{10}. (وقفہ)، حالیہ پوسٹس پر ایک وضاحت - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-21

{10}. (وقفہ)، حالیہ پوسٹس پر ایک وضاحت



{10}. (وقفہ)، حالیہ پوسٹس پر ایک وضاحت
 ✿  ✿  ✿ 
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آپ ایک صاع غلہ کے مساوی کرنسی پر بحث کرنے کے بجائے نصوص سے ثابت کریں کہ فطرہ میں نقدی دیناجائز ہے۔
عرض ہے کہ :
فطرہ میں نقد کا جواز نصوص و آثار ہی سے ثابت ہے لیکن چونکہ فریق مخالف کا ایک اعتراض یہ ہے کہ فطرہ میں نقدی دینا جائز ہے تو عہد رسالت میں عملا اس پر عمل کیوں نہ ہوا تو اس اشکال کے ہمارے پاس متعدد جوابات ہیں انہیں میں سے ایک جواب یہ ہے کہ عہد رسالت میں ایک صاع غلہ کے مساوی کسی کرنسی کا سراغ نہیں ملتا اور نہ ہی کسی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی موقع پر ایک صاغ غلہ کی لین دین کرنسی سے کی گئی ہو ، بلکہ عہد رسالت میں دینار اور درہم کی کرنسی تھی جو مالیت میں بہت زیادہ تھی ، جبکہ ایک صاع غلہ دینار یا درہم میں سے کسی کے بھی برابر نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ عہد رسالت میں ایک صاغ غلہ لیکن دین کرنسی سے نہیں ہوتا تھا   ؟؟
اس پر فریق مخالف نے اموال زکاۃ کو لیکر حساب و کتاب کرکے  یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یے کہ عہد رسالت میں بھی ایک صاع غلہ کی مالیت نصف درہم ہوتی ہے،  فریق مخالف کے ان الفاظ کو پڑھیں:
.
(((عہد رسالت میں ہی اس کی مالی حیثیت کتنی تھی اسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اس کے لئے میں آپ کو زکوہ کا نصاب یاد دلانا چاہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاب زکوہ کی جو مقدار متعین کی ہے اسے دیکھیں:
سونے میں: بیس دینار
چاندی میں: دو سو درہم
بکریوں میں: چالیس بکری
اونٹوں میں: پانچ اونٹ
اور غلوں میں: پانچ وسق یعنی تین سو صاع۔
اور اس میں کوئی شک نہیں زکوہ مالداروں پر فرض کیا گیا ہے،《تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم》۔
یعنی کسی پر زکوہ فرض ہونے کے لئے اس کے پاس کم از کم مذکورہ مقدار کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے کم مقدار والا مالدار نہیں، اس پر زکوہ فرض نہیں۔
اب ہر صنف پر غور فرمائیں کہ کیا ان کی مالیت میں کوئی فرق ہے؟ پائیں گے کہ ہر ایک کی مالیت تقریبا برابر ہے۔
بیس دینار کی جو مالیت ہے وہی دو سو درہم کی مالیت ہے، یعنی کوئی درہم دے کر کسی سے بیس دینار لینا چاہے تو اسے دو سو درہم دینے ہوں گے۔ یہی دوسرے اصناف کا بھی معاملہ ہے، اگر کوئی بیس دینار سے بکریاں خریدنا چاہے تو اسے چالیس بکریاں ملیں گی۔ یاد کریں اس صحابی کا قصہ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دیا تھا اور مارکیٹ سے انہوں نے دو بکریاں خریدی تھیں۔
اسی طرح کوئی اونٹ خریدنا چاہے تو اسے پانچ اونٹ ملیں گے۔ یاد کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جابر رضی اللہ عنہ سے اونٹ خریدنے کا قصہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں ان سے وہ اونٹ خریدا تھا۔ اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ اس طرح پانچ اونٹ کی قیمت دو سو درہم ہوتی ہے۔

اب آتے ہیں غلوں کی طرف۔
غلوں کا نصاب تین سو صاع بیان کیا گیا ہے، اور چاندی کا دو سو درہم۔ یعنی اگر کوئی دو سو درہم چاندی سے غلہ خریدنا چاہے تو اسے تقریبا تین سو صاع غلے ملیں گے۔
اب آپ خود فرمائیں کہ ایک صاع غلہ کی قیمت کیا ہوئی؟ نصف درہم سے کم یا زیادہ؟ زیادہ
اگر نصف درہم قیمت ہوتی تو چار سو صاع ملنے چاہئے تھے لیکن تین سو صاع ہی اس کے بالمقابل ہے۔
اس لئے عین و بصیرت والوں کے لئے واضح ہے کہ ایک صاع غلہ کی عمومی قیمت عہد نبوی میں بھی کسی بھی صورت میں نصف درہم سے کم نہیں تھی۔)))
.
فریق مخالف کے کیلکولیشن یہ عمارت اس مقدمہ پر کھڑی ہے کہ جن اموال میں بھی زکاۃ کا جو نصاب بتایا گیا ہے وہ مالیت میں یکساں ہے ، حالیہ پوسٹس میں ہم اسی مقدمہ کا ابطال کررہے ہیں ، اس سلسلے میں دو قسطیں پیش کی جاچکی ہیں اب آگے مزید قسطیں ملاحظہ فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment