”فرد معین“ اور ”عدد معین“ کے لئے جنت کی بشارت - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-10-08

”فرد معین“ اور ”عدد معین“ کے لئے جنت کی بشارت

”فرد معین“ اور ”عدد معین“ کے لئے جنت کی بشارت
✿ ✿ ✿ 
(تحریر کفایت اللہ سنابلی)
جنت کی بشارت کبھی ”فرد معین“ کے  لئے ہوتی ہے اور کبھی ”عدد معین“ کے لئے ہوتی ہے ، دونوں صورتوں میں ”معین“ بشارت ہوتی ہے۔ 
اس لئے جب ”عدد معین“ کے لئے جنت کی بشارت ہو تو اس کے ہر فرد کو جنتی کہا جاسکتاہے ، اللہ رب العالمین نے ”اہل بدر“ کے لئے جو جنت کی بشارت دی وہ ”عدد معین“ کی بشارت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک فرد بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا مصداق مانا اور کہا:
”إنه قد شهد بدرا، وما يدريك لعل الله أن يكون قد اطلع على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم“ 
 ”انہوں نے بدر میں شرکت کی ہے اورتمہیں کیا پتہ کہ اللہ تعالی اہل بدر کے معاملات پر آگاہ ہوا اور اس کے بعد کہا: تم کیسا بھی عمل کرو میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے“ [صحيح البخاري 4/ 60 رقم 3007]
معلوم ہوا کہ ”عدد معین“ کے لئے اگر جنت کی بشارت ہو تو اس ”عدد“ کے کسی بھی ”فرد“ کو جنتی کہا جاسکتا ہے۔
حدیث میں جس ”جیش“ کو مغفور وجنتی کہا گیا ہے ، یزید بن معاویہ اس کے امیر تھے ، اور اس جیش کو جنت کی بشارت دینا ”عدد معین“ کے لئے بشارت ہے ۔
 ✿ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
 ”وأول جيش غزاها كان أميرهم يزيد، والجيش عدد معين لا مطلق“ 
 ”جس پہلے جیش نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اس کے امیر یزید تھے اور جیش یہ ”عدد معین“ ہے نہ کہ مطلق“ [منهاج السنة النبوية 4/ 572]
 ✿ امام مہلب بن احمداسدی (435ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”من هذالحديث ثبتت خلافة يزيد وفيه أنه من أهل الجنه“ 
 ”اس حدیث سے یزید کی خلافت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتاہے کہ وہ جنتی ہے“ [ قید الشرید: ص 57، انظر ایضا فتح الباری لابن حجر:6/ 102].
 ✿ امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) نے کہا:
 ”كانت وفاته وهو محاصر القسطنطينية مع يزيد بن معاوية وهو أول جيش غزاها وهم، مبشرون بالجنة والمغفرة“ 
 ”ان (ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ) کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ وہ یزید بن معاویہ کے ساتھ قسطنطنیہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے ، اور یہ پہلا لشکر تھا جو قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا اور اس لشکر والے جنت اور مغفرت کی بشارت یافتہ ہیں“ [جامع المسانيد والسنن 9/ 39]
 ✿ امام قسطلانی (المتوفى 923 ) فرماتے ہیں:
 ”وكان أول من غزا مدينة قيصر يزيد بن معاوية ومعه جماعة من سادات الصحابة كابن عمرو بن عباس وابن الزبير وأبي أيوب الأنصاري وتوفي بها سنة اثنتين وخمسين من الهجرة، واستدلّ به المهلب على ثبوت خلافة يزيد وأنه من أهل الجنة“ 
 ”مدینہ قیصر پر سب سے پہلے جس نے حملہ کیا وہ یزیدبن معایہ ہے اس کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کی جماعت تھی جیسے عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس و عبداللہ بن زبیر اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم۔ اورابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ یہیں پر 52 ہجری میں فوت ہوئے ۔اوراس حدیث سے مہلب نے یزید کی خلافت پراستدلال کیا ہے اوراس بات پر کہ یزید اہل جنت میں سے ہے“ [ إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري 5/ 104]
 ✿ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”استدل به علي خلافة يزيد و أنه من أهل الجنة“ 
 ”اس حدیث سے یزید کی خلافت پر استدلال کیا گیا ہے اوراس بات پر کہ یزید اہل جنت میں سے ہے“ [عون الباری لحال ادلة البخاری:4/ 391]
 ◈  ◈ 
 ◄ نوٹ:-جیش مغفور اور یزید بن معاویہ سے متعلق مفصل بحث کے لئے راقم الحروف کی خاص کتاب ذیل کے لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں: 


اعتراض:
شيخ أبي بن كعب رضي الله عنه بھی بدر میں شریک ہونے تھے، اس کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی والدہ کو انہیں جنتی کہنے سے منع کیا،
إن النبي - صلى الله عليه وسلم - فقد كعباً، فسأل عنه؛ فقالوا: مريض، فخرج يمشي حتى أتاه، فلما دخل عليه قال: أَبشرْ يا كعبُ! فقالَتْ أمُّه: هنيئاً لكَ الجنَّةُ يا كعبُ! فقال: من هذه المتألّيةُ على الله؟ ! قالَ: هيَ أمِّي يا رسول الله! فقال: وما يدريك يا أمَّ كعب؟ ! لعلَّ كعباً قال ما لا يعنيه، أو منعَ ما لا يُغنيهِ.
اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے، اس میں واضح طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک صحابی کی جنتی ہونے کی تعیین نہیں کی جا سکتی تو پھر یزید جیسے شخص کی کیسے کی جا سکتی ہے جس کے بارے امت کے کبار نے کہا ہے کہ لا نحبہ ولا نبغضہ ہو.
اور مذکورہ مقال میں حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق جو حدیث منقول ہے اس میں جنت کی گواہی نہیں بلکہ اس میں مغفرت کی بشارت ہے، نیز اگر اس مغفرت سے جنت کے دخول پر استدلال کیا جائے تو بھی صحیح ہے کیوں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی گواہی ہے، لیکن یزید کو خاص کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جنتی نہیں کہا ہے، اس لئے وہ قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے جس میں عدد معین کی گواہی سے فرد معین کی گواہی پر استدلال کیا گیا ہے.
اور یہ بھی یاد رہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وکلا وعد اللہ الحسنی کے عموم میں داخل ہیں، لیکن تعیین کے ساتھ صرف انہی کو جنتی کہا جا سکتا ہے جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے جنتی کہا ہے.
اس اعتراض کا کیا جواب ہے آپ کے پاس
.
جواب:
”ابی بن کعب رضی اللہ عنہ“ بلا شبہ جنتی ہے کیونکہ یہ ”اہل بدر“ میں سے ہیں ۔
آپ نے جو روایت پیش کی ہے اس میں ”ابی بن کعب رضی اللہ عنہ“ کا ذکر نہیں ہے بلکہ ”کعب“ یعنی ”کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ“ کا ذکر ہے ، اور یہ بدری صحابی نہیں ہیں ، لیکن یہ بھی جنتی ہیں کیونکہ ”أهل بيعة الرضوان“ میں سے ہیں اور ان صحابہ کو بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جنتی کا ہے اور ”عدد معین“ کی بشارت ہے۔
”أهل بيعة الرضوان“ ہی میں ایک صحابی ”ابوالغادیۃ رضی اللہ عنہ“ بھی مذکور ہیں جن پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قتل کا الزام ہے ۔
اس سنگین الزام کے باوجود بھی شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله نے کہا:
”بل نشهد أن العشرة في الجنة، وأن أهل بيعة الرضوان في الجنة، وأن أهل بدر في الجنة، كما ثبت الخبر بذلك عن الصادق المصدوق، الذي لا ينطق عن الهوى، إن هو إلا وحي يوحى . وقد دخل في الفتنة خلق من هؤلاء المشهود لهم بالجنة، والذي قتل عمار بن ياسر هو أبو الغادية ، وقد قيل: إنه من أهل بيعة الرضوان، ذكر ذلك ابن حزم.
فنحن نشهد لعمار بالجنة، ولقاتله إن كان من أهل بيعة الرضوان بالجنة“ [منهاج السنة النبوية 6/ 205]
ملاحظہ فرمائیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ صاف کہہ رہے ہیں کہ اگر ”ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ“ اہل بیعت رضوان میں سے ہیں تو ہم ان کے جنتی ہونے کی بھی شہادت دیتے ہیں۔
رہی وہ روایت جسے آپ نے علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحسین کے ساتھ نقل فرمایا ہے تو اس میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ یہ واقعہ اہل بیعت رضوان کو ملنے والی جنت کی بشارت کے بعد کا ہے ، بلکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ اس بیماری میں فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان انتقال ہوا ۔
تو لازمی طور پر یہ واقعہ ان کو ملنے والی بشارت سے قبل کا ہے بلکہ پیش کردہ روایت کا سیاق بھی اشارہ کرتا ہے کہ مدینہ کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شروع میں حتی کہ غزوہ بدر کے بعد بھی خود کو جنتی نہیں کہتے چنانچہ صحیح بخاری وصحیح ابن حبان وغیرہ کی روایت ہے کہ بدری صحابی عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ وفات پر ایک عورت نے ان کو جنتی کہا ، صحیح ابن حبان کے الفاظ ہیں:
”طبت أبا السائب في الجنة“ [صحيح ابن حبان ، رقم 643 واسنادہ صحیح]
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرماتے ہوئے کہا:
”والله إني لأرجو له الخير، وما أدري والله وأنا رسول الله ما يفعل بي“ [صحيح البخاري رقم3929]
غور فرمائیں یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ ایک بدری صحابی کو جنت کی بشارت نہیں درے رہے ہین بلکہ خود اپنے بارے میں بھی ایسی بات نہیں کہتے ۔
ایسا اس وجہ سے کیونکہ اللہ تعالی نے شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود کے اور اپنے صحابہ کے بارے میں ایسا کہنے منع کیا تھا جیساکہ آیت ہے :
{قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ} [الأحقاف: 9]
لیکن بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ نے جنت کی بشارت دی اور اہل بدر اسی طرح بعض دیگر صحابہ کو بھی جنت کی بشارت ملنے لگی تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی جنتی کہتے ہوئے فرمایا:
”وأنا أول من يدخل الجنة يوم القيامة، ولا فخر“ [مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 144، الصحيحة 4/ 100]
اور اپنے صحابہ میں سے کئی کو جنت کی بشارت دینے لگے ، اور اہل بدر کو بھی جنت کی بشارت دی بلکہ خاص بدری صحابی ”حاطب بن أبي بلتعة رضی اللہ عنہ“ کے واقعہ کے وقت کہا:
”اعملوا ما شئتم، فقد وجبت لكم الجنة“ [صحيح البخاري رقم 6259]
رہی بات آیت { وَكُلا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} کی تو اس میں عمل پر ثواب کا وعدہ ہے ،
یہ ایسے ہے جیسے اللہ نے دوسرے مقامات پر ارشاد فرمایا:
{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ} [المائدة: 9]
{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا } [الفتح: 29]
{وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [التوبة: 72]
نیز  یہ ایسے ہی جیسے حج کرنے پر جنت کا وعدہ ہے لیکن اس بنا پر ہم کسی حاجی کو جنتی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ”خاص افراد کے لئے جنت کی بشارت“ اور ”خاص اعمال پر عاملین کے لئے جنت کے وعدہ“ میں جو فرق ہے اس کو تفصیل سے ہم نے اپنی ”یزید اور قسطنطنیہ“ والی کتاب میں ص 80 تا 86 پر واضح کیا ہے اس کی طرف مراجعت مفید ہوگی ۔
نیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عدد معین اہل بدر کی بشارت کو اہل بدر کے ایک فرد پر بھی منطبق کیا ہے ۔ یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ عدد معین کی بشارت کو اس عدد معین کے ایک فرد پر مطبق کرسکتے ہیں۔

الغرض یہ کہ ”عدد معین“ کے لئے جنت کی بشارت ہو تو اس کے ہر فرد کو جنتی کہا جائے گا ، یہ حدیث سے بھی ثابت ہے اور سلف سے بھی جیساکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا حوالہ اس کمنٹ میں ہے اور دیگر حوالے اوپر اصل پوسٹ میں ہیں ۔
باقی یہ مسئلہ اپنی جگہ پر مسلم ہے جس کے لئے ”فردی تعیین“ یا ”عددی تعیین“ کے ساتھ جنت کی بشارت موجود نہ ہو ہم اسے بالتعیین جنتی نہیں کہہ سکتے ۔ واللہ اعلم۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment