”منہج“ کے نام پر انحرافات اور سطحی سیاست کا کھیل - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-11-01

”منہج“ کے نام پر انحرافات اور سطحی سیاست کا کھیل

”منہج“ کے نام پر انحرافات اور سطحی سیاست کا کھیل 
✿ ✿ ✿ 
بعض لوگ لفظ ”منہج“ کو گا,لی کی طرح استعمال کرتے ہیں !
یہ شکوہ آپ نے بھی سنا ہوگا لیکن غورطلب بات یہ ہے کہ اس کا اصلی ذمہ دار کون ہے ؟
دراصل کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہندوستان میں اہل حدیثوں کے درمیان لفظ ”منہج“ کو اس طرح متعارف کروا رہے ہیں جیسے ان کے سامنے کوئی نئی دعوت پیش کی جارہی ہو اورانہیں وہ چیزیں سکھلائی جارہی ہوں جن کے یہ منکر ہیں ، بلکہ بعض مدعیانِ منہج نے تو یہاں تک صراحت کر رکھی ہے کہ ہندوستانی اہل حدیث ”منہج“ سے نابلد ہیں انہیں ”منہج“ سکھانے کی سخت ضرورت ہے ۔
.
✿ ”منہج“ اور ”مذہب“ :
اہل حدیثانِ ہند کی تاریخ سے ناواقف لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ جس چیز کو ”منہج“ کے نام سے متعارف کرانے کی کوشش کررہے ہیں ہندوستانی اہل حدیث عین اسی چیز کو ”مذہب“ یا ”مسلک“ کے نام سے پہلے ہی سے مانتے آئے ۔
اور لفظ ”منہج“ دراصل لفظ ”مذھب“ و ”مسلک“ ہی کا مترادف ہے اور آج کل یہ زیادہ استعمال ہورہا ہے۔
⟐ چنانچہ علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے:
”اہل حدیث کا مذہب“ 
آج اگر کوئی منہجی شخص اسی موضوع پر کتاب لکھے گا تو اس کا یہ نام رکھے گا :
 ”اہل حدیث کا منہج“ 
.
⟐ علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ پررد کرتے ہوئے ایک عالم نے یہ کتاب لکھی :
 ”الأربعين في أن ثناء الله ليس علي مذهب المحدثين...“ 
اور آج اگر کوئی منہجی اسی انداز کی کتاب لکھے گا تو ”مذھب“ کی جگہ ”منہج“ استعمال کرتے ہوئے کتاب کا نام یوں رکھے گا:
 ”الأربعين في أن ثناء الله ليس علي منهج المحدثين...“ 
.
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ”منہج“ کے نام پر اصلا جس شاہراہ پر دعوت دینے کا دعوی کیا جارہا ہے الحمد للہ ہندوستانی اہل حدیث پہلے سے ہی اسی شاہراہ پر چل رہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے یہاں اس شاہراہ کا نام ”مذہب“ اور ”مسلک“ ہے یعنی ”مذہبِ سلف“ و ”مسلکِ سلف“ ہے یا ”مذہبِ محدثین“ و ”مذہبِ اہل حدیث“ ہے۔
اور ہندوستانی اہل حدیثوں ہی پر کیا موقوف آپ پوری دنیا کے قدیم علماء کی کتابیں چھان ماریں تو ساری پرانی کتابوں میں لفظ ”منہج“ شاذو نادر ہی مستعمل ملے گا اور اکثر اس لفظ کی جگہ ”مذھب“ و ”مسلک“ یعنی ”مذھب السلف“ و ”مسلک السلف“ یا ”مذھب المحدثین“ و ”مذهب اهل الحديث“ کے الفاظ ملیں گے ۔
بلکہ آپ حیران رہ جائیں گے بعض منہجی اپنی تقریروں میں قدیم علماء کی وہ عبارتیں نقل کریں گے جن میں انہوں نے ”مذهب“ کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ اس کا ترجمہ ”منہج“ سے کریں گے ۔
مثلا ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھاہے:
 ”ومذهب أهل السنة والجماعة مذهب قديم“ [منهاج السنة النبوية 2/ 601]
ایک منہجی مقرر نے اس کا ترجمہ یوں کیا کہ :
((منہج سلف قدیم ہے ، سلف صالحین کا منہج قدیم ہے ))
.
 سطور بالا سے یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے قدیم اہل حدیث علماء بھی الحمد للہ ”مذہبِ سلف“ اور ”مذہبِ اہل حدیث“ کے نام سے اس دعوت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور مانتے بھی تھے جسے آج کل ”منہج“ کے نام سے پیش کیا جارہا ہے ۔ 
.
 ✿ ”منہج“ اور گول مول باتیں:
اوپر تو ہم نے ان لوگوں کی بات کی ہے جو اہل حدیثانِ ہند کی تاریخ اور ان کے عقدی و فقہی مذہب ومسلک سے نا واقف و لاعلم ہیں اور محض لفظ ”منہج“ سے چپک کر ہندوستانی اہل حدیثوں کے مابین مجدد بننے کا شوق پالے ہوئے ہیں ۔
لیکن اس جھنڈ میں کچھ ایسے مکر کے شکار لوگ بھی ہیں جنہیں سب کچھ پتہ ہے لیکن اپنی جھوٹی شان کی خاطر گول مول باتیں کرتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ”منہج“ کے نام پر دی جانے والی دعوت کو معمہ وچیستاں بناکر رکھ دیا ہے یہ صاف لفظوں میں ہرگز نہیں کہتے کہ پرانے اہل حدیث ”مذہبِ سلف“ کے نام سے جن چیزوں کو مانتے تھے انہیں چیزوں کو ”منہجِ سلف“ کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ 
.
وضاحت طلب کرنے پر یہ گھنٹوں لمبی چوڑی تقریر کرجائیں گے کہ منہج کا مطلب یہ ہے ...وہ ہے... وغیرہ... وغیرہ... لیکن زبان و قلم کو اس حقیقت کے اعتراف کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے کہ یہ عین وہی دعوت ہے جسے پرانے اہل حدیث ہندوستان میں ”مذہبِ سلف“ یا ”مذہبِ اہل حدیث“ کے نام سے پیش کرتے تھے ، بلکہ بعض کم نصیب مدعیان علم تو یہاں تک کہہ جائیں گے یہ وہ منہجی باتیں ہیں جن سے ہندوستان کے علماء ناواقف ہیں ۔
اس اعتراف سے نظریں چرانے اور گول مول بات کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان کی فکرونظر میں کوئی ”امتیاز“ اور ”نیاپن“ نہیں رہ جائے گا جس کے ذریعہ یہ ڈھول کے پو,ل مفت میں خود کو ”نمایاں“ اور ”ممتاز“ باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔
.
شہرت اور ناموری کے بھوکے ان منہجی شعبدہ با,زوں نے سادہ لوح اہل حدیث نوجوانوں کو عجیب وغریب کشممش میں مبتلا کررکھاہے ۔
ایک نواجوان اہل حدیث میرے سامنے اپنے منہجی اثرات بیان کرتے ہوئے کہنے لگا کہ:
((جب سے میں فلاں (منہجی ) کے دروس سننے لگا ہوں تب سے مجھے خود اپنے آپ پر شک ہونے لگا ہے کہ میں صحیح منہج پر ہوں یا نہیں !))
میں نے عرض کیا کہ یہی حالت تو ان نوجوانوں کی ہوتی ہے جو مرد ہونے کے باوجود مزید مردانگی پیداکرنے کے لئے کسی حکیم کے پاس آنا جانا شروع کردیتے ہیں اور کچھ ہی دنوں بعد انہیں اپنی مردانگی وقوت باہ پر شک ہونے لگتا ہے۔
دوسری طرف ہر گلی نکڑ پر نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوری ہے جن کی ساری اچھل کود کا مدعا وماحصل صرف یہ ہے کہ کون اہل حدیث عالم ”منہجی“ ہے اور کون ”غیر منہجی“ ۔ 
.
 ✿ ”منہج“ کے نام پر سطحی سیاست:
اب آئیے ان چالاک لوگوں کی بات کرتے ہیں جنہوں نے منہج کے نام پر مذکورہ کنفیوزن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اوچھی سیاسیت کی روٹیاں سینکنی شروع کردی ہیں:
.
 ❀ ”ادارتی حسد“ 
بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ جتنا بڑا قد نہیں ہے اتنا بڑا ادارہ سر پر لاد لیا ہے چونکہ یہ ذمہ داری ”اہلیت“ کی بنا پر نہیں بلکہ از راہِ وراثت حادثاتی طور پر مل گئی ہے اس لئے ادارہ کو آگے بڑھانے کے لئے جب کچھ سجھائی نہیں دیا تو ہاتھ میں ”منہجی“ تلو،ار اور دل میں ”مالِ غنیمت کی ہو،س“ لیکر خود ساختہ جرح وتعدیل کے میدان میں اتر گئے ہیں اب ان کی نظر میں وہ ساری جمعیاتِ خیریہ غیر منہجی ہیں جہاں سے ان کو فنڈ نہیں ملتا ، اسی طرح ان تمام اہل ثروت کا منہج درست نہیں جو ان کو چندہ نہیں دیتے بلکہ وہ تمام ادارے بھی منہج بدر ہیں جن کو دوسرے اہل ثروت معقول چندہ دیتے ہیں ۔ ان تمام لوگوں کا منہجی قبلہ تبھی درست ہوسکا ہے جب یہ سب کے سب موصوف کی منہجی تجوری کی پوجا پاٹ شروع کردیں۔
.
◈ اس موقع پر شیخ عاطف سنابلی حفظہ اللہ کا وہ بے لاگ تجزیہ یاد آگیا جسے انہوں نے کسی خاص تناظر میں پیش کیا تھا جو ان کی وال پر ان الفاظ میں موجودہے:
((بی.جے.پی کاسب سے مضبوط ہتھکنڈہ د،یش بھکتی اور راشٹروا،دہے ...جس کوبھی زیر کرناہو،گرانا ہو دبانا ہو نیست ونا،بود کرنا ہواسے دیش د،روہ بتادیتے ہیں...
ارباب اقتدار مولویوں کا بہترین اور مضبوط ہتھکنڈ،ہ ..
منہج منہج ....
جس مولوی یا متحرک اور فعال آدمی کو مٹا،نا ہو، دبا،نا ہو، زیرکرنا ہو،اس کے اثرات کو کم کرنا ہو اس کو غیر منہجی اور تحریکی ثابت کرکے نیست ونابو،د اور ختم کرنے کی پوری طاقت لگاتے ہیں...
مودی = مولوی)) انتھی 
.
❀ ”معاصرانہ چپقلش اورقلبی عداوت“ :
برائی کو ”برائی“ کے نام پر کرنا اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا برائی کو ”خیر واصلاح“ کے نام پر انجام دینا، پہلی صورت میں برائی صرف بروں تک ہی محدود رہتی ہے، لیکن دوسری صورت میں برائی بدکرداروں کے ساتھ سادہ لوح اور صاف دل لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اگرآپ اس بات پر حیران ہوں کہ اسلامی تاریخ میں بہت سارے فتنو،ں میں بعض اچھے اور نیک لوگوں کے نام کیسے شامل ہیں؟ تو جان لیجئے کہ یہ سب ”شرو،فساد“ پر چڑھائے گئے ”اصلاح واحتساب“ کے غلاف کا نتیجہ ہے۔
یہ ہنر سب سے زیادہ دنیا پرست علماء کوآتا ہے اورآج کل ان کی کمال فریب کاری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر فساد پر ”منہج“ کا نقاب چڑھادیتے ہیں ، سستی شہرت کاحصول ہو ، جاہ ومنصب کی ہو،س ہو ، بغض وحسد کا مرض ہو ، احساس کمتری کی گھٹن ہو، کبر وبرتری کا اظہار ہو ، یا دشمن ومخالف سے انتقام ہو ، غرض ہرمعاملے میں یہ ”منہج“ کی تلوا،ر استعمال کرتے ہیں۔
یہ مکر، و حیلہ ہردور میں اور علماء کے ہر طبقے میں مستعمل رہا ہے، بالخصوص ”المعاصرۃ اصل المنافرہ“ کے مظاہر دیکھ ڈالئے آپ کو اس کا بڑاحصہ اسی پر مشتمل ملے گا۔ مذہب سلف کی طرف دعوت اور اس کی ضرورت واہمیت سے کسی کو انکار نہیں، لیکن آج کے دور میں بعض حلقوں میں لفظ ”منہج“ کے نام پر جو جنگ برپا ہے اور تعریض وتعلیق ، جدل ومناظرہ اوربحث ومباحثہ کا جو ایک تسلسل ہے ، وہ دراصل اسی باب کاحصہ ہے، جنہیں بھولے بھالے اور صاف طبیعت کے لوگ منہجی اختلاف باور کرتے ہیں۔
.
اسی سلسلے میں ایک شخصیت پرتبصرہ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا:
 ”عوام وخواص میں ان کے مجاہدات کی دھوم تھی، بایں ہمہ نفس پرستی کا حال یہ تھا کہ فقیری کے سجادے پر فر،عونیت کا تاج پہن کر بیٹھے تھے، اور جس عالم وصوفی کی طرف لوگوں کو ذرا بھی مائل پاتے تھے ، فورا اپنے مریدوں کی فو،ج لیکر چڑھ دوڑتے تھے، کبھی ”بحث ومناظرے“ کے زور سے، کبھی ”سوء اعتقاد“ کے الزام سے کبھی اور کوئی ”حیلہ وبہانہ“ پیدا کرکے، (اور اس گروہ کے پاس مکر وحیل کی کیا کمی ہے!)، اس طرح ذلیل ورسوا کردیتے کہ غریب شہر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ، ایک ”دنیا دار فاسق“ اور ایک ”دنیا پرست عالم“ میں یہی فرق ہے کہ پہلا اپنی ہوی پرستیوں کو اعترافِ فسق کے ساتھ انجام دیتا ہے ، اور دوسرا دین داری اور احتسابِ شرعی کی ظاہر فریبی کے ساتھ۔۔۔ نفس وشیطان کے خدع ومکر وفریب کے کاروبار بہت وسیع ہیں، لوگوں نے ہمیشہ اس کو میکدوں میں ہی ڈھونڈا، مدرسوں اور خانقاہوں میں ڈھونڈتے تو شاید جلد پتا لگ جاتا“ 
 [ تذکرہ آزاد:ص63 ، 64 بریکٹ اور اس کے الفاظ مولانا آزاد ہی کے ہیں]
.
آخر میں عرض ہے کہ ”منہج“ کے نام پر با،زی گری اور مکروہ سیاست کی ابھی یہ ابتداء ہے اگر ابھی بروقت اس فتنہ کو نہیں روکا گیا تو عالم عرب میں جرح وتعدیل کے نام پر جو فتنہ برپا ہے اور جس نے بڑے بڑے مشائخ کو ڈسٹرب کررکھا ہے وہی صورت حال یہاں بھی بالخصوص جماعت اہل حدیث میں دیکھنے کو ملے گی ۔ 
شیخ سرفراز فیضی نے درست لکھا ہے کہ :
((جرح و تعدیل وقت کی ضرورت تھی تاکہ نا اہل اور گمراہ داعیوں سے عوام اور طلبہ علم کو متنبہ کیا جاسکے، لیکن جب سے کچھ علماء نے جرح و تعدیل کا استعمال اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے، خود کو دوسروں سے زیادہ سلفی ثابت کرنے اور اپنے ہی معاصر اہل علم کو حسد کے مارے گرانے کے لیے کرنا شروع کیا تب سے یہ طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو ملک کے کبار علماء کے خلاف منہ کھولنے سے نہیں چوکتا ، یہ ایسے لوگ ہیں جن کو ایک صفحہ قرآن بھی صحیح سے پڑھنا نہیں آتا ہوگا، انہیں علماء کے سامنے بٹھا دیا جائے تو پیشاب نکل جائے ، لیکن سوشل میڈیا کی آزادی ہے جو منہ سے نکل جائے نکال دو۔
منہج کے نام پر ایسے نوجوانوں کا طبقہ پیدا کیا جارہا ہے جس کا کام صبح وشام اہل علم پر کلام کرنا ہوگیا ہے، خارجیت ایسے ہی فتنوں سے جنم لیتی ہے ، اس بار یہ خارجیت منہج کا حوالہ دے کر جنم لے رہی ہے۔)) انتہی 
.
واضح رہے کہ نا اہل اور گمراہ دعاۃ پر نقد و تبصرہ کی ضرورت سے انکار نہیں لیکن اس نقد و تبصرہ کے لئے مصطلح ”جرح“ و ”تعدیل“ کا استعمال کرنا کہاں تک درست ہے اس پر ان شاء اللہ الگ سے مضمون لکھوں گا۔
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام خاص وعام مذکورہ مکر وحیل سے باخبر رہیں اور ”منہج“ ، ”منہجیت“ اور ”منہجی انقلاب“ جیسے کسی بھی نعرہ پر لٹو ہونے اور واہ واہی لٹانے سے پہلے اس کی اصل حقیقت کو پرکھ لیں اور یاد رکھیں کہ مذہب سلف اور مذہب اہل حدیث کے الفاظ میں بھی کوئی برائی نہیں ہے ہے دنیا وآخرت میں نجات کے لئے ان الفاظ سے نسبت بھی کافی ہے ۔
(کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment