{14} عہد رسالت میں نقدی نہ دینے کے لئے ایک اور مانع (چھٹی قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-25

{14} عہد رسالت میں نقدی نہ دینے کے لئے ایک اور مانع (چھٹی قسط)

.
.
{14} عہد رسالت میں نقدی نہ دینے کے لئے ایک اور مانع (چھٹی قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
عہد رسالت میں صدقہ الفطر میں نقدی نہ دینے کے موانع میں سے ایک مانع پر تفصیل سے بات ہوچکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دور میں چھوٹے سکے ، چھوٹی کرنسی نہیں تھی بلکہ صرف دینار ودرہم ہی اس وقت رائج تھا جس کی مالیت زیادہ تھی ۔
✿ اب بات کرتے ہیں ایک دوسرے مانع پر اور وہ یہ کہ عہد رسالت میں مال کی شکل میں دینار و درہم بہت کم ہی لوگوں کے پاس ہوا کرتے تھے ، اور جن کے پاس ہوتے بھی تھے وہ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے ، اور بڑی بڑی اشیاء  کے لئے یا ناگزیر حالات میں ہی اسے خرچ کرتے تھے ۔
مزید یہ کہ اس دور میں طعام سے لین دین کا کثرت سے رواج تھا ، اس لئے جہاں طعام لینے دینے کا امکان تھا وہاں نقدی دینے کا تصور ہی ان کے یہاں بہت بڑی اور مشکل بات تھی ۔
اورچونکہ طعام دینا اس دور میں قیمت دینے ہی کے مترادف تھا ، اس لئے طعام دیتے وقت ان کے یہاں وہ تصور نہیں ہوتا تھا جو آج کے ذہنوں میں آرہا ہے ۔آج کے لوگ طعام کو صرف خورا ک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جب کہ عہد رسالت میں اسے ثمن کی حیثیت سے بھی دیکھاجاتا تھا، اور اس سے اسی طرح لین دین کیا جاتا تھا جس طرح  نقد سے لین دین کیا جاتا ہے، اس لئے اس دور میں طعام بطور ثمن دینے کے بعد کسی کو یہ خیال نہیں ہوتا تھا کہ نقد کے بجائے طعام دے کر کسی طرح کی 
کوتاہی کی گئی ہے۔اب آئیے صحیح روایات سے اس بات کے دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
.
✿  عہد رسالت میں مال و نقدی کی قلت اور طعام سے لین دین اور عہد رسالت کے بعد مال ونقدی میں فراوانی :
 ●  امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا عبدان، حدثنا عبد الله، أخبرنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه إبراهيم، أن عبد الرحمن بن عوف، " أتي بطعام، وكان صائما، فقال: قتل مصعب بن عمير وهو خير مني، كفن في بردة: إن غطي رأسه بدت رجلاه، وإن غطي رجلاه بدا رأسه، وأراه قال: وقتل حمزة وهو خير مني، ثم بسط لنا من الدنيا ما بسط، أو قال: أعطينا من الدنيا ما أعطينا، وقد خشينا أن تكون حسناتنا عجلت لنا، ثم جعل يبكي حتى ترك الطعام“
”عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا لایا گیا۔ اور وہ روزے سے تھے تو انہوں نے کہا، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ (احد کی جنگ میں) شہید کر دیئے گئے، وہ مجھ سے افضل اور بہتر تھے لیکن انہیں جس چادر کا کفن دیا گیا (وہ اتنی چھوٹی تھی کہ) اگر اس سے ان کا سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی (اسی جنگ میں) شہید کئے گئے، وہ مجھ سے بہتر اور افضل تھے۔ پھر جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، ہمارے لیے دنیا میں کشادگی دی گئی یا انہوں نے یہ کہا کہ پھر جیسا کہ تم دیکھتے ہو، ہمیں دنیا دی گئی، ہمیں تو اس کا ڈر ہے کہ کہیں یہی ہماری نیکیوں کا بدلہ نہ ہو جو اسی دنیا میں ہمیں دیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد آپ روے کہ کھانا نہ کھا سکے “[صحيح البخاري 5/ 95 ،رقم 4045]
 ● امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو نصر بن قتادة , أنا أبو عمرو بن مطر , أنا أبو بكر جعفر بن محمد المستفاض الفريابي , ثنا أبو جعفر النفيلي , ثنا زهير , ثنا سماك بن حرب , قال: سمعت النعمان بن بشير يقول: " ما كان النبي صلى الله عليه وسلم , أو ما كان نبيكم صلى الله عليه وسلم يشبع من البقل(وفي رواية الدقل) , وما ترضون دون ألوان التمر والزبد وألوان الثياب "
 نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے (اہل کوفہ سے فرمایا) کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ردی کھجور بھی پیٹ بھر نصیب نہ ہوئی اور تم ، طرح طرح کی کھجور اورمکھن اوررنگ برنگے کپڑوں میں مزے کررہے ہو[شعب الإيمان 13/ 54،رقم 9944 والحدیث صحیح، واصلہ فی صحیح مسلم رقم34]
ان روایات سے صاف واضح ہے کہ عہدرسالت کے بعد مالی اعتبار سے مسلمانوں کی وہ حالت نہیں رہی جو عہد رسالت میں تھی، بلکہ بتدریج ان کے یہاں وسعت آتی گئی ، اور پہلے جو مال ونقد کی قلت تھی وہ بعد میں ختم ہوتی گئی ، اگلی روایت میں اس کی مزید وضاحت ملاحظہ ہو:
 ●  امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
 ”حدثنا سعيد بن يحيى، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمرنا بالصدقة، انطلق أحدنا إلى السوق، فيحامل، فيصيب المد وإن لبعضهم اليوم لمائة ألف“ 
 ”ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (کھجور ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کر دیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم ) موجود ہیں“ [صحيح البخاري 2/ 109 ،رقم 1416]
✿ ملاحظہ فرمائیں اس روایت  میں  ایک طرف یہ ذکر ہے کہ عہد رسالت  میں مزدوی کی اجرت دینار ودرہم سے نہیں بلکہ طعام سے دی جاتی تھی ، یعنی طعام کا استعمال نقد کی جگہ ہوتا تھا ۔
دوسری طرف اس روایت میں  صحابی رسول ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عمومی صورت حال یہ بیان کی ہے کہ عہد رسالت میں صحابہ کے پاس صدقہ وخیرات کے لئے نقد و کرنسی کی شدید قلت تھی ، لیکن عہد رسالت کے بعد نقدورقم کی ایسی فراوانی ہوئی کہ جو پہلے ایک درہم کو بھی ترستے تھے وہ لاکھوں  درہم کے مالک بن گئے ۔
ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کے بعد صحابہ وتابعین کے دور میں مالی اعتبار سے لوگوں کی وہ حالت نہیں رہی جو عہد رسالت میں تھی ، یعنی عہد رسالت میں فطرہ میں نقدی ورقم دینے کے لئے نقدی کی قلت کا جو مانع تھا وہ بعد میں ختم ہوگیا ، اور یہ مانع ختم ہوتے ہی  صحابہ وتابعین کے دور کے لوگوں نے فطرہ میں نقدی نکالنا شروع کردیا ، جیساکہ آگے اس کے دلائل ذکر ہوں گے ۔
.
✿ عہد رسالت میں موجود ہر طعام فطرہ میں نہیں نکالاگیا: ● 
ماقبل کی باتوں کی  مزید توضیح کے لئے یہ بھی دیکھیں کہ منکرین نقد نصوص سے روگردانی کرتے ہوئے اور مجمل اور مفصل کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ شور مچاتے ہیں کہ فطرہ میں غلہ دینے کی بات ہے، حالانکہ غلہ کی بات کسی صحیح حدیث تو درکنار کسی من گھڑت حدیث میں بھی نہیں ہے۔
البتہ صحیح حدیث میں اجمالی طور پر  ”طعام“ کی بات ہے اور اس اجمال کی تفصیل میں پانچ اشیاء  طعام کا ذکر ہے جن میں سے ہرایک غلہ نہیں ہے بلکہ :
① دو چیز پھلوں میں سے اور وہ ہے  کھجور اور کشمش ۔
② دو چیزغلے میں سے ہے اور وہ ہے جو اور گیہوں۔ 
③ ایک چیز پنیر ہے جو حیواناتی ہے یعنی سرے سے زمینی اورفصلی پیدار ہے ہی نہیں بلکہ اسے جانور کے دودھ سے بنایا جاتا ہے۔لہٰذا ایک سانس میں سب کو غلہ کہنا اور پھر دو قدم آگے بڑھ کرعام غلے کی بات شروع کردینا اور ان ساری باتوں کو حدیث کی طرف منسوب کردینا کسی صورت درست نہیں ہے ۔
الغرض یہ کہ منصوص اشیاء فطرہ میں مخصوص طعام (اشیاء خمسہ) ہی کا ذکر ملتا ہے ، یا فریق مخالف کی زبان میں کہا جائے تو مخصوص غلوں ہی کا ذکر ملتا ہے ۔ 
لیکن طعام یا غلے کی اور بھی قسمیں تھیں اور عہد رسالت میں ان کا وجود بھی تھا ، لیکن کسی بھی صحیح روایت سے یہ ثبوت نہیں ملتا کہ عہد رسالت میں  منصوص اشیاء خمسہ کے علاوہ ان دیگر غلوں یا طعام سے بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ نے فطرہ نکالاہو۔
اب فریق مخالف سے سوال یہ ہے کہ عہد رسالت میں طعام اورغلوں کی  دیگر اقسام موجود تھیں، پھر بھی اس دور میں ان سے فطرہ نہیں نکالا گیا تو کیا طعام اور غلوں کی یہ قسمیں فطرہ میں دینا جائز نہیں ہے ؟ اگر جائز ہوتا تو عہد رسالت میں بھی یہ چیزیں دی جاتیں ، کیونکہ عہد رسالت میں بھی یہ چیزیں موجود تھیں !!
مزید تو ضیح کے لئے مثالوں سے بات واضح کرتے ہیں ۔
.
 ❀ عہد رسالت میں پھل والے طعام میں سے ”التین“ (انجیر) سے فطرہ نہیں نکالا گیا : ● 
”التین“ (انجیر) کا وجود عہد رسالت میں تھا بلکہ خود قران میں اس کا ذکر موجود ہے اور اللہ نے اس کی قسم کھائی ہے ، یہ بھی ایک طعام ہے ، اور مسلکی فقہاء نے فطرہ میں اسے دینے کو جائز بھی کہا ہے ، سوال یہ ہے کہ عہد رسالت میں ”التین“ (انجیر) کا وجود بھی تھا ، پھر بھی اسے فطرہ میں نہ دیا گیا  تو اس کے جواز کی گنجائش کہاں سے نکل گئ ؟ آخر عہدرسالت کے تعامل کی شرط صرف دینار ودرہم ہی کے ساتھ کیوں ؟
.
 ❀  عہد رسالت میں غلے والے طعام میں سے ”الذرۃ“ (مکئی) سے فطرہ نہیں نکالا گیا : ● 
”الذرۃ“ (مکئی) کا وجود بھی  عہد رسالت میں تھا ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طعام کا ذکر ہوا ،[صحيح مسلم 3/ 1587 رقم2002 ]، بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ طعام لایا بھی گیا دیکھئے [مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 11 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین] اور مسلکی فقہاء نے فطرہ میں اسے دینے کو جائز بھی کہا ہے ، سوال یہ ہے کہ عہد رسالت میں ”الذرۃ“ (مکئی) کا وجود بھی تھا پھر بھی اسے  فطرہ میں نہ دیا گیا تو اس کے جواز کی گنجائش کہاں سے نکل گئ ؟ آخر عہدرسالت کے تعامل کی شرط صرف درہم و دینار  ہی کے ساتھ کیوں ؟
.
 ❀ عہد رسالت میں حیواناتی طعام میں گوشت اور دودھ سے سے فطرہ نہیں نکالا گیا : ● 
حیواناتی طعام میں گوشت اور دودھ کا استعمال بھی عہد رسالت میں ہوتا ، بلکہ ایک دفعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض صحابہ کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا تو ایک دوسرے صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کو گوشت ہی کھلایا ۔دیکھیں:[صحيح مسلم 3/ 1609،رقم 2038]
اسی طرح اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ دو دو تین تین ماہ تک گھرمیں آگ نہیں جلتی تھی اور اس مدت کھجور اورپانی پر ہی گذارا ہوتا تھا ، ہاں بسا اوقات پاس پڑوس سے دودھ آجایا کرتا تھا جو کھانے کے کام آتا ۔دیکھیں:[صحيح البخاري 3/ 153،رقم 2567]
مسلکی فقہاء نے فطرہ میں گوشت اور دودھ دینے کو جائز بھی کہا ہے ، بعض نے گوشت کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اسے صاع سے ناپا نہیں جاسکتا اس لئے اسے فطرہ میں نہیں دے سکتے، حالانکہ آج بالعموم کسی بھی کھانے کو ناپا نہیں جاتا بلکہ تول کرہی دیا جاتا ہے۔ بلکہ خود موصوف نے ہی دوسری جگہ اسے جائز بھی قراردیاہے حالانکہ وہاں بھی ناپنے والا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔اور دودھ کے بارے میں ناپنے والا عذر بھی نہیں چل سکتا بلکہ بعض کا فتوی بھی موجود ہے فطرہ میں ایک صاع دودھ   دے سکتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ عہد رسالت میں  گوشت اور دودھ موجود تھا پھر بھی فطرہ میں اسے نہیں دیا گیا  تو اس کے جواز کی گنجائش کہاں سے نکل گئ ؟ آخر عہدرسالت کے تعامل کی شرط صرف درہم و دینار  ہی کے ساتھ کیوں ؟
مذکورہ بالا ساری چیزوں کے بارے میں غوکر کریں یہ چیزیں موجود تھیں اور طعام اورغلے سے یہ باہر بھی نہیں پھر بھی عہد رسالت میں ان سے فطرہ دینے کا ثبوت نہیں ملتا۔
منکرین نقد فرماتے ہیں کہ عہد رسالت میں بیان جواز ہی کے لئے ہی سہی ، ایک دو مثال ملنی چاہئے کہ نقد کو فطرہ میں دیا گیا ۔
یہی سوال یہ یہاں بھی پیدا ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں بیان جواز ہی کے لئے سہی ایک دو مثال ملنی چاہے کہ مذکورہ طعام یا غلے کوفطرہ میں دیا گیا ۔
 ◄ اگر کوئی لفظ طعام کوعام مان کر اس سے جواز کشید کرے تو عرض ہے کہ :
 ⟐ اولا: 
  اس سے اشکال تو حل نہیں ہوا ، کیونکہ یہ اشکال اب بھی باقی ہے کہ آخر عہدرسالت میں موجود مذکورہ طعام کو فطرہ میں کیوں نہیں دیا گا۔
ظاہرہے کہ اس کے لئے کچھ توجہات اور موانع پیش کئے جائیں گے  ، اسی طرح کی  توجیہات اوریہی موانع ہم نقد سے متعلق بھی پیش کرتے ہیں ۔
 ⟐ دوم:
طعام میں جس طرح غذائی حیثیت ہے اسی طرح طعام میں ثمنی حیثیت بھی ہے ، لہٰذا اگر غذائی حیثیت سے بعد کے ادوار میں دیگر خوارک کا جواز نکلتا ہے تو ثمنی حیثیت سے بعد کے ادوار میں نقد کا جواز بھی نکلتا ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment