.
.
باب سوم
فطرانہ میں غیرمنصوص اشیاء دینے کا حکم
صرف منصوص اشیاء سے فطرہ نکالنے کا حکم:
اگر فطرہ میں صرف منصوص اشیاء یعنی احادیث میں مذکور پانچ چیزوں( کھجور ، جو،کشمش،پنیر اور گیہوں) میں سے ہی کوئی چیز نکالی جائے، تو اس میں کوئی کلام نہیں کہ یہی افضل ہے ، کیونکہ اس صورت میں عین نص پر عمل ہورہا ہے۔یہ اپنے آپ میں ایک فضیلت کی بات ہے۔
بلکہ بعض اہل علم مثلا علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے تو اس بات کو واجب قرار دیا ہے کہ فطرۃ میں صرف منصوص اشیاء ہی نکال سکتے ہیں ، یعنی منصوص اشیاء کے علاوہ کوئی دوسری چیز ،خواہ وہ خوراک اور طعام ہی کیوں نہ ہو، اسے فطر ہ میں نکالنا جائز نہیں ہے ؛ اس کا حولہ گذرچکا ہے۔
اسی طرح بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزعمل بھی ملتا ہے کہ وہ صرف منصوص اشیاء ہی سے فطرۃ نکالنے تھے اور منصوص اشیاء کے علاوہ دیگر اشیاء سے فطرہ نہیں نکالتے تھے، خواہ وہ خوراک وطعام ہی کیوں نہ ہو،یہ بات بھی باحوالہ گذرچکی ہے۔
کیا فطرہ میں دی جانے والی اشیاء کا معاملہ تعبدی ہے ؟
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ فطرہ میں جن چیزوں کی ادائیگی کا ذکر احادیث میں آیا ہے ان کا معاملہ امر تعبدی کے قبیل سے ہے ۔
اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو یہ ماننا لازم ہوگا کہ صدقہ الفطر میں صرف اور صرف انہیں چیزوں کو نکال سکتے ہیں جن کا صراحت کے ساتھ احادیث میں ذکر ہے اور یہ کل پانچ چیزیں(کھجور ، جو،کشمش،پنیر اور گیہوں) ہیں ، ان پانچ منصوص اشیاء کے علاوہ دیگر اشیاء کو خواہ وہ طعام وخوراک ہی کیوں نہ ہو ، اس پر قیاس کرنا صحیح نہ ہوگا کیونکہ یہ معاملہ امر تعبدی کا ہے جس میں قیاس کی گنجائش نہیں ہے ۔
لیکن راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے صدقۃ الفطر کی علت معقول المعنی ہے لہٰذا اس پر دیگر اشیاء کا قیاس کرنا درست ہے ۔اس اعتبار سے صرف منصوص اشیاء ہی کے نکالنے کو واجب قرار دینا صحیح نہیں ہے، البتہ اس کے افضل ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ۔
غیرمنصوص اشیاء سے فطرہ نکالنے کا حکم:
اگر منصوص اشیاء یعنی احادیث میں مذکور پانچ چیزوں ( کھجور ، جو،کشمش،پنیر اور گیہوں) میں سے کوئی چیز نہ نکالی جائے بلکہ نص سے ہٹ کر دوسری اشیاء مثلا عام خوراک جیسے چال ، دال وغیرہ یا نقد ورقم وغیرہ فطرہ میں دیا جائے تو کیا ان چیزوں میں کسی کو دوسری کی بنسبت افضل کہا جائے گا ؟
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ مطلق افضلیت کی بات اسی وقت تک کہی جاسکتی ہے جب تک عین نص پر عمل ہو یعنی صرف ان پانچ چیزوں میں سے ہی کوئی چیز نکالی جائے جن کا ذکر احادیث میں ہے۔
لیکن اگر احادیث میں منصوص ان پانچوں چیزوں کو ترک کردیا جائے اور ان کی جگہ دوسری چیزیں فطرہ میں دی جائیں مثلا عام خوراک جیسے چاول وغیرہ یا نقد و رقم ، تو اب اس صورت میں کسی بھی چیز کو علی الاطلاق افضل وبہتر کہنا درست نہیں ہے بلکہ حالات وظروف کے لحاظ سے ہی فیصلہ ہوگا کہ ان غیر منصوص اشیاء میں کیا چیز افضل ہوگی ۔
یہ بات معلوم ہے کہ جب منصوص اشیاء کو ترک کیا جاتا ہے تو ان کی جگہ پر یا تو دیگر خوراک دی جاتی ہے یا پھر نقد ورقم دی جاتی ہے ، اب آگے بالتر تیب ان دونوں کا حکم ملاحظہ ہو:
.
باب چہارم
فطرانہ میں غیرمنصوص طعام دینے کا حکم
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ فطرہ میں عام طعام وخوراک دینے سے متعلق کوئی حدیث موجود نہیں ہے ۔ غلط فہمی کے نتیجے میں بعض حضرات کہ یہ محض خوش فہمی ہی ہے کہ وہ چاول ، دال کا فطرہ نکال کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عین حدیث پر عمل کیا ہے ، انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ دال چاول کا فطرہ نکال کر نہ صرف یہ کہ عین حدیث پر ان کا عمل نہیں ہورہا ہے بلکہ اہل علم میں سے بعض کے بقول یہ ناجائز کام کررہے ہیں اور ان کا فطرہ ادا ہی نہیں ہورہا ہے ۔جیساکہ گذشتہ سطور میں ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف پیش کیا جاچکا ہے۔
دراصل ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں طعام کا لفظ آگیا ہے جس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ اس سے مطلق طعام مراد ہے ، پہلے باب میں پوری تفصیل کے سے اس حدیث کا مفہوم واضح کردیا گیا ہے کہ اس میں طعام سے مراد مطلق طعام نہیں بلکہ مخصوص طعام مراد ہے جس کی صراحت خود ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کردی ہے ، کمامضی۔
غرض یہ کہ منصوص طعام کے علاوہ عام طعام فطرہ میں دینا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔لہٰذا غیرمنصوص طعام مثلا چاول وغیرہ فطرہ میں دینا ایک قیاسی مسئلہ ہے نہ کہ عین حدیث پر عمل ہے ۔اور یہ قیاس صحیح ہے ہم ابن حزم رحمہ اللہ کی طرح اسے ناجائز نہیں کہتے بلکہ درست مانتے ہیں ، لیکن جب یہ قیاسی مسئلہ ہے اور عین نص پر عمل نہیں ہے تو ہم منصوص اشیاء کی طرح اسے علی الاطلاق افضل نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ مسئلہ قیاسی ہونے کی صورت میں اصل علت کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اس کے حکم کا درجہ متعین ہوگا ۔
گذشتہ سطور میں صدقہ الفطر کی علت پر بحث ہوچکی ہے اور یہ حقیقت واضح کی جاچکی ہے کہ اس میں اصل علت غرباء اور مساکین کے لئے ثمن فراہم کرنا ہے ، نیز یہ بات بھی گذرچکی ہے کہ جزوی اور غیر لازمی طور پر اس کی علت میں مسکین کے لئے کھانے کا انتظام بھی شامل ہے ، لہٰذا جس علاقے میں یہ علت موجود ہوگی وہاں منصوص اشیاء نہ نکالنے کی صورت میں عام غلوں کا نکالنا نہ صرف جائز بلکہ افضل بھی قرار پائے گا۔
لیکن جس علاقے میں لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ کھانے پینے کے محتاج نہ ہوں اور فطرۃ میں غلہ پانے کی صورت میں اسے فروخت کرکے نقدی ہی بناتے ہوں ایسے علاقہ میں اگر کوئی غیر منصوص طعام فطرہ میں دیتا ہے تو اسے افضل نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس صورت میں :
(1): نہ تو اصل حدیث پر عمل ہوا کہ عین نص پر عمل کے باعث اسے افضل کہا جائے ۔
(2): نہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی ہوئی جو صرف منصوص اشیاء ہی نکالنے کا اہتمام کرتے تھے۔
(3): اور نہ ہی علت کی مکمل رعایت کی گئی کہ اصل مقصودپر کاحقہ عمل کرنے کے سبب اسے افضل کہا جائے ۔
ظاہر ہے کہ اس دوسری صورت میں مسکین طعام وصول کرکے اسے خوراک نہیں بناتا بلکہ رقم ہی بناتا ہے ، لہٰذا اسے ثمن ہی فراہم کیا گیا لیکن بلاوجہ اسے خسارے اور تکلیف میں ڈال کر ، وہ اس طرح کی مسکین نے طعام وصولنے اور پھر دوسری دوکان پر لے جاکر بیچنے کی صعوبت برداشت کی اور ساتھ ہی کم قیمت پر فروخت کیا ، جبکہ اگر اسے طعام کی جگہ رقم ہی دے دی جاتی تو وہ حمل و نقل کی اذیت سے بچ جاتا ہے اور اسے خسارہ بھی نہیں اٹھانا پڑتا۔ لہٰذا اس صورت میں غیر منصوص طعام کو افضل قرار دینا انتہائی نا معقول اور نا مناسب بات ہے جس کا نہ حدیث سے کوئی تعلق ہے نہ مقصود حدیث کے ساتھ مکمل مطابقت ۔لہٰذا اس صورت میں نقد ورقم دینا ہی افضل ہے جس کی تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں ۔(جاری ہے ۔۔۔)
.
.
No comments:
Post a Comment