صدقۃ الفطر میں نقد ورقم دینے کا حکم (یونیکوڈ) قسط 1 - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-05-01

صدقۃ الفطر میں نقد ورقم دینے کا حکم (یونیکوڈ) قسط 1

صدقۃ الفطر میں نقد ورقم دینے کا حکم (یونیکوڈ) قسط 1
.
نوٹ
صدقہ الفطر میں نقد ورقم دینے سے متعلق راقم الحروف کا یہ ایک مقالہ ہے جو  ''اہل السنہ'' کے خصوصی شمارہ(نمبر ٧٧ـ٧٨) میں مطبوع ہے ، اس میں مضمون پر اب تک اٹھائے جانے والے سارے اعتراضات واشکالات کا جواب موجود ہے۔
 افادہ عام کے لئے اسے يونيكوڈ میں مزید اضافہ کے ساتھ نشر کیا جارہاہے ، ان شاء اللہ مستقبل میں بعض اور اضافوں اور مزید متوقع اعتراضات کے جوابات کے ساتھ اسے کتابی شکل میں بھی شائع کیا جائے گا۔
ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلی
.
باب اول
عہد رسالت میں بطور فطرہ دی جانے والی اشیاء
عہد رسالت میں مطلق طعام دینے کی بات کسی بھی صحیح حدیث میں منقول نہیں ہے بلکہ احادیث میں طعام میں سے خاص خاص قسم ہی کو فطرہ میں دینے کا ثبوت ملتا ہے۔اور ان کے علاوہ طعام کی عام قسمیں جو عہد رسالت میں مستعمل تھیں مثلا ،(اللحم) گوشت ، (السمك)مچھلی ، (الخضراوات) سبزیاں ، (الذرۃ) مکئی ، (السویق) ستو ، (اللبن)دودھ وغیرہ۔ان کا فطرہ میں نکالنا ثابت نہیں ہے۔
بلکہ جو قسمیں ثابت ہیں وہ بھی ایک خاص شکل میں دینا ثابت ہیں مثلا جو اور گیہوں ثابت ہے لیکن جو اور گیہوں کا آٹا دینا یا ان کی روٹی بناکر دینا ثابت نہیں ہے۔ملاحظہ ہوں اس سلسلے کی احادیث:
.
✿ اشیاء فطرہ کی صراحت کرنے والی احادیث
❀ پہلی حدیث:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا يحيى بن محمد بن السكن، حدثنا محمد بن جهضم، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عمر بن نافع، عن أبيه، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: «فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر، أو صاعا من شعير على العبد والحر، والذكر والأنثى، والصغير والكبير من المسلمين، وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة»“ 
 ”صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا تھا۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دیا جائے۔“ [صحيح البخاري 2/ 130 رقم1503]
.
اس حدیث میں مطلق طعام نہیں بلکہ طعام میں سے صرف دو چیزیں منصوص ہیں ، ایک تمر (کھجور ) اور دوسری شعیر(جو) ، نیز اس شعیر(جو) کو کسی اور شکل میں دینا مثلا اس کا آٹا یا اس کی روٹی دینا ثابت نہیں ہے۔
.
واضح رہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں دی جانے والی صرف دو چیزوں کو بیان کیا ہے اور وہ پوری زندگی صرف انہیں دونوں چیزوں سے ہی فطرانہ دیتے رہے ۔
بلکہ ان دو میں سے بھی وہ صرف کھجور ہی دینے کا اہتمام کرتے تھے البتہ کسی سال اگر کجھور میسر نہ ہوتی تو جو کا فطرانہ دیتے تھے صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:
 ”فكان ابن عمر رضي الله عنهما،» يعطي التمر «، فأعوز أهل المدينة من التمر، فأعطى شعيرا»“ 
 ”ابن عمر رضی اللہ عنہما کھجورہی دیا کرتے تھے،ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے صدقہ میں شعیر (جو)نکالا“ [صحيح البخاري 2/ 132رقم1511]
.
اس سے صاف ظاہرہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل فطرہ میں عام غلہ دینے کا نہیں تھا بلکہ وہ اپنی روایت کردہ حدیث کے مطابق صرف اور صرف دو چیزوں (کجھور یا جو) سے ہی فطرہ نکالتے تھے ۔
.
 ❀ دوسری حدیث :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
 ”حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن زيد بن أسلم، عن عياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح العامري، أنه سمع أبا سعيد الخدري رضي الله عنه، يقول: «كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من أقط، أو صاعا من زبيب»“ 
 ”صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع طعام یعنی ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (کشمش) نکالا کرتے تھے۔“ [صحيح البخاري 2/ 131 رقم 1506]
.
اس حدیث میں مطلق طعام نہیں بلکہ طعام میں سے صرف چار چیزیں شعیر (جو) ، تمر (کھجور ) ، اقط (پنیر) اور زبیب(کشمش) منصوص ہیں۔ نیز اس شعیر(جو) کو کسی اور شکل میں دینا مثلا اس کا آٹا یا اس کی روٹی دینا اس حدیث میں بھی ثابت نہیں ہے۔
.
 ◈ ’’صاعا من طعام‘‘ کا مفہوم اورایک غلط فہمی کا ازالہ ◈ 
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی ابتداء میں جو ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ ہیں اس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں عام غلوں کومراد لیا ہے پھر اسی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ کہہ دیا گیا کہ فطرہ میں عام غلے دینا حدیث سے صراحتا ثابت ہے ۔
دراصل ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’صاعا من طعام‘‘ کے بعد اداۃ عطف’’أو ‘‘ آیا ہے اس کے بعد چار چیزیں بیان ہوئی ہیں اور ’’أو ‘‘ یہ مغایرت پر دلالت کرتا ہے لہٰذا پتہ چلا کہ ’’صاعا من طعام‘‘ ان چیزوں کے علاوہ ہے جن کا ذکر اداۃ عطف’’أو ‘‘ کے بعد ہے۔
عرض ہے کہ عطف ہمیشہ مغایرت پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ عطف کی ایک قسم عطف تفسیری بھی ہے۔یعنی ایک چیز کو اجمالی طور پر ذکر کردیا جائے پھر اس کے بعد اداۃ عطف کے ذریعہ اس کی تفصیل وتشریح کی جائے۔یہی معاملہ یہاں بھی ہے یعنی شروع میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے اجمالی بیان کے بعد جو اداۃ عطف ’’أو ‘‘ ہے وہ تفسیری ہے ،اس کے دلائل درج ذیل ہیں:

 ① اولا:
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں اجمالی طور پر ’’صاعا من طعام‘‘ کہا ہے اور بعد میں اسی اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے چار چیزوں کا ذکر کیا ہے۔جیساکہ درج ذیل حدیث میں بالکل وضاحت ہے:
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: «كنا نخرج في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفطر صاعا من طعام»، وقال أبو سعيد: «وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر»“ 
 ”صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن ایک صاع طعام نکالتے تھے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا طعام (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔“ [صحيح البخاري 2/ 131 رقم 1510]
اس حدیث میں ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے مجمل طعام کی تفسیر و تفصیل بیان کردی کہ عہد رسالت میں فطرہ میں نکالا جانے والا طعام چار قسم کا ہوتا تھا۔لہٰذا جب حدیث کی تشریح خود حدیث سے ہی ہوگئی تو کسی اور رخ پربحث کی سرے سے گنجائش ہی باقی نہ بچی۔
بعض لوگوں نے اس حدیث میں مذکور مجمل طعام کو بعد میں مذکور طعام سے الگ مانا تو ان پر ابن المنذر رحمہ اللہ نے رد کیا جسے نقل کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
 ”وقد رد ذلك بن المنذر وقال ظن بعض أصحابنا أن قوله في حديث أبي سعيد صاعا من طعام حجة لمن قال صاعا من حنطة وهذا غلط منه وذلك أن أبا سعيد أجمل الطعام ثم فسره ثم أورد طريق حفص بن ميسرة المذكورة في الباب الذي يلي هذا وهي ظاهرة فيما قال ولفظه كنا نخرج صاعا من طعام وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر“ 
 ”ابن المنذر نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ : ہمارے بعض اصحاب نے یہ گمان کرلیا کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ ان لوگوں کے لئے دلیل ہیں جو کہتے ہیں کہ فطرہ میں ایک صاع گیہوں نکالا جائے گا۔جبکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے پہلے طعام کو اجمالی طور پر ذکر کیا ہے اور بعد میں اس کی تفسیر وتفصیل بیان کردی ہے ۔پھر ابن المنذر نے حفص بن میسرۃ کے طریق والی روایت ذکر کی ہے جس کا ظاہر ابن المنذر ہی کے موقف پر دلالت کرتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا طعام (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا“ [فتح الباري لابن حجر 3/ 373]

صحیح بخاری کے ایک دوسرے شارح امام قسطلانی (المتوفى 923) بھی ابن المنذر کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”زاد الطحاوي من طريق أخرى عن عياض فلا نخرج غيره، وهو يؤيد تغليط ابن المنذر لمن قال إن قوله صاعًا من طعام حجة لمن قال صاعًا من حنطة“ 
 ”امام طحاوی نے عیاض کے واسطے ایک دوسرے طریق سے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ (ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) ہم ان چیزوں (جن کاذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے ان) کے علاوہ کسی اور چیز سے فطرہ نہیں نکالتے تھے ۔یہ حدیث ابن المنذر اس بات کی تائید کرتی ہے جس میں انہوں نے ان لوگوں کو غلط قرار دیا ہے جو ”طاعا من طعام“ سے ایک صاع گیہوں دینے کی دلیل لیتے ہیں“ [ إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري 3/ 89]
.
محمود عبد اللطيف عويضة صاحب لکھتے ہیں:
 ”فهذا أبو سعيد الخدري نفسه الذي رُوي حديثهم من طريقه، قد فسَّر لفظة الطعام تفسيراً يقطع الشك باليقين، بأن معناها عندهم الشعير والزبيب والأقط والتمر، أي الأصناف ذاتها الواردة في حديثهم عقب لفظة الطعام، والحديث يفسِّر بعضه بعضاً، وعليه فإِنَّا نَحْمِلُ حديثَهم على هذا الحديث، فنقول إن هذا الحديث قد ذكر العامَ، ثم ذكر بعده الخاص، وهذا أسلوب يعرفه الكل.“ 
 ”ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ جن کے طریق سے فطرہ سے متعلق طعام والی حدیث منقول ہے انہوں نے خود لفظ طعام کی ایسی تفسیر کردی ہے جس سے شکوک وشبہات ختم ہوجاتے ہیں اور یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ طعام سے ان کی مراد جو ، کشمش ، پنیر اور کھجور ہی ہے ، یعنی ٹھیک وہی قسمیں جو ان کی حدیث میں لفظ طعام کے بعد مذکور ہیں ، اور بعض حدیث بعض حدیث کی تشریح کرتی ہے ۔ لہٰذا ہم ان کی حدیث کو اس حدیث پرمحمول کریں گے اور کہیں گے کہ اس حدیث میں ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے پہلے عمومی طور پر طعام کا ذکر کیا پھر اس کے بعد خصوصی طور پر سب کو بیان کردیا، اس طرح کے اسلوب بیان سے ہر ایک شخص واقف ہے“ ۔[ الجامع لأحكام الصيام ص: 341]
.
 ② ثانیا:
اس حدیث پر ایک اور پہلو سے غور کریں کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا:
«وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر»
 ”ہمارا طعام (ان دنوں) جَو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔“ [صحيح البخاري 2/ 131 رقم 1510]
اگر ان کی حدیث میں طعام سے مطلق طعام مراد لیں تو اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہاں حصر کے ساتھ طعام کی چار قسمیں ہی بتلائی ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ کیا ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز صحابہ کرام کھاتے ہی نہ تھے؟؟؟
ظاہر ہے کہ یہ بات خلاف واقعہ ہے کیونکہ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان چار کے علاوہ بھی کئی اقسام کے کھانے مثلا (اللحم) گوشت ، (السمك)مچھلی ، (الفواكه) میوے ، (الخضراوات) سبزیاں ، (الذرۃ) مکئی ، (السویق) ستو ، (اللبن)دودھ وغیرہ ان کے یہاں مستعمل تھے۔
لہذا یہ سیاق ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کا مطلب یہی ہے جس طعام سے وہ فطرہ نکالتے تھے وہ طعام ان چارقسموں پرمشتمل تھا ۔نہ کہ یہ مطلب ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز وہ کھاتے ہی نہ تھے ۔
.
 ③ ثالثا:
یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے ذریعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وحکم کو نقل نہیں کیا ہے جو عام ہو اور حال و مستقبل سب کو شامل ہو، بلکہ ان الفاظ سے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ماضی یعنی عہد رسالت کا عمل (’’كنا نخرج‘‘ ہم نکالتے تھے ) بیان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ماضی میں یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہم صحابہ یہ چیز نکالتے تھے ۔
اب اگر فرض کرلیا جائے کہ اس حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ ان چارچیزوں کے علاوہ ہے جن کا ذکراس کے بعد ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عہد رسالت میں ان چارچیزوں کے علاوہ بھی دیگر غلوں سے فطرہ دیا جاتاتھا۔ پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان چارچیزوں کے علاوہ وہ کون کون سے غلے تھے جو عہدرسالت میں بطور فطرہ دئے جاتے تھے؟؟؟
احادیث اور روایات کا ذخیرہ چھان مارئیے ان چار چیزوں کے علاوہ کسی بھی دوسرے غلے کے بارے میں صراحت نہیں ملتی کہ صحابہ کی جماعت نے اسے بھی فطرہ میں دیا ہوا۔
صرف ایک صحابیہ اسماء رضی اللہ عنہا کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ عہدرسالت میں گیہوں نکالتی تھی لیکن یہاں ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ سے گیہوں مراد نہیں لیا جاسکتا کیونکہ یہ الفاظ کہنے والے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے اپنے علم کے مطابق یہ صراحت کررکھی ہے کہ گیہوں عہدرسالت میں نہیں نکالا گیا بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں نکالا گیا ، کماسیاتی۔ اورچونکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ’’صاعا من طعام‘‘ کہہ کر عہدرسالت کے دور کی حالت بیان کی ہے اس لئے ان کے ان الفاظ میں گیہوں کے شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نیز ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ ’’صاعا من طعام‘‘ میں مقدار ایک صاع بتلائی ہے جبکہ اسماء رضی اللہ عنہ کی جانب سے عہدرسالت میں گیہوں دینے کی جو بات ملتی اس میں صراحت ہے کہ وہ نصف صاع دیتی تھیں ، اس میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے مذکورہ الفاظ سے گیہوں مراد نہیں ہے۔
مزید برآں یہ کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فطرہ میں سرے سے گیہوں نکالنے پر عمل ہی نہیں کرتے تھے اور یہ کہتے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جن چیزوں کا فطرہ دیتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی صرف انہیں چیزوں کو فطر ہ میں دوں گا کماسیاتی ۔
.
 ④ رابعا:
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ ہی سے یہ حدیث بہت سارے طرق سے مروی ہے اور کئی طرق میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ صرف چار چیزوں ہی کا ذکر ہے مثلا:
عن أبي سعيد ، لم نزل نخرج زكاة الفطر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاع من تمر ، أو شعير ، أو أقط ، أو زبيب.“ 
 ”صحابی رسول ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک صاع کجھور یا جو یا پنیر یا کشمش نکالا کرتے تھے“ [مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 23 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم واخرجہ ایضا عبدالرزاق فی مصنفہ ( 3/ 316 )من طریق داود بہ]
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’صاعا من طعام‘‘ سے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی مراد وہی چار چیزیں جن کی تفصیل انہوں نے بعد میں پیش کردی ہے ورنہ اس حدیث میں ’’صاعا من طعام‘‘ کے الفاظ نہ ہونے کی صورت میں اس غلے کا ذکر آنا لازمی تھا جو ’’صاعا من طعام‘‘ سے مراد تھا !
یادرہے ’’صاعا من طعام‘‘ کہہ کر ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفرمان پیش نہیں کیا ہے بلکہ ماضی میں عہدرسالت کا ایک عمل پیش کیا ہے۔
.
 ⑤ خامسا:
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب نصف صاع گیہوں بھی نکالنے کی بات کہی تو اس وقت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے نہ صرف یہ کہ نصف صاع گیہوں نہیں نکالا بلکہ ایک صاع بھی گیہوں نہیں نکالا یعنی ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں سرے سے گیہوں ہی نکالنے سے اجتناب کیا اور صرف ان چار چیزوں میں سے ہی فطرہ نکالتے رہے جو انہوں نے اپنی حدیث میں بیان کیا ہے ۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’صاعا من طعام‘‘ سے ان کی مراد عام غلہ ہرگز نہیں ہے ورنہ وہ گیہوں میں ایک صاع فطرہ ضرور نکالتے ۔
ملاحظہ فرمائیں ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے موقف سے متعلق روایات:
.
 ● امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
 ”حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا داود يعني ابن قيس، عن عياض بن عبد الله، عن أبي سعيد الخدري، قال: «كنا نخرج إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر، عن كل صغير، وكبير، حر أو مملوك، صاعا من طعام، أو صاعا من أقط، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من زبيب» فلم نزل نخرجه حتى قدم علينا معاوية بن أبي سفيان حاجا، أو معتمرا فكلم الناس على المنبر، فكان فيما كلم به الناس أن قال: «إني أرى أن مدين من سمراء الشام، تعدل صاعا من تمر» فأخذ الناس بذلك قال أبو سعيد: «فأما أنا فلا أزال أخرجه كما كنت أخرجه، أبدا ما عشت»“ 
 ”صحابی رسول ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام کی طرف سے ایک صاع طعام یعنی ایک صاع پنیر یا جَو یا کھجور یا کشمش نکالتے تھے پھر جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج کو یا عمرہ کو آئے تو لوگوں میں منبر پر وعظ کیا اور اس میں کہا کہ میں جانتا ہوں کہ دو مد (یعنی نصف صاع) شام کا سرخ گیہوں (قمیت میں ) ایک صاع کھجور کے برابر ہوتاہے ، تو لوگوں نے اس بات کو قبول کرلیا اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تو تاحیات فطرہ میں وہی نکالتا رہوں گا جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نکالا کرتاتھا“ [صحيح مسلم 3/ 678 رقم 985]
.
 ● امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
 ”حدثني عمرو الناقد، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن ابن عجلان، عن عياض بن عبد الله بن أبي سرح، عن أبي سعيد الخدري، أن معاوية، لما جعل نصف الصاع من الحنطة، عدل صاع من تمر، أنكر ذلك أبو سعيد، وقال: لا أخرج فيها إلا الذي كنت أخرج في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صاعا من تمر، أو صاعا من زبيب، أو صاعا من شعير، أو صاعا من أقط»“ 
 ”صحابی رسول ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے نصف صاع کھجور کو ایک صاع گیہوں کے برابر مقرر کیا تو ابوسعید رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور کہا میں تو (فطرہ میں) وہی دوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیتا تھا یعنی ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع جَو یا ایک صاع پنیر۔“ [صحيح مسلم 3/ 679 رقم 985]
.
 ⟐ تنبیہ:
فطرہ میں گیہوں نہ نکالنے متعلق ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی جو روایت ابن عجلان سے مختلف طرق سے مروی ہے اس میں صحیح روایت وہی ہے جسے امام مسلم کے حوالہ سے اوپر درج کیا تھا ۔اس کے علاوہ ابن عجلان کی جو دیگرروایات ہیں ان میں شدید اضطراب ہے اس لئے وہ صحیح نہیں ہیں انہیں میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ :
 ”لا أخرج أبدا إلا صاعا“ 
 ”یعنی میں ایک ہی صاع ہمیشہ نکالوں گا“ [سنن أبي داود 2/ 113 رقم 1618 وضعفہ الالبانی]
اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے آدھا صاع نکالنے سےاختلاف کیا تھا اور ایک صاع نکالنے کی بات کہی تھی ۔ غالبا اس جیسی روایت کے پیش نظر ہی بعض اہل علم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کا اختلاف صرف مقدار متعین کرنے میں تھا۔
لیکن یہ روایت صحیح نہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
مزید یہ کہ اسی روایت کے دیگر طرق میں الگ الفاظ ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ گیہوں میں ایک صاع بھی نکالنے کے منکر تھے اور صرف انہیں چیزوں میں ایک صاع نکالنے کے قائل تھے جن پر عہد رسالت میں ان کا عمل تھا چنانچہ مسند احمد کی ایک روایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں:
 ”حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن عجلان ، حدثنا عياض بن عبد الله ، عن أبي سعيد قال : لا أخرج أبدا إلا صاعا من تمر ، أو شعير ، أو أقط ، أو زبيب“ 
 ”ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نہیں نکالوں گا مگر صرف ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش“ [مسند أحمد (طبعة عالم الكتب) 4/ 245 رقم 11962م ، ورجاله ثقات]
نیز ابن عجلان ہی کی ایک دوسری روایت کے مطابق ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے حصر کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ عہدرسالت میں ہم صرف چارچیزوں ہی سے فطرہ نکالتے تھے اور میں انہیں سے ہی فطر ہ نکالوں گا چنانچہ:
محمد بن عبد الرحمن المخَلِّص (المتوفى393) نے کہا:
 ”حدثنا أحمد: حدثنا علي: حدثنا المعافى: حدثنا القاسم، عن محمد بن عجلان، عن عياض قال: أمر معاوية بصدقة الفطر بمدين قمح ، فقال أبوسعيد الخدري:لا أخرج إلا كما كنا نخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإنا لم نخرج إلا صاعا من تمر، أو صاع زبيب، أو صاعا من شعير، أو صاعا من أقط“ 
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں فطرہ میں نہیں نکالوں گا مگر ویسے ہی جیسے عہد رسالت میں ہم نکالتے تھے اور عہد رسالت میں ہم نے ایک صاع کھجور، یا ایک صاع کشمش، یا ایک صاع جو ، یا ایک صاع پنیر کے علاوہ کچھ نہیں نکالا ۔[المخلصيات 2/ 23 ورجالہ ثقات]
ابن عجلان ہی کی ان روایات سے صراحتا معلوم ہوتا ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فطرہ میں سرے سے گیہوں نکالنے کے قائل ہی نہ تھے ۔
لیکن ہماری نظر میں ابن عجلان کے طریق سے آنے والی ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی صرف وہی حدیث معتبر ہے جو صحیح مسلم میں ہے یا جس کی تائید دیگر صحیح روایات سے ملتی ہے باقی ابن عجلان کی دیگر منفرد روایات معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کی بیان کردہ حدیث میں کئی طرح کا اضطراب ہے ، واللہ اعلم۔
نیز اس کو صحیح بھی مان لیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہوگا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے مقدار میں بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا تھا اورسرے سے گیہوں نکالنے سے بھی اختلاف کیا تھا جیساکہ صاحب مراعاۃ کے الفاظ میں اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
بہرحال درج بالا روایات سے معلوم ہوتا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے صرف قیمت کے اعتبارہی سے اختلاف نہیں کیا بلکہ انہوں نے سرے سے گیہوں دینے ہی سے اختلاف کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ میں عہدرسالت میں جو دیتاتھا وہی آج بھی دوں گا ۔
.
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) کہتے ہیں:
 ”فهذا أبو سعيد يمنع من البر جملة“ 
 ”ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سرے سے گیہوں دینے ہی کے خلاف تھے“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 252]
.
علامہ عبيد الله الرحماني المباركفوري (المتوفى 1414) لکھتے ہیں:
 ”قد عرفت مما قدمنا إن أباسعيد كان يرى إن الواجب من كل شيء صاع خلافاً لمعاوية، ومن وافقه، ولكنه لم يخرج من البر قط لا صاعاً ولا نصفه لا؛ لأنه ما كان يعرف القمح في الفطرة بل إتباعاً لما كان يفعله الصحابة في زمانه - صلى الله عليه وسلم - من إخراج غير البر، وكذا ابن عمر“ 
 ”ہماری سابقہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین سے اختلاف کرتے ہوئے ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ ہر چیز میں ایک صاع ہی واجب ہے ۔لیکن ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے گیہوں سے صدقہ الفطر نکالا ہی نہیں ، نہ ایک صاع اور نہ آدھا صاع ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فطرہ میں گیہوں کو ناجائز سمجھتے تھے بلکہ وہ گیہوں سے فطرہ نہ نکال کرکے عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل کی اتباع کرنا چاہتے تھے اور ٹھیک یہی معاملہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا“ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 6/ 197]

اس پوری تفصیل سے معلوم ہواکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں دی جانے والی صرف چار چیزوں کو بیان کیا ہے اور وہ پوری زندگی صرف انہیں چار چیزوں سے ہی فطرانہ دیتے رہے۔اور یہی معاملہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا کہ وہ بھی صرف انہوں چیزوں سے فطرہ نکالتے تھے جو ان کی روایت کردہ حدیث میں مذکور ہیں ۔
.
 ✿ تیسری حدیث:
امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
 ”حدثنا فهد بن سليمان , وعلي بن عبد الرحمن قالا: حدثنا ابن أبي مريم قال: أخبرني يحيى بن أيوب أن هشام بن عروة حدثه عن أبيه أن أسماء ابنة أبي بكر أخبرته أنها كانت تخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أهلها الحر منهم والمملوك مدين من حنطة أو صاعا من تمر“ 
 ”اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنے گھرانے میں ہرایک کی طرف سے خواہ آزاد ہوں یا غلام ، دو مد (یعنی آدھا صاع ) گیہوں یا ایک صاع کھجور نکالتی تھیں“ [شرح مشكل الآثار 9/ 27 رقم 3408 قال الالبانی اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین وھو کذلک]۔
.
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نہ صرف ایک صحابیہ ہیں بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی سگی بہن بھی ہیں اور آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا حوالہ دے کر مذکورہ بات کہہ رہی ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوع ہے۔
یاد رہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی سابقہ الذکر حدیث کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس میں ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے عہدرسالت کا حوالہ دے کر فطرہ میں دی جانے والی اشیاء کا تذکرہ کیا ہے جس کی بناپر اسے مرفوع مانا گیا ہے۔ٹھیک یہی معاملہ اسماء بن ابی بکر رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں بھی ہے اس لئے یہ حدیث بھی مرفوع ہے۔
اس حدیث سے ایک اور چیز کا فطرہ میں دینا ثابت ہوا وہ ہے گیہوں لیکن گیہوں دینے کی شکل میں اس کی مقدار نصف صاع بتلائی گی ہے۔
.
  احادیث کی روشنی میں منصوص اشیاء فطرہ
صحیح سندوں سے ثابت شدہ یہ صرف تین ایسی احادیث ہیں جن میں یہ صراحت ہے کہ عہد رسالت میں کون کون سی اشیاء فطرہ میں دی جاتی تھیں ۔ان احادیث کی روشنی میں فطرہ میں دی جانے والی منصوص اشیاء کی فہرست یہ ہے:
 ① کھجور
 ② جو
 ③ کشمش
 ④ پنیر
 ⑤ گیہوں
عہد رسالت میں ان پانچ اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز سے صدقہ الفطر نکالنا ثابت نہیں ہے گرچہ طعام کی اور بھی کئی اقسام ان کے یہاں موجود تھیں مثلا ،(اللحم) گوشت ، (السمك)مچھلی ، (الفواكه) میوے ، (الخضراوات) سبزیاں ، (الذرۃ) مکئی ، (السویق) ستو ، (اللبن)دودھ وغیرہ۔
بلکہ جن پانچ اقسام کو فطرہ میں نکالا جاتا تھا ان میں بھی ایک خاص کیفیت وشکل کی قسم نکالی جاتی تھی ۔چنانچہ:
 ⋆ (التمر) خشک کھجور نکالنا ثابت ہے مگر (رطب) تر کھجور نکالنا ثابت نہیں ہے۔
 ⋆ (الشعیر)جو اور (القمح)گیہوں اصل حالت میں نکالا جاتا تھا لیکن ان کا آٹا(الدقیق) بنا کر یا ان کے آٹے سے روٹی (الخبز)بناکر فطرہ میں نکالنا ثابت نہیں ہے۔
 ⋆ نیز (الزبیب) کشمش کی جگہ (العنب) انگور ، اسی طرح (الاقط) پنیر کی جگہ (اللبن) دودھ نکالنا ثابت نہیں ہے۔
.
منصوص اشیاء ہی سے فطرہ نکالنا افضل ہے 
اس پوری تفصل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عہدرسالت میں عام طعام یا عام غلوں سے فطرہ نہیں نکالا جاتا تھا بلکہ کچھ خاص چیزیں متعین تھیں جن سے فطرہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اور جو صحابہ فطرہ میں دی جانے والی اشیاء کے راوی ہیں ان کے بارے میں یہی ملتا ہے کہ وہ منصوص اشیاء ہی نکالنے کا اہتمام کرتے تھے ان کا موقف کامل اتباع اور احتیاط پرمبنی تھا ۔اس بناپر ہم کہتے ہیں کہ اگرکوئی صرف منصوص اشیاء (کھجور، جو، کشمش،پنیر اور گیہوں)ہی سے فطرہ نکالنے کا اہتمام کرتا ہے تو یہی افضل و بہتر ہے۔
.
بعض اہل علم کے نزدیک منصوص اشیاء ہی سے فطرہ نکالنا واجب ہے
بلکہ بعض اہل علم نے تو منصوص اشیاء ہی سے فطرہ نکالنے کو واجب قرار دیا ہے اور غیرمنصوص اشیاء مثلا عام طعام و غلوں سے فطرہ نکالنے کو ناجائز کہا ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے دیکھئے [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 252]
بلکہ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی منقول ہے چنانچہ امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
 ”وعن أحمد رواية أنه لا يجزئ إلا الأجناس الخمسة المنصوص عليها التمر والزبيب والبر والشعير والأقط“ 
 ”اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ ہے کہ فطرہ میں پانچ منصوص اشیاء یعنی کھجور، کشمش ، گیہوں ، جو اور پنیز کے علاوہ کسی اور چیز سے فطرہ نکالنا درست نہیں ہے“ ۔[المجموع شرح المهذب 6/ 144]
.
واضح رہے کہ بعض حضرات یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ فطرہ نکالنے کا معاملہ امرتعبدی یعنی غیر معقول المعنی والعلۃ ہے اگران حضرات کی بات درست تسلیم کرلی جائے تو پھر یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ فطر ہ میں صرف اور صرف منصوص چیزیں (کھجور، جو، کشمش ، پنیر اورگیہوں) ہی دینا فرض ہوگا ۔لیکن یہاں امرتعبدی والی بات بالکل لغو ہے جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسے واجب و فرض کہنا درست نہیں ہے تاہم اس کے افضل و بہتر ہونے میں کلام نہیں ۔
رہی بات یہ کہ اگر منصوص اشیاء پر قیاس کرتے ہوئے غیرمنصوص اشیاء مثلا عام طعام اوردیگر غذائی اشیاء نکالی جائیں تو کیا یہ بھی افضل ہیں تو اس بارے میں تفصیل آگے آرہی ہے۔

No comments:

Post a Comment