امام اعمش رحمہ اللہ کے ساتھ مسکرائے
◈ ◈ ◈
امام سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ بہت بڑے محدث ہیں، جس طرح حدیث کی چھ مشہور کتابیں ہیں اسی طرح حدیث کے چھ مشہور رواۃ بھی ہیں جن پر طرق حدیث کا دارو مدار ہے ان چھ رواہ میں ایک امام اعمش رحمہ اللہ بھی ہیں۔
امام اعمش رحمہ اللہ سے متعلق مختلف کتب میں مروی بعض روایات ملاحظہ فرمائیں:
.
✿ «وأراد إبراهيم النخعي أن يماشيه فقال الأعمش: إن الناس إذا رأونا معاً قالوا: أعور وأعمش، قال النخعي: وما عليك أن نؤجر ويأثموا فقال له الأعمش: وما عليك أن يسلموا ونسلم»
ترجمہ:
”ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے امام اعمش رحمہ اللہ سے کہا کہ چلو باہر ٹہل کر آتے ہیں (یادرہے کہ امام نخعی کانے تھے ) یہ سن کر امام اعمش نے کہا کہ لوگ اگر ہم دونوں کو ایک ساتھ دیگھیں گے تو کہیں گے دیکھو ایک ”کانا“ اور ایک ”چوندھا“ جارہا ہے ! امام نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ: تمہار کیا بگڑے گا اگر ایسا کہنے والے گنہگار ہوں اور ہم کو ثواب ملے ؟ تو امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا کہ : تمہارا کیا بگڑے گا اگر وہ لوگ بھی محفوظ رہیں اور ہم بھی محفوظ رہیں ۔“
[وفيات الأعيان (2/ 401)]
.
✿ «وجاء رجل يطلبه في منزله ووصل وقد خرج مع امرأته إلى المسجد فجاء فوجدهما في الطريق فقال: أيكما الأعمش فقال الأعمش: هذه، وأشار إلى المرأة»
ترجمہ:
”ایک شخص امام اعمش رحمہ اللہ سے ملنے ان کے گھر آیا لیکن جب وہ ان کے گھر پہنچا تو امام اعمش اپنی بیوی کے ساتھ مسجد نکل چکے تھے ، اب یہ شخص راستے میں ان دونوں سے ملا اور پوچھا: آپ دونوں میں سے امام اعمش کون ہیں؟ تو امام اعمش رحمہ اللہ نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کیا کہ یہ اعمش ہیں“
[وفيات الأعيان (2/ 401)]
.
✿ «وجرى بينه وبين زوجته كلام، وكان يأتيه رجل يقال له أبو ليلى مكفوف فصيح يتكلم بالإعراب يتطلب الحديث منه، فقال: يا أبا ليلى، امرأتي نشزت علي وأنا أحب أن تدخل عليها فتخبرها مكاني من الناس وموضعي عندهم، فدخل عليها وكانت من أجمل أهل الكوفة فقال: يا هنتاه إن الله قد أحسن قسمك، هذا شيخنا وسيدنا وعنه نأخذ أصل ديننا وحلالنا فلا يغرنك عموشة عينيه ولا حموشة ساقيه، فغضب الأعمش وقال: يا أعمى يا خبيث، أعمى الله قلبك كما أعمى عينيك، قد أخبرتها بعيوبي كلها؛ اخرج من بيتي»
ترجمہ:
امام اعمش اور ان کی بیوی کے مابین جگھڑا ہوا چنانچہ امام اعمش کے گھر ابو لیلی نامی ایک اندھا شخص آیا کرتا تھا جو بڑا فصیح اللسان تھا اور ان سے باتیں کرنا چاہتا ، تو امام اعمش نے اس سے کہاکہ : ابولیلی ! میری بیوی میری اطاعت نہیں کرتی ، میں چاہتاں ہوں کہ تم میری بیوی کے پاس جاؤ اور اسے بتاؤ کے لوگوں کے یہاں میرا مقام ومرتبہ کیا ہے ۔ چنانچہ یہ شخص ان کے بیوی کے پاس آیا جو کوفہ کی سب سے خوبصورت عورت تھیں اور کہنے لگا کہ: اے خاتون !اللہ نے آپ کو بڑا خوش قسمت بنایا ہے (آپ کے شوہر) امام اعمش ہمارے شیخ اور ہم سب کے استاد ہیں ہم تمام لوگ ان سے دین کے دلائل اور حرام و حلال سیکھتے ہیں اس لئے تم ان کی آنکھوں کی چندھیاہٹ اور ان کی پنڈلیوں کے دبلے پن پر دھیان نہ دو۔
یہ سن کرا مام اعمش غضبناک ہوگئے اور کہا کہ اے اندھے ! اے خبیث ! اللہ تیرے دل کو بھی اندھا کردے جس طرح تیری دونوں آنکھوں کو اندھا کیا ہے ! تو نے تو میرا سارا عیب میری بیوی کو بتا ڈلا ! نکل جا میرے گھر سے !
[ وفيات الأعيان 2/ 401 [المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (8/ 113)]
.
✿ «مرض الأعمش فأبرمه الناس بالسؤال عن حاله، فكتب قصته في كتاب وجعله عند رأسه، فإذا سأله أحد قال: عندك القصة في الكتاب فاقرأه»
ترجمہ:
”ایک بار امام اعمش رحمہ اللہ بیمار ہوئے تو لوگوں نے ان کا حال پوچھ پوچھ کر انہیں اور بے حال کرڈالا ، پھر امام اعمش رحمہ اللہ نے اپنی پوری حالت ایک کتابچہ میں لکھ دی اور اس اسے اپنے سر کے پاس رکھ لیا ، اس کے بعد جب بھی کوئی ان سے ان کا حال واحوال پوچھنے آتا تو امام اعمش رحمہ اللہ اسے وہ کتابچہ تھما دیتے اور کہتے اس میں سب کچھ لکھا ہے پڑھ لو“
[العقد الفريد (2/ 284)]
.
✿ ”وقال ابن إدريس: قلت للأعمش: يا أبا محمد ما يمنعك من أخذ شعرك؟ قال: كثرة فضول الحجامين قلت : فإني أجيئك بحجام لا يكلمك حتى يفرغ، قال: فأتيت جنيدا الحجام وكان محدثا فأوصيته فقال: نعم فلما أخذ نصف شعره قال: يا أبا محمد كيف حديث حبيب بن أبي ثابت في المستحاضة؟ قال: فصاح الأعمش صيحة وقام يعدو وبقي نصف شعره أياما غير مجزوز“
ترجمہ:
”عبد الله ابن ادریس کہتے ہیں کہ : میں نے امام اعمش سےکہا : آپ اپنے سر کا بال کیوں نہیں کٹواتے ؟ تو امام اعمش رحمہ اللہ نے جواب دیا: یہ نائی لوگ (بال کاٹتے وقت) بہت فضول گوئی کرتے ہیں اس لئے ۔
تو ابن ادریس نے کہا: میں ایک ایسے نائی کو لاتا ہوں جو پورا بال کاٹنے تک آپ سے کوئی بات نہیں کرے گا ۔ ابن ادریس کہتے ہیں کہ پھر میں جنید الحجام کو بلا کر لے آیا جو محدث بھی تھے اور انہیں سب کچھ سمجھا دیا جس پر انہوں نے کہا ٹھیک ہے ۔
پھر جب جنید امام اعمش کے آدھے سر کا بال بناچکے تو ایک سوال کرلیا کہ : اے اعمش یہ حبیب بن ابی ثابت کی استحاضہ والی حدیث کیسی ہے ؟ یہ سن امام اعمش چيخ پڑے اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور کئی دنوں تک انہوں نے باقی آدھے سر کا بال بنوایا ہی نہیں“
[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 9/ 165]
.
✿ ”عن جرير قَالَ جِئْنَا الْأَعْمَش يَوْمًا فوجدناه قَاعِدا فِي نَاحيَة فَجَلَسْنَا فِي نَاحيَة أُخْرَى وَفِي الْموضع خليج من مَاء الْمَطَر فجَاء رجل عَلَيْهِ سَواد فَلَمَّا بصر بالأعمش وَعَلِيهِ فَرْوَة حقيرة قَالَ قُم عبرني هَذَا الخليج وجذب بِيَدِهِ فأقامه وَركبهُ وَقَالَ {سُبْحَانَ الَّذِي سخر لنا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقرنين} فَمضى بِهِ الْأَعْمَش حَتَّى توَسط بِهِ الخليج ثمَّ رمى بِهِ وَقَالَ {وَقل رب أنزلني منزلا مُبَارَكًا وَأَنت خير المنزلين} ثمَّ خرج وَترك المسود يتخبط فِي المَاء“
ترجمہ:
”امام اعمش کے شاگرد جرير کہتے ہیں کہ ایک دن ہم امام اعمش کے پاس آئے تو وه ایک جانب بیٹھے ہوئے تھے پھر ہم دوسری جانب بیٹھ گئے اور بیچ میں ایک گڈھا تھا جو بارش کے پانی سے بھر گیا تھا ، اتنے میں ایک شخص (سپاہی) آیا جو سرکاری لباس میں تھا اس نے امام اعمش کو دیکھا جن پر چمڑے کا معمولی کپڑا تھا تو اس نے امام اعمش سے کہا کہ مجھے یہ گڈھا پار کرادو پھر اس شخص نے امام اعمش رحمہ اللہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کھڑا کردیا اور ان کی پیٹھ پر سوار ہوگیا اور کہا : {سُبْحَانَ الَّذِي سخر لنا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقرنين} ۔
امام اعمش رحمہ اللہ نے اس سپاہی کو اٹھایا اور اسے گڈھا پار کرانے لگے اور جب بیچ گڈھے میں پہنچے تو اسے وہیں پٹخ دیا اور کہا: {وَقل رب أنزلني منزلا مُبَارَكًا وَأَنت خير المنزلين}
اس کے بعد امام اعمش رحمہ اللہ خود اس گڈھے سے نکل گئے اور اس سپاہی کو اسی گڈھے میں پڑا رہنے دیا جس میں وہ ہاتھ پیر مارتارہا ۔“
[المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (8/ 113)][تاريخ بغداد (6/ 263 ت بشار)][سير أعلام النبلاء - ط الحديث (6/ 351)]
.
✿ «وأما سليمان بن مهران الأعمش فإن رجلاً قال له في منزله: كيف أنت يا أبا محمد؟ قال: بخير قال: كيف حالك؟ قال في عافية، قال: كيف بت البارحة؟ فصاح: يا جارية انزلي بالفراش والمخاد فأنزلت بذلك فقال: افشي واضطجعي حتى أضطجع إلى جنبك لنرى أخانا كيف بت البارحة»
ترجمہ :
”ایک آدمی امام اعمش رحمہ اللہ کے گھر آیا اور پوچھا: ابو محمد آپ کیسے ہیں؟ امام اعمش رحمہ اللہ نے جواب دیا ٹھیک ہوں ۔ اس نے پھر پوچھا : اور کیا چال ہے ؟ امام اعمش رحمہ اللہ نے جواب دیا : سب خیر وعافیت ہے ۔ اس نے پھر پوچھا : کل کی رات کیسے گزری ؟ یہ سن کر امام اعمش رحمہ اللہ نے چلّا کر کہا اے باندی بستر اور تکیا اتار کر لاؤ چانچہ باندی یہ سب لے آئی تو امام اعمش نے کہا کہ اسے بچھاؤ اور اس پر لیٹ جاؤ میں بھی تہمارے بغل میں لیٹ جاتاہوں تاکہ ہم اپنے بھائی کو دکھاسکیں کہ ہم نے گزشتہ رات کیسے گزاری؟“
[قوت القلوب (1/ 280)]
.
✿ سعيد الوراق، قَالَ: كان للأعمش جار كان لا يزال يعرض عليه المنزل، يقول: لو دخلت فأكلت كسرة وملحا.فيأبى عليه الأعمش، فعرض عليه ذات يوم، فوافق جوع الأعمش، فقال: مر بنا.
فدخل عليه، فقرب إليه كسرة وملحا، إذ سأل سائل، فقال له رب المنزل: بورك فيك! فأعاد إليه المسألة، فقال له: بورك فيك! .فلما سأل الثالثة، قَالَ له: اذهب، وإلا خرجت إليك بالعصا.
قَالَ: فناداه الأعمش، فقال: أذهب ويحك، فلا واللَّه، ما رأيت أحدا أصدق مواعيد منه، هو منذ سنة يعدني على كسرة وملح، فلا واللَّه، ما زادني عليهما»
ترجمہ :
سعید الوراق کہتے ہیں کہ امام اعمش کا ایک پڑوسی تھا جو برابر امام اعمش کے گھر آتا تھا اور ان سے کہتا کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لائیں اور روٹی اور نمک تناول فرمائیں لیکن امام اعمش رحمہ اللہ انکار فرما دیتے ، ایک دن اس پڑوسی نے جب درخواست کی تو اتفاق سے امام اعمش کو بھوک لگی تھی انہوں نے کہا: ٹھیک ہے ہمیں لے چلو ۔
جب امام اعمش اس کے گھر پہنچے تو اس نے (حسب وعدہ) روٹی اور نمک پیش کردیا اتنے میں دروازے پر ایک بھکاری آ گیا اور سوال کر بیٹھا تو اس گھر والے نے کہا : اللہ آپ کو برکت دے (معاف کرو) ! بھکاری نے دوبارہ سوال کیا تو اس گھر والے نے دوبارہ کہا کہ : اللہ تہمں برکت دے (معاف کرو) ! بھکاری نے تیسری بار سوال کیا تو اس گھر والے نے کہا کہ : یہاں سے بھاگ جا ورنہ ڈنڈا لے کر آتاہوں ۔
یہ سب دیکھ کر امام اعمش رحمہ اللہ نے اس بھکاری کو بلا کر کہا: تمہارا ستیاناس ہو ! تم بھاگ کیوں نہیں جاتے ، اللہ کی قسم میں نے اس گھر والے سے زیادہ وعدہ کا پکا کسی کو نہیں دیکھا ، یہ ایک سال سے مجھے روٹی اور نمک کھلانے کا وعدہ کرکے بلاتا رہا اور اللہ کی قسم اس نے مجھے روٹی اور نمک ہی کھلایا اس کے آگے کچھ اور نہیں دیا۔
[البخلاء للخطيب البغدادي (ص109)]
.
✿ ”قال الأعمش لجليسٍ له: تشتهي كذا وكذا من الطعام؟ «فوصف طعاماً طيباً؛ فقال: نعم؛ قال: فأنهض بنا؛ فدخل به منزله، فقدّم رغيفين يابسين وكامخاً، وقال: كل؛ قال: أين ما قلت؟ قال: ما قلت لك عندي، إنّما قلت تشتهي »“
ترجمہ:
”امام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا تمہیں یہ یہ کھانا پسند ہے ؟ اور پھرکئی اچھے اچھے کھانے کا نام لیا تو اس شخص نے کہا : جی ہاں ! تو امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا : پھر ہمارے ساتھ چلو چنانچہ امام اعمش رحمہ اللہ اسے اپنے گھر کے اندر لے گئے اور اس کے سامنے چٹنی اور دو سوکھی روٹیاں پیش کردیں اور کہا: کھاؤ !
اس شخص نے پوچھا : آپ نے جس کھانے کا تذکرہ کیا تھا وہ کہاں ہے ؟ امام اعمش رحمہ اللہ نے جواب دیا : میں نے یہ تھوڑی کہا تھا کہ وہ کھانے میرے پاس ہیں ، میں نے تو تم سے صرف پوچھا تھا کہ کیا تمہیں وہ کھانے پسند ہیں ۔“
[أخبار الظراف والمتماجنين (ص65)]
.
✿ امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) لکھتے ہیں:
«قال وكيعٌ: كنا يوماً عند الأعمش، فجاء رجلٌ يسأله عن شيءٍ، فقال: إيش معك؟ قال: خوخٌ؛ فجعل يحدثه بحديثٍ ويعطيه واحدةً، حتى فني، قال: بقي شيءٌ؟ قال: فني يا أبا محمدٍ؛ قال: قم، قد فني الحديث»
ترجمہ:
”امام وکیع کہتے کہ ایک دن ہم امام اعمش رحمہ اللہ کے پاس تھے تو ایک شخص کسی چیز سے متعلق ان سے سوال کرنے آگیا تو امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا: یہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ تو اس نے کہا آڑو (ایک طرح کا پھل) ہے ، پھر امام اعمش رحمہ اللہ اسے حدیث سنانے لگے اور وہ ایک ایک پھل امام اعمش کو دیتا رہا یہاں تک سارے پھل ختم ہوگئے ، تو امام اعمش رحمہ اللہ نے پوچھا ابھی بھی کچھ بچا ہے ؟ اس نے کہا : اے ابومحمد سب ختم ہوگیا !
تو امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا: اب اٹھ جاؤ میرے پاس حدیث بھی ختم ہوچکی ہے“
[أخبار الظراف لابن الجوزی (ص67)]
.
(ترجمہ کفایت اللہ سنابلی)
No comments:
Post a Comment