سیرت زبیر رضی اللہ عنہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-08-10

سیرت زبیر رضی اللہ عنہ


● عن جابر رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من يأتيني بخبر القوم يوم الأحزاب؟» قال الزبير: أنا، ثم قال: «من يأتيني بخبر القوم؟»، قال الزبير: أنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن لكل نبي حواريا وحواري الزبير»
ترجمہ
● جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے دن فرمایا دشمن کے لشکر کی خبر میرے پاس کون لا سکتا ہے؟ (دشمن سے مراد یہاں بنو قریظہ تھے) زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پھر پوچھا دشمن کے لشکر کی خبریں کون لا سکے گا؟ اس مرتبہ بھی زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کے حواری (سچے مددگار) ہوتے ہیں اور میرے حواری (زبیر) ہیں۔
[صحيح البخاري رقم 2846]
.
عن عبد الله بن الزبير، قال: كنت يوم الأحزاب جعلت أنا وعمر بن أبي سلمة في النساء، فنظرت فإذا أنا بالزبير، على فرسه، يختلف إلى بني قريظة مرتين أو ثلاثا، فلما رجعت قلت: يا أبت رأيتك تختلف؟ قال: أوهل رأيتني يا بني؟ قلت: نعم، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من يأت بني قريظة فيأتيني  بخبرهم». فانطلقت، فلما رجعت جمع لي رسول الله صلى الله عليه وسلم أبويه فقال: «فداك أبي وأمي»
ترجمہ:
 عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے موقع پر مجھے اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو عورتوں میں چھوڑ دیا گیا تھا (کیونکہ یہ دونوں حضرات بچے تھے) میں نے اچانک دیکھا کہ (میرے والد) زبیر رضی اللہ عنہ   اپنے گھوڑے پر سوار بنی قریظہ (یہودیوں کے ایک قبیلہ کی) طرف آ جا رہے ہیں۔ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا، پھر جب میں وہاں سے واپس آیا تو میں نے عرض کیا، ابا جان! میں نے آپ کو کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھا۔ انہوں نے کہا: بیٹے! کیا واقعی تم نے بھی دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو بنو قریظہ کی طرف جا کر ان کی (نقل و حرکت کے متعلق) اطلاع میرے پاس لا سکے۔ اس پر میں وہاں گیا اور جب میں (خبر لے کر) واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرط مسرت میں) اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کر کے فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔“
[ صحيح البخاري رقم3720]
.
جنتی صحابی، حواری رسول زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کا ترکہ
✿ ✿ ✿ 
 حواری رسول زبیر رضی اللہ عنہ کی جب اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے شادی ہوئی تھی تو ان کے پاس نہ مال تھا نہ غلام ، اسماء رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں:
 «تزوجني الزبير، وما له في الأرض من مال ولا مملوك، ولا شيء غير ناضح وغير فرسه» 
 ”زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی“ [صحيح البخاري رقم 5224]
.
لیکن بعد میں حالات بدلے اور زبیر رضی اللہ عنہ کو اللہ رب العالمین نے غلام وزر اور زمین و جائداد سے مالا مال کردیا چنانچہ صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کے اخیر میں زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے ترکہ کی مقدار ان الفاظ میں مروی ہے:
”فجميع ماله خمسون ألف ألف، ومائتا ألف“ (ان کا ترکہ پانچ کروڑ دو لاکھ (50,200,000) تھا )۔ 
[ صحیح بخاری:-كتاب فرض الخمس: باب بركة الغازي في ماله حيا وميتا...حدیث نمبر 3129]
⟐ آج کے حساب سے یہ ر قم کتنی ہوگی اس کے لئے موٹا موٹا حساب لگاتے ہیں تاکہ اندازہ کرنے میں آسانی ہو۔
.
❀ اگر یہ دینار کی رقم مانی جائے تو آج کے حساب سے یہ رقم:
 ● ”تیرہ بلین امریکی ڈالر“ (13,00,00,00,000) سے زائد ہوگی ۔
 ● اور انڈین کرنسی میں ”ایک لاکھ کروڑ روپے“ (10,00,00,00,00,000)سے زائد ہوگی۔
۔
 ❀ اگر ترکہ کو درہم کی شکل میں مانیں تو آج کے حساب سے یہ رقم:
 ● ”ایک سو چالیس ملین امریکی ڈالر“ (14,00,00,000)سے زائد ہوگی۔
 ● اور انڈین کرنسی میں ”گیارہ سو کروڑ روپے“ (11,00,00,00,000) سے زائد ہوگی۔
.
 ◈ نوٹ:- اگر ترکہ کو دینار کی رقم مانیں تو یہ رقم بہت زیادہ ہوجاتی ہے ، حتی کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ترکہ سے بھی بڑھ جاتی ہے اسی لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ یہ تعداد درہم کی ہوگی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
 ”وهذا بالنسبة لتركة الزبير ... قليل جدا فيحتمل أن تكون هذه دنانير وتلك دراهم لأن كثرة مال عبد الرحمن مشهورة جدا“ 
 ”اوریہ رقم زبیر رضی اللہ عنہ کے ترکہ کے بالمقابل بہت کم ہے لہذا احتمال اس بات کا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ترکہ کا ذکر دینار کے حساب سے ہو اور زبیر رضی اللہ عنہ کے ترکہ کا ذکر درہم کے حساب سے ہو کیونکہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالداری بہت زیادہ مشہور ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 235]
لیکن یہ توجیہ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بڑی رقم کا ذکر دینار ہی کے حساب سے ہوتا ہے، اس لئے دنوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ترکہ کا ذکر دینار ہی کے حساب سے ہے۔
اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ترکہ کم اس لئے تھا کہ کیونکہ وہ صدقہ خیرات بہت زیادہ کیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنی حیات میں ہی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور فقراء ومساکین کے تعاون کے لئے اپنی بڑی بڑی جائداد فروخت کی ہے۔
علاوہ بریں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ قرض لے کر فوت نہیں ہوئے جبکہ زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس بہت بڑی مقدار میں دوسرے لوگوں کی امانت بھی تھی جسے انہوں نے صاحب امانت کی مرضی سے قرض کی شکل دے دی تھی تاکہ اس کی حفاظت میں دشواری نہ ہو جیساکہ یہ بات مذکورہ حدیث میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔
.
❀ فائدہ:
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے:
 ”فيه رد على من كره جمع الأموال الكثيرة من جهلة المتزهدين“ 
 ”اس حدیث میں ان جاہل اور دو نمبری زاہدین کا رد ہے جو کہتے کہ زیادہ مال جمع کرنا ناپسندیدہ ہے۔“ [فتح الباري لابن حجر 6/ 235]
ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن الجوزی رحمہ اللہ کی اس بات پر تعاقب نقل کیا ہے لیکن حق بات وہی ہے جو ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہی ہے ابن الجوزی رحمہ اللہ کی بات کے دلائل کو مزید تفصیل سے دیکھنے کے لئے ان کی کتاب ”تلبیس ابلیس“ ص158 تا ص167 ملاحظہ فرمائیں ۔
میرے خیال سے ہرطالب علم کو ابن الجوزی رحمہ اللہ کی یہ مکمل بحث ضرور پڑھنی چاہئے ۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment