امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (قسط دوم) - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-01

امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (قسط دوم)


امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (قسط دوم)
(تحریر:کفایت اللہ سنابلی)
پہلی قسط میں ان اعتراضات کے جوابات دئے جاچکے ہیں جن میں صحیح بخاری کے رجال پر الزامات لگائے گئے تھے اس کے بعد معترض نے امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراضات کئے ہیں جس کے جوابات پیش خدمت ہیں:

اعتراض:
اب آپ بخاری شریف میں جو غلطیاں ہیں وہ ملاحظہ فرماویں:
امام بخاری نے حضرت انسؓ کے قول کو حدیث رسولﷺ بنا کر پیش کیا
بخاری ج ١ ص ٢٩٣،مقدمہ فتح الباری ج ٢ ص ١١٩
جواب:
معترض کا یہ بہت بڑا جھوٹ ہے ۔نہ تو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایسی کوئی غلطی کی ہے اور نہ ہی مقدمہ فتح الباری میں ایسی کوئی بات ہے ۔
سب سے پہلے صحیح بخاری سے متعلقہ حدیث ملاحظہ ہو:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن يوسف: أخبرنا مالك، عن حميد، عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي، فقيل له: وما تزهي؟ قال: حتى تحمر. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرأيت إذا منع الله الثمرة، بم يأخذ أحدكم مال أخيه»،
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں حمید نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو «زهو» سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کہ «زهو» کسے کہتے ہیں تو جواب دیا کہ سرخ ہونے کو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہی بتاؤ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھلوں پر کوئی آفت آ جائے، تو تم اپنے بھائی کا مال آخر کس چیز کے بدلے لو گے؟[صحيح البخاري 3/ 77 رقم2198]

اس حدیث میں جو بات ہے اسے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مکمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔
لیکن معترض کا اعتراض ہے کہ اس حدیث کا آخری حصہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں بلکہ انس رضی اللہ عنہ کا کلام ہے۔اورامام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے غلطی کی اورانس رضی اللہ عنہ کے قول کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بنادیا ۔

عرض ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنے استاذ کے واسطہ سے امام مالک کی سند سے روایت کیا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مؤطا میں یہ حدیث اسی طرح مرفوعا درج کی ہے ملاحظہ ہو:
مؤطا مالک کے الفاظ ہیں:
عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نهى عن بيع الثمار حتى تزهي» ، فقيل له: يا رسول الله وما تزهي؟ فقال: «حين تحمر» ، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرأيت إذا منع الله الثمرة فبم يأخذ أحدكم مال أخيه؟»
امام مالک نے خبر دی، انہیں حمید نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو «زهو» سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ تو کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم «زهو» کسے کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سرخ ہونے کو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہی بتاؤ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھلوں پر کوئی آفت آ جائے، تو تم اپنے بھائی کا مال آخر کس چیز کے بدلے لو گے؟[موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 618]

قارئین کرام ! آپ نے دیکھ لیا کہ امام مالک کی کتاب مؤطا میں بھی یہ حدیث اسی سند ومتن کے ساتھ مرفوعا موجود ہے۔
یعنی امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق بھی اس حدیث کو انس رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔
یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اس حدیث میں مذکور بات کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی غلطی سے حدیث رسول ہرگز نہیں بنایا بلکہ یہ حدیث پہلے سے ہی اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کی ہے جیساکہ مؤطا کا حوالہ گذرا اور امام مالک ہی کے واسطہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے صحیح بخاری میں درج کیا ہے۔

اب اگر اس حدیث میں مذکور بات صرف انس رضی اللہ عنہ کا قول ہے نہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تو احناف کے اصول سے یہ غلطی امام بخاری رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ امام مالک رحمہ اللہ کی ہے جو ائمہ اربعہ میں سے ایک امام ہیں۔
اب احناف بتلائیں کہ اگر صحیح بخاری میں منقول اس حدیث میں مرفوع کی صراحت امام بخاری کی طرف سے ہے تو امام بخاری سے پہلے یہ حدیث مرفوع کی صراحت ہی کے ساتھ اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب مؤطا میں درج کی ہے تو امام بخاری سے پہلے امام مالک رحمہ اللہ نے یہ غلطی کی ہے؟
امام بخاری رحمہ اللہ نے تو حدیث کو ویسے ہی درج کیا ہے جیسے انہوں نے امام مالک کے طریق سے سنا ہے ۔ لہٰذا اگر بالفرض اس میں غلطی ہے تو یہ غلطی امام بخاری کی نہیں بلکہ امام مالک کی ہے۔
اب احناف جرات کریں اور کہیں کہ یہ غلطی امام مالک کی ہے۔

واضح رہے کہ یہ غلطی امام مالک رحمہ اللہ کی بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث اسی طرح ثابت ہے جس طرح امام مالک نے روایت کیا اور امام مالک کے طریق سے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں امام مالک نے بھی غلطی نہیں کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کئی رواۃ نے امام مالک کی متابعت بھی کی ہے چنانچہ :
سلیمان بن بلال کی متابعت:
أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفرائيني (المتوفى316)نے کہا:
5639 - حدثنا محمد بن معاذ بن يوسف المروزي، وسألته، قال: حدثنا خالد بن مخلد، قال: حدثنا سليمان بن بلال، قال: حدثني حميد الطويل، عن أنس بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن بيع ثمر النخل حتى يزهو" فقيل: يا رسول الله، وما يزهو؟ "حتى تحمار، أو تصفار" قال: وقال: "أرأيت إن منع الله الثمرة، بم تستحل مال أخيك؟ ".[المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم لأبي عوانة 12/ 291]

یحیی بن ایوب کی متابعت:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
حدثنا فهد، قال: ثنا عبد الله بن صالح، قال: حدثني الليث، قال: حدثني يحيى بن أيوب، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " لا تتبايعوا الثمار حتى تزهو. قلنا يا رسول الله: وما تزهو؟ قال تحمر أو تصفر , أرأيت إن منع الله الثمرة؟ بم يستحل أحدكم مال أخيه "[شرح معاني الآثار 4/ 24]

یہ آخری متابعت احناف کے محدث امام طحاوی نے روایت کی ہے اب اگر یہ غلط ہے تو کیا احناف یہ اعلان کرنے کے لئے تیار ہیں ہیں کہ ان کے محدث امام طحاوی نے بھی انس رضی اللہ عنہ کے قول کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بنادیا؟

الغرض یہ کہ مذکورۃ حدیث میں نہ امام بخاری نے غلطی کی ہے اور نہ ہی امام مالک نے بلکہ یہ حدیث اسی طرح مرفوعا ثابت ہے ۔
رہی بات یہ کہ بعض روایات میں اس حدیث کا آخری ٹکڑا انس رضی اللہ عنہ سے مرقوفا مروی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ سے یہ بات موقوفا اور مرفوعا دونوں طرح ثابت ہے ۔کیونکہ رفع والی روایت بھی امام مالک کے ساتھ کئی رواۃ نے بیان کی ہے کما مضی ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قلت وليس في جميع ما تقدم ما يمنع أن يكون التفسير مرفوعا لأن مع الذي رفعه زيادة على ما عند الذي وقفه وليس في رواية الذي وقفه ما ينفي قول من رفعه
میں کہتاہوں کہ ماقبل میں ذکر کردہ باتیں اس بات سے مانع نہیں ہیں کہ یہ تفسیر مرفوعا بھی ثابت ہو کیونکہ جس نے مرفوعا بیان کیا ہے اس کے پاس ایسی اضافی چیز ہے جو موقوف بیان کرنے والے کے پاس نہیں ہے۔ اور موقوف روایت میں مرفوع روایت کے منافی کوئی بات نہیں ہے۔[فتح الباري لابن حجر 4/ 399]

اعتراض :
امام بخاری نے غلطی سے حضرت زینبؓ کا ایک مشہور واقعہ حضرت حفصہؓ کی طرف منسوب کیا
بخاری ج ٢ ص ٧٩٣
جواب:
یہ واقعہ اسی طرح صرف امام بخاری نے ہی نہیں روایت کیا ہے بلکہ امام مسلم ، اور مختصرا سنن اربعہ کے مصنفین نے بھی روایت کیا ہے یعنی یہ واقعہ اسی طرح کتب ستہ کی ہر کتاب میں موجود ہے۔
اب اگر یہ غلط ہے تو معترض صرف امام بخاری رحمہ اللہ پر کیوں برس رہا ہے اس چاہئے وہ اعلان کرتا پھرے کہ یہ واقعہ بیان کرنے میں کتب ستہ کے ہر مصنف نے غلطی کی ہے !

حقیقت یہ ہے کہ یہ غلطی نہ امام بخاری کی ہے نہ ہی کتب ستہ کے دوسرے مصنفین کی بلکہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، حفصہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ پہلے ہوا ہے اس وقت کسی آیت کے نزول کا ذکر نہیں ہے جبکہ زینب رضی اللہ عنہا والا واقعہ بعد میں ہوا ہے اوراسی واقعہ کے وقت سورۃ التحریم کی آیت نازل ہوئی یعنی یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں جنہیں معترض نے ایک واقعہ سمجھ کو دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف بتلادیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی وضاحت کی ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں دیکھئے: [فتح الباري لابن حجر 9/ 376]
اورامام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ان دونوں واقعات کو الگ الگ تسلیم کیا ہے دیکھئے [تفسير ابن كثير / دار طيبة 8/ 162]
بلکہ احناف کے علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی بخاری کی شرح میں ان دونوں واقعات کو الگ الگ تسلیم کیا ہے۔ دیکھئے:[عمدة القاري شرح صحيح البخاري 20/ 244]
خلاصہ یہ کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں اور دونوں صحیح ہے ۔لہٰذا ان دونوں کو ایک سمجھ کر بخاری کی روایت پر اعتراض باطل ہے اور یہ واضح رہے کہ یہی حدیث کتب ستہ کی ہر کتاب میں موجود ہے۔

اعتراض:
امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے نام سے روایت کی
بخاری ج ٢ ص ٤٨٩،بخاری ج ٢ ص ٧
جواب:
صحیح بخاری میں ہے:
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا إسرائيل، أخبرنا عثمان بن المغيرة، عن مجاهد، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «رأيت عيسى وموسى وإبراهيم، فأما عيسى فأحمر جعد عريض الصدر، وأما موسى، فآدم جسيم سبط كأنه من رجال الزط»
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، کہا ہم کو عثمان بن مغیرہ نے خبر دی، انہیں مجاہد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں نے عیسیٰ، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو دیکھا۔ عیسیٰ علیہ السلام نہایت سرخ گھونگھریالے بال والے اور چوڑے سینے والے تھے اور موسیٰ علیہ السلام گندم گوں دراز قامت اور سیدھے بالوں والے تھے جیسے کوئی قبیلہ زط کا آدمی ہو۔“[صحيح البخاري 4/ 166]

صحیح بخاری میں یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے درج ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
لیکن یہ صحیح بخاری کے نسخہ میں یہ غلطی امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ اس نسخہ کے راوی یا ناسخ کی طرف سے ہے۔
امام ابوذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقال كذا وقع في جميع الروايات المسموعة عن الفربري مجاهد عن بن عمر قال ولا أدري أهكذا حدث به البخاري أو غلط فيه الفربري
فربری کی مسموعات میں یہ روایت مجاہد عن ابن عمر ہی کے الفاظ میں ہے اور میں نہیں جانتا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی طرح بیان کیا ہے یا یہ صحیح بخاری کے نسخہ کو نقل کرنے والے فربری سے ہوئی ہے۔[فتح الباري لابن حجر 6/ 485]
غور کریں اس کتاب کے راوی امام ابوذر رحمہ اللہ بھی اسے امام بخاری رحمہ اللہ کی غلطی ماننے میں متردد ہیں اور یہ امکان بتلارہے ہیں کہ یہ غلطی امام فربری سے بھی ہوسکتی ہے ۔
عرض ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ غلطی امام فربری کی نہیں بلکہ صحیح بخاری کے نسخہ کے راوی کی ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے مجاہد کے طریق معنوی طور پر یہی حدیث دوسرے مقام پر روایت کی ہے اور وہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کا ذکر ہے چنانچہ :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثني ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن مجاهد، قال: كنا عند ابن عباس رضي الله عنهما، فذكروا الدجال أنه قال: مكتوب بين عينيه كافر، فقال ابن عباس: لم أسمعه ولكنه قال: «أما موسى كأني أنظر إليه إذ انحدر في الوادي يلبي»[صحيح البخاري 2/ 139]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ غلطی بہت بعید ہے۔
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک اوردلیل سے بھی واضح کیا ہے کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی غلطی نہیں ہوسکتی چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثم رأيته في مستخرج الإسماعيلي من طريق أبي أحمد الزبيري عن إسرائيل وقال فيه عن بن عباس ولم يتعقبه كعادته واستدللت بذلك على أن الوهم فيه من غير البخاري والله أعلم
پھر میں نے مستخرج اسماعیلی میں ابو احمد الزبیری عن اسرائیل کے طریق سے یہی روایت دیکھی اس میں ’’عن ابن عباس ‘‘ ہی ہے اور یہاں پر امام اسماعیلی نے اپنی عادت کے مطابق کوئی تعاقب نہیں کیا ہے اس سے میرا استدلال یہ ہے کہ اس روایت میں وہم امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی جانب سے ہے۔[مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 366]

خلاصہ یہ کہ صحیح بخاری میں یہ غلطی امام بخاری کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کی کتاب نقل کرنے والے کی طرف سے ہے اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
بھلا بتلائے کہ ایک مصنف کی کتاب کی بات نقل کرنے والے یا اسے لکھنے والے کاتب یا ٹائپنگ کرنے والے سے کوئی غلطی ہوجائے تو کیا اسے اصل مصنف کی غلطی مانا جائے گا ؟
نیز یہ غلطی بھی کوئی ایسی غلطی نہیں ہے جس سے اصل حدیث پر کوئی فرق پڑ رہا ہو لیکن معترض نے یہ اعتراض تبلیغیوں کی کتاب فضائل اعمال پر اعتراض کے جواب میں اٹھایا ہے ۔بھلا بتلائے کہ فضایل اعمال میں جھوٹی اور من گھڑت باتوں ہونا اور صحیح بخاری کی کسی سند کے ایک راوی کا نام لکھنے میں غلطی ہوجانا ان دونوں میں کیا مناسبت ہے؟ اللہ رب العالمین سمجھ و ہدایت عطاء فرمائے آمین۔

اعتراض:
امام بخاری نے مدینہ کے ایک مشہور واقعہ کو مکہ کا واقعہ قرار دیا
بخاری ج ٢ ص ١٣٩
جواب:
ہم نے اس روایت کے سلسلے میں پوری بحث اپنی کتاب ’’حدیث یزید محدثین کی نظر میں ‘‘ ص 83 تا ص95 پر کی ہے تفصیل کے لئے اس کی طرف مراجعت کی جائے ذیل میں مختصرا جواب پیش خدمت ہے:
صحیح بخاری میں یہ روایت مسند نہیں بلکہ تعلیقا ہے ۔ملاحظہ ہو:
وزاد أسباط، عن منصور، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسقوا الغيث، فأطبقت عليهم سبعا، وشكا الناس كثرة المطر، قال: «اللهم حوالينا ولا علينا» فانحدرت السحابة عن رأسه، فسقوا الناس حولهم[صحيح البخاري 2/ 30]

ملاحظہ فرمائیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی مکمل سند کے ساتھ ذکر نہیں کیا ہے بلکہ تعلیقا ذکر کیا ہے ۔اور اس طرح کی روایات امام بخاری کی کتاب ’’صحیح بخاری ‘‘ کا اصل حصہ نہیں ہوتی ہے ۔اس بارے میں مفصل معلومات کے لئے دیکھئے میری کتاب : حدیث یزید محدثین کی نظر میں ص: 85 تا 89۔

اور صحیح بخاری میں جو روایات سند کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ تعلیقا ہیں چونکہ وہ کتاب صحیح بخاری کا اصل حصہ نہیں ہیں اس لئے وہ صحیح بھی ہوسکتی ہیں اور ضعیف بھی ۔اس لئے اگر ان میں سے کوئی روایت ضعیف ہو تو اس کے ذمہ دار امام بخاری رحمہ اللہ نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے معلق روایات کی صحت کا دعوی نہیں کیا ہے۔

معترض نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے جس طرح بیان کیا ہے اسی طرح وہ روایت دوسری کتب میں سند کے ساتھ موجود ہیں چنانچہ :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ حدثنا أبو العباس : محمد بن يعقوب حدثنا محمد بن عبيد بن عتبة حدثنا على بن ثابت أخبرنا أسباط بن نصر عن منصور عن أبى الضحى عن مسروق عن ابن مسعود قال : لما رأى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من الناس إدبارا قال :« اللهم سبع كسبع يوسف ». فأخذتهم سنة حتى أكلوا الميتة والجلود والعظام فجاءه أبو سفيان وناس من أهل مكة فقالوا : يا محمد إنك تزعم أنك بعثت رحمة وإن قومك قد هلكوا فادع الله لهم فدعا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فسقوا الغيث فأطبقت عليهم سبعا وشكى الناس كثرة المطر فقال :« اللهم حوالينا ولا علينا ». فانحدرت السحابة عن رأسه قال فأسقى الناس حولهم[السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 3/ 352]

غور فرمائیے اسباط بن نصر کی جس روایت جن الفاظ کے ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ نے درج کیا ہے یہ روایت ٹھیک انہیں الفاظ کے ساتھ اسباط بن نصر ہی کے طریق سے سنن بیہقی میں موجود ہے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے بلکہ اسے اسباط بن نصر نے ایسے ہی بیان کی ہے اور ان کی بیان کردہ بات کو اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کردیا ہے۔
اب اگر اس روایت میں کوئی غلطی ہے تو وہ اسباط بن نصر کی ہے امام بخاری رحمہ اللہ کی نہیں ۔اس لئے معترض کو چاہئے کہ دوسرے راوی کی غلطی کا امام بخاری رحمہ اللہ کے سر نہ ڈالے۔
اگر کسی راوی کی غلط روایت کو نقل کرنے ولا بھی غلط کہلاتا ہے تو پھر صحیحین کے علاوہ حدیث کی تمام کتب میں ضعیف و غلط روایات موجود ہیں تو کیا یہ غلطی ان کی مصنفین کی بھی مانی جائے گی؟
بہرحال یہ غلطی امام بخاری رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ اسباط بن نصر کی ہے اس لئے اسے امام بخاری رحمہ اللہ کی غلطی بتلانا بہت بڑا ظلم ہے۔
نیزیہاں بھی یہ بات واضح رہے کہ اسباط بن نصر سے بھی جو غلطی ہوئی ہے وہ صرف جائے واقعہ بتلانے میں ہوئی ہے اصل واقعہ میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نقل کرنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے ۔
اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ اسباط بن نصر سے بھی غلطی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ دو واقعہ جو دو مقامات پر ہوا ہے ۔
صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے تفصیل کے لئے دیکھئے:[فتح الباري لابن حجر 2/ 512]۔نیز دیکھئے میری کتاب : [حدیث یزید محدثین کی نظر میں : ص 92 تا 95]

اعتراض:
امام بخاری نے ام رومان کو مسروق کا استاد بنا دیا جب کہ وہ مسروق کے آنے سے کئ سال پہلے فوت ہو چکئ تھیں
بخاری ج ١ ص ٤٧٩
جواب:
سب سے پہلے بخاری کی یہ روایت دیکھیں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حدثنا محمد بن سلام، أخبرنا ابن فضيل، حدثنا حصين، عن شقيق، عن مسروق، قال: سألت أم رومان، وهي أم عائشة، عما قيل فيها ما قيل، قالت: بينما أنا مع عائشة جالستان، إذ ولجت علينا امرأة من الأنصار، وهي تقول: فعل الله بفلان وفعل، قالت: فقلت: لم؟ قالت: إنه نمى ذكر الحديث، فقالت عائشة: أي حديث؟ فأخبرتها. قالت: فسمعه أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: نعم، فخرت مغشيا عليها، فما أفاقت إلا وعليها حمى بنافض، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «ما لهذه» قلت: حمى أخذتها من أجل حديث تحدث به، فقعدت فقالت: والله لئن حلفت لا تصدقوني، ولئن اعتذرت لا تعذروني، فمثلي ومثلكم كمثل يعقوب وبنيه، فالله المستعان على ما تصفون، فانصرف النبي صلى الله عليه وسلم، فأنزل الله ما أنزل، فأخبرها، فقالت: بحمد الله لا بحمد أحد
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں (مسطح بن اثاثہ) کو تباہ کر دے اور وہ اسے تباہ کر بھی چکا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے۔ پھر انصاریہ عورت نے (عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا سارا) واقعہ بیان کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی والدہ سے) پوچھا کہ کون سا واقعہ؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی تفصیل بتائی۔ عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی عائشہ رضی اللہ عنہا بیہوش ہو کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آ گیا ہے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیان کروں تو اسے بھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے (کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہانی سن کر فرمایا تھا کہ) ”جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں۔“ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لیے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں۔
[صحيح البخاري 4/ 150]

اس حدیث کی سندمیں ہے کہ مسروق نے ام رومان سے سوال کیا ہے معترض کو اس پر اعتراض یہ ہے کہ مسروق یہاں ام رومان سے کیسے سوال کرسکتے ہیں جبکہ وہ ام رومان کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ہیں یعنی ام رومان کے وہ شاگرد ہی نہیں ہے۔
جوابا عرض ہے کہ اگر اس سند میں مسروق کا ام رومان کا شاگرد ہونا خلاف واقعہ ہو تو معترض اس بات کی صحیح دلیل پیش کرے کہ مسروق کی پیدائش ام رومان کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔
معترض نے جھوٹا دعوی پیش کرکے ایک سچی بات کو غلط کہنے کی جرات کی ہے اسے کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔
دراصل واقدی کذاب وغیرہ نے پتہ کہاں سے یہ بے سر پیر کی بات اڑا دی ہے کی ام رومان کا انتقال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی ہوگیا تھا ۔اسی کذاب وغیرہ کی بات کو بنیاد معترض نے اتنا بڑا دعوی کردیا کہ مسروق کی پیدائش ام رومان کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔
عرض ہے کہ اس طرح بات واقدی وغیرہ نے کہیں ہے اور واقدی کذاب ہے جیساکہ مکمل تفصیل میں نے اپنی کتاب یزید بن معاویہ میں پیش کی ہے۔
اس لئے اس واقدی کذب وغیرہ کی یہ بات سرے سے ہی غلط ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے ام رومان کی وفات مسروق کی پیدائش سے پہلے بتائی ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مردود قرار دیا ہے ۔چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی رجال والی کتاب میں فرماتے ہیں:
وروى علي بن زيد عن القاسم ماتت أم رومان زمن النبي صلى الله عليه وسلم وفيه نظر وحديث مسروق أسند
اورعلی بن زید نے قاسم سے نقل کیا کہ ام رومان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں وفات پا گئیں۔اوراس بات محل نظر (یعنی غلط ) ہے۔اور مسروق کی حدیث متصل ہے۔[التاريخ الأوسط للبخاري ت زائد: 1/ 38]
امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو غلط کہا ہے اسے بیان کرنے والا علی بن زید ہے یہ بھی ضعیف و مجروح راوی ہے جیساکہ میری کتاب یزید بن معاویہ میں تفصیل موجود ہے۔
الغرض یہ کہ یہ بنیاد ہی جھوٹی ہے کہ ام رومان کی وفات مسروق کی پیدائش سے پہلے ہوئی ہے اس لئے جھوٹی بات کو بنیاد بنا کر صحیح بخاری کی متصل اور مصرح بالسماع روایت پر کلام کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔
حیرت کی بات ہے معترض نے صحیح بخاری کی اس حدیث کے لئے صحیح بخاری کے جس درسی نسخہ کا حوالہ دیا ہے اسی نسخہ میں جہاں یہ حدیث ہے وہاں ام رومان نام پر حاشیہ نمبر 8 ڈال کر خود حنفی عالم نے یہ وضاحت کررکھی ہے کہ یہاں یہ اعتراض درست نہیں ہے کہ مسروق نے ام رومان سے نہیں سنا ۔چناں چہ حنفی عالم نے حاشیہ میں خود اس اعتراض کو غلط قراردینے کے بعد لکھا:
فالحدیث متصل وھواالراجح
یعنی یہ حدیث متصل ہے یہی راجح ہے۔ دیکھئے : صحیح بخاری درسی نسخہ ص 479۔

افسوس ہے کہ معترض نے یہ اعتراض جڑ کر صحیح بخاری کے اس صفحہ کا حوالہ جڑ دیا لیکن اسی صفحہ پر اسی کے عالم نے اس اعتراض کا جو جواب دیا ہے اس سے آنکھیں بند کرلیں۔

یہ تھے وہ اعتراضات جن میں معترض نے امام بخاری رحمہ اللہ کی غلطی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان اعتراضات میں کوئی ایک اعتراض بھی درست نہیں ہے اور سچائی یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مقامات پر کوئی غلطی نہیں کی بلکہ جاہل معترض نے صرف اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)

No comments:

Post a Comment