.
.
باب دوم
فطرہ دینے کی علت و حکمت
اگر صرف منصوص اشیاء (کھجور، جو، کشمش ، پنیر اورگیہوں) ہی سے فطر ہ ادا کیا جائے تب تو اس کی علت پربحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن اگراس پرقیاس کرتے ہوئے دیگر غلہ دینے کی بات کہی جائے یا یہ کہا جائے کہ ہرعلاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے میں پائے جانے والے طعام سے فطرہ نکالیں گے تو یہ قیاس کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ فطرہ دینے کی اصل علت وحکمت کیا ہے؟
اس سلسلے میں ایک حدیث مروی ہے لیکن اس میں جزئی اور غیرلازمی علت کا بیان ہے نہ کہ کلی اورلازمی علت ، ملاحظہ ہو یہ حدیث:
عن ابن عباس، قال: «فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساكين، من أداها قبل الصلاة، فهي زكاة مقبولة، ومن أداها بعد الصلاة، فهي صدقة من الصدقات»
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔[سنن أبي داود 2/ 111 رقم 1609]
اس حدیث میں فطرہ کی دوعلت بتلائی گئی ہے :
طهرة للصائم
طعمة للمساكين
لیکن یہ دونوں علتیں ہر دئے جانے والے فطرہ کے اندر لازمی طور یا کلی طور پرنہیں پائی جاتی ہے ہم ہر ایک کے بارے میں تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
پہلی علت: طهرة للصائم
”طهرة للصائم“ کا مفاد یہ ہے کہ جو روزہ دار اپنی طرف سے فطرہ نکال دے گا تو دوران روزہ اس سے ہونے والی کوتاہیوں وغلطیوں کے لئے یہ فطرہ کفارہ بن جائے گا اوراس کا روزہ پاک ہوجائے گا۔
لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہر فطرہ دینے والا شخص روزہ نہیں رکھتا مثلا کوئی رمضان بھر بیمار رہا تو وہ روزہ نہیں رکھے گا لیکن پھربھی اسے فطرہ دینا ہوگا اسی طرح جو بالکل چھوٹے بچے ہیں وہ بھی روزہ نہیں رکھتے لیکن ان کی طرف سے بھی فطرہ نکالنا ہوتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ان حضرات کی طرف سے دئے جانے والے فطرہ میں یہ علت ”طهرة للصائم“ بالکل بھی نہیں پائی جاتی ہے۔ثابت ہوا کہ یہ ”طهرة للصائم“ والی علت لازمی وکلی علت نہیں ہے ۔
دوسری علت: طعمة للمساكين
صدقۃ الفطر کا ”طعمة للمساكين“ ہونا یہ ہرحال میں لازمی علت نہیں ہے جیسے صدقہ الفطر کا ”طھرة للصائمین“ ہونا لازمی علت نہیں ہے۔
چنانچہ صدقہ الفطر بالکل چھوٹے بچے اور بیمار وغیرہ کی طرف سے بھی نکالا جاتا ہے جبکہ یہ لوگ روزہ رکھتے ہی نہیں لہٰذا ان کے حق میں صدقہ الفطرکے ”طھرة للصائمین“ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ٹھیک اسی طرح صدقۃ الفطر وصول کرنے والوں کے لئے باجماع امت یہ بات جائز ہے کہ وہ وصول کردہ صدقہ الفطر کو کھانے کے بجائے بیچ کر کسی اور مصرف میں لاسکتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان حضرات کے لئے صدقۃ الفطر ”طعمة للمساكين“ نہیں بنتا۔ثابت ہوا کہ ”طعمة للمساكين“ بھی ہرحال میں لازمی علت وکلی علت نہیں ہے۔
اب سوال ہے یہ کہ جب مذکورہ حدیث میں منصوص علتیں لازمی وکلی نہیں ہیں ، بلکہ غیرلازمی اور جزئی ہیں ، تو پھر صدقۃ الفطر کے پیچھے اصل علت کیا ہے ؟
تو عرض ہے کہ صدقہ الفطر کی اصل علت یہ ہے کہ عید کے دن غرباء ومساکین کے لئے ”ثمن“ فراہم کردیا جائے پھر غرباء ومساکین چاہیں تو عین وصول کردہ اشیاء ہی کو بطور خوراک استعمال کریں ، یا اس کے ذریعے اپنی من پسند خوراک خرید لیں ، یا خوراک کے بجائے اپنی دوسری ضروریات مثلا کپڑے وغیرہ کی خریداری کرسکیں ۔ملاحظہ ہوں اس کے دلائل :
▪اولا : - اگرمقصود صرف خوراک فراہم کرنا ہوتا تو صرف یہ حکم دیا جاتا کہ خوراک فراہم کردو ،لیکن اس خوراک کی نوعیت کی تعیین نہیں کی جاتی ۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ احادیث میں غلہ دینے کی صراحت کے ساتھ ساتھ اس کی نوعیت کی تعیین بھی واردہوئی ہے کہ فلاں فلاں چیز دی جائے ۔اوریہ چیزیں وہی ہیں جوعہدرسالت میں بطور ثمن استعمال ہوتی تھیں۔نیزغورکریں کہ اسلام میں بعض مسائل میں بطور کفارہ کھانا کھلانے کی بات ہے لیکن اس طرح کے نصوص میں کھانے کی نوعیت کا تعین نہیں بلکہ صرف مطلق کھانا کھلانے کی بات ہےجس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اصل مقصود کھانا کھلانا ہے ۔
لیکن صدقہ الفطر میں اول تو کھانا کھلانے کی نہیں بلکہ کھانا دینے کی بات ہے نیز اس کے ساتھ اس کی تعیین بھی وارد ہے ۔یہ تفریق ہی بتلارہی ہے کہ صدقۃ الفطر میں دیا جانے والا کھانا ”بطور خوراک“ نہیں بلکہ ”بطور ثمن“ تھا۔
▪ثانیا : -فطرہ میں گیہوں دیا جائے تو اس کی مقدار نصف صاع بتلائی گئی ہے۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ صرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا جو حجت نہیں لیکن ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے عین یہی بات مرفوعا صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے[شرح مشكل الآثار 9/ 27 رقم 3408]۔ اوراس کی سند صحیحین کی شرط پر صحیح ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔[تمام المنة في التعليق على فقه السنة ص: 387]۔
یہاں غور کیجیے کہ گیہوں کی مقدار دیگر خوراک کے مساوی نہیں بلکہ دیگر خوراک کی قیمت کے مساوی رکھی گی ہے۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ فطرہ میں دیا جانے ولا غلہ ”بطور خوراک“ نہیں بلکہ ”بطور ثمن“ تھا۔
▪ثالثا: -کفارہ وغیرہ میں جہاں مسکین کو غذا و خوراک فراہم کرنا مقصود ہے وہاں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دن کے کفارے کے طور پر مسکین کو دئے جانے والے طعام کو پانچ حصوں میں بانٹ کر پانچ مساکین کو دے دئے جائیں کیونکہ ایسی صورت میں ان پانچوں میں سے کسی ایک کا بھی پیٹ نہیں بھرے گا بنا بریں اصل مقصود مسکین کو غذاء وخوراک فراہم کرنا پورا نہیں ہوگا۔
لیکن فطرہ میں ایک شخص کی طرف سے دئے جانے والے ایک صاع کے بارے میں یہ بالکل جائز ہے کہ اس کے پانچ حصے کرکے پانچ الگ الگ لوگوں میں تقسیم کردیاجائے۔
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر صاعًا من البر ونحوه من الطعام، ويجوز أن يدفع المسلم الصاع لشخص واحد أو لعدة أشخاص، المهم أن يكون من الدافع صاع كامل، أما المدفوع له فلا مانع أن يشترك عدة أشخاص في صدقة شخص واحد
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر ایک صاع گیہوں یا اس کے علاوہ دیگر طعام کو فرض قرار دیا ہے اور یہ جائز ہے کہ ایک مسلمان ایک صاع ایک ہی مسکین کو دے دے یا اس ایک ہی صاع کو کئی مساکین میں تقسیم کردے ۔ ضروری صرف اتنا ہے کہ دینے والا ایک مکمل صاع دے، لیکن جہاں تک لینے والے کی بات ہے تو ایک ہی شخص کے ایک صاع فطرہ کو کئی اشخاص کے حوالے کرنا جائز ہے۔ (مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان 2/ 437)
قارئین غور فرمائیں کہ کفارہ کے معاملے میں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے ایک دن کے کفارے کو پانچ یا اس سے زائد لوگوں میں تقسیم کردیا جائے کیونکہ ایسی صورت میں اصل مقصود جو مسکین کو خوراک فراہم کرنا ہے وہ حاصل نہیں ہوگا ۔
لیکن فطرہ میں ایک شخص کی طرف سے دئے جانے والے ایک صاع کو پانچ یا اس سے زائد اشخاص میں تقسیم کیا جاسکتاہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ایک صاع فطرے کے یہ ٹکڑے کسی ایک کے لئے بھی مکمل خوراک نہیں بن سکیں گے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فطرۃ میں مسکین کو خوراک ہی فراہم کرنا اصل مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصود ثمن فراہم کرنا ہے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ گرچہ ایک شخص کی طرف سے موصول ہونے والا یہ ٹکڑا ایک مسکین کے لئے مکمل خوراک ثابت نہ ہو لیکن اسی مسکین کو دیگر صائمین کی طرف سے بھی فطرے موصول ہوں گے اورپھر مجموعی صورت میں اس کی خوراک کا بندوبست ہوجائے گا تو سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض ان مسکینوں کو کہیں اور سے فطرۃ ملنے کی امید نہ ہو تو کیا ایک شخص کے لئے اپنے ایک صاع طعام کو ان سب میں تقسیم کرنا جائز نہ ہوگا؟؟؟
▪رابعا : -کفارہ وغیرہ میں جہاں مسکین کو غذا و خوراک فراہم کرنا مقصود ہے وہاں یہ جائز ہے کہ کفارہ دینے والا مسکین کے گھر کھانا بھیجنے کے بجائے اپنے گھر ہی کھانے پر مسکین کو مدعو کرلے اور اسے کھانا کھلا کر رخصت کردے ۔کیونکہ ایسی صورت میں بھی اصل مقصود خوراک فراہم کرنا حاصل ہوجاتا ہے۔
الاسلام سوال وجواب میں ہے:
أما صفة الإطعام فيخير بين أن يعطي كل مسكين نصف صاع من الطعام كالأرز ونحوه (أي كيلو جرام ونصف تقريباً) ، أو يصنع طعاماً ويدعو إليه المساكين
جہاں تک (کفارہ میں ) کھلانے کی بات ہے تو کھلانے والے کو اختیار ہے کہ وہ خواہ ہرمسکین کو نصف صاع (تقریبا ڈیڑھ کلو) کھانا مثلا چاول وغیرہ دے ۔خواہ (اپنے گھر) کھانا بنا کرمسکینوں کو مدعو کرکے کھلادے ۔(الاسلام ، سوال و جواب: مقدار الفدية التي في آية الصيام رقم 49944)
لیکن فطرۃ کے معاملے میں یہ جائز نہیں کہ مقدار فطرہ کا کھانا بنوا کر مساکین کی دعوت لے لیں اور انہیں اپنے گھر پر کھلا پلا کر رخصت کردیں ۔
▪خامسا : -صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کفارہ میں مسکین کو جوطعام دیتے تھے وہ روٹی اور گوشت وغیرہ کی شکل میں ہوتا تھا جیساکہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اخیر عمر میں جب وہ بیمار ہوگئے اور روزہ رکھنے پر قادر نہ تھے تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو گوشت اور روٹی کھلاتے تھے ۔[ أحاديث إسماعيل بن جعفر، رقم112 ، واسنادہ صحیح ، ورواہ البخاري 6/ 25 ،تعلیقا، وانظر: تغليق التعليق لابن حجر: 4/ 177]
لیکن یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فطرہ میں جو طعام دیتے تھے وہ روٹی اور گوشت نہیں بلکہ ان منصوص اشیاء میں سے کوئی ایک ہوتا تھا جن کا ذکر ابوسعد الخدری رضی اللہ عنہ کی طرف ہے کیونکہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے اسے صرف اپنا نہیں بلکہ تمام صحابہ کا عمل بتلایا ہے جن میں سارے صحابہ شامل ہیں ۔
▪سادسا: - کفارہ میں مسکین کو روٹی دینا صحابہ سے ثابت ہے جیساکہ انس رضی اللہ عنہ کا اثر گذرچکا ہے ، لیکن صدقہ الفطر میں روٹی دینا صحابہ سے ثابت نہیں، جبکہ صدقۃ الفطر میں دی جانے والی بعض اشیاء سے روٹی بنائی جاسکتی تھی ، یہ تفریق بھی دلیل ہے کہ کفارہ میں مقصود خوراک ہے جبکہ صدقہ الفطر میں مقصود ثمن فراہم کرنا ہے تاکہ مسکین اپنی مرضی سے جہاں چاہئے اسے صرف کرسکے۔
▪سابعا: - ہرمعقول شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ بھوکے آدمی کے لئے زیادہ سہولت غلہ لینے میں نہیں بلکہ بنابنایا کھانا لینے میں ۔اسی لئے کفارہ وغیرہ میں جہاں مقصود صرف اورصرف کھانا کھلانا ہے وہاں بنابنایا کھانا ہی کھلانے کاحکم ہے ۔لیکن فطرہ میں صرف غلہ دینے ہی کی بات ملتی ہے اس سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اصل مقصود ثمن فراہم کرنا ہے نہ کہ خوراک۔
▪ثامنا: -اگر صدقۃ الفطر میں دیے جانے والے غلہ کا مقصود صرف خوراک فراہم کرنا ہوتا تو کیا وجہ ہے کسی بھی حدیث میں یہ نہیں ملتا کہ غلہ دینے کے بجائے کسی کو کھانا کھلا دو؟ سوال یہ ہے کہ جب اس غلہ کا مقصودصرف اور صرف کھانا فراہم کرنا ہی ہے ۔تو آخراس بات کی اجازت کیوں نہیں دی گئی کہ بعض لوگ فطرہ دینے کے بجائے کسی کو کھانا بھی کھلاسکتے ہیں ؟
▪تاسعا: -کفارہ میں دئے جانے والے طعام کی مقدار نصف صاع یعنی تقریبا ڈیڑھ کلو ہے جیساکہ اہل علم نے صراحت کی ہے ، اوریہ ایک آدمی کی خوراک کی مقدار ہے ، جبکہ فطرہ میں دئے جانے والے طعام کی مقدار ایک صاع ہے یعنی تقریبا ڈھائی کلو ہے اور یہ آدمی کی خوراک کی مقدار سے زائد ہے ۔ مقدار کی یہ تفریق بھی دلیل ہے کہ کفارہ میں مقصود خوراک فراہم کرنا ہے ، جبکہ صدقہ الفطر میں مقصود ثمن فراہم کرنا ہے۔
▪عاشرا: -کفارہ میں مساکین کو طعام صرف کھانے کے لئے دیا جاتا ہے اور انہیں اس بات کی قطعا اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اس طعام کو کھانے کے بجائے فروخت کرکے اس کی قیمت حاصل کرلیں اوراس سے اپنی ضرورت کی کوئی اورچیز خرید لیں ، لیکن صدقہ الفطر میں مساکین کو دیا گیا طعام صرف کھانے ہی کے لئے نہیں دیا جاتا بلکہ مساکین باتفاق امت اس بات کے مجاز ہوتے ہیں کہ وہ چاہیں تو اس طعام کو بطور خوراک استعمال کریں اور چاہیں تو اس سے ضرورت کی کوئی اور چیز مثلا کپڑے وغیرہ خرید لیں ۔
تلک عشرۃ کاملہ
یہ سارے فرق چیخ چیخ کر اعلان کررہے ہیں کہ کفارہ میں دیا جانے والا طعام کچھ اور ہے اور فطرۃ میں دیا جانے والا طعام کچھ اور ہے۔کفارہ ولا طعام محض مسکین کی غذا و خوراک کے لئے ہے جبکہ فطرہ والا طعام مسکین کے لئے بطور ثمن ہے جسے وہ جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت طشت ازبام ہوجاتی ہے کہ صدقہ الفطر کی ادائیگی میں اصل حکمت غرباو ومساکین کو ثمن فراہم کرنا ہے اورحدیث میں طعمۃ کی جو علت بتلائی گئی ہے یہ من جملہ ایک علت ہے یعنی کلی علت نہیں بلکہ جزئی علت ہے اوروہ بھی لازمی اور ضروری نہیں جیساکہ ماقبل وضاحت گذرچکی ہے کہ مسکین وصول کردہ طعام کو باتفاق امت فروخت کرکے غیر طعام کے لئے بھی استعمال کرسکتا ہے ۔
منکرین نقد کا متضاد طرزعمل:
حیرتناک بات ہے کہ منکرین نقد ایک طرف حدیث میں مستعمل ’’طعمۃ للمساکین‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حدیث میں صدقہ الفطر کو ’’طعمۃ للمساکین‘‘ کہا گیا ہےاس لئے خوراک ہی دینی لازم ہے ورنہ یہ علت پوری نہ ہوگی ۔ لیکن دوسری طرف انہیں اس بات سے قطعا کوئی سروکار نہیں ہے کہ غرباء ومساکین کے ہاتھ میں پہنچ کر یہ طعام ، طعمہ ہی بن رہا ہے یا نقد میں تحلیل ہورہاہے۔
یہ حضرات سارا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں ’’طعام ‘‘ دینا ہے لیکن اسے ’’طعمۃ للمساکین‘‘ بنانے پران کے یہاں کوئی اہتمام نہیں ہے ۔
آپ نے دینے والوں کے لئے تو یہ فتوی دے دیا کہ وہ صرف ’’طعام ‘‘ ہی دیں گے ۔ لیکن لینے والوں کے لئے یہ فتوی کیوں نہیں کہ وہ وصول کردہ طعام کو اپنے لئے ’’طعمۃ ‘‘ ہی بنائیں۔
اگر دینے ولا ’’طعام‘‘ کو رقم کی شکل نہیں دے سکتا تو لینے والا’’طعمۃ‘‘ کو رقم کی شکل کیسے دے سکتا ہے؟ اگردے سکتا ہے تو ’’طعمۃ للمساکین‘‘ کی علت کہاں پوری ہوئی ؟
حیرت کی بات ہے کہ ’’طعام‘‘ دینے پراصرار کی علت ہی یہی بتلائی جارہی ہے کہ اگرایسا نہیں کیا گیا تو ’’طعمۃ للمساکین‘‘ کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔ لیکن ’’طعام ‘‘ دینے کے بعد اگلے ہی پل اس بات سے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں کہ ’’طعمۃ للمساکین ‘‘ کا مقصد پورا بھی ہورہا ہے یا نہیں ؟ یعنی اس مقصد کی رعایت صرف دیتے وقت ہے اور دینے کے بعد اس مقصد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بلکہ بالاتفاق یہ فتوی بھی موجود ہے کہ طعام وصول کرنے کے بعد غرباء ومساکین کو اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو اسے بطور خوراک استعمال کریں اور چاہیں تو اسے فروخت کرکے کسی اور مصرف لے آئیں ۔
دنیائے تفقہ کی یہ کیسی بوالعجبی ہے کہ فطرہ دینے والوں سے یہ کہہ کر خوراک وصول کی جائے کہ یہ مسکین کا کھانا ہے ، اور پھر اس کھانے کو مسکین کے ہاتھ میں تھما کر اسے یہ رائے وصلاح دی جائے کی آپ چاہیں تو اسے کھا لیں اور چاہیں تو فروخت کرکے کسی اور مصرف میں لے آئیں !!!
بہرحال طعام وصولنے کے بعد مسکین کے لئے یہ اختیار کہ وہ چاہئے تو اسے خوراک نہ بناکر بیچ کر کسی اور مصرف میں بھی لاسکتا ہے ۔یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ”طعمة للمساكين“ کلی اور لازمی علت نہیں ہے ۔ بلکہ اصل علت مسکین کو ثمن فراہم کرنا ہی ہے۔
’’طعمة ‘‘ کا ایک وسیع اطلاق:
اوپر وضاحت ہوچکی ہے کہ حدیث میں صدقۃ الفطر کی علت جو ”طعمة للمساكين“ بتلائی گی ہے، یہ علت جزوی اورغیرلازمی ہے ۔
لیکن یہ بات ہم نے اس صورت میں کہی ہے جب اس حدیث میں طعمہ سے صرف اور صرف خوراک ہی مراد لیں ، لیکن عربی زبان نیز شریعت کے نصوص میں ”طعمہ“ کا ایک وسیع مفہوم بھی ملتا ہے جس میں نہ صرف خوراک کا معنی پایا جاتا ہے بلکہ دیگر ضروریات زندگی اور سامان رزق کا مفہوم بھی اس میں شامل ہوتا ہے مثلا:
عن أبي الطفيل، قال: جاءت فاطمة رضي الله عنها، إلى أبي بكر رضي الله عنه، تطلب ميراثها من النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقال أبو بكر رضي الله عنه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله عز وجل، إذا أطعم نبيا طعمة، فهي للذي يقوم من بعده»
سیدنا ابوالطفیل (عامر بن واثلہ لیثی رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثے کا مطالبہ لے کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں‘ تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ”اللہ تعالیٰ جب اپنے نبی کو کوئی رزق عنایت فرما دیتا ہے‘ تو اس کا سر پرست وہی ہوتا ہے جو اس کے بعد (بطور خلیفہ) آئے۔“ [سنن أبي داود 3/ 144 واسنادہ صحیح اوحسن علی الاقل]
اس روایت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کے لئے ”طعمہ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
ایک روایت میں دیناروں پر بھی ”طعمہ“ کا اطلاق ہوا ہے دیکھئے [تاريخ المدينة لابن شبة: 3/ 989 رجالہ ثقات واسنادہ منقطع لکنہ مقبول فی استشہاد لغوی]
معلوم ہوا کہ ’’طعمۃ ‘‘ اپنے اندر ایک وسیع معنی بھی رکھتا ہے اور جب کسی لفظ میں کئی معانی کا احتمال ہوتو سیاق وسباق یا قرائن کی روشنی میں اس کے معنی کا تعین ہوتا ہے ، ماقبل میں صدقۃ الفطر کی علت پر ہم نے جو تفصیل پیش کی ہے انہیں قرینہ بناتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ یہاں ”طعمہ“ کو اس وسیع معنی میں لیا جائے ۔ ایسی صورت میں یہ ”طعمہ“ والی علت کلی اورلازمی قرار پائے گی ۔
لیکن اگر یہاں ”طعمہ“ کو اس وسیع معنی میں نہ لیا جائے تو یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ یہ علت کلی نہیں بلکہ جزوی اور وہ بھی غیر لازمی ہے جیساکہ وضاحت گذرچکی ہے ۔
.
.
No comments:
Post a Comment