگی اورابوحنیفہ کا قول یکساں ہے۔

عرض ہے کہ اگر یزید سے متعلق مهنى بن يحيى نے امام احمد رحمہ اللہ سے جو نقل کیا ہے وہ ثابت اوردرست ہے تو پھر ابوحنیفہ سے متعلق بھی مهنى بن يحيى نے امام احمد رحمہ اللہ سے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بھی ثابت اوردرست تسلیم کیا جانا چاہئے ، انصاف کا یہی تقاضا ہے ۔

ہمارا ماننا تو یہ ہے ابوحنیفہ اوریزید دونوں سے متعلق امام احمدرحمہ اللہ سے مھنا نے جو نقل کیا وہ سب ثابت ہے ، فرق یہ ہے کہ ابوحنیفہ سے متعلق امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے جوجرح کی اس سے آپ نے قطعا رجوع نہ کیا ۔ جبکہ یزید سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ نے جو جرح کی تھی اس سے نہ صرف رجوع کرلیا بلکہ اس کے ساتھ یزید بن معاویہ کو خیرالقرون کی فضیلت کا حامل بتلایا ۔

دوسری بات یہ کہ ابوحنیفہ سے متعلق امام احمدرحمہ اللہ کی جوجرح ہے وہ مبنی برصواب ہے اس کے بے شماردلائل موجود ہیں ،جبکہ یزید سے متعلق امام احمدرحمہ اللہ نے جوجرح کی ہے وہ بے بنیاد ہے کیونکہ اس جرح کاسبب اہل مدینہ پریزید کی طرف منسوب ظلم کوبتلایاگیاہے اوریہ ثابت ہی نہیں کہ یزید نے اہل مدینہ پرظلم کیا ہو یااپنی فوج کوحکم دیا ہو کہ اہل مدینہ پرظلم کریں ،لہٰذا جب جرح کی بنیاد غیرثابت شدہ ہے تو جرح بھی مردود ہے ۔

حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
حافظ ذہبی نے بھی عمروبن یحیی کو ابن معین کی طرف منسوب غیرثابت جرح کی وجہ سے دیوان الضعفاء والمتروکین (٢/ ٢١٢ت ٩٢٢٣) وغیرہ میں ذکرکیا ہے اوراصل بنیاد منہدم ہونے کی وجہ سے یہ جرح بھی منہدم ہے [الحدیث :95 ص 82]۔
عرض ہے کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے بھی یزید کی طرف منسوب ظلم وغیرہ کی بنیاد پر جرح کی ہے اوراصل بنیاد منہدم ہونے کی وجہ سے یہ جرح بھی منہدم ہے۔

جوحضرات بھی امام احمدرحمہ اللہ کی اس جرح پرایمان رکھتے ہیں ان پرلازم ہے کہ اس جرح کی جودلیل امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے پیش کی ہے اسے بسندصحیح ثابت کریں ورنہ چپ رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یزید بن معاویہ کے ظالم ہونے کی بات ثابت ہی نہیں اس لئے خود امام احمدرحمہ اللہ نے ہی اپنے اس تبصرہ سے رجوع کرلیاہے ملاحظہ ہوں امام احمدکے رجوع کی تفصیلات ملاحظہ ہوں:
.

دکتور محمدبن ہادی الشیبانی لکھتے ہیں:
في عقيدة أحمد التي کتبت عنه ، وذلک قبل ثلاثة أيام من وفاته : ''وکان يمسک عن يزيد بن معاوية ويکله الي الله ، [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 722بحواله طبقات الحنابله: ج ٢ص ٢٧٣]۔
امام احمد رحمہ اللہ کی وفات سے تین دن قبل ان کے جو عقائد لکھے گئے ان میں ہے کہ : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یزید بن معاویہ کے بارے میں خاموشی اختیارکرتےتھے اوران کا معاملہ اللہ پرچھوڑدیتے ۔

یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے اخیر میں یزید کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیا تھا یعنی یزید بن معاویہ پر قتل یا لوٹ مار یا کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے رجوع کرلیا تھا ، لہٰذا ان کے جس قول میں یزید بن معاویہ پر ظلم یا لوٹ مار کاالزام ہے اس قول سے امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ رجوع کرچکے ہیں۔

صرف یہی نہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اخیرمیں یزیدبن معاویہ کے بارے میں اپنی جرح سے رجوع کرلیا بلکہ اسے خیرالقرون کی فضیلت کاحامل بھی بتلایاہے ، چنانچہ :

امام أبو بكر،الخلال (المتوفى: 311 ) نے کہا:
أخبرني أحمد بن محمد بن مطر وزكريا بن يحيى أن أبا طالب حدثهم قال سألت أبا عبدالله من قال لعن الله يزيد بن معاوية قال لا أتكلم في هذا قلت ما تقول فإن الذي تكلم به رجل لا بأس به وأنا صائر إلى قولك فقال أبو عبدالله قال النبي لعن المؤمن كقتله وقال خير الناس قرني ثم الذين يلونهم وقد صار يزيد فيهم وقال من لعنته أو سببته فاجعلها له رحمة فأرى الإمساك أحب لي [السنة للخلال 3/ 521 رقم 846 قال المحقق: إسناده صحيح وھو کذلک]۔
ابو طالب عصمہ بن ابی عصمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمدرحمہ اللہ سے پوچھا کہ: جو کہے کہ یزیدبن معاویہ پر اللہ کی لعنت ہو اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ کیونکہ جس نے یہ بات کہی ہے وہ معتبر آدمی ہے اورمیں آپ کے قول کو اپناؤں گا ! تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’مومن پرلعنت کرنا اس کوقتل کرنے کی طرح ہے‘‘ ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’سب سے بہترزمانہ میرا زمانہ ہے ،پھر ان کا زمانہ جو اس کے بعدآئیں گے‘‘ ۔۔اوریزید اس دور کے لوگوں میں شامل ہے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:’’ میں نے جس پرلعنت کی یا برا بھلا کہا تو اے اللہ اسے اس کے حق میں رحمت بنادے‘‘ ، اس لئے خاموشی ہی میرے نزدیک بہترہے۔


اس روایت سے صاف معلوم ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ یزید بن معاویہ کو مؤمن اور خیرالقرون کی فضیلت کا مستحق سمجھتے تھے اوراس کے بارے میں سکوت فرماتے تھے۔

No comments:

Post a Comment