{12} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(چوتھی قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-23

{12} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(چوتھی قسط)

{12} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(چوتھی قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
پچھلی تین قسطوں میں سونے ، چاندی ، بکریوں اور اونٹوں کے نصاب زکاۃ پر بات ہوچکی ہے اور دلائل سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ ان سب کے نصاب کی مالیت قطعا یکساں نہیں ہے جیساکہ بعض نا سمجھی میں دعوی کربیٹھے ہیں ۔
❀  اورحیرت کی بات یہ ہے کہ موصوف نے اس فہرست میں گائے کا تذکرہ کیا ہی نہیں ، شاید اس لئے کہ اس پر لفاظی کی گنجائش بھی نہیں نکال سکے ۔ قارئین کو معلوم ہونا چاہے کہ زکاۃ میں گائے کا نصاب تیس گائے ہے:
”عن معاذ، «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما وجهه إلى اليمن أمره أن يأخذ من البقر من كل ثلاثين تبيعا، أو تبيعة، ومن كل أربعين مسنة، ومن كل حالم - يعني محتلما - دينارا، أو عدله من المعافر - ثياب تكون باليمن»،“
”معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تو یہ حکم دیا کہ وہ گائے بیلوں میں ہر تیس (۳۰) پر ایک سالہ بیل یا گائے لیں، اور چالیس (۴۰) پر دو سالہ گائے، اور ہر بالغ مرد سے (جو کافر ہو) ایک دینار یا ایک دینار کے بدلے اسی قیمت کے کپڑے جو یمن کے معافر نامی مقام میں تیار کئے جاتے ہیں (بطور جزیہ) لیں“[سنن أبي داود 2/ 101 رقم1576 وصححہ الالبانی ]
اور تیس گائے کی مالیت سب سے الگ تھلگ ہے ۔چونکہ موصوف نے اس کی کوئی قیمت لگانے کی جسارت نہیں کی ہے اس لئے ہم بھی اس پر کوئی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،موصوف پہلے طے کردیں کہ تیس گائے کی قیمت وہ کتنی مانتے ہیں تبھی ہم اس پر کچھ عرض کرسکتے ہیں ، فی الحال تو ہم اتنا ہی کہیں گے تیس گائے کی قیمت اس فہرست میں مذکور کسی بھی نصاب کے مساوی نہیں ہوسکتی ، جیساکہ دیگر نصاب کے بارے میں وضاحت ہوچکی ہے۔
❀ نیز جس طرح اونٹوں کے بارے میں ہم نے واضح کیا ہے کہ کئی مختلف تعداد والے گروہ میں  ایک ہی اونٹنی الگ الگ عمر کے حساب سے متعین کی گئی ہے ، اسی طرح گائے میں بھی کئی مختلف تعداد میں ایک ہی عدد جانور الگ الگ عمر کے حساب سے طے کیا گیا ہے ، مندرجہ صدر حدیث کے ان الفاظ پر غور کریں:
”أمره أن يأخذ من البقر من كل ثلاثين تبيعا، أو تبيعة، ومن كل أربعين مسنة“
 ”یہ حکم دیا کہ وہ گائے بیلوں میں ہر تیس (۳۰) پر ایک سالہ بیل یا گائے لیں، اور چالیس (۴۰) پر دو سالہ گائے“ [سنن أبي داود 2/ 101 رقم1576 وصححہ الالبانی ]
ملاحظہ فرمائیں کہ:
 (30) پربھی ایک گائے (ایک سال کی )
 (40) پربھی ایک گائے (دو سال کی )
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہرگائے کی قیمت یکساں نہیں ہوگی نتیجتا پورے تیس گائے کی بھی کوئی ایک  قیمت قطعا نہیں ہوسکتی ۔
 -  -  -  - 
❀ ❀ اب آتے ہیں غلوں کی طرف ، موصوف فرماتے ہیں:
”اور غلوں میں: پانچ وسق یعنی تین سو صاع“ 
اس کے بعد موصوف نے تین سو صاع غلے یعنی ہرطرح کے غلے میں سے تین سوصاع کی ایک خاص قیمت فرض کرکے اپنے فلسفہ کی بنیاد رکھی ہے ۔
 -  -  -  - 
● دلچسپ تضاد ● 
موصوف نے قائلین نقد کو تضادبیانی سے بھی متصف کیا ہے ، اب ہم قارئین کو دکھاتے ہیں کہ کس کا دامن تضاد آلود ہے ۔
 یاد کیجئے کہ جب ہم نے یہ کہا تھا کہ اشیاء فطر ہ میں گیہوں کے علاوہ دیگر اشیاء کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ ان کی قیمت الگ الگ رہی ہو تو اس پر ہمارے مہربان نے بڑے مگن سے کہا تھا کہ دیگر تمام اشیاء کو تو جانیں دیں صرف کھجور ہی میں  ہر طرح کی کھجور کی قیمت یکساں نہیں ہوتی ۔
لیکن قربان جائیں یہاں موصوف کی اداؤں  پر کہ غلوں کا لفظ تو استعمال کردیا لیکن یہ بھول گئے کہ  اس غلے میں چار چیزیں عین وہی ہوتی ہیں جن کا ذکر اشیاء فطرہ میں ہے اوروہ ہیں ،  جو ، گیہوں ، کشمش اورکھجور ، ملاحظہ ہو یہ حدیث:
 ”عن أبى موسى ومعاذ بن جبل : أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعثهما إلى اليمن فأمرهما أن يعلما الناس أمر دينهم.وقال :« لا تأخذا فى الصدقة إلا من هذه الأصناف الأربعة الشعير والحنطة والزبيب والتمر »“
”ابوموسی الاشعری اور معاذبن جبل رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان دونوں صحابہ کو یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ وہ لوگوں کو ان کا دین سکھائیں اور (غلوں میں) صرف ان چارقسموں ، جو ، گیہوں ، کشمش اورکھجور ہی سے صدقہ وصول کریں“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 4/ 125 وصححہ الالبانی فی تمام المنہ ص369]
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ کھجور ، جو اور کشمش کا ذکر جب اشیاء فطرہ میں ہو تو ہمارے کرم فرما کی نظر میں ان کی قیمتیں الگ الگ ہوتی ہیں ، بلکہ صرف کھجور ہی کی ساری انواع واقسام ان کی نظر وں کے سامنے بکھر جاتی ہیں ، لیکن جب انہیں چیزوں کا ذکر زکاۃ کے سلسلے میں ہو تو کھجور ہی پر کیا موقوف دیگر تمام چیزیں بھی ایک ہی قیمت میں دستیاب ہوجاتی ہیں ، سبحان اللہ !
  -  -  -  - 
 ● ایک اور سخاوت ● 
اور لطف بالائے لطف تو یہ ہے کہ گیہوں کے بارے میں خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک صاع گیہوں یہ دو صاع کھجور کے برابر ہوتا ہے ، مگر یہاں زکاۃ کے معاملے میں حساب دانی دیکھئے کہ ان دونوں کی قیمتوں میں اتنا واضح فرق ہونے کے باوجود بھی بڑی فراخ دلی سے سب کا ایک ہی بھاؤ لگادیا ۔
 جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے !
 -  -  -  - 
علاوہ بریں قارئین نوٹ فرمائیں کہ:
 ●  غلوں کا معاملہ ماقبل میں مذکور ساری چیزوں سے الگ ہے کیونکہ اس پر زکاۃ سالانہ نہیں بلکہ فصل اورموسم کے اعتبار سے عائد ہوتی ہے ، اس لئے اسے ماقبل کی چیزوں کے ساتھ رکھنا ہی بے محل ہے ورنہ معاملہ یہی پر ختم نہیں ہونا چاہئے زکاۃ کے لئے اوربھی چیزیں ہیں سب کو یہاں لاکر سب کے نصاب کی یکسانیت پربات ہونی چاہئے،لیکن موصوف نے دیگرچیزوں سے آنکھ بند کرنے میں ہی عافیت جانی، حتی کہ بے چاری گائے کو بھی کچھ چارہ پانی نہیں دیا ۔
 ●  علاوہ بریں سابقہ بحث سے روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ اشیاء زکاۃ میں ہر چیز کے نصاب کی مالیت الگ الگ ہے ، لہٰذا غلوں کا کسی دوسرے چیز سے موازنہ کی کوئی صورت بنتی ہی نہیں ہے ، لیکن موصوف نے بے سر پیر کے عقلی قیاسات سے یہ مقدمہ قائم کرلیا کہ ساری چیزوں کے نصاب کی مالیت یکساں ہے پھر یہاں درہم کے ساتھ اس کا موازنہ کردیا ۔
⟐ اس پر پہلی گرفت یہ ہے کہ جب ساری چیزوں کی مالیت الگ الگ ہے تو محض درہم سے اس کا موازنہ ایک فضول کوشش کے سوا کچھ نہیں ۔
⟐ دوسرے یہ کہ دوسو درہم ، نقدی ہونے کے باجود بھی،  دوسری نقدی سونے کی مالیت کی برابر نہیں ہے ، بلکہ سونے کے نصاب کی مالیت کے حساب سے نصاب درہم کی مالیت 240 درہم ہوگی کما مضی ۔ اور پھر 240 چالیس درہم کا موازنہ تین سو صاع سے کریں تو ایک صاع کی قیمت دو عشردرہم کم،  ایک درہم قرار پائے گی ۔یعنی تقریبا ایک درہم ۔
اب عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور دیکھئے اس میں ایک صاع کی قیمت نصف درہم ہے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں ایک صاع کی قیمت تقریبا ایک درہم کیونکرہوسکتی ہے ؟ جبکہ موصوف خود دعوے دار ہیں کہ اس دورتک اشیاء کی قیمت مساوی تھی ۔
یہ نتیجہ بھی ثابت کرتا ہےکہ موصوف کی ساری قیاس آرائیاں کسی کام کی نہیں اور کافی جوڑ توڑ کرنے کے باو جود بھی موصوف یہ ثابت کرنے سے تاحال عاجز رہے کہ عہد رسالت میں ایک صاع غلے کے مساوی کوئی کرنسی رائج تھی ۔
یہاں تک موصوف کے ان تمام  اشکالات کا جواب ہوچکا ہے جن میں انہوں نے ایک صاع کے متبادل عہدرسالت میں کوئی رائج کرنسی دکھانے کے سعی لاحاصل کی ہے ۔
◄ اوربالفرض موصوف اس میں کامیاب بھی ہوجاتے تو بھی اس سے ہمارے دلائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس پوری بحث  کا تعلق دلائل سے نہیں، بلکہ اس امر کی توجیہات سے ہے کہ عہد رسالت میں فطرہ میں کرنسی کیوں نہیں دی گئی ؟ اور اس امر کی اور بھی دیگر توجہات ہیں جیسا کہ قائلین نقد صدیوں سے پیش کرتے آرہے ہیں اور مخالفین ہزاروں سال کے بعد بھی ان کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے ہیں ،  مثلا دیکھئے : پوسٹ {1} (عہد رسالت میں نقد ورقم سے فطرہ کیوں نہیں ادا کیا گیا ؟)
لہٰذا موصوف کا یہ باور کرلینا کہ جواز نقد کی پوری عمارت اسی ایک توجیہ پر کھڑی ہے، انتہائی عجلت بازی اور فریق مخالف کے موقف پر ناقص تدبر کا نتیجہ ہے ۔ اوراس سے بھی زیادہ شرمناک طرزعمل یہ ہے کہ چند جوابی سطریں لکھ کر اس خوش فہمی کا ڈنکا  پیٹنا شروع کردیتے ہیں کہ حق ہے ہمارا فرمایا ہوا ، اوراب  حق کے سامنے جھک جانا چاہئے ، مگراس بات سے یکسر غافل رہتے ہیں کہ ان کے جواب کا کیا حشر ہونے والا ہے ، اور باطل پر چڑھا ہوا حق کا نقاب کتنی جلد تار تار ہونے والا ہے ۔ اندازہ کرنا ہو تو ہماری طرف سے سابقہ چار قسطیں بالترتیب پڑھ لیں اور اگلی قسطوں کا انتظارکریں۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment