(9) عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(قسط دوم) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-20

(9) عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(قسط دوم)

(9) عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(قسط دوم)
✿  ✿  ✿  ✿
گذشتہ قسط میں صحیح اور صریح روایات سے اس دعوی کا ابطال کیا جاچکا ہے کہ زکاۃ میں سونا اور چاندی  کا نصاب یکساں مالیت کا تھا ، اب آئیے بکریوں کے نصاب کو بھی دیکھ لیتے ہیں ، بعض نے اپنے ہی اصولوں کا خون کرتے ہوئے نہ جانے کیسے  یہ دعوی کرلیا کہ زکاۃ میں بکریوں کے نصاب کی مالیت بھی وہی ہے جو سونے اور چاندی کے نصاب کی مالیت ہے !
❀ متضاد باتیں:
اب موصوف کا دلچسپ تضاد دیکھئے کہ جب ہماری طرف  سے یہ بات کہی گئی کہ منصوص اشیاء فطر ہ میں گیہوں کے علاوہ دیگر اشیاء کے قیمتیں عہدرسالت میں یکساں تھیں ، کیونکہ صرف گیہوں ہی کی مقدار میں تبدیلی کی گئی ہے اور بقیہ اشیاء کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اورنہ ہی کوئی ایک ایسی دلیل موجود ہے کہ گیہوں کے علاوہ بھی منصوص اشیاء فطرہ کی قیمتوں میں تفاوت تھا ۔
 ⟐  تو انہیں حضرات نے بڑے زور شور سے اس کی تردید کی اورنہ صرف دیگر اشیاء کی قیمتوں میں تفاوت پر اصرار کیا بلکہ صرف کھجور ہی کے بارے میں یہ کہا کہ  کھجور بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں ، اس لئے خود کھجور کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہر طرح کی کھجور کی قیمت ایک تھی ۔
   اس کا جواب ہمارے رسالہ میں موجود ہے قارئین وہاں دیکھ لیں ، کہ یقینا یہ بات درست ہے کہ ہرطرح کے کھجور کی قیمت یکساں نہیں ہوتی ، لیکن فطرۃ کی حدیث میں جو ایک صاع کھجور  دینے کے لئے کہا گیا ہے وہ عرف کے لحاظ سے ایک خاص کیفیت اورقیمت والی  ایک صاع  کھجور مراد ہے ، اسی لئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اثر میں بلکہ مرفوع حدیث میں بھی نصف صاع گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر قراردیا گیا ہے ،  اگرعرفا ایک خاص کیفیت وقیمت والی ایک صاع کھجور نہ تسلیم کی جائے  تو پھر نصف صاع گیہوں کو ایک صاع کھجور کے مساوی کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے ؟؟
 -  -  -  - 
  قارئین آپ نے بعض کا یہ ایک رخ دیکھ لیا کہ وہ ایک صاع کھجور کے بارے میں ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ ہرطرح کے ایک صاع کھجور کی قیمت ایک نہیں ہوسکتی اور یہ بات درست بھی ہے جیساکہ واضح کیا گیا ۔
 ⟐  اب ان کا دوسرا رخ دیکھئے کہ  پالی ہوئی  چالیس بکریوں میں سے ہربکری کو ایک ہی قیمت والی بتلارہے ہیں ! ہے نا عجیب بات !!
کھجور کے بارے میں تو آں جناب نے یہ کہا تھا کہ کھجور میں انواع واقسام ہوتی ہیں ، اورہرطرح کی ایک صاع کھجور کی ایک ہی قیمت نہیں ہوسکتی ، یہ بات بالکل درست ہے ۔
لیکن اب انصاف سے بتلائیے کہ کیا بکریوں کی انواع و اقسام نہیں ہوتیں ؟ کیا انواع و اقسام اور کیفیت کے لحاظ سے بکریوں کی قیمتوں میں  تفاوت نہیں ہوتا ؟؟؟
یا آپ کی نظر  میں دنیا کی ساری بکریاں ایک ہی سانچے میں ڈھل کر آتی ہے اور ہر بکری کی قیمت یکساں ہی ہوتی ہے ؟
 ✿ اب آپ کی دلیل اور اس سے عجیب وغریب استدلال کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
آپ نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ  ”یاد کریں اس صحابی کا قصہ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دیا تھا اور مارکیٹ سے انہوں نے دو بکریاں خریدی تھیں“
سبحان اللہ !
بھائی اس سے دینار کے قدر کا ایک عام اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے لیکن اس سے ایک بکری بلکہ ساری بکریوں کی ایک خاص قیمت کشید کرلینا انتہائی لغو استدلال ہے ۔
 ● اولا:
اگرکسی نے کسی بازار سے ،کسی ایک شخص سے، ایک دینار میں دو بکری خرید لی ہے، تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہر بازار میں ،ہر شخص کے یہاں ، ہر بکری کی قیمت یہی ہوگی ؛ بلکہ خود ایک ہی شخص کے یہاں بھی اس کی ساری بکریوں کی قیمت یکساں نہیں ہوتی ، آج بھی ہم قربانی کا بکرا خریدتے ہیں لیکن کیا سارے بکرے ایک ہی قیمت کے ہوتے ہیں ؟ یا ایک بکروں کو فروخت کرنے والا سارے لوگوں کو ایک ہی قیمت پربکرے فروخت کرتا ہے ؟
● ثانیا:
 زکاۃ کے سلسلے میں بکریوں کا جو نصاب طے ہے وہ انہیں بکریوں میں ہے جو ایک آدمی کے یہاں پالی ہوتیں ہیں ۔اور کوئی بھی شخص اس بات سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ایک شخص کے یہاں پالی ہوئی چالیس بکریوں میں سے ہربکری ایک ہی قیمت کی قطعا نہیں ہوسکتی ۔
 ● ثالثا:
دینار اور درہم میں ایک دینار کی جومالیت ہوتی ہے وہی ہردینار کی ہوتی ہے ، اسی طرح ایک درہم کی جو مالیت ہوتی ہے وہی ہر درہم کی ہوتی ہے ، جبکہ جانوروں میں ایک جانورکی جومالیت ہوتی ہے وہ ہرجانور کی مالیت نہیں ہوتی ہے ۔ پھر کوئی بتلائے کہ یکساں مالیت والے متعدد نقود ،مختلف مالیت والے متعدد جانوروں کے برابر کیونکر ہوسکتے ہیں ؟؟؟
 ● رابعا:
موصوف نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کو بھی دیکھ لیا جائے کہ وہ حدیث کیا واقعی ویسے ہی ہے جیسے ظاہر کیا گیا ہے یا حدیث میں بھی بات کچھ اور ہے اور موصوف کچھ اور ہی دکھلارہے ہیں ، ملاحظہ ہو:
”عن عروة: أن النبي صلى الله عليه وسلم «أعطاه دينارا يشتري له به شاة، فاشترى له به شاتين، فباع إحداهما بدينار، وجاءه بدينار وشاة، فدعا له بالبركة في بيعه، وكان لو اشترى التراب لربح فيه“ 
”عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار دیا کہ وہ اس کی ایک بکری خرید کر لے آئیں۔ انہوں نے اس دینار سے دو بکریاں خریدیں، پھر ایک بکری کو ایک دینار میں بیچ کر دینار بھی واپس کر دیا۔ اور بکری بھی پیش کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان کی تجارت میں برکت کی دعا فرمائی۔ پھر تو ان کا یہ حال ہوا کہ اگر مٹی بھی خریدتے تو اس میں انہیں نفع ہو جاتا“[صحيح البخاري 4/ 207 رقم 3642]
قارئین اس حدیث کو بغور پڑھیں اس سے یہ استدلال کیا جارہا ہے کہ دو بکریوں کی قیمت ایک دینار ہے ، پھر اسی پر یہ حساب لگا لیا گیا کہ بیس دینار میں چالیس بکریاں آئیں گی ۔سبحان اللہ !
جبکہ اس حدیث کے شروع میں تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار میں ایک بکری لانے کے لئے صحابی کو کہا تھا ، اور یہ صحابی کا کمال تھا کہ انہوں نے ایک دینار سے دو بکریاں خرید لیں ، اور یہ استثنائی بات تھی۔ بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نفع کی  توقع نہ تھی ،  اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر صحابی کو خصوصی دعاء بھی فرمائی ۔
 ⟐ اب آں جناب کے طریق استدلال سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک دینار  میں ایک ہی بکری آتی تھی ، اور بیس دینار میں بیس ہی بکری آنی چاہئے ۔
 ⟐ بلکہ  حدیث کے اس ابتدائی حصے کے ساتھ، اس کے اگلے حصہ پر بھی غور کریں اور یہ دیکھیں کہ صحابی نے جب ایک دینار سے ایک کے بجائے دو بکری خرید لیں ، تو بعد میں ان دونوں میں سے ایک بکری کو واپس ایک دینار میں بیچ بھی دیا !حدیث کا یہ دوسرا حصہ بھی یہی بتارہا ہے کہ ایک دینار میں ایک ہی بکری  ملتی تھی ۔ 
یعنی یہ ایک ایسی حدیث ہے کہ اس کے دو حصے یہ بتلارہے کہ ایک دینار میں عموما ایک بکری آتی تھی ، اور صحابی نے جو ایک دینار میں دو بکری خرید لی تھی یہ ان کا کمال تھا اور یہ استثنائی بات تھی ۔
لیکن قربان جائیں ہمارے مہربان پر کہ اس حدیث کے دو حصوں سے آنکھیں بند کرکے، محض اس حصہ سے استدلال فرمارہے ہیں جس کا ایک استثنائی معاملہ ہونا سیاق حدیث سے واضح ہے ۔ 
❀ بہرحال موصوف  نے جو دلیل دی تھی وہ دلیل خود انہیں پرالٹ گئی ہے اور اس سے زکاۃ میں  بکریوں کے نصاب کی مالیت  اور  سونے کے نصاب کی مالیت  میں یکسانیت  ثابت ہونے کے بجائے کافی فرق ثابت ہورہا ہے ۔اورنتیجہ یہ نکل رہاہے ۔
  ◈ سونے کے نصاب کی مالیت بیس دینار ہے ۔
  ◈ اور بکریوں کے نصاب کی مالیت چالیس دینار ہے۔
یہ نتیجہ خود موصوف کی پیش کردہ دلیل سے سامنے آرہا ہے اور  دونوں کی مالیت میں کافی فرق ثابت ہورہا ہے ۔ 
اور ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ خود سونے اورچاندی کے نصاب کی مالیت بھی یکساں نہیں ہے اس لئے بکریوں کی مالیت کا موازنہ کس سے کریں گے یہ بھی ایک غور طلب بات ہے ۔۔۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)
✿  ✿  ✿  ✿

No comments:

Post a Comment