امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (قسط اول) - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-03-31

امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (قسط اول)



*امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (1)*
تحریر : *کفایت اللہ سنابلی*
تبلیغی نصاب والوں نے اپنے تبلیغی نصاب کو جن خرافات اور موضوع ومن گھڑت روایات وقصے وکہانیوں سے بھرا ہے ، ان کی نشاندہی اہل حدیث حضرات نے کردی تو یہ تبلیغیوں کی نظر میں اتنا بڑا گناہ ہوگیا کہ وہ اہل حدیث کو ملکہ وکٹوریہ کے نام لیوا بتلانے لگے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی غلامی اور وفاداری میں ان کے بزرگوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔اگرحقائق سے پردہ اٹھایا جائے تو بات بہت لمبی ہوجائے گی اس لئے ہم سردست صحیح بخاری اور امام بخاری پر ان کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔
اس تعلق سے دیوبندی تبلیغی معترض نے اپنی تحریر کا عنوان دیاہے:
*’’ فرقہ اہل حدیث کے صفوں میں زلزلہ ‘‘*
یہ عنوان پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کے خلاف لکھی گئی ارشد القادری کی کتاب زلزلہ سے ایوان تبلیغیت میں جو زلزلہ آیا ہے اس کے اثر سے اب تک یہ بلبلارہے ہیں ۔ارشد القادری کو یہ لوگ جواب نہیں دے پائے اس لئے دوسروں کے خلاف اوٹ پٹانگ باتیں کرکے اسے زلزلہ سے تعبیر کرکے یہ سمجھتے ہیں ان کی طرح دوسرے بھی لاجواب ہی رہے ہیں ۔ بہرحال اعتراضات کے جوابات ملاحظہ ہوں:
*⬅صحیح بخاری کے راویوں پر اعتراضات کا جواب*
*🔴اعتراض:*
امام بخاریؒ عطاء الخراسانی کو خد ضعیف کہتے ہیں
ضعفا صغیر ص ٢٧٣
مگر اسی ضعیف راوی سے حدیث بھی لی ہے
بخاری ج ٢ ص ٧٣٢
*🔵جواب:*
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں جس عطاء سے روایت لی ہے اس کے نام کے ساتھ صحیح بخاری میں ’’الخراسانی ‘‘ موجود نہیں ہے۔ اس لئے معترض کا اسے ’’الخراسانی ‘‘ بتلانا غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جس عطاء سے روایت لی ہے وہ عطاءبن ابی رباح ہیں جو کتب ستہ کے مشہور ثقہ راوی ہیں ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں یہ وضاحت کررکھی ہے دیکھئے:[فتح الباري لابن حجر: 8/ 668]۔
واضح رہے کہ عطاء بن ابی رباح مشہور ثقہ راوی ہیں ان سے کتب ستہ کے ہر مصنف نے روایت لی ہے۔
اورابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق ابوحنیفہ نے بھی ان سے روایت لی ہے ۔ [جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 96]

*🔴 اعتراض:*
امام بخاری مقسم کو ضعیف فرماتے ہیں اور اسی ضعیف راوی سے صحیح بخاری میں حدیث بھی لی ہے 
میزان الاعتدال ج ٤ ص ١٧٦
*🔵 جواب:*
یہ سراسر جھوٹ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مقسم کو ضعیف فرماتے ہیں ۔میزان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے ۔ البتہ امام بخاری نے مقسم کی ایک روایت میں انقطاع بتانے کے لئے اس کا تذکرہ ضعفاء میں کیا ہے وہاں مقسم پر کوئی جرح نہیں ہے ۔
▪حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہ وضاحت کررکھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ضعفاء میں مقسم پر کوئی جرح نہیں کی ہے دیکھئے: [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 10/ 289]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں بعض صحابہ کا تذکرہ بھی یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ ان کی طرف منسوب فلاں فلاں روایت کی سند ضعیف ہے ۔ تو کیا کوئی احمق یہ کہہ سکتا ہےکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایسے صحابہ کو بھی ضعیف کہاہے؟؟؟ معاذ اللہ۔
▪یادرہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے صرف اور صرف ایک حدیث لی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ سمیت سن اربعہ کے مصنفین امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت لی ہے۔
▪اورابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق ابوحنیفہ نے بھی ان سے روایت لی ہے ۔ [جامع المسانيد للخوارزمي: 2/ 146]
▪احناف نے مقسم کی بیان کردہ کئی احادیث کو اپنی دلیل بنایاہے مثلا دیکھئے: حدیث اور اہل حدیث ص 403۔ ایضا ص: 582 ایضا ص635۔

*🔴 اعتراض:*
امام بخاری نے ایوب بن عایز کو ارجاء کی وجہ سے ضعیف فرمایا اور صحیح بخاری میں ان سے حدیث بھی لی ہے 
میزان الاعتدال ج ١ ص ٢٨٩
*🔵 جواب:*
امام بخاری رحمہ اللہ نے ایوب بن عائز کو ضعیف ہرگز نہیں کہا ہے میزان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے، معترض نے جھوٹ بولا ہے ۔بلکہ سچ تو یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں ارجاء سے متصف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ’’صدوق ‘‘ کہہ کر ان کی توثیق بھی کی ہے دیکھئے[الضعفاء للبخاري ص: 27]
اورکسی کو ارجاء سے متصف کرنا اس کی تضعیف نہیں ہے 
▪دیوبندی حضرات کے مولانا سرفراز صاحب لکھتے ہیں:
’’اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کاخارجی یا جہمی ، معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعا اثر انداز نہیں ہوتا اورصحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں‘‘ [احسن الکلام ج 1ص31]
▪معنوی طور پرکچھ ایسی ہی بات امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے دیکھئے:[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 99]
▪اس وضاحت کے ساتھ یہ بھی معلوم رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اورصرف ایک جگہ ان کی حدیث لی ہے لیکن اس حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے شعبہ رقم (1724 ) اورسفیان رقم (1559)سے ان کی متابعت بھی ذکر کی ہے۔
▪واضح رہے کہ امام مسلم ، امام نسائی اور امام ترمذی نے بھی ان سے حدیث لی ہے۔
▪اوراحناف نے اس راوی کی بیان کردہ روایت کو دلیل بنایا ہے دیکھئے: حدیث اور اہل حدیث ص180۔

*🔴 اعتراض:*
امام بخاری ابی العباس الانصاری کو ضغیف بھی فرماتے ہیں اور ان سے حدیث بھی لی 
تہزیب ج ١ ص ١٨٦
*🔵 جواب:*
یہ بھی سراسرجھوٹ ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے کہیں بھی ابی بن العباس کو ضعیف نہیں کہا ہے اور نہ ہی تہذیب میں ایسا کچھ لکھاہے۔ البتہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں ’’لیس بالقوی‘‘ کہاہے لیکن یہ تضعیف کا جملہ نہیں ہے بلکہ اس سے صرف ثقاہت میں درجہ کاملہ کی نفی ہوتی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: ’’یزید بن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ‘‘ (ص634تا635) ۔
▪امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی راوی کے بارے میں کہا: ’’حسن الحديث‘‘ یعنی یہ حسن الحدیث راوی ہے۔[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 1/ 78]
▪اورصحیح بخاری میں اس کی جو روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے لی ہے اس کی متابعت اور اس کے تاریخی شواہد موجود ہیں جو اس کی روایت کو مزید تقویت دیتی ہیں اس لئے بخاری میں درج اس کی یہ روایت صحت کے درجہ پر ہے۔
▪واضح رہے کہ امام ترمذی اورامام ابن ماجہ نے بھی اس سے حدیث لی ہے۔اور امام ترمذی نےاس کی حدیث کو حسن کا ہے[سنن الترمذي ت بشار 4/ 119]

*🔴اعتراض*
امام بخاری نے عوف اعرابی سے بخاری میں روایت لی ہے جو قدری ۔رافضی شیطان تھا
تہزیب ج ٨ ص ١٦٧
*🔵جواب:*
⬅ اولا:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
⬅ ثانیا:
ان کا قدری یا شیعی ہونا ان کے ثقہ ہونے کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ماقبل میں دیوبندیوں کے مولانا سرفراز صاحب کا اعتراف پیش کیا جاچکاہے۔
⬅ ثالثا:
ان کو رافضی اور شیطان کسی نے نہیں کہا ہے ۔تہذیب میں یہ قول بے سند مذکور ہے اس لے غیرمقبول ہے۔بالفرض کسی نے انہیں شیطان کہہ دیا تو ضروی نہیں ہے کہ ان کی بات صحیح ہو ۔بعض ائمہ نے ابوحنیفہ کو بھی شیطان کہا ہے مثلا:
▪ امام حمادبن سلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان أبو حنيفة شيطانا استقبل آثار رسول الله صلى الله عليه وسلم يردها برأيه
ابوحنیفہ شیطان تھا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو لیکر انہیں اپنی رائے رد کردیا کرتا تھا[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]
▪بلکہ محمدبن مسلمہ نے تو امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہا:
هو دجال من الدجاجلة
یہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے[الضعفاء الصغير للبخاري ت أبي العينين ص: 132 واسنادہ مقبول]
تو کیا ان اقوال کی بناپر امام ابوحنیفہ کو شیطان اور دجال کہنا شروع کردیا جائے؟
⬅ رابعا:
امام ابوحنیفہ کے شاگر امام ابویوسف نے بھی ان سے روایت لی ہے۔[الخراج لأبي يوسف ص: 143]

*🔴 اعتراض: 
امام بخاری نے حریز بن عثمان سے حدیث لی ہے جو صبح و شام حضرت علیؓ پر ستربار لعنت کرتا تھا نعوذ باللہ
تہذیب ج٢ ص ٢٤٠
*🔵جواب:*
⬅ اولا:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ سنن اربعہ کے مصنفین امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت لی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
⬅ ثانیا:
علی رضی اللہ عنہ پرستر بار لعنت کرنا ان سے ثابت نہیں ہے۔تہذیب میں یہ بات بے سند مذکور ہے لہٰذا غیر مقبول ہے۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) کہتے ہیں:
ولم يصح عندي ما يقال في رأيه
اس کی رائے کے بارے میں جو کہا جاتا ہے میرے نزدیک ثابت نہیں ہے ۔[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 289]
یہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تھے اورشہادت عثمان رضی اللہ عنہ اور اس کے بعد جو لڑائیاں ہوئی انہیں لیکر یہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بولتے تھے لیکن اس سے بھی بعد میں رجوع کرلیا تھا جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خود یہ رجوع نقل کیا ہے دیکھئے: [التاريخ الكبير للبخاري: 3/ 103، الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 3/ 390 واسنادہ صحیح]
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
رحمه الله مائة مرة
یعنی علی رضی اللہ عنہ پر اللہ کی سیکڑوں رحمتیں نازل ہوں [ضعفاء العقيلي (التأصيل) 1/ 561 واسنادہ صحیح]
معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجنا ان سے ثابت نہیں اور جو تھوڑی بہت بات منقول ہے اس سے بھی انہوں نے رجوع کرلیا تھا ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإنما أخرج له البخاري لقول أبي اليمان أنه رجع عن النصب
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی روایت اس لئے لی ہے کیونکہ ابوالیمان نے بیان کیا کہ انہوں نے نصب سے رجوع کرلیا تھا[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 2/ 240]
⬅ ثالثا:
امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اورامام محمد نے ان سے روایت لی ہے ۔دیکھئے:[الخراج لأبي يوسف ص: 109،موطأ محمد بن الحسن الشيباني: ص: 38]

*🔴اعتراض:*
امام بخاری نے جریر بن عبدلحمید سے روایت لی جو حضرت معاویہؓ کو گالیاں بکتا تھا
تہذیب ج ٢ ص ٧ ٧
*🔵 جواب:*
⬅ اولا:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
⬅ ثانیا:
تہذیب میں یہ بات بے سند ہے اس لئے غیر مقبول ہے۔
⬅ ثالثا:
ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق یہ ابوحنیفہ کا شاگرد ہے اور احناف اس کے واسطے ابوحنیفہ کی مسانید روایت کرتے ہیں دیکھئے:[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 28]

*🔴 اعتراض:
امام بخاری نے عباد بن یعقوب سے حدیث لی جو حضرت عثمان ؓ کو گالیاں بکتا تھا 
تہذیب ج ٥ ص ١٠٩
*🔵جواب:* 
⬅اولا:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام ترمذی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
⬅ثانیا:
تہذیب میں یہ بات بے سند منقول ہے اس لئے غیر مقبول ہے۔
⬅ ثالثا:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عباد بن يعقوب کی روایت مقرونا لی ہے یعنی اس کی بیان کردہ روایت کی دوسری صحیح سند بھی پیش کردی ہے دیکھئے: [صحيح البخاري رقم 7534]
⬅ رابعا:
ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق عباد بن يعقوب ابوحنیفہ کے شاگرد کا شاگرد ہے اور احناف اس کے واسطے ابوحنیفہ کی مسانید روایت کرتے ہیں دیکھئے:[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 28]
⬅ خامسا:
دیوبندیوں نے عباد بن يعقوب کی بیان کردہ حدیث کو اپنی دلیل بنایا ہے دیکھئے: حدیث اوراہل حدیث ص 579۔

*🔴 اعتراض:*
امام بخاری نے عبدالملک بن اعین رافضی سے حدیث لی ہے
تہذیب ج ٦ ص ٣٨٦
*🔵 جواب:*
⬅ اولا:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
⬅ ثانیا:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں ’’صدوق شيعي‘‘ کہا ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4164]
یعنی ان کے رفض سے مراد ان کی اندر اہل کوفہ والی شیعیت ہے اور ایسے اوصاف والے راویوں کے بارے میں ماقبل میں دیوبندیوں کے مولانا سرفراز صاحب کا یہ اعتراف پیش کیا جاچکا ہے کہ اس سے راوی کی ثقاہت قطعا اثر انداز نہیں ہوتی۔
⬅ ثالثا:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ان سے صرف ایک روایت لی ہے اور وہاں پر بھی دوسرے ثقہ راوی جامع بن أبي راشد سے ان کی متابعت پیش کردی ہے۔دیکھئے: [صحيح البخاري رقم 7445 ]
اورامام ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق امام ابوحنیفہ نے بھی جامع بن أبي راشد سے روایت لی ہے ۔[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 220]

*🔴 اعتراض:*
امام بخاری نے محمد بن حازم سے حدیث لی جو کہ مرجیہ تھا 
تہذیب ج ٩ ص ١٣٩
*🔵 جواب:*
⬅ اولا:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
⬅ ثانیا:
مرجیہ ہونے سے کوئی راوی ضعیف نہیں ہوجاتا دیوبندی حضرات کے مولانا سرفراز صاحب لکھتے ہیں:
’’اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کاخارجی یا جہمی ، معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعا اثر انداز نہیں ہوتا اورصحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں‘‘ [احسن الکلام ج 1ص31]
معنوی طور پرکچھ ایسی ہی بات امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے دیکھئے:[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 99]
⬅ ثالثا:
یہ ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق یہ ابوحنیفہ کا شاگرد ہے اور احناف اس کے واسطے ابوحنیفہ کی مسانید روایت کرتے ہیں دیکھئے:[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 203]
(جاری ہے۔۔۔)

No comments:

Post a Comment