شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ یزید اور حدیث قسطنطنیہ - Kifayatullah Sanabili website

2020-10-07

شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ یزید اور حدیث قسطنطنیہ

شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ یزید اور حدیث قسطنطنیہ
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
یزید یا کسی بھی شخصیت کے اخلاق و کردار کی بابت درست موقف یہ ہے کہ جو باتیں ثابت شدہ ہوں انہیں ثابت مانا جائے اور جو باتیں ثابت شدہ نہ ہوں ان کی تردید کردی جائے خواہ اس کا قائل کوئی بھی امام ہو۔
بعض لوگ یہ تاثر دینے کی کوششش کرتے ہیں کہ یزید کے بارے میں ان کا مکمل اور ہو بہو وہی موقف ہے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے۔
لیکن جیسے ہی ان کو یہ بتاؤ کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو یزید کو اس جیش مغفور میں شمار کیا جس کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی کہا ہے تو یہ جھٹ سے ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر رد کرنا شروع کردیتے ہیں۔
یہ دوغلی پالیسی نہیں تو اور کیا ہے ؟
اگر یزید سے متعلق اپنے موقف کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنا ہے تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کےمکمل موقف کو اپنائیں یا پھر صاف صاف کہیں کہ آپ کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے مکمل اتفاق نہیں ہے ۔ 
”جیش مغفور“ میں یزید کی شمولیت سے متعلق ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
.
✿ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی:728) نے کہا:
« ولهذا كان الصحابة رضي الله عنهم يغزون مع يزيد وغيره، فإنه غزا القسطنطينية في حياة أبيه معاوية رضي الله عنه وكان معهم في الجيش أبو أيوب الأنصاري رضي الله عنه وذلك الجيش أول جيش غزا القسطنطينية. وفي صحيح البخاري عن ابن عمر رضي الله عنهما، - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «‌أول ‌جيش ‌يغزو القسطنطينية مغفور لهم » 
 ”اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یزید وغیرہ کے ساتھ جہاد کرتے تھے ۔چنانچہ یزیدنے اپنے والد معاویہ کی زندگی میں قسطنطنیہ پرحملہ کیا اور اس کے ساتھ لشکر میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔ اوریہ پہلا لشکر تھا جس نے قسطنطنیہ پرحملہ کیا اور صحیح بخاری میں ابن عمر (صحیح ام حرام ) رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا پہلا لشکر جو مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پرحملہ کرے گا وہ سب کے سب مغفور (بخشے ہوئے )ہوں گے۔“ 
[منهاج السنة النبوية (4/ 544)]
.
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرح ان کے شاگرد حضرات اور دیگر کئی اہل علم نے بھی یہی بات لکھی ہے چنانچہ:
 ✿ امام مہلب بن احمد اسدی (435) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 «  في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر » 
 ”اس حدیث سے یزید کی خلافت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتاہے کہ وہ جنتی ہے نیز اس حدیث میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ہے کیونکہ سب سے پہلے انہوں نے سمندری لڑائی لڑی اوران کے لڑکے یزید کے لئے بھی منقبت ہے کیونکہ یزید ہی نے سب سے پہلے مدینہ قیصر (قسطنطنیہ )پر حملہ کیا۔“ 
[قيد الشريد : ص 57 فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 6/ 102]
.
 ✿ امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571) نے بھی جیش مغفور سے متعلق ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا
 « أم حرام كانت من الفوج الأول الذين غزوا قبرس في خلافة عثمان وهذه من الفوج الآخر وإنما غزا المنذر بن الزبير القسطنطنية مع يزيد بن معاوية في أيام أبيه » 
 ”ام حرام اس پہلے لشکر میں تھیں جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قبرس پر حملہ کیا اور یہ خاتون دوسرے لشکر میں تھیں ، اور منذر بن الزبیر نے یزید بن معاویہ کے ساتھ ان کے والد کے دور میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا“ 
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 70/ 280]
.
✿ امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) نے کہا:
 «كانت وفاته وهو محاصر القسطنطينية مع يزيد بن معاوية وهو أول ‌جيش ‌غزاها وهم، مبشرون بالجنة والمغفرة» 
 ”ان (ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ)کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ وہ یزید بن معاویہ کے ساتھ قسطنطنیہ کامحاصرہ کئے ہوئے تھے ۔اوریہ پہلالشکرتھاجوقسطنطنیہ پرحملہ آور ہوا، اوراس لشکروالے جنت اور مغفرت کی بشارت یافتہ ہیں“ 
[جامع المسانيد والسنن (9/ 39)]
.
 ✿ ایک دوسری جگہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 « وقد كان يزيد أول من غزى مدينة قسطنطينية فى سنةو تسع واربعين فى قول يعقوب بن سفيان وقال خليفة بن خياط سنة خمسين ثم حج بالناس فى تلك السنة بعد مرجعه من هذه الغزوة من أرض الروم وقد ثبت فى الحديث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال أول جيش يغزو مدينة قيصر مغفور لهم» 
 ”یزید ہی نے سب سے پہلے قسطنطنیہ کے شہر پرحملہ کیا ۔ یہ حملہ یعقوب بن سفیان کے بقول٤٩(!)میں ہوا اور خلیفہ خیاط کے بقول٥٠(!)میں ہوا ۔ پھر اس حملہ سے لوٹنے کے بعد اسی سال لوگوں کا امیر بن کراس نے حج کیا ۔اورصحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہے کہ میری امت کا پہلا لشکر جو مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پرحملہ کرے گا وہ سب کے سب مغفور(بخشے ہوئے) ہوں گے۔“ 
[البداية والنهاية، مكتبة المعارف: 8/ 229]
.
 ✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
 « له على هناته حسنة، وهي غزو القسطنطينية، وكان أمير ذلك الجيش، وفيهم مثل أبي أيوب الأنصاري » 
 ”یزید کی کوتاہیوں کے باوجود اس کی ایک نیکی ہے اور وہ قسطنطنیہ پرحملہ ہے یزید اس لشکر کا امیر تھا اور اس لشکر میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے لوگ تھے۔“ 
[سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 36]
.
 ✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 « فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق » 
 ”یزید اس پہلے لشکرکا امیرتھا، اس پرسب کا اتفاق ہے۔“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 6/ 103]
.
 ✿ امام قسطلانی (المتوفی:923 ) فرماتے ہیں:
 ”وكان أول من غزا مدينة ‌قيصر ‌يزيد بن معاوية ومعه جماعة من سادات الصحابة كابن عمرو بن عباس وابن الزبير وأبي أيوب الأنصاري وتوفي بها سنة اثنتين وخمسين من الهجرة، واستدلّ به المهلب على ثبوت خلافة يزيد وأنه من أهل الجنة لدخوله في عموم قوله مغفور لهم“ 
 ”مدینہ قیصر پر سب سے پہلے جس نے حملہ کیا وہ یزیدبن معاویہ ہے اس کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کی جماعت تھی جیسے عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس و عبداللہ بن زبیر اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم۔ اورابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ یہیں پر52ہجری میں فوت ہوئے ۔اوراس حدیث سے مہلب نے یزید کی خلافت پراستدلال کیا ہے اوراس بات پر کہ یزید اہل جنت میں سے ہے کیونکہ مغفورلہ کے عموم میں وہ داخل ہے۔“ 
[ إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (5/ 104)]
.
✿ نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
 ”استدل به علي خلافة يزيد ، وأنه من أهل الجنة“ 
 ”اس حدیث سے یزید کی خلافت پر استدلال کیا گیا ہے اوراس بات پر کہ یزید اہل جنت میں سے ہے۔“ 
[ عون الباری لحل ادلة البخاری: 4 / 391]
.
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ اہل سنت کے کئی ائمہ نے یہ ذکر کیا ہے اور یہ صراحت کی ہے کہ یزید ”جیش مغفور“ میں شامل تھا بلکہ اس کا امیرتھا ۔
اور ابن حجر رحمہ اللہ نے تو اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ یزید اس لشکر کا امیر تھا ۔
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment