قسطنطنیہ پرپہلے حملے سے متعلق عمر صدیق کا جھوٹی روایت سےاستدلال - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-07-03

قسطنطنیہ پرپہلے حملے سے متعلق عمر صدیق کا جھوٹی روایت سےاستدلال

قسطنطنیہ پرپہلے حملے سے متعلق عمر صدیق کا جھوٹی روایت سےاستدلال
 ✿  ✿  ✿  
عمر صدیق صاحب نے ”المنتظم“ سے  جو یہ نقل کیا ہے کہ سن 32 ہجری میں قسطنطنیہ پر پہلا حملہ ہوا ہے !

   

➊ تو اولا یہاں ”قسطنطنیہ“ نہیں بلکہ ”مضیق قسطنطنیہ“ کا ذکر ہے جو قسطنطنیہ کے قریب ایک جگہ ہے ۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھاہے:
فيها كانت وقعة المضيق بالقرب من قسطنطينية، وأميرها معاوية[تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 202]
➋ دوسرے یہ کہ ”المنتظم“ کے اسی صفحہ پر محقق نے حاشیہ نمبر 1 میں بتادیا کہ یہ بات( تاریخ طبری جلد 4 ص 304) پر ہے ، آپ نے ویڈیو میں جو صفحہ دکھایا ہے اس پر حاشیہ میں طبری کا یہ حوالہ دیکھا جاسکتا ہے ، قارئین یہ عکس دیکھ لیں ۔






 ✿ اب جب ہم تاریخ طبری کے محولہ مقام ( جلد 4 ص 304)کا مراجعہ کرتے ہیں تو امام طبری رحمہ اللہ اس غزوه کا ذکر کرتے ہیں اور اس ميں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی بیوی عاتکہ کا ذکرتے ہیں، پھر دوسرے قول کے مطابق فاختہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی سند یوں بیان کرتے ہیں:
”حدثني بذلك أحمد بن ثابت، عمن ذكره، عن إسحاق، عن أبي معشر، وهو قول الواقدي“ [تاريخ الطبري: 4/ 304]



اس واقعہ سے جڑی ہوئی یہی ایک سند ہے جسے امام طبری رحمہ اللہ نے پیش کیا ہے:
① اس سند میں ”احمد بن ثابت“ ایسا کذاب ہے کہ محدثین کو اس کے کذاب ہونے میں کوئی شک ہی نہیں تھا ۔
ابو العباس بن ابي عبد الله الطهراني (المتوفی469) فرماتے ہیں:
 ”كانوا لا يشكون أن فرخويه كذاب“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 44 وسندہ صحیح]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے کذاب کہا ہے اور اس کے سبب اس کی ایک روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے دیکھیں :  [الضعيفة:4 / 295 رقم 1816]
نیز دیکھیں [معجم شیوخ الطبری : ص 75]
② ”احمد بن ثابت“ کے استاذ کا نام بھی ذکر نہیں ہے۔
③ ابو معشر یعنی نجیح بن عبدالرحمن کو سن 32 کا دور نہیں ملا ہے نیز یہ سخت ضعیف بھی ہے ۔
امام بخاری نے ”منکر الحدیث“ ، ابن معین نے ”لیس بشئی“ اور ابن القیسرانی نے ”ضعیف جدا“ کہا ہے رحمہم اللہ ۔
 تفصیل کے لئے دیکھیں ہماری کتاب : [قسطنطنیہ پر پہلا حملہ : ص 28 تا 33]
.
 ✿ سبط ابن الجوزي نے بھی یہ غزوہ ”ابومعشر“ کےحوالے سے نقل کیا ہے ۔ اور اس واقعہ سے جڑی ”ابومعشر“ کی جو سند امام طبری نے نقل کی اس کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے۔
 ✿ خلیفہ بن خیاط نے اسی غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
قال ابن الكلبي وفيها غزا معاوية المضيق من قسطنطينية[تاريخ خليفة بن خياط ص: 167]



اور ابن الکلبی کو مذکورہ غزوہ کا دور ملا ہی نہیں ہے نیز یہ مشہور کذاب راوی ہے۔[منهاج السنة النبوية لابن تیمیہ: 5/ 81]۔
ایسی واہی تباہی روایت پیش کرکے عمر صدیق صاحب چیلنج فرماتے ہیں کہ قیامت کی صبح تک اس کا کوئی رد نہیں کرسکتا !!
حضرت ! آپ کو قیامت کی شام تک مہلت ہے ذرا اس روایت کو صحیح ثابت کرکے بتائیں !
.
قارئین دیکھا آپ نے ؟
مناظر صاحب جھوٹے رواۃ  کی روایت سے اپنی زبان آلودہ کئے ہوئے ہیں اور پھر نہ جانے کس منہ سے ناچیز کی کتاب کے بارے میں پروپیگنڈا کرتے پھرتے ہیں کہ اس میں جھوٹی روایات ہیں ! سبحان اللہ !


No comments:

Post a Comment