یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
(کفایت اللہ سنابلی)
یتیم پوتی بھی ہمدردیوں کی مستحق ہے
اعتراضات
پہلا اعتراض: یتیم پوتے کا حصہ کیوں نہیں ۔
دوسرا اعتراض: پوتے کی وفات پر اس کے مال میں دادا کا حصہ کیوں
.
نوعیت مسئلہ
◈ سارے بیٹے فوت ہوگئے تو دریں صورت پوتوں کو ملے گا
.
دادا کی جائداد میں یتیم پوتے کی وراثت
آگر آپ کے ذہن میں اس ٹاپک کو لیکر شکوک وشبہات اور ڈاؤٹس ہوں تو یہ تحریر کو اخیر تک پڑھیں ۔ان شاء اللہ سارے شبہات رفع ہوں گے اور سارے ڈاؤتس کلیر ہوں گے
سب سے پہلے یہ جان لییں کہ:
دادا کی وراثت سے یتیم پوتا ہمیشہ محجوب ومحروم نہیں ہوتا بلکہ اس کی دوحالتیں ہوتی ہیں :
پہلی حالت میں پوتا وارث ہوتا ہے اور دوسری حالت میں پوتا وارث نہیں ہوتا ہے۔
پہلی حالت جس میں پوتا وارث ہوتا ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دادا کی وفات کے وقت اس کے اپنے بیٹوں میں سے کوئی بھی بیٹا زندہ ہو تو اس صورت میں پوتا وارث ہوتا ہے۔
دوسری حالت جس میں پوتا وارث نہیں ہوتا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ دادا کی وفات کے وقت اس کے اپنے بیٹوں میں سے کوئی ایک یا اس سے زائد بیٹے زندہ ہوں ۔
.
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟
تو اس کیوں کے جواب میں ، میں آپ کے سامنے اسلام کی چار اصولی باتیں رکھتاہوں ، اگر آپ ان چاروں اصولی باتیں کو اچھی طرح سنیں اور سمجھیں تو آپ کے سارے اشکالات ختم ہوجائیں گے۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ چاروں اصول کیا ہیں:
① سب سے پہلا اصول یہ سمجھ لیں کہ اسلام کی نظام میراث میں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی جائداد میں وراث ہوتا ہے تو ان دونوں مابین کئی طرح کا تعلق ہوتا ہے جن میں ایک ہم تعلق یہ ہوتا ہے کہ اگر وارث میل ہے مذکر ہے تو یہ جس شخص کے مرنے کے بعد اس کے مال کا وارث ہوتا ہے اس شخص کی حیات میں اس شخص کی زندگی میں اس کے اخراجات کا یہ ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔
یعنی وہ شخص جب زندہ تھا تو اس کے اکپینسیز کا بڈن اس وارث کے کندھے پر تھا ۔
یعنی یہ مورث جس سے یہ حصہ پارہا ہے یہ اگر اپنی حیات میں کسی بھی وقت میں آتا تو اسے مینج کرنے کی ذمہ داری اس وارث کے سر ہوتی مثلا بیماری ہوجاتا تو علاج کی ذمہ داری اس وارث کی تھی ۔
تو چونکہ یہ وارث مورث کی یعنی مرنے والے کی زندگی مین اس کی ہر طرح کی پرابلم کے لئے رسپانسبل ہوتا ہے تو اس کی اس ذمہ داری اور رسپانسبلیٹی کا بینیفٹ یہ ملتا ہے کہ یہ مورث جب مرتا ہے تو اس کے مال مین اسے حصہ ملتاہے ۔ یہ اصولی بات ذہن مین رکھیں ۔
اس اصول کی دلیل قرآن کی آیت ہے : {وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ} [البقرة: 233]
.
اب یتیم پوتے کے مسئلہ کو دیکھیں:
اگر داد کے اپنے کوئی بھی بیٹے نہ ہو تو دادا کے نفقہ اس کے اکسپنسیج کی ساری ذمہ داری پوتے پر آجاتی ہے اس لئے اس کیس میں پوتا اپنے دادا کے مرنے کے بعد اس مال مین وارث بنیا ہے۔
لیکن دادا کی زندگی میں اس کے اپنے ایک یا دو بیٹے زندہ ہوں تو دادا کے نفقہ اور اکسپنسیج کی ساری ذمہ داری دادا کے اپنے لڑکے پر ہوتی ہے ۔اس کیس مین پوتا اپنے دادا کی زندگی میں اپنے دادا کے اخراجات کا ذمہ دار نہیں ہوتا ہے ۔ یعنی
.
اس کو ایک مثال سے سمجھیں:
① ✿ ذمہ داری کا بوجھ اور وراثت کا تعلق
{آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا } [النساء: 11]
خونی رشتہ ، قربت ، منفعت
مثال: کسی شخص کے تین بیٹے تھے ، ایک مرگیا
اب سوال یہ نہیں بنتا کہ حصہ کیوں نہیں بلکہ سوال یہ کہ حصہ کیوں ہونا چاہئے؟؟
کچھ نہ تو مانگ کر انتظام کرے گا
.
② ✿ اسلام میں وونر شب سب کو حاصل ہے
*ضروی نہیں ہے کہ یتیم کا باب غربت کی حالت میں مرا ہو۔ دادا کی جائداد سے زیادہ چھوڑ کر مرسکتا ہے۔
*دادا کو فوت شدہ بیٹے کے مال سے چھٹا حصہ ملے گا
*یہاں بھی ذمہ داری کا مسئلہ یتیم کے باپ کو کچھ ہوجاتا تو دادا ذمہ دار ہوتا
.
③ ✿ وراثت کی تقسیم غربت کی بنیاد پر نہیں
امیر وغریب کا فرق
مقروض ہو کر جائے تو
غرب کا اسلام نے دوسرا حل دیا ہے جو آگے آرہاہے
.
④ ✿ بچوں کا نفقہ (جذباتی اعتراض)
*{وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ} [البقرة: 233]
انہیں بروقت ضرورت ہے۔
زیادہ ضرورت ہے
.
دوسرے اعتراض کا جواب
اگر معاملہ الٹ ہوجائے تو دادا وارث ہوگ
.
*وارث نہیں تو بیت المال یا دینی ادارہ
.
خاتمہ
خلاصہ کوئی حق نہیں بنتا ہے جیسے ذمہ داری نہیں بنتی ہےوصیت آپشنل مسئلہ ہے اور یتیم اور غیریتیم ہر طرح کے پوتے کے لئے ہے۔
کیونکہ پوتے پر ذمہ داری کا بوجھ بھی آپشنل ہے
البتہ پوتے اپنی مرضی سے مدد کریں تو دادا بھی اپنی مرضی سے مدد کرسکتا ہے۔
البتہ پوتے اپنی مرضی سے مدد کریں تو دادا بھی اپنی مرضی سے مدد کرسکتا ہے۔
● دادا غیر یتیم پوتے کے لئے بھی وصیت کرسکتا
إِنْ فَضَلَ مِنْ مَالِنَا فَضْلٌ بَعْدَ قَضَاءِ الدَّيْنِ شَيْءٌ، فَثُلُثُهُ لِوَلَدِكَ "، - قَالَ هِشَامٌ: وَكَانَ بَعْضُ وَلَدِ عَبْدِ اللَّهِ، قَدْ وَازَى بَعْضَ بَنِي الزُّبَيْرِ،.... وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعَةُ بَنِينَ، وَتِسْعُ بَنَاتٍ
[صحيح البخاري 3129]
● دلیل
{مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 11]
سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ» [سنن أبي داود 2870]
.
● بغیر وصیت کے وارثین دے سکتے
{ وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا } [النساء: 8]
● سب نہ دیں تو بعض دے سکتے ہیں
«وَقَالَتْ أَسْمَاءُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَابْنِ أَبِي عَتِيقٍ: وَرِثْتُ عَنْ أُخْتِي عَائِشَةَ بِالْغَابَةِ، وَقَدْ أَعْطَانِي بِهِ مُعَاوِيَةُ مِائَةَ أَلْفٍ، فَهُوَ لَكُمَا»
[صحيح البخاري 2/ 919]
وارثین :
اسماء اخت ش (سگی بہن)
ام کلثوم اخت ش (سگی بہن)
عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر ابن الاخ الشقیق (سگابھتیجا)
--------------
(قاسم ) : ابن الاخ لاب (باپ شریک بھتیجا)
(ابو بکر عبداللہ ) ابن ابی عتیق: ابن ابن الاخ الشقیق (سگے بھتیجے کا بیٹھا)
.
«وَقَدْ صَحَّ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهَا قَالَتْ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، وَلِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ: إنِّي وَرِثْت عَنْ أُخْتِي عَائِشَةَ مَالًا بِالْغَابَةِ، وَقَدْ أَعْطَانِي مُعَاوِيَةُ بِهَا مِائَةَ أَلْفٍ، فَهُوَ لَكُمَا؛
لِأَنَّهُمَا لَمْ يَرِثَا مِنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ شَيْئًا
إنَّمَا وَرِثَا أَسْمَاءَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ» (سگا بھتیجا)
[المحلى بالآثار (8/ 109)]
.
«والقاسم بن محمد (محمد هو ابن أبي بكر) ---------وهو ابن أخيها (ای ابن محمد بن ابی بکر) (اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا باب شریک بھتیجہ)
وابن أبي عتيق هو أبو بكر عبد الله بن أبي عتيق محمد بن عبد الرحمن بن أبي بكر، -------وهو ابن ابن أخي أسماء» (اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھتیجے کا بیٹا)
[ فتح الباري لابن حجر 5/ 225 ط السلفية]
.
«قَوْلُهُ: (وَرِثْتُ عَنْ أُخْتِي عَائِشَةَ) لَمَّا مَاتَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها وَرِثَهَا أُخْتَاهَا أَسْمَاءُ وَأُمُّ كُلْثُومٍ، وَأَوْلَادُ أَخِيهَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَلَمْ يَرِثْهَا أَوْلَادُ مُحَمَّدٍ أَخِيهَا لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ شَقِيقَهَا، وَكَأَنَّ أَسْمَاءَ أَرَادَتْ جَبْرَ خَاطِرِ الْقَاسِمِ بِذَلِكَ وَأَشْرَكَتْ مَعَهُ عَبْدَ اللَّهِ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ وَارِثًا لِوُجُودِ أَبِيهِ (یعنی عمہ عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر ولعلة )»
[فتح الباري لابن حجر (5/ 225 ط السلفية)]
No comments:
Post a Comment