{11} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(قسط سوم) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-22

{11} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(قسط سوم)



{11} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(قسط سوم)
✿ ✿ ✿ ✿
پچھلی دو قسطوں میں سونے ، چاندی ، اور بکریوں کے نصاب سے متعلق بات ہوچکی ہے اور یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ ان کی مالیت یکساں نہیں تھی اب اونٹوں پر بات کرتے ہیں ۔
بعض کا کہنا ہے ”یاد کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جابر رضی اللہ عنہ سے اونٹ خریدنے کا قصہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں ان سے وہ اونٹ خریدا تھا۔ اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ اس طرح پانچ اونٹ کی قیمت دو سو درہم ہوتی ہے“
عرض ہے کہ : 
یہ پڑھ کرمیری حیرانی کی انتہاء نہیں ہے ۔
 ❀ اول تو بکریوں کی نوعیت پر  میں نے سابقہ قسط میں جو گفتگو کی ہے اسے یہاں بھی سامنے رکھیں ۔کیونکہ اسی طرح اونٹ بھی الگ الگ انواع اقسام کے ہوتے ہیں ، بلکہ اونٹوں کی ایک قسم ”حُمُر النعم“ تو بہت مشہور ہے ، جو اونٹ کی سب سے اعلی قسم ہے ، اہل عرب اسے اعلی قیمت کی مثال کے طورپر ذکرتے تھے ، ظاہر ہے کہ اس کی قیمت بھی اعلی ہوگی ۔
 ❀ دوم یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اونٹوں کے نصاب زکاۃ میں ایک ہی عمر کے پانچ اونٹ کا نہیں بلکہ پانچ مطلق اونٹ کا ذکر ہے ، خواہ ان کی عمر کچھ بھی ہو۔
اور عمرکے لحاظ سے اونٹوں کی قیمت میں جو فرق ہوتا ہے اس پر  خود نصاب اونٹ والی حدیث ہی بین دلیل ہے ، آپ ذرا متعلقہ حدیث کے اس حصہ پر غور کریں:
”إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين، ففيها بنت مخاض أنثى، فإذا بلغت ستا وثلاثين إلى خمس وأربعين ففيها بنت لبون أنثى، فإذا بلغت ستا وأربعين إلى ستين ففيها حقة طروقة الجمل، فإذا بلغت واحدة وستين إلى خمس وسبعين، ففيها جذعة “
” جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہو گی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے (تو چھتیس سے) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہو گی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے (تو چھیالیس سے) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہو گی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے (تو اکسٹھ سے) پچھتر تک چار برس کی مادہ واجب ہو گی“[صحيح البخاري 2/ 118،رقم 1454]
 ◄   یعنی:  
 ● (25تا35) اونٹ ہوں تو زکاۃ میں ایک اونٹنی (جو ایک برس کی ہو)
 ● ( 36 تا 45) اونٹ ہوں تو زکاۃ میں ایک اونٹنی (جو دو برس کی ہو)
 ● ( 46 تا 60) اونٹ ہوں تو زکاۃ میں ایک اونٹنی (جو تین برس کی ہو)
 ● ( 61 تا 75) اونٹ ہوں تو زکاۃ میں ایک اونٹنی (جو چار برس کی ہو)
ذرا دھیان سے دیکھئے اونٹوں کی یہ چار تعداد الگ الگ ہے ، لیکن ہر تعداد پر ایک ہی اونٹنی دینی ہے ، لیکن اس ایک اونٹنی کی عمر الگ الگ بتائی گئی ہے ، جو بہت واضح دلیل ہے کہ ہراونٹ کی قیمت ایک نہیں ہوتی ہے بلکہ عمر کے لحاظ سے ان کی قیمت الگ الگ ہوتی ۔
اگر آپ کی فلسفہ سنجی کو مان لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اونٹوں کی مذکورہ چاروں تعداد پر ایک ہی مالیت کی زکاۃ نکالنی ہوتی ہے کیونکہ ہر بار ایک ہی اونٹنی کا ذکر ہے ۔
اور اگر یہ تسلیم کرلیں کہ عمر کے لحاظ سے پانچ الگ الگ اونٹوں کی تعداد الگ الگ ہوگی تو پھر پانچ اونٹ کی مالیت ، دینار یا درہم کسی کے نصاب کے بھی برابر نہیں ہوسکتی ۔
میری حیرت کی انتہاء نہیں ہے کہ آپ کس سطح پر مناقشہ کر رہے ہیں ، ریا ضی کا معمولی علم رکھنے والا بھی اس پر اپنا سر پیٹ لے گا ، اس طرح کی بے تکی باتیں کرنا آپ کے علمی شان سے بمراحل بعید بات ہے ۔
 ◈ نوٹ : 
یہاں تک آپ کی طرف سے ذکرکردہ جانوروں کی لسٹ ختم ہوگئی ہے ، لیکن میں پوچھنا چاہوں گا کہ اس لسٹ سے آپ نے گائے اور اس کے نصاب کو کیوں خارج کردیا ہے ؟
کہیں اس وجہ سے تو نہیں کہ اس پر آپ کی طرف سے کوئی فلسفہ سنجی بھی نہیں ہوسکی ؟ 
خیر باقی باتیں اگلی قسط میں ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment