خلافت کی اہلیت رکھنے والے صحابی ”سعيد بن العاص رضی اللہ عنہ“
✿ ✿ ✿
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شروع میں اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے جو چھ رکنی کمیٹی بنائی تھی ان میں سب سے پہلانام ”سعيد بن العاص رضی اللہ عنہ“ کا ہے۔[تاريخ أبي زرعة الدمشقي (ص593) وإسناده صحيح ]
امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
« يصلح للخلافة » ، ”یہ خلافت کے اہل تھے“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 445]
عہد رسالت کے تقریبا نوسال ان کے ملے ہیں ۔
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) فرماتے ہیں:
« قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم وسعيد بن العاص ابن تسع سنين أو نحوها »
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت سعید بن العاص رضی اللہ نو سال یا اس کے قریب تھے“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 5/ 31]
قرأت قرآن میں ان کا لہجہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لہجے سے ملتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع قران کے لئے بارہ لوگوں کی جو ٹیم تشکیل دی تھی ان میں سعید بن العاص رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔
یہ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں کوفہ کے امیر تھے۔ کوفہ کی امارت کے دوران انہوں نے طبرستان کو فتح کیا ۔عثمان رضی اللہ عنہ پر جب حملہ ہوا تو ان کا دفاع کرنے میں والوں میں یہ بھی تھے ۔
.
یہ اموی تھی اور عثمان رضی اللہ عنہ سے حدد درجہ محبت کرنے والے اور عثمان رضی اللہ عنہ کادفاع کرنے والے تھے ۔ اس کے باوجود بھی جمل وصفین کے فتنہ کے وقت انہوں نے کسی گروہ کا ساتھ نہیں تھا ، امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”ولما قتل عثمان لزم سعيد بن العاص هذا بيته، واعتزل أيام الجمل وصفين، فلم يشهد شيئا من تلك الحروب“
”جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو یہ گھر بیٹھ گئے اور جمل وصفین کے فتنہ سے الگ تھلگ رہے اوران لڑائیوں میں سے کسی میں بھی شرکت نہ کی“
[الاستيعاب في معرفة الأصحاب 2/ 623]
جمل وصفین میں لڑائی سے دور رہنے پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا:
”وقد اعتزل الفتنة، فأحسن، ولم يقاتل مع معاوية“
”انہوں نے فتنہ سے کنارہ کشی اختیار کی اور یہ اچھا کام کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال نہیں کیا“
[سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 445]
جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب کا اتفاق ہوگیا تو یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کی بیعت کی ۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کا اکرام واحترام کیا اور انہیں تحائف سے بھی نوازا ۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں کئی بار مدینہ کا امیر بھی بنایا۔
یہ جب امیر ہوتے تو اپنی رعایا کے لئے پر حد درجہ مہربان ہوتے ،
نزوي في وجهه من الحياء، فبدأته بحاجته قبل أن يسألني
[أسد الغابة ط الفكر 2/ 241]
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حیات مین ہی ان کا انتقال ہوگیا ۔
وغيره من كبار الصحابة
[الإصابة في تمييز الصحابة 3/ 91]
وكان إذا أحب شيئا أو أبغضه لم يذكر ذلك، ويقول: إن القلوب تتغير، فلا ينبغي للمرء أن يكون مادحا اليوم عائبا غدا.
[الإصابة في تمييز الصحابة 3/ 92]
لا تمازح الشريف فيحقد عليك، ولا تمازح الدنيء فتهون عليه
[الإصابة في تمييز الصحابة 3/ 92]
حسن رضی اللہ عنہ کی جب وفات ہوئی تو ان کا جنازہ آپ نے ہی پڑھایا تھا ۔
No comments:
Post a Comment