{13} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(پانچویں قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-24

{13} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(پانچویں قسط)



{13} عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(پانچویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
بعض نے عہد رسالت میں ایک صاع غلہ  کی متبادل کرنسی دکھانے کےلئے جو بے تکی قیاس آرائیاں اور تضاد بیانیاں کی تھیں ، ان سب کی حقیقت گذشتہ قسطوں میں بیان کی جاچکی ہے ، اس کے ساتھ  ایک دوسری بات یہ بھی کہی گئی کہ گرچہ ایک صاع کے برابر عہد رسالت میں کوئی کرنسی نہ ہو تو بھی  کئی افراد کا فطرہ جمع کردیں تو یہ مجموعہ اس وقت کی کرنسی دینار یا  درہم کے مساوی ہوجاتا ہے ، پھر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ اس مجموعہ کی قیمت کے طور پر مکمل کرنسی کسی کو دی گئی ؟ اس شبہ کا ازالہ آئندہ سطور میں ہم پیش کررہے ہیں ، لیکن اس سے قبل آئیے ان دیگر باتوں پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں جنہیں بعض کے اعوان وانصار نے پیش کرکے یہ دعوی کیا ہے کہ اس دور میں درہم سے بھی چھوٹی کرنسی موجود تھی ۔
● بعض نے یہ دعوی کیا ہے کہ عہد رسالت میں ”دانق“ نام کی چاندی کی ایک چھوٹی کرنسی چلتی تھی  جس کی مالیت سدس درہم ہے۔
عرض ہے کہ ہمارے ناقص مطالعہ کی حد تک کسی بھی صحیح روایت سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ عہد رسالت میں ”دانق“ کی مقدار میں کوئی کرنسی بھی موجود تھی ، جو صاحب اس بات کے دعویدار ہیں ان سے مؤدبانہ التماس ہے کہ کوئی ایک صحیح روایت پیش فرمائیں جس میں اس بات کا ثبوت ہو کہ عہد رسالت میں ”دانق“ کی شکل میں کوئی چھوٹی کرنسی بھی تھی ۔
جہاں تک ہماری ناقص معلومات ہے وہ یہ کہ ”دانق“ کی شکل میں کرنسی کا رواج عہد رسالت کے کافی بعد میں ہوا ہے ۔
⋆  مؤرخ علي بن محمد أبو الحسن ابن ذي الخزاعي (المتوفى 789 ) ”دانق“ کے بارے میں کہتے ہیں:
”لا أعلم أنه جاء في شيء من الحديث ولا الشعر“
”مجھے نہیں معلوم کہ کسی بھی حدیث یا شعر میں اس کا ذکر ہوا ہے“ [تخريج الدلالات السمعية ص: 608]
⋆  نیز آگے چل کر حسن بصری رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے :
”ما كانت العرب تعرف الدانق ولا أبناء فارس“
”عرب اور ابنائے فارس دانق سے واقف نہیں تھے“ [تخريج الدلالات السمعية ص: 609]
⋆  بعض اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ ”دانق“ خاص مقدار کے وزن کے لئے بولا جاتا تھا لیکن بعد میں اسی مقدار کے بقدر چاندی کی چھوٹی کرنسی بنا لی گئی ،واللہ اعلم۔
لیکن عہد رسالت میں چاندی کی اس چھوٹی کرنسی کا ثبوت میں مجھے کسی صحیح روایت میں نہیں مل سکا ۔اگرکسی کے علم میں ایسی کوئی روایت ہو تو ضرور آگاہ فرمائیں۔
●  بعض نے یہ دعوی کیا کہ عہد رسالت میں پیتل سے بنی ہوئی  ”فلس“ نام کی ایک چھوٹی کرنسی رائج تھی ۔
عرض ہے کہ  ”فلس“ سے لینے دینے کی شہرت کا ذکر بھی بعد کے ادوار میں ملتا ہے ، محدثین میں امام یحیی ابن معین رحمہ اللہ نے اور بعض نے رواۃ پرجرح کے لئے ”لایساوی فلسا“ کی تعبیر استعمال کی ہے ، مذہبی فقہاء نے بھی فقہی مباحث میں بکثرت اس کا استعمال کیا ہے ، لیکن عہد رسالت میں صحابہ کے پاس اس کرنسی سے لین دین کا سراغ  ناچیز کو نہیں مل سکا ۔
 بعض لوگوں نے بغیر کسی پختہ دلیل کے یہ لکھا تو ہے کہ اس کا استعمال بہت پہلے سے رائج ہے ، لیکن بہت پہلے سے رائج ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عہد رسالت میں صحابہ کے یہاں بھی یہ چیز مستعمل ہو ۔
بہرحال صحیح روایت سے اس بات کا ثبوت پیش کیا جائے کہ عہد رسالت میں فلوس سے لین دین کا بھی رواج تھا ۔
بعض نے اس سلسلے میں ایک روایت بھی پیش کی ہے اور کہا ہے کہ  علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں صحیح قراردیا ہے دیکھیں: [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 6/ 296 رقم 2643] ۔
جوابا عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف ہی ہے ۔ملاحظہ ہو مع سند ومتن یہ روایت:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360) نے کہا:
حدثنا محمد بن إبراهيم العسال، نا سهل بن عثمان، نا أبو معاوية، عن الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من أمتي من لو جاء أحدكم فسأله دينارا لم يعطه، ولو سأله درهما لم يعطه، ولو سأله فلسا لم يعطه، ولو سأل الله الجنة لأعطاه إياها، ذو طمرين، لا يؤبه له، لو أقسم على الله لأبره»[المعجم الأوسط 7/ 298]
اس روایت میں محل شاہد یہ جملہ ہے ”ولو سأله فلسا لم يعطه إياه“ ،  ”یعنی فقیر اگر ایک فلس کا بھی سوال کرے تو اسے وہ بھی نہ دیا جائے“
لیکن اس روایت میں ان الفاظ کا اضافہ صرف بعض رواۃ ہی بیان کرتے ہیں ، چنانچہ اس روایت کے مرکزی راوی سالم بن ابی الجعد ہیں  ، ان سے اعمش کی روایت میں مذکورہ الفاظ ہیں ، لیکن سالم بن ابی الجعد ہی سے عمرو بن مرة نے یہ روایت بیان کی تو مذکورہ جملہ کو بیان نہیں کیا دیکھیں :[شعب الإيمان للبيهقي: 7/ 320]
بلکہ خود اعمش کے بعض شاگردوں نے بھی یہ جملہ بیان نہیں کیا ہے مثلا دیکھیں : [التواضع والخمول لابن أبي الدنيا ص: 17]
لیکن بہر صورت یہ روایت ضعیف ہی ہے کیونکہ مذکورہ جملہ کے ساتھ روایت کا مرکزی طریق ”الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن ثوبان“ ہے اور اس میں دو علت ہے :
⟐ اول : سلیمان الاعمش کا عنعنہ
سلیمان الاعمش نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 640]
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص393 تا 395۔
⟐ دوم: سند منقطع ہے۔
کیونکہ سالم بن ابی الجعد نے  ثوبان سے نہ تو سنا ہے نہ ہی ان سے ملاقات کی ہے ۔
⋆ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
”لم يسمع سالم من ثوبان شيئا“ ، ”سالم نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے“[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 16]
⋆ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”سالم بن أبي الجعد لم يلق ثوبان“ ، ”سالم بن أبي الجعد نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی ہے“[المنتخب من العلل عن أحمد للخلال، ت طارق: ص: 162]
⋆ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”لم يسمع من ثوبان“ ،”سالم بن أبي الجعد نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے“ [ترتيب علل الترمذي الكبيرللترمذي، ت السامرائي ورفاقه: ص: 386، نیز دیکھیں: سنن الترمذي ت شاكر 5/ 277 تحت الرقم 3094] 
⋆ امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
”سالم بن أبي الجعد لم يسمع من ثوبان شيئا“ ، ”سالم بن أبي الجعدنے ثوبان رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے“[المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 80]
معلوم ہوا کہ یہ روایت منقطع بھی ہے ۔
ان اسباب کی بناپر یہ روایت ضعیف ہی ہے ۔
رہی یہ بات کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ تو عرض ہے کہ  علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ الفاظ والی روایت کو منقطع و ضعیف ہی تسلیم کیا ہے، لیکن اس روایت کے مرکزی مضمون کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے دیگر شواہد کے پیش نظر صحیح  قرار دیا ، لیکن اس  بات پر دھیان نہیں دے سکے کہ فلس والے الفاظ اور بعض اور الفاظ کا ذکر دیگر شواہد میں موجود نہیں ہے لہٰذا اس کی تصحیح یا تحسین کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
◈  بلکہ بعد میں خود علامہ البانی رحمہ اللہ کو  اپنی اس چوک کا علم ہوگیا اس لئے انہوں نے فورا اپنی اس تصحیح سے رجوع فرمالیا اور اس روایت کو اپنی دوسری کتاب سلسلہ ضعیفہ میں درج کیا اور اپنے سابق موقف کی تغلیط کرتے ہوئے فرمایا:
”لكن جملة (الطمرين) لها شواهد، كنت ذكرتها تحت هذا الحديث في " الصحيحة " (2642) ؛ غير متنبه إلى أنه بحاجة إلى شواهد لسائره، فلما تنبهت لهذا ولم أجدها؛ رأيت لزاما علي أن أودعه هنا“
”لیکن اس حدیث میں جملہ”الطمرين“ ( دو پرانے کپڑے والے)کے لئے شواہد موجود ہیں ، جنہیں میں نے ” الصحيحة “ (2642)  میں ذکرکیا تھا اوراس بات پر متنبہ نہیں ہوسکا تھا کہ اس حدیث کے دیگر سارے جملوں کے لئے بھی شواہد کی ضرورت ہے ، چنانچہ جب میں اس پر متنبہ ہوا اور ان دیگر جملوں کےشواہد نہ پاسکا تو میں نے ضروری سمجھا کہ اس حدیث کو یہاں (سلسلہ ضعیفہ ) میں درج کروں“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 12/ 53 رقم 5535]
معلوم ہوا کہ مذکورہ الفاظ کے ساتھ علامہ البانی رحمہ اللہ نے پہلے اس روایت کو صحیح کہا تھا لیکن بعد میں اس کی تصحیح سے رجوع کرلیا ہے ، بلکہ بعد میں جب انہوں نے الترغیب للمنذری کی تخریج دوبارہ شایع کی تو اس میں بھی اس روایت کو ضعیف ہی لکھا ہے اور تفصیل کے لئے سلسلہ ضعیفہ رقم (5535) کاحوالہ دیا ہے دیکھیں :[ضعيف الترغيب والترهيب 2/ 310 رقم 1863]
● بعض حضرات کا المیہ تو یہ ہے کہ وہ وزن اورناپنے کے پیمانوں کو بھی کرنسی سمجھ بیٹھے ہیں جیسے رطل وغیرہ ، یہ اس قدر لایعنی باتیں کہ اس کے جواب کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
  -  -  -  -
  -  -  -  -
✿ اب آتے ہیں اس شبہہ کی طرف کہ ایک صاع کے برابرگرچہ کوئی کرنسی نہ تھی لیکن کئی افراد کے فطروں کو جمع کرکے اس کی قیمت کے برابر تو کرنسی ہوسکتی تھی لیکن پھر اس شکل میں بھی کرنسی فطرہ میں کیوں نہیں دی گئی ؟
جوابا عرض ہے کہ:
⟐ فطرہ کا مقصد غریب کی تجوری بھرنا نہیں ہے اور نہ ذخیرہ اندوزی کرنے کے لیے اسے مال دینا ہے ،  بلکہ عید کے دن اس کے ہاتھ میں ایسا ثمن فراہم کرنا ہے جس سے وہ عید کی مناسبت سے ہرطرح کی خوشیاں خرید سکے ، مثلا اپنے مرضی کے  نوع بنوع کھانے ، اس کے لوازات ، من پسند مشروبات ، افراد خانہ میں سب کے لئے کپڑے وغیرہ وغیرہ۔
اوریہ مقصود تبھی پورا ہوگا جب اس کے پاس ثمن ایسی شکل میں ہو جسے وہ ٹکڑوں کی شکل میں استعمال کرسکے ، مثلا کچھ سے ایک طرح کا کھانا خریدے ، کچھ سے دوسری طرح کا کھانا، کچھ سے کھانے کے لوازمات ، کچھ سے مشروبات ، کچھ سے ایک فرد کا کپڑا  ، کچھ سے دوسرے فرد کا کپڑا وغیرہ ۔
اورایسا تبھی ہوگا جب اس کے پاس ثمن طعام کی شکل میں ہو ، کیونکہ ایسی صورت میں نہ صرف ایک صاع طعام  بلکہ ایک مد طعام سے بھی وہ خرید وفروخت کرسکتا ہے ۔جبکہ اسے کرنسی دیں گے تو اسے چینج کی ضرورت ہوگی اور چینج طعام سے ہی ہوگا ، کیونکہ اس وقت چھوٹی موٹی چیزوں کی خرید وفروخت کے لئے طعام ہی رائج تھا ، اس طرح  گھوم پھر کر بات طعام ہی پر آجاتی ہے ، ورنہ فقیر اور بائع دونوں کے لئے شدید  دشواری ہوتی ۔
⟐ دوسری طرف فطرہ دینے والے کے تعلق سے بھی دیکھیں ہر شخص عموما  یہی پسند کرے گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنے ، اس لئے وہ اپنا پورہ فطرہ جمع کرکے کسی ایک ہی پڑوسی یا شخص کو دینے کے بجائے یہ پسند کرے گا کہ  پاس پڑوس کے متعدد مستحقین کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے سب کو مستفید کرے۔
بلکہ فرض زکاۃ کا معاملہ دیکھ لیں ، عمومی صورت حال یہی ہے کہ آدمی اپنی ساری زکاۃ کسی ایک ہی شخص کے ہاتھ میں نہیں تھماتا بلکہ متعدد حضرات  کی مدد کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اب فطرہ میں اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے حصوں میں تاکہ متعدد حضرات تک ایک ہی شخص اپنا فطرہ پہنچاسکے ۔
⟐ ان باتوں کو سمجھنے کے لئے عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور کی صورت حال پر غور کریں کہ اس دور میں صدقہ الفطر میں نہ صرف یہ کہ رقم دی جاتی تھی بلکہ سرکاری طور پر یہ قانون ہی بن گیا تھا ، کہ طعام اور رقم جو چاہیں ادا کریں ۔لیکن اس کے باوجود بھی اس دور میں ہر طرح کی کرنسی فطرہ میں  نہیں دی گئی، بلکہ صحیح روایات میں صرف ”درہم“ ہی کا ذکر ملتاہے،کہ اس دور کے لوگ فطرہ میں نقد کے طور پر ”درہم“ ہی دیتے تھے ۔
سوال یہ کہ اسی دور میں ”دینار“ کی کرنسی بھی موجود تھی ، تو کیا وجہ تھی کہ سب ”درہم“  ہی سے فطرہ دیتے تھے؟  اور ”دینار“ کوئی دیتا ہی نہیں تھا ؟ حالانکہ کئی افراد کے فطروں کا مجوعہ بآسانی ”دینار“کے مساوی ہوجاتا ۔
اس کا جواب یہی ہے کہ ”دینار“ کا اس دور میں بھی فطرہ  میں دینا کئی طرح سے دشواری کا سبب بنتا ، اس لئے نقد کے جواز اور عمل کے ہوتے ہوئے بھی دینار کو فطرہ میں نہیں دیاگا ۔
ہم کہتے ہیں کہ  اس دور میں جو حالت دینار کی تھی ، عہد رسالت میں وہی دحالت دینار اور درہم دونوں کی تھی اس لئے ، عہدرسالت میں فطرہ نہ درہم سے دیا گیا اورنہ دینارسے ، بالفاظ دیگر عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد میں دینار دینے سے جو چیز مانع تھی ، وہی چیز عہد رسالت میں دینار اور درہم دونوں کو دینے کے لئے مانع تھی ۔
⟐ اس کے ساتھ اس بات کو بھی سامنے رکھیں جسے ہم آگے تفصیل پیش کرنے والے ہیں کہ  اس دور میں بہت کم ہی لوگوں کے پاس درہم ودینار ہوتے تھے اور جن کے پاس ہوتے بھی تھے وہ دینار و درہم کو بہت عزیز رکھتے تھے ، اور بہت ہی ناگزیر حالات میں ہی اس سے دست بردار ہوتے تھے ۔بالخصوص جہاں طعام سے کام چل جائے وہاں دینار و درہم دینے کا تصور ہی مشکل تھا۔ایسے حالات میں  کس کو پڑی ہے کہ وہ طعام چھوڑ کر درہم و دینار کا فطرہ دے گا ؟ مزید یہ کہ اس دور میں طعام ، نقد کی جگہ مستعمل تھا ، اس لئے طعام دینا نقد دینے ہی کے قائم مقام تھا ۔
مندرجہ صدر تمام باتوں کی تلخیص کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دور میں کم مالیت کی کرنسی اور چھوٹے سکوں کا نہ ہونا بھی ان موانع میں سے ایک تھا جن کے سبب صحابہ فطرہ میں نقد نہیں دیتے تھے بعد میں جب یہ مانع ختم ہوا تو صحابہ وتابعین نے فطرہ میں نقد دینا شروع کردیا ۔
عہد رسالت میں فطرہ میں رقم نہ دئے جانے سے متعلق ہم نے جو دو توجیہات پیش کی تھیں ان میں سے ایک توجیہ پر وارد سارے اشکالات کے جوابات یہاں ختم ہوتے  ہیں، واضح رہے کہ اگر یہ تو جیہ کوئی ساقط بھی کر دے جب بھی ہمارےمرکزی استدلال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ، جیساکہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے۔
اب آگے ہم اسی بات کی دوسری توجیہ اور اس سے متعلق اشکالات کا ازالہ پیش کریں گے ، اس کے بعد ان شاء اللہ دلائل پر وارد نئے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment