بعض لوگوں نے معلوم نہیں کہاں سے یہ سمجھ لیا ہے کہ فقیہ کا مطلب ہوتا ہے حددرجہ ذہین ، و تیز دماغ !!!!!!
اب سوال یہ کہ کیا فقیہ کا واقعی یہی مفہوم ہے، اورفقہ صرف تیز دماغی کا نام ہے اگر یہ بات ہے تب تو وہ بہت بڑا ظالم شخص ہوگا تو محترم ڈاکٹرذاکرنائیک صاحب کو فقیہ عصر نہ مانے ، مولانا وحیدالدین خان صاحب کو فقیہ دھر نہ مانے ، مولانا مودودی صاحب کو رئیس الفقہاء نہ مانے ، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کو امیرالمؤمنین فی الفقہ نہ مانے ،کیونکہ ان حضرات کی ذہانت و تیز دماغی مسلم ہے ، بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ شبلی نعمانی نے کہا کہ آزاد دماغ عجائب خانہ میں رکھنے کے قابل ہے، واللہ اعلم ۔
یاد رہے کہ میں نے مثال میں ان شخصیات کو پیش کیا ہے جنہوں نے اپنی عمرکا بہت بڑا حصہ فہم دین میں صرف کیاہے، اورڈاکڑ ذاکرنائیک کے علاوہ دیگرشخصیات کو تو مولانا کے لقب سے یاد کیا جاتاہے۔
کیا علوی بھائی مذکورہ شخصیات کواپنے عصرکے عظیم فقہاء تسلیم کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اب آئیے دیکھتے ہیں فقیہ کا مطلب کیا ہوتا ہے :
ارشاد باری ہے:
{ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ } [التوبة: 122]
سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کون سی فقہ حاصل کرنے کا حکم ہے ؟؟؟؟؟
کیا صرف ذہانت اور اس کا استعمال مراد ہے ؟؟؟؟؟؟؟
اگر یہی مراد ہے تو تفقہ کے لئے انہیں گھر سے نکلنے کی ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ یہ حکم مسلمانوں کو ہورہاہے اور ہرمسلمان کے پاس دین کی بنیادوں باتوں کا علم ہوتا ہے اب اگرصرف ذہانت کی بنا پر بڑی سے بڑی فقاہت حاصل کی جاسکتی ہے تو یہ کام گھربیٹے بھی ہوسکتاہے !!!
اب اگر مذکورہ آیت میں فقہیہ بنانا مقصود تھا تو صرف کہنا چاہئے تھا کہ دین کا تمہارے پاس جس قدر بھی علم ہے اس میں اپنی ذہانت کو استعمال کرکے گھربیٹھے فقیہ بن جاؤ!!!!!!!!!
الغرض کہنے کامطلب یہ کے فقیہ کا مطلب عظیم ذہانت کا مالک ہونا نہیں بلکہ احکام دین سے واقف ہوناہے اور جس کے پاس احادیث کا جنتا زیادہ علم ہوگا اسے اسی کے بقدر فقاہت نصیب ہوگی۔
فہم نصوص کا دار مدار عقل وذہانت پر نہیں
یہ بات بھی غورطلب ہے کہ کیا نصوص کو محض اپنی عقل سے جس طرح چاہیں سمجھ سکتے ہیں ؟؟؟؟؟ کیاکسی شخص کو یہ اجازت ہے کہ وہ کسی نص شرعی کا جومفہوم اپنی عقل سے سمجھیں وہی مفہوم اسے پہنادے، اگر فہم نصوص کا دار ومدار عقل و ذہانت پر ہے تو آج سلفیت اور فھمنا مقید بفہم السلف کا نعرہ ایک لغو چیز ہے ۔
نصوص کا صحیح مفہوم وہی ہوسکتاہے جو عہد نبوی اور عہدصحابہ کے دور میں رائج تھا ، اورعہد نبوی وعہدصحابہ کے دورمیں کیا مفہوم رائج تھا اس کی معلومات عقل پرست کو نہیں بلکہ اسے حاصل ہوگی جو اس عہد کی باتوں (احادیث ) سے زیادہ سے زیادہ واقفیت رکھے گا۔
آیات و احادیث کے مفہوم کو دیگر آیات و احادیث متعین کرتی ہیں
یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آیات و احادیث کی تشریح دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے احادیث کی شروحات میں لکھی گئی کتابیں اس پر شاہد ہیں ، اب ظاہر سی بات ہے کہ جس کے پاس احادیث کی معلومات سب سے زیادہ ہوں گی دین
ناسخ و منسوخ ، مطلق و مقید ، مجمل و مبین ، عام و خاص وغیرہ مصلحات اصول فقہ :
بعض حدیث صحیح تو ہوتی ہے لیکن منسوخ ہوتی ہے مگر اس نسخ کا علم عقل سے نہیں بلکہ دیگر احادیث ہی سے ہوتاہے ۔
اسی طرح بعض احادیث مطلق ہوتی جب کہ حکم مقید ہوتاہے مگر اس تقید کا علم عقل سے نہیں بلکہ دیگر احادیث ہی سے ہوتاہے ۔
اسی طرح بعض احادیث مجمل ہوتی ہیں اوراس کی تبین عقل وذہانت سے ناممکن ہوتی ہے اس کے دیگر احادیث دیکھنا لازمی ہوتاہے۔
اس طرح بعض احادیث میں عمومی حکم ہوتا ہے لیکن بعض دیگر احادیث میں اس عموم سے بعض کو خاص کیا گیا ہوتا ہے ، اس تخصیص کا علم بھی عقل وذہانت سے نہیں بلکہ دیگراحادیث کی معرفت سے ہوتاہے۔
مقصود یہ کہ ناسخ و منسوخ ، مطلق و مقید ، مجمل و مبین ، عام و خاص وغیرہ اصول فقہ کی وہ بنیادی چیزیں ہیں کہ ان کی معرفت کے بغیر کوئی فقہاہت کے مقام پر پہنچ ہی نہیں سکتاہے اور اس معرفت کا ذریعہ عقل نہیں بلکہ دیگر احادیث ہیں۔
اس تفصیل سے بھی معلوم ہوا کہ کثرت احادیث کی معرفت رکھنے والا ہی بڑا فقیہ ہوسکتاہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فقہ میں دنیا بھر کے امام
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں کہا :
محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة الجعفي أبو عبد الله البخاري جبل الحفظ وإمام الدنيا في فقه الحديث [تقريب التهذيب 1/ 381]
غورکریں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کو صرف فقیہ نہیں کہا ہے کہ لوگ شور مچانے لگیں کہ محدث بھی توفقیہ ہوسکتا ہے بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ الفاظ پر غورکریں انہوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو إمام الدنيا في فقه الحديث کہا ہے !!!!!!!!!!
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ فقہ الحدیث میں دنیا بھر کے امام تھے ۔
سوال یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو دنیا بھر میں فقہ کی امامت کس چیز کی بدولت ملی؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جواب ایک ہی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امیر المومنین فی الحدیث تھے۔
فتح الباری بخاری کی سب سے عظیم شرح کیوں ؟؟؟؟
کسی بھی حدیث کی تشریح کا بنیادی مقصد یہ ہوتاہے کہ اس میں جو احکام ہیں وہ واضح کئے جائیں ، بعض محدثین نے اسی مقصد کی خاطر کتب احادیث کی شروحات لکھی ہیں ، جن میں سب سے مشہور شرح فتح الباری ہے جو صحیح بخاری کی شرح ہے۔
صحیح بخاری کی یہ شرح سب سے بہترین شرح قرار پائی حتی کہ کہا گیا : لاھجرہ بعد الفتح ۔
سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری کی شروحات مین فتح الباری کو اس قدر مقبولیت کیوں ملی ؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا اس میں فقہی اقوال ہیں اس لئے ؟؟؟ ہرگز نہیں کیونکہ گرچہ اس میں فقہی اقوال ہیں مگر حدیث کی تشریح میں بکثرت دیگر احادیث اوران کے مختلف طرق بے مثال طریقہ سے جمع کئے گئے ہیں، اورتشریح حدیث میں اس قدر احادیث نقل کی گئی ہیں کہ اہل علم میں اس شرح کو قاموس الحدیث کہا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ احادیث صحیح بخاری کی فقہ کو سب سے بہتر طور پر حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے پیش کیا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ کیوں؟؟؟؟
کیا حافظ ابن حجررحمہ اللہ فقیہ تھے اس لئے ؟ ہرگز نہیں !
کیونکہ ان سے پہلے بھی بخاری کی شروحات ان لوگوں کی قلم سے آچکی تھیں جن کی فقاہت مسلم تھی ، لیکن حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی شرح کو زیادہ مفید اس لئے بن سکی کیونکہ اس کے مصنف حدیث کے سب سے بڑے جانکار اورحافظ تھے حتی کہ انہیں خاتمۃ الحفاظ کہا گیا۔
قارئین فتح الباری پڑھ کردیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کسی قول کی تردید کرتے ہیں تو اس کے مخالف دوسری حدث پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کوئی ایسا قول نقل کرتے ہیں جو بہت ہی معقول معلوم ہوتا ہے ، متعلقہ مسئلہ میں تقریبا ہرذہین شخص کی زبان پر وہی قول آتا ہے مگر جب حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس کے خلاف واضح حدیث پیش کرتے ہیں تو یہ معقول قول مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتاہے۔
الغرض یہ کہ حدیث کی بہترتشریح اور فقہ وہی پیش کرسکتاہے جو احادیث کا سب سے زیادہ جانکار ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ائمہ اربعہ سے بھی بڑے فقیہ
محترم ابوالحسن علوی بھائی نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا علم ائمہ اربعہ سے بھی زیادہ تھا ، لیکن کیا کبھی غورکیا گیا کہ ایسا کیوں ؟ اس کا جواب بس یہی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے پاس احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔
حتی کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا کہ جس حدیث کو ابن تیمہ رحمہ اللہ نہ جانیں وہ حدیث ہی نہیں ۔
فقا ہت میں ضبط کا اہم کردار
اوپر بتلایا جاچکا ہے کی آیات و احادیث کی تشریح دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے ، اب اگر کسی کا ضبط عمدہ ہے تو آیات و احادیث کے سمجھنے میں اس کا ضبط بہت بڑا ممد و معاون ثابت ہوتا ہے کیونکہ قوت ضبط کی بدولت اس کے سامنے بیک وقت آیات و احادیث کے تمام نصوص مستحضرر ہتے ہیں ، دریں صورت جب بھی اس کے سامنے ایک آیت یا حدیث کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی تو اس کی تشریح کرنے والی دیگر آیت و حدیث فورا اس کے سامنے مستحضرہوجائے گی، پھر اس کے لئے پیش نظر آیت یا حدیث کا مفہوم سمجھنا بہت ہی آسان ہوگا۔
اس کے برعکس جس کاضبط کمزور ہوگا اس کی فقاہت بھی لازمی طورپر کمزورہوگی کیونکہ وہ جس آیت یا حدیث کو سمجھنے کی کوشش کرے گا اس آیت یا حدیث کی تشریح میں موجود دیگر آیت یا حدیث یا اثر تک خفت ضبط کے باعث معا اس کی رسائی نہیں ہوسکتی جس کے سبب وہ پیش نظر آیت وحدیث کو سمجھنے میں ٹھرکر کھاسکتاہے۔
عظیم ضابط کی عظیم فقاہت
امام بخاری رحمہ اللہ کا ضبط محتاج تعارف نہیں ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جبل الحفظ [تقريب التهذيب 1/ 381]۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا حافظہ پہاڑ کے مانند ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی بابت مشہورہے کہ فقہ البخاری فی تراجمہ اور یہ بات سوفی صد درست ہے۔
کوئی بھی شخص امام بخاری رحمہ اللہ کے تراجم پڑھتا ہے اور پھر ایک ہی بات کو کس طرح ان کی ذکردہ مختلف احادیث میں پاتا ہے تو حیران رہ جاتاہے کہ کس طرح امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر بیک وقت ان تمام نصوص پر ہے ، یہ جبل الحفظ اور قوت ضبط ہی کا کمال تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر بیک وقت تمام متعلقہ نصوص پر ہواکرتی تھی جس کے نتیجے میں ایک عظیم فقاہت کا نمونہ سامنے اتا تھا۔
کثیر احادیث کی معرفت ، ذہانت میں بھی اضافہ کرتی ہیں:
جوشخص کسی فن میں ماہر ہوتا ہے تو اس میں اس کا ذہن زیادہ تیز کام کرتاہے اورمذکورہ سطور میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ احادیث ہوں گی اسی کو سب سے بڑی فقاہت بھی ملے گی، گویا کہ کثرت احادیث کے سبب ملنے والی عظیم فقاہت سے ایک محدث کی ذہانت میں بھی اضافہ ہوتا رہتاہے اوربکثرت احادیث کی واقفیت کی بنا پر اس کا ذہن و مزاج ایسا بن جاتاہے کہ پیش نظر حدیث بہتر سے بہتر مفہوم سمجھ سکتاہے، اس کی مثال ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے متلعق وہ واقعہ ہے جس کاذکر آگے آرہاہے کہ اس واقعہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ابوبکر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے جب کہ دیگرلوگ نہ سمجھ سکتے ، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے کا یہ ملکہ انہیں کثرت احادیث دانی ہی کی بدولت ملا۔
اوراسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری صراحت کے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا کہ :
لَقَدْ ظَنَنْتُ، يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لاَ يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ، (صحيح البخاري 8/ 117 رقم 6570 )
یعنی :
اے ابوہریرہ میرا خیال تھا کہ کہ تم سے پہلے کوئی شخص مجھ سے اس بات کے متعلق سوال نہیں کرے گا۔ اس سبب سے کہ میں نے تم کو حدیث پر بہت زیادہ حریص دیکھا ۔
ضعیف احادیث نام نہاد فقہاء کا سرمایہ
جو محدث نہیں ہوتا ہے اس کے پاس ایک مصیبت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے پاس احادیث کی صحت وضعف کا علم نہیں ہوتاہے اور کون راوی ثقہ ہے اورکون ضعیف ، اس سے بھی ناواقف ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات تو یہ خود بھی ضعیف ہوتاہے جیسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، موصوف اول تو بہت کم ہی احادیث سے واقف تھے اس پر مستزاد یہ کے موصوف سئی الحفظ بھی تھے ، اسی لئے کتاب وسنت اور اوراقوال صحابہ کے خلاف جتنے فتاوے ان کے ملتے ہیں اورکسی کے نہیں۔
الغرض یہ اصل فقاہت ثابت شدہ نصوص کو سمجھنا ہے اورجس مسکین کو یہ بھی نہ معلوم ہو کہ ثابت شدہ نص کون ہے اور غیرثابت شدہ نص کون ، اس کے پاس دین کی فقاہت کیا خاک ہوگی۔
ابوبکررضی اللہ عنہ بشہادت صحابہ سب سے بڑے فقہیہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ» ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ العَبْدَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، [صحيح البخاري 1/ 100]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا (کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر خدا نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔
اوربعض روایت میں ہے کہ:
فَلَمْ يَفْطَنْ لَهَا أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ [مسند أحمد 18/ 369]
اوربعض میں ہے:
فَلَمْ يَفْهَمْهَا مِنَ الْقَوْمِ أَحَدٌ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ [الحوض والكوثر لبقي بن مخلد ص: 82]
یعنی ابوبکررضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے اور بعد میں صحابہ کرام نے اقرار کیا کہ ہم میں سب سے زیادہ سمجھدار ابوبکررضی اللہ عنہ تھے۔
سوال یہ ہے کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کو یہ غیر معمولی فقاہت کیسے ملی ، حتی کہ انہیں صحابہ میں سب سے بڑا فقیہ قرار دیا گیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس کی وجہ یہی ہے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت سب سے زیادہ جانکاری ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی اسی لئے اس کے نتیجہ میں تمام صحابہ میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سب سے بڑے فقیہ بھی تھے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ؟؟
امام شافعی رحمہ اللہ کا اصول فقہ کا بانی سمجھا جاتاہے اب اس بانی اصول الفقہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ہوتا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس، قلت: على الإنصاف؟ قال: نعم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم يعني مالكاً، قلت: فمن أعلم بالسنة؟ صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم. قلت : فأنشدك بالله من أعلم بأقاويل أصحاب محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم، قلت: فلم يبق إلا القياس والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الأصول فعلى أي شيء يقيس؟!!!! [الجرح والتعديل موافق 1/ 12 واسنادہ صحیح]۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن الحسن نے کہا: کہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ رحمہما اللہ میں سے زیادہ جانکار کون ہیں؟
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا انصاف کے ساتھ بتلادوں؟
محد بن حسن نے کہا: جی ہاں۔
امام شافعی کہتے ہیں پھر میں نے کہا اللہ کے واسطے بتاؤ قران کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟
محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ قران کے زیادہ جانکار تھے۔
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے پوچھا : اچھا یہ بتاؤ حدیث کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟
محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ حدیث کے زیادہ جانکار تھے۔
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اب باقی بچا قیاس تو قیاس انہیں قران وحدیث ہی پر ہوتا ہے پس جو شخص (ابوحنیفہ) اصول یعنی قران و حدیث سے ناواقف ہو وہ قیاس کس پر کرے گا؟؟؟
اس پورے کام میں غورکریں گے توصاف معلوم ہوتا ہے امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ حدیث (نصوص کتاب وسنت) کا جانکار ہوگا، اسی لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قران و حدیث میں کم علم کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی امام مالک رحمہ اللہ سے کمزور بتلایا ہے۔
محدثین کی عظیم فقاہت کی بابت عبدالحئی لکنوی رحمہ اللہ کی گواہی
" ومن نظر بنظر الإنصاف، وغاص في بحار الفقه والأصول متجنباً الاعتساف؛ يعلم علماً يقينياً أن أكثر المسائل الفرعية والأصلية التي اختلف العلماء فيها؛ فمذهب المحدِّثين فيها أقوى من مذاهب غيرهم، وإني كلما أسير في شُعَب الاختلاف؛ أجد قول المحدِّثين فيه قريباً من الإنصاف، فلله دَرُّهم، وعليه شكرهم - كذا الأصل -، كيف لا؛ وهم ورثة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حقاً، ونواب شرعه صدقاً؟! حشرنا الله في زمرتهم، وأماتنا على حبهم وسيرتهم " [ إمام الكلام فيما يتعلق بالقراءة خلف الإمام (ص 156) ]
اس پورے مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ سب سے بڑ ا فقیہ وہی ہوسکتا ہے جو سب زیادہ احادیث کا جاننے والا ہوگا۔
اب سوال یہ کہ کیا فقیہ کا واقعی یہی مفہوم ہے، اورفقہ صرف تیز دماغی کا نام ہے اگر یہ بات ہے تب تو وہ بہت بڑا ظالم شخص ہوگا تو محترم ڈاکٹرذاکرنائیک صاحب کو فقیہ عصر نہ مانے ، مولانا وحیدالدین خان صاحب کو فقیہ دھر نہ مانے ، مولانا مودودی صاحب کو رئیس الفقہاء نہ مانے ، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کو امیرالمؤمنین فی الفقہ نہ مانے ،کیونکہ ان حضرات کی ذہانت و تیز دماغی مسلم ہے ، بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ شبلی نعمانی نے کہا کہ آزاد دماغ عجائب خانہ میں رکھنے کے قابل ہے، واللہ اعلم ۔
یاد رہے کہ میں نے مثال میں ان شخصیات کو پیش کیا ہے جنہوں نے اپنی عمرکا بہت بڑا حصہ فہم دین میں صرف کیاہے، اورڈاکڑ ذاکرنائیک کے علاوہ دیگرشخصیات کو تو مولانا کے لقب سے یاد کیا جاتاہے۔
کیا علوی بھائی مذکورہ شخصیات کواپنے عصرکے عظیم فقہاء تسلیم کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اب آئیے دیکھتے ہیں فقیہ کا مطلب کیا ہوتا ہے :
ارشاد باری ہے:
{ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ } [التوبة: 122]
سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کون سی فقہ حاصل کرنے کا حکم ہے ؟؟؟؟؟
کیا صرف ذہانت اور اس کا استعمال مراد ہے ؟؟؟؟؟؟؟
اگر یہی مراد ہے تو تفقہ کے لئے انہیں گھر سے نکلنے کی ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ یہ حکم مسلمانوں کو ہورہاہے اور ہرمسلمان کے پاس دین کی بنیادوں باتوں کا علم ہوتا ہے اب اگرصرف ذہانت کی بنا پر بڑی سے بڑی فقاہت حاصل کی جاسکتی ہے تو یہ کام گھربیٹے بھی ہوسکتاہے !!!
اب اگر مذکورہ آیت میں فقہیہ بنانا مقصود تھا تو صرف کہنا چاہئے تھا کہ دین کا تمہارے پاس جس قدر بھی علم ہے اس میں اپنی ذہانت کو استعمال کرکے گھربیٹھے فقیہ بن جاؤ!!!!!!!!!
الغرض کہنے کامطلب یہ کے فقیہ کا مطلب عظیم ذہانت کا مالک ہونا نہیں بلکہ احکام دین سے واقف ہوناہے اور جس کے پاس احادیث کا جنتا زیادہ علم ہوگا اسے اسی کے بقدر فقاہت نصیب ہوگی۔
فہم نصوص کا دار مدار عقل وذہانت پر نہیں
یہ بات بھی غورطلب ہے کہ کیا نصوص کو محض اپنی عقل سے جس طرح چاہیں سمجھ سکتے ہیں ؟؟؟؟؟ کیاکسی شخص کو یہ اجازت ہے کہ وہ کسی نص شرعی کا جومفہوم اپنی عقل سے سمجھیں وہی مفہوم اسے پہنادے، اگر فہم نصوص کا دار ومدار عقل و ذہانت پر ہے تو آج سلفیت اور فھمنا مقید بفہم السلف کا نعرہ ایک لغو چیز ہے ۔
نصوص کا صحیح مفہوم وہی ہوسکتاہے جو عہد نبوی اور عہدصحابہ کے دور میں رائج تھا ، اورعہد نبوی وعہدصحابہ کے دورمیں کیا مفہوم رائج تھا اس کی معلومات عقل پرست کو نہیں بلکہ اسے حاصل ہوگی جو اس عہد کی باتوں (احادیث ) سے زیادہ سے زیادہ واقفیت رکھے گا۔
آیات و احادیث کے مفہوم کو دیگر آیات و احادیث متعین کرتی ہیں
یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آیات و احادیث کی تشریح دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے احادیث کی شروحات میں لکھی گئی کتابیں اس پر شاہد ہیں ، اب ظاہر سی بات ہے کہ جس کے پاس احادیث کی معلومات سب سے زیادہ ہوں گی دین
ناسخ و منسوخ ، مطلق و مقید ، مجمل و مبین ، عام و خاص وغیرہ مصلحات اصول فقہ :
بعض حدیث صحیح تو ہوتی ہے لیکن منسوخ ہوتی ہے مگر اس نسخ کا علم عقل سے نہیں بلکہ دیگر احادیث ہی سے ہوتاہے ۔
اسی طرح بعض احادیث مطلق ہوتی جب کہ حکم مقید ہوتاہے مگر اس تقید کا علم عقل سے نہیں بلکہ دیگر احادیث ہی سے ہوتاہے ۔
اسی طرح بعض احادیث مجمل ہوتی ہیں اوراس کی تبین عقل وذہانت سے ناممکن ہوتی ہے اس کے دیگر احادیث دیکھنا لازمی ہوتاہے۔
اس طرح بعض احادیث میں عمومی حکم ہوتا ہے لیکن بعض دیگر احادیث میں اس عموم سے بعض کو خاص کیا گیا ہوتا ہے ، اس تخصیص کا علم بھی عقل وذہانت سے نہیں بلکہ دیگراحادیث کی معرفت سے ہوتاہے۔
مقصود یہ کہ ناسخ و منسوخ ، مطلق و مقید ، مجمل و مبین ، عام و خاص وغیرہ اصول فقہ کی وہ بنیادی چیزیں ہیں کہ ان کی معرفت کے بغیر کوئی فقہاہت کے مقام پر پہنچ ہی نہیں سکتاہے اور اس معرفت کا ذریعہ عقل نہیں بلکہ دیگر احادیث ہیں۔
اس تفصیل سے بھی معلوم ہوا کہ کثرت احادیث کی معرفت رکھنے والا ہی بڑا فقیہ ہوسکتاہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فقہ میں دنیا بھر کے امام
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں کہا :
محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة الجعفي أبو عبد الله البخاري جبل الحفظ وإمام الدنيا في فقه الحديث [تقريب التهذيب 1/ 381]
غورکریں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کو صرف فقیہ نہیں کہا ہے کہ لوگ شور مچانے لگیں کہ محدث بھی توفقیہ ہوسکتا ہے بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ الفاظ پر غورکریں انہوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو إمام الدنيا في فقه الحديث کہا ہے !!!!!!!!!!
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ فقہ الحدیث میں دنیا بھر کے امام تھے ۔
سوال یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو دنیا بھر میں فقہ کی امامت کس چیز کی بدولت ملی؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جواب ایک ہی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امیر المومنین فی الحدیث تھے۔
فتح الباری بخاری کی سب سے عظیم شرح کیوں ؟؟؟؟
کسی بھی حدیث کی تشریح کا بنیادی مقصد یہ ہوتاہے کہ اس میں جو احکام ہیں وہ واضح کئے جائیں ، بعض محدثین نے اسی مقصد کی خاطر کتب احادیث کی شروحات لکھی ہیں ، جن میں سب سے مشہور شرح فتح الباری ہے جو صحیح بخاری کی شرح ہے۔
صحیح بخاری کی یہ شرح سب سے بہترین شرح قرار پائی حتی کہ کہا گیا : لاھجرہ بعد الفتح ۔
سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری کی شروحات مین فتح الباری کو اس قدر مقبولیت کیوں ملی ؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا اس میں فقہی اقوال ہیں اس لئے ؟؟؟ ہرگز نہیں کیونکہ گرچہ اس میں فقہی اقوال ہیں مگر حدیث کی تشریح میں بکثرت دیگر احادیث اوران کے مختلف طرق بے مثال طریقہ سے جمع کئے گئے ہیں، اورتشریح حدیث میں اس قدر احادیث نقل کی گئی ہیں کہ اہل علم میں اس شرح کو قاموس الحدیث کہا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ احادیث صحیح بخاری کی فقہ کو سب سے بہتر طور پر حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے پیش کیا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ کیوں؟؟؟؟
کیا حافظ ابن حجررحمہ اللہ فقیہ تھے اس لئے ؟ ہرگز نہیں !
کیونکہ ان سے پہلے بھی بخاری کی شروحات ان لوگوں کی قلم سے آچکی تھیں جن کی فقاہت مسلم تھی ، لیکن حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی شرح کو زیادہ مفید اس لئے بن سکی کیونکہ اس کے مصنف حدیث کے سب سے بڑے جانکار اورحافظ تھے حتی کہ انہیں خاتمۃ الحفاظ کہا گیا۔
قارئین فتح الباری پڑھ کردیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کسی قول کی تردید کرتے ہیں تو اس کے مخالف دوسری حدث پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کوئی ایسا قول نقل کرتے ہیں جو بہت ہی معقول معلوم ہوتا ہے ، متعلقہ مسئلہ میں تقریبا ہرذہین شخص کی زبان پر وہی قول آتا ہے مگر جب حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس کے خلاف واضح حدیث پیش کرتے ہیں تو یہ معقول قول مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتاہے۔
الغرض یہ کہ حدیث کی بہترتشریح اور فقہ وہی پیش کرسکتاہے جو احادیث کا سب سے زیادہ جانکار ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ائمہ اربعہ سے بھی بڑے فقیہ
محترم ابوالحسن علوی بھائی نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا علم ائمہ اربعہ سے بھی زیادہ تھا ، لیکن کیا کبھی غورکیا گیا کہ ایسا کیوں ؟ اس کا جواب بس یہی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے پاس احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔
حتی کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا کہ جس حدیث کو ابن تیمہ رحمہ اللہ نہ جانیں وہ حدیث ہی نہیں ۔
فقا ہت میں ضبط کا اہم کردار
اوپر بتلایا جاچکا ہے کی آیات و احادیث کی تشریح دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے ، اب اگر کسی کا ضبط عمدہ ہے تو آیات و احادیث کے سمجھنے میں اس کا ضبط بہت بڑا ممد و معاون ثابت ہوتا ہے کیونکہ قوت ضبط کی بدولت اس کے سامنے بیک وقت آیات و احادیث کے تمام نصوص مستحضرر ہتے ہیں ، دریں صورت جب بھی اس کے سامنے ایک آیت یا حدیث کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی تو اس کی تشریح کرنے والی دیگر آیت و حدیث فورا اس کے سامنے مستحضرہوجائے گی، پھر اس کے لئے پیش نظر آیت یا حدیث کا مفہوم سمجھنا بہت ہی آسان ہوگا۔
اس کے برعکس جس کاضبط کمزور ہوگا اس کی فقاہت بھی لازمی طورپر کمزورہوگی کیونکہ وہ جس آیت یا حدیث کو سمجھنے کی کوشش کرے گا اس آیت یا حدیث کی تشریح میں موجود دیگر آیت یا حدیث یا اثر تک خفت ضبط کے باعث معا اس کی رسائی نہیں ہوسکتی جس کے سبب وہ پیش نظر آیت وحدیث کو سمجھنے میں ٹھرکر کھاسکتاہے۔
عظیم ضابط کی عظیم فقاہت
امام بخاری رحمہ اللہ کا ضبط محتاج تعارف نہیں ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جبل الحفظ [تقريب التهذيب 1/ 381]۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا حافظہ پہاڑ کے مانند ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی بابت مشہورہے کہ فقہ البخاری فی تراجمہ اور یہ بات سوفی صد درست ہے۔
کوئی بھی شخص امام بخاری رحمہ اللہ کے تراجم پڑھتا ہے اور پھر ایک ہی بات کو کس طرح ان کی ذکردہ مختلف احادیث میں پاتا ہے تو حیران رہ جاتاہے کہ کس طرح امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر بیک وقت ان تمام نصوص پر ہے ، یہ جبل الحفظ اور قوت ضبط ہی کا کمال تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر بیک وقت تمام متعلقہ نصوص پر ہواکرتی تھی جس کے نتیجے میں ایک عظیم فقاہت کا نمونہ سامنے اتا تھا۔
کثیر احادیث کی معرفت ، ذہانت میں بھی اضافہ کرتی ہیں:
جوشخص کسی فن میں ماہر ہوتا ہے تو اس میں اس کا ذہن زیادہ تیز کام کرتاہے اورمذکورہ سطور میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ احادیث ہوں گی اسی کو سب سے بڑی فقاہت بھی ملے گی، گویا کہ کثرت احادیث کے سبب ملنے والی عظیم فقاہت سے ایک محدث کی ذہانت میں بھی اضافہ ہوتا رہتاہے اوربکثرت احادیث کی واقفیت کی بنا پر اس کا ذہن و مزاج ایسا بن جاتاہے کہ پیش نظر حدیث بہتر سے بہتر مفہوم سمجھ سکتاہے، اس کی مثال ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے متلعق وہ واقعہ ہے جس کاذکر آگے آرہاہے کہ اس واقعہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ابوبکر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے جب کہ دیگرلوگ نہ سمجھ سکتے ، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے کا یہ ملکہ انہیں کثرت احادیث دانی ہی کی بدولت ملا۔
اوراسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری صراحت کے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا کہ :
لَقَدْ ظَنَنْتُ، يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لاَ يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ، (صحيح البخاري 8/ 117 رقم 6570 )
یعنی :
اے ابوہریرہ میرا خیال تھا کہ کہ تم سے پہلے کوئی شخص مجھ سے اس بات کے متعلق سوال نہیں کرے گا۔ اس سبب سے کہ میں نے تم کو حدیث پر بہت زیادہ حریص دیکھا ۔
ضعیف احادیث نام نہاد فقہاء کا سرمایہ
جو محدث نہیں ہوتا ہے اس کے پاس ایک مصیبت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے پاس احادیث کی صحت وضعف کا علم نہیں ہوتاہے اور کون راوی ثقہ ہے اورکون ضعیف ، اس سے بھی ناواقف ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات تو یہ خود بھی ضعیف ہوتاہے جیسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، موصوف اول تو بہت کم ہی احادیث سے واقف تھے اس پر مستزاد یہ کے موصوف سئی الحفظ بھی تھے ، اسی لئے کتاب وسنت اور اوراقوال صحابہ کے خلاف جتنے فتاوے ان کے ملتے ہیں اورکسی کے نہیں۔
الغرض یہ اصل فقاہت ثابت شدہ نصوص کو سمجھنا ہے اورجس مسکین کو یہ بھی نہ معلوم ہو کہ ثابت شدہ نص کون ہے اور غیرثابت شدہ نص کون ، اس کے پاس دین کی فقاہت کیا خاک ہوگی۔
ابوبکررضی اللہ عنہ بشہادت صحابہ سب سے بڑے فقہیہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ» ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ العَبْدَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، [صحيح البخاري 1/ 100]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا (کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر خدا نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔
اوربعض روایت میں ہے کہ:
فَلَمْ يَفْطَنْ لَهَا أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ [مسند أحمد 18/ 369]
اوربعض میں ہے:
فَلَمْ يَفْهَمْهَا مِنَ الْقَوْمِ أَحَدٌ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ [الحوض والكوثر لبقي بن مخلد ص: 82]
یعنی ابوبکررضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے اور بعد میں صحابہ کرام نے اقرار کیا کہ ہم میں سب سے زیادہ سمجھدار ابوبکررضی اللہ عنہ تھے۔
سوال یہ ہے کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کو یہ غیر معمولی فقاہت کیسے ملی ، حتی کہ انہیں صحابہ میں سب سے بڑا فقیہ قرار دیا گیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس کی وجہ یہی ہے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت سب سے زیادہ جانکاری ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی اسی لئے اس کے نتیجہ میں تمام صحابہ میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سب سے بڑے فقیہ بھی تھے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ؟؟
امام شافعی رحمہ اللہ کا اصول فقہ کا بانی سمجھا جاتاہے اب اس بانی اصول الفقہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ہوتا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس، قلت: على الإنصاف؟ قال: نعم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم يعني مالكاً، قلت: فمن أعلم بالسنة؟ صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم. قلت : فأنشدك بالله من أعلم بأقاويل أصحاب محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم، قلت: فلم يبق إلا القياس والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الأصول فعلى أي شيء يقيس؟!!!! [الجرح والتعديل موافق 1/ 12 واسنادہ صحیح]۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن الحسن نے کہا: کہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ رحمہما اللہ میں سے زیادہ جانکار کون ہیں؟
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا انصاف کے ساتھ بتلادوں؟
محد بن حسن نے کہا: جی ہاں۔
امام شافعی کہتے ہیں پھر میں نے کہا اللہ کے واسطے بتاؤ قران کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟
محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ قران کے زیادہ جانکار تھے۔
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے پوچھا : اچھا یہ بتاؤ حدیث کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟
محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ حدیث کے زیادہ جانکار تھے۔
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اب باقی بچا قیاس تو قیاس انہیں قران وحدیث ہی پر ہوتا ہے پس جو شخص (ابوحنیفہ) اصول یعنی قران و حدیث سے ناواقف ہو وہ قیاس کس پر کرے گا؟؟؟
اس پورے کام میں غورکریں گے توصاف معلوم ہوتا ہے امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ حدیث (نصوص کتاب وسنت) کا جانکار ہوگا، اسی لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قران و حدیث میں کم علم کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی امام مالک رحمہ اللہ سے کمزور بتلایا ہے۔
محدثین کی عظیم فقاہت کی بابت عبدالحئی لکنوی رحمہ اللہ کی گواہی
" ومن نظر بنظر الإنصاف، وغاص في بحار الفقه والأصول متجنباً الاعتساف؛ يعلم علماً يقينياً أن أكثر المسائل الفرعية والأصلية التي اختلف العلماء فيها؛ فمذهب المحدِّثين فيها أقوى من مذاهب غيرهم، وإني كلما أسير في شُعَب الاختلاف؛ أجد قول المحدِّثين فيه قريباً من الإنصاف، فلله دَرُّهم، وعليه شكرهم - كذا الأصل -، كيف لا؛ وهم ورثة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حقاً، ونواب شرعه صدقاً؟! حشرنا الله في زمرتهم، وأماتنا على حبهم وسيرتهم " [ إمام الكلام فيما يتعلق بالقراءة خلف الإمام (ص 156) ]
اس پورے مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ سب سے بڑ ا فقیہ وہی ہوسکتا ہے جو سب زیادہ احادیث کا جاننے والا ہوگا۔
بعض شبہات کا ازالہ
پہلا شبہہ : قلت روایت سے قلت حدیث دانی پر استدلال
اقتباس:
اگر سب سے بڑا فقیہ سب سے بڑا محدث ہوتا تو سب سے بڑے فقیہ کی سب سے بڑی مرتب شدہ کتب احادیث موجود ہوتی۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ صحابہ کرام میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو احادیث کی بہت کم جانکاری تھی ، کیونکہ مذکورہ فلسفہ کو بروئے کار لایا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بہت زیادہ احادیث معلوم ہوتیں تو ان کی مرویات بھی بہت زیادہ ہوتیں !!!!!!!!!!!!!
لیکن یہ بات کسی بھی صورت میں قابل تسلیم نہیں ہوسکتی کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کو احادیث کی بہت کم جانکاری تھی
ابوبکررضی اللہ عنہ احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ سے واقف تھے ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، درج ذیل باتوں پر غورکریں:
ابوبکررضی اللہ عنہ بالغ مردوں میں پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں اوروفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے۔
ابوبکررضی اللہ عنہ دیگرصحابہ کی بنسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ وقت گذارتے تھے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ ھجرت کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یعنی ہر اہم موڑپر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکثر ہوا کرتے تھے۔
اپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکررضی اللہ عنہ کے گھر برابر آتے جاتے تھے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قولی ، فعلی ، تقریری ، اور وصفی ، ہر طرح کی احادیث کی بابت سب سے زیادہ علم ابو بکررضی اللہ عنہ ہی کو ہوسکتاہے، کیونکہ ابوبکر رضئ اللہ عنہ کو آپ کی صحبت میں دیگر صحابہ کی بنست زیادہ وقت دیتے تھے ۔
ابوبکررضی اللہ عنہ کی کثرت حدیث دانی پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل:
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» قَالَ الْأَشَجُّ فِي رِوَايَتِهِ: مَكَانَ سِلْمًا سِنًّا،[صحيح مسلم 1/ 465 رقم 673]
اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موجود گی میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امام بنایا۔
إبراهيم بن علي الشيرازي (المتوفى: 476هـ) لکھتے ہیں:
وكان من أعلم الصحابة، قدمه رسول الله صلى الله عليه وسلم للصلاة بالناس في حياته، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ليؤمكم أقرأكم لكتاب الله عز وجل، فإن كنتم في القراءة سواء فليؤمكم أعلمكم بالسنة، فإن كنتم في السنة سواء فليؤمكم أقدمكم هجرة، فإن كنتم في الهجرة سواء فليؤمكم أكبركم سناً ؛ فلو لم يكن أعلمهم بالسنة لما قدم " [طبقات الفقهاء ص: 36]
معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ میں سب سے زیادہ حدیث کے جانکار تھے ، لیکن انہوں نے اس ذخیرہ احادیث کو بعض اسباب کی بناپر بیان نہیں کیا ہے ، لیکن ابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کا زیادہ احادیث کو بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ زیادہ احادیث کے جانکار بھی نہیں تھے ، کیونکہ کسی کے پاس زیادہ سے زیادہ احادیث کا علم ہونا الگ بات ہے اور کسی کا زیادہ سے زیادہ احادیث کا بیان کرنا الگ بات ہے، دوسری چیز سے پہلی چیز کی نفی ہرگز لازم نہیں آتی۔
ایک مثال :
بہادری کی مثال لیں ایک شخص بہت بڑا بہادر اچھی قوت و طاقت کا مالک ہے لیکن وہ لڑائی میں شاذو نادر ہی شریک ہوا جب کہ ایک دوسرا شخص ہے جو اس سے کم بہادر ہے لیکن اس نے لڑائی میں زیادہ شرکت کی اوراچھے مظاہرے کئے ہیں تو کیا اس دوسرے شخص کو پہلے شخص سے زیاد بہادر کہا جائے گا۔
ابوحنیفہ اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ۔
ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ احادیث کے بہت کم جانکار تھے حدیث میں ان کی کوئی کتاب نہیں تو بے چارے مقلدین یہی کہتے ہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث بیان نہیں کیا ہے لیکن وہ حدیث کے بہت بڑے جانکار تھے ۔
قارئین غور کریں کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ابوحنیفہ کی بات آئے تو ان کی قلت روایت کو قلت حدیث دانی کی دلیل نہ مانا جائے اور جب ابوبکرالصدیق یا دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ کی بات آئے تو بڑی جرات کے ساتھ یہ کہہ دیا جائے ان کے پاس احادیث کم تھیں کیونکہ ان سے کم احادیث ہی مروی ہیں ۔
واضح رہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جس طرح احادیث کی روایت کم کی ہے اسی طرح وہ حدیث کی معلومات بھی بہت کم رکھتے ہیں ، ان دونوں چیزوں پر الگ الگ سے دلائل موجود ہیں جن کی تفصیل کے لئے ایک پورے مقالہ کی ضروت ہے۔
لیکن ابوبکررضی اللہ عنہ کا ایسا معاملہ نہیں بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے گرچہ کم احادیث کی روایت کی ہے مگر اس بات کے دلائل موجود ہیں کہ وہ احادیث کے سب سے بڑے جانکار تھے جیساکہ تفصیل کی گئی۔
خلاصہ کلام یہ کہ کسی سے کم احادیث کا مروی ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ احادیث سے کم واقف تھے بلکہ یہ دونوں الگ الگ بات ہے ، اور دونوں کے علاحدہ علاحدہ دلائل کی ضرورت ہے ۔
پہلا شبہہ : قلت روایت سے قلت حدیث دانی پر استدلال
اقتباس:
اگر سب سے بڑا فقیہ سب سے بڑا محدث ہوتا تو سب سے بڑے فقیہ کی سب سے بڑی مرتب شدہ کتب احادیث موجود ہوتی۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ صحابہ کرام میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو احادیث کی بہت کم جانکاری تھی ، کیونکہ مذکورہ فلسفہ کو بروئے کار لایا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بہت زیادہ احادیث معلوم ہوتیں تو ان کی مرویات بھی بہت زیادہ ہوتیں !!!!!!!!!!!!!
لیکن یہ بات کسی بھی صورت میں قابل تسلیم نہیں ہوسکتی کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کو احادیث کی بہت کم جانکاری تھی
ابوبکررضی اللہ عنہ احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ سے واقف تھے ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، درج ذیل باتوں پر غورکریں:
ابوبکررضی اللہ عنہ بالغ مردوں میں پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں اوروفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے۔
ابوبکررضی اللہ عنہ دیگرصحابہ کی بنسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ وقت گذارتے تھے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ ھجرت کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یعنی ہر اہم موڑپر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکثر ہوا کرتے تھے۔
اپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکررضی اللہ عنہ کے گھر برابر آتے جاتے تھے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قولی ، فعلی ، تقریری ، اور وصفی ، ہر طرح کی احادیث کی بابت سب سے زیادہ علم ابو بکررضی اللہ عنہ ہی کو ہوسکتاہے، کیونکہ ابوبکر رضئ اللہ عنہ کو آپ کی صحبت میں دیگر صحابہ کی بنست زیادہ وقت دیتے تھے ۔
ابوبکررضی اللہ عنہ کی کثرت حدیث دانی پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل:
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» قَالَ الْأَشَجُّ فِي رِوَايَتِهِ: مَكَانَ سِلْمًا سِنًّا،[صحيح مسلم 1/ 465 رقم 673]
اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موجود گی میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امام بنایا۔
إبراهيم بن علي الشيرازي (المتوفى: 476هـ) لکھتے ہیں:
وكان من أعلم الصحابة، قدمه رسول الله صلى الله عليه وسلم للصلاة بالناس في حياته، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ليؤمكم أقرأكم لكتاب الله عز وجل، فإن كنتم في القراءة سواء فليؤمكم أعلمكم بالسنة، فإن كنتم في السنة سواء فليؤمكم أقدمكم هجرة، فإن كنتم في الهجرة سواء فليؤمكم أكبركم سناً ؛ فلو لم يكن أعلمهم بالسنة لما قدم " [طبقات الفقهاء ص: 36]
معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ میں سب سے زیادہ حدیث کے جانکار تھے ، لیکن انہوں نے اس ذخیرہ احادیث کو بعض اسباب کی بناپر بیان نہیں کیا ہے ، لیکن ابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کا زیادہ احادیث کو بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ زیادہ احادیث کے جانکار بھی نہیں تھے ، کیونکہ کسی کے پاس زیادہ سے زیادہ احادیث کا علم ہونا الگ بات ہے اور کسی کا زیادہ سے زیادہ احادیث کا بیان کرنا الگ بات ہے، دوسری چیز سے پہلی چیز کی نفی ہرگز لازم نہیں آتی۔
ایک مثال :
بہادری کی مثال لیں ایک شخص بہت بڑا بہادر اچھی قوت و طاقت کا مالک ہے لیکن وہ لڑائی میں شاذو نادر ہی شریک ہوا جب کہ ایک دوسرا شخص ہے جو اس سے کم بہادر ہے لیکن اس نے لڑائی میں زیادہ شرکت کی اوراچھے مظاہرے کئے ہیں تو کیا اس دوسرے شخص کو پہلے شخص سے زیاد بہادر کہا جائے گا۔
ابوحنیفہ اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ۔
ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ احادیث کے بہت کم جانکار تھے حدیث میں ان کی کوئی کتاب نہیں تو بے چارے مقلدین یہی کہتے ہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث بیان نہیں کیا ہے لیکن وہ حدیث کے بہت بڑے جانکار تھے ۔
قارئین غور کریں کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ابوحنیفہ کی بات آئے تو ان کی قلت روایت کو قلت حدیث دانی کی دلیل نہ مانا جائے اور جب ابوبکرالصدیق یا دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ کی بات آئے تو بڑی جرات کے ساتھ یہ کہہ دیا جائے ان کے پاس احادیث کم تھیں کیونکہ ان سے کم احادیث ہی مروی ہیں ۔
واضح رہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جس طرح احادیث کی روایت کم کی ہے اسی طرح وہ حدیث کی معلومات بھی بہت کم رکھتے ہیں ، ان دونوں چیزوں پر الگ الگ سے دلائل موجود ہیں جن کی تفصیل کے لئے ایک پورے مقالہ کی ضروت ہے۔
لیکن ابوبکررضی اللہ عنہ کا ایسا معاملہ نہیں بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے گرچہ کم احادیث کی روایت کی ہے مگر اس بات کے دلائل موجود ہیں کہ وہ احادیث کے سب سے بڑے جانکار تھے جیساکہ تفصیل کی گئی۔
خلاصہ کلام یہ کہ کسی سے کم احادیث کا مروی ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ احادیث سے کم واقف تھے بلکہ یہ دونوں الگ الگ بات ہے ، اور دونوں کے علاحدہ علاحدہ دلائل کی ضرورت ہے ۔
No comments:
Post a Comment