{18} صحابہ سے فطرہ میں قیمت دینے کا ثبوت (دسویں قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-29

{18} صحابہ سے فطرہ میں قیمت دینے کا ثبوت (دسویں قسط)

{18} صحابہ سے فطرہ میں قیمت دینے کا ثبوت  (دسویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
نوٹ : اس قسط کو پڑھنے سے پہلے ماقبل کی نویں قسط ضرور پڑھیں:
⟐  ⟐  ⟐  ⟐
ہم نے اپنی مستدل روایت پیش کرتے وقت ہی صاف اورصریح طور پر بتادیا تھا کہ عہد فاروقی میں غلاموں کی طرف سے زکاۃ دو طرح دی جارہی تھی ، ایک عمومی شکل میں ، اورایک فطرہ کی شکل ، پھر ہم نے دونوں طرح  کی روایات بھی پیش کردی تھیں ۔
موصوف نے پہلی اور دوسری شکل سے متعلق (6) روایات کو ایک ساتھ پیش کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ گویا وہ پہلی بار ان روایات کو سامنے لارہے ہیں حالانکہ قارئین غور کریں تو یہ ساری روایات خود ہماری سابقہ قسطوں میں ذکر ہوچکی ہیں ۔
● پہلی روایت  شبيل بن عوف کی ہے جسے ہم نے نویں قسط میں پیش کیا ہے۔
● دوسری روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ہے جسے ہم نے ساتویں قسط میں پیش کیا ہے۔ہاں اس روایت کا ایک  اضافی ٹکڑا ہم نے ترک کردیا تھا جس پر وضاحت آگے آرہی ہے ۔
● تیسری روایت قتادہ عن سعید کی ہے جس میں قتادہ عن انس والی روایت ہی کا مضمون ہے ۔اور قتادہ کے طریق والی روایت ہم نے ساتویں قسط میں پیش کردیا تھا ۔
● چوتھی روایت ابو اسحاق عن حارثہ کی ہے اسے بھی اجمالی طور پرہم نے آٹھویں قسط میں ( شرح معاني الآثار 2/ 27) کے حوالے سے پیش کیا ہے۔
● پانچویں اور چھٹی روایت سعید ابن المسیب کی ہے  انہیں بھی ہم نے ساتویں اور آٹھویں قسط میں پیش کیا ہے ۔ البتہ اس روایت کے ایک طریق میں آخر میں سعید ابن المسیب کا تبصرہ تھا جسے ہم نے ترک کردیا تھا اور خود اس کے راوی امام ابو عبید نے بھی اس جملہ کو ترک کرکے دوسری جگہ روایت کیا ہے ، مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
قارئین غور فرمائیں ، کہ موصوف نے ساری روایات وہی پیش کی ہیں جن کو ہم پہلے پیش کرچکے ہیں ، اور آں جناب قارئین کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان روایات گویا موصوف پہلی بار ملاحظہ فرمارہے ہیں ، اور پہلی بار ہدیہ قارئین کررہے ہیں ۔
بہرحال ان روایات کو پیش کرکے موصوف نے  دس کا اسکور کھڑا کیا ہے ، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہماری طرف سے پیش کردہ روایت میں صحابہ نے غلاموں کی زکاۃ ، فطرہ کی شکل میں نہیں دی تھی ، اب ایک ایک اشکال کا جائزہ بالترتیب ملاحظہ فرمائیں:
.
✿  پہلا اشکال:
پہلے اشکال کا ماحصل یہ ہے کہ امام ابوعبید نے اس روایت کا تذکرہ زکاۃ کے باب میں کیا ہے ۔
● ازالہ:
عرض ہے کہ اس روایت میں غلاموں کی زکاۃ کی بھی بات ہے ، تو ظاہر ہے کہ اس کا تذکرہ زکاۃ کے باب میں ہوگا ۔ غلاموں کی یہ زکاۃ فطرہ کی شکل میں دینے سے یہ چیز غلاموں کی زکاۃ سے خارج تو نہیں ہوجائے گی ۔
یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے حنفی گیارہ رکعات تراویح والی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہتے ہیں کہ فلاں محدث نے اسے تہجد کے باب میں ذکر کردیا ہے ، ارے بھائی اس حدیث میں جس نماز کا ذکر ہے وہ اصلا تہجد ہی ہے بس رمضان میں ایک خاص شکل یعنی جماعت کی شکل میں اسے ادا کرنے کی وجہ سے یہ تراویح کہلائی ۔
ٹھیک اسی طرح  فطرہ کی شکل میں غلاموں کی زکاۃ بھی اصلا غلاموں ہی کی زکاۃ ہی ہے ، بس چند صحابہ نے اسے صدقہ الفطر کی شکل میں ادا کردیا ہے ، لہٰذا اس چیز سے غلاموں کی اضافی زکاۃ والی بات ختم نہیں ہوسکتی ۔
موصوف نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ یہاں غلاموں کی طرف سے دس درہم اصل فطرہ دینے کی بات کہی جارہی ہے ، محترم اس مقدار میں اصل فطرہ اتنا ہی تھا ، جتنا غلاموں کی طرف سے واجب ہے ، باقی جو رقم ہے وہ فطرہ کی شکل میں دی جارہی ہے لیکن وہ اصلا غلاموں کی زکاۃ ہی  ہے ۔ بس اسے اصل فطرہ کی رقم میں پلس کرکے دیا جارہا ہے ۔
اگر یہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے تو ممکن ہے ایک نیا اشکال آپ ذہن میں  جنم لے کہ دوسرے لوگ تو ایک غلام کی مکمل  دس درہم  زکاۃ دیتے تھے ، اور یہ صحابہ ایک غلام کی طرف سے دس درہم میں اس غلام کا اصل فطرہ بھی دے رہے تھے اور اس کی اضافی زکاۃ بھی دے رہے تھے تو اس صورت میں ان کی طرف سے ایک غلام کی اضافی  زکاۃ کی رقم دس درہم سے کم ہی ہوگی ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک غلام کی زکاۃ کے لئے  دس درہم ایک عمومی رقم طے کی گئی تھی ، چونکہ یہ اضافی زکاۃ تھی اس لئے اس میں دس درہم سے کچھ کم یا زیادہ ہوجانا کوئی قابل گرفت بات نہیں تھی ، چنانچہ خود آں جناب   نے ہی شعبہ عن قتادہ کی سند سے جو روایت پیش کی ہے اس میں ایک غلام  کی زکاۃ کے لئے ایک دینار کا ذکر ہے اور ایک دینار بارہ درہم کے برابر ہے جیساکہ پہلی قسط میں دلائل کے ساتھ اسے ثابت کیا گیا ہے ۔
معلوم ہوا کہ ایک غلام کی زکاۃ  عمومی طور پر لوگ دس درہم ہی دیتے تھے ، لیکن جو دینار سے دیتے تھے ان کی رقم کچھ زیادہ ہوجاتی تھی اور جو صدقہ الفطر کی شکل میں دس درہم  دیتے تھے ان کی رقم کچھ کم ہوجاتی تھی ۔اور ایک غلام کی طرف سے اصل صدقۃ الفطر ایک صاع ہی تھا ، جس کی قیمت ایک درہم سے بھی کم تھی اس لئے بہت زیادہ فرق کی بات نہیں ہے۔
.
✿  دوسرا اور تیسرا اشکال :
دوسرے اور تیسرے  اشکال کا ماحصل یہ ہے کہ سعید ابن المسیب نے غلاموں کی عمومی زکاۃ والی روایت کے بعد جو تبصرہ کیا ہے وہی تبصرہ دوسری فطرہ والی روایت کے بعد بھی کیا ہے ، اس لئے یہ دونوں روایت ایک ہی ہے ۔ اس ضمن میں آپ نے میری عدالت پر بھی سوال اٹھایا ہے ، کہ میں نے یہ تبصرہ فطرہ والی روایت کے اخیر سے حذف کیوں کردیا ۔
● ازالہ:
عرض ہے کہ موصوف نے حسب سابق یہاں پھر نیت پر حملہ کیا ہے ، اور عدالت و امانت کا رونا رویا ہے ، تعجب ہے کہ تحریف کے الزام کی قے کرکے ، پھر خود ہی اسے  نگل کر بھی پیٹ نہیں بھرا !  لگتا ایسا ہے کہ عدالت  کے جملہ حقوق انہیں کے پاس محفوظ ہیں اور ہرطرح کی امانت پر بس انہیں کا کاپی رائٹ ہے ۔
داراصل سعیدبن المسیب کی دوسری روایت امام ابوعبید نے دو جگہ نقل کی ہے ، ایک جگہ انہوں نے روایت کے اخیر میں سعید ابن المسیب کی طرف سے بعد کے حکام پر ایک تبصرہ بھی نقل کیا ہے  دیکھیں: [الأموال لأبي عبيد ، ت: محمدعمارۃ ص 337 رقم 617 ]
اور دوسری جگہ خود امام ابوعبید نے ہی یہ تبصرہ نقل نہیں کیا ہے بلکہ روایت وہی پر ختم کردی ہے جتنا ہم نے پیش کیا تھا۔ دیکھیں[الأموال لأبي عبيد ، ت: محمدعمارۃ ص 565 رقم 1368]
موصوف نے غریب پر یہ خیانت کا اتہام تو لگا دیا لیکن یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ اگر خیانت ہے تو یہ الزام خود امام ابوعبید پر عائد ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے بھی دوسرے مقام پر اس تبصرہ کو ذکر نہیں کیا ہے ۔امام ابو عبید کا دوسرے مقام پر یہ تبصرہ ذکر نہ کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس تبصرہ کو حذف کرنے سے بقیہ روایت کے مضمون پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
اب اس ٹکڑے سے موصوف کے استدلال کو دیکھ لیتے ہیں ، موصوف کی خوش فہمی دور کرنے کے لئے ہم نے اس بار اس ٹکڑے کو بھی ذکر کردیا گیا ہے اس میں سعیدبن المسیب نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ”جب یہ لوگ (نئے امراء) آئے تو کہنے لگے ہمیں دس درہم دیتے رہو اور ہم دو جریب نہیں دیں گے ، تو یہ طرزعمل درست نہیں ہے ، اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا “
حضرت فرماتے ہیں کہ یہ تبصرہ سعید ابن المسیب نے پہلی اس روایت میں بھی کیا ہے جس میں گھوڑوں اور غلاموں کی طرف سے عام شکل میں اضافی زکاۃ دینے کی بات ہے ، اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں روایات کا معاملہ ایک ہی ہے ۔
عرض ہے کہ اس بات سے کس کو انکار ہے کہ دونوں روایات میں غلاموں کی طرف سے اضافی زکاۃ دینے کی بات ہے ؟ غلاموں کی اضافی زکاۃ نکالنے میں بالکل دونوں معاملہ ایک ہے ، اس یکسانیت کو ثابت کرنے کے لئے تو یہی بات کافی ہے کہ جس طرح عمومی شکل میں زکاۃ دینے والے غلاموں کی زکاۃ دس درہم دیتے تھے اسی طرح یہ صحابہ بھی دس درہم دیتے تے ، نیز جس طرح عمومی طور پر غلاموں کی زکاۃ دینے والوں کو  عمرفاروق رضی اللہ عنہ  دو جریب دیتے تھے ، اسی طرح ان صحابہ کو بھی دو جریب دیتے تھے ۔روایت کے اندر یہ دو باتیں جس مفہوم کی عکاسی کررہی ہیں ، بتلائے کہ محذوف شدہ تیسری بات بھی لے آنے سے کون سے نئے  مفہوم کا اضافہ ہوجاتا ہے ؟؟
دراصل غلاموں کی زکاۃ دینے کے سلسلے میں دونوں روایت میں ایک ہی بات ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ دوسری روایت میں غلاموں کی یہی زکاۃ فطرہ کی شکل میں دینے کا تذکرہ ہے ، لیکن نفس مسئلہ ایک ہی ہے ، یعنی غلاموں کی دس درہم زکاۃ دینا اوراس کے عوض میں دو جریب پانا ۔
سعید ابن المسیب نے بعد میں آنے والے امراء پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ غلاموں کی زکاۃ تو لینا چاہتے ہیں لیکن اس کے عوض میں دو جریب دینا نہیں چاہتے ۔ظاہرہے کہ دونوں روایت میں غلاموں کی زکاۃ کا ذکر ہے اور بدلے میں دو جریب دینے کا ذکر ہے ، تو یہ تبصرہ بھی دونوں جگہ ہی فٹ ہوگا ۔ دوسری روایت کے ساتھ اس تبصرہ سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ غلاموں کی زکاۃ تھی ، جیساکہ دس درہم کی رقم اور بدلے میں دوجریب بھی یہی بات  ثابت کرتی ہے ، لیکن ان باتوں سے اس بات کی نفی قطعا نہیں ہوتی کہ ایک گروہ غلاموں کی یہی زکاہ فطرہ کی شکل میں دے رہا تھا ۔ اس لئے دماغ ٹھنڈا کرکے پہلے بات کو سمجھنے کی استطاعت پیدا کریں ! ان شاء اللہ ضرور افاقہ ہوگا۔
واضح رہے کہ آپ کی خوش فہمی دور کرنے کے لئے اس بار میں نے اس روایت کو مذکورہ تبصرہ کے ساتھ مع ترجمہ نقل کیا ہے اس سے قبل والی قسط میں ملاحظہ فرمالیں۔
اس موقع سے اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ تراویح سے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک روایت پیش کیا اور اس کے آخری حصہ کو چھوڑ دیا ، میں نے بھی اپنی کتاب کے پہلے اڈیشن میں اسی روایت کو پیش کیا اور میں نے بھی اس روایت کا آخری حصہ چھوڑدیا ۔اس پر بعض احناف نے علامہ البانی رحمہ اللہ اور ناچیز پر خوب لعن طعن کیا اور قارئین کو مشتعل کرنے کے لئے یہی الزام لگایا کہ اس روایت کے آخری ٹکڑے سے اس حدیث کا مفہوم ہمارے خلاف جارہا تھا اسی لئے ہم نے اسے حذف کردیا ۔لیکن ہماری کتاب دوبارہ طبع ہوئی تو ہم نے احناف کی خوش فہمی دور کردی اور وہ اخیر کا حصہ بھی نقل کردیا ہے لیکن اس سے سابق استدلال پر کوئی فرق نہیں پڑا ، تفصیل کے شائقین تراویح سے متعلق  میری کتاب کا جدید اڈیش دیکھ سکتے ہیں ۔
.
✿  چوتھا اشکال:
چوتھے اشکال میں بھی موصوف کی وہی غلط فہمی ہے جس کی وضاحت پہلے اشکال کے ازالہ کے تحت کی جاچکی ہے۔فرماتے ہیں:
((اگر مان لیں کہ سعید بن المسیب نے اپنے اثر میں عہد فاروقی کا واقعہ زکاۃ الفطر کے متعلق ہی بیان کیا ہے تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ ان کے زمانے تک اسی طرح صدقہ فطر میں غلاموں کی طرف سے دس درہم لیا جاتا رہا؟ ))
● ازالہ:
عرض ہے کہ غلاموں کی طرف سے دس درہم پورا کا پورا  اصلا فطرہ نہیں تھا ، بلکہ اصلا فطرہ اتنا ہی تھا جتنا ایک صاع کی قیمت بنتی ہے باقی غلاموں کی طرف سے اصل فطرہ نہیں بلکہ غلاموں کی زکاۃ تھی ، جسے فطرہ کے ساتھ بڑھا کردیا جاتا تھا ۔ یہاں اصل مقصود غلاموں کی زکاۃ ہی تھی ۔مزید وضاحت پہلے اشکال کے ازالہ کے تحت کی جاچکی ہے۔
اوریہ عمل کب تک جاری رہا اللہ ہی کو معلوم  ۔البتہ سعیب ابن المسیب کے تبصرہ سے یہی مستفاد ہوتا ہے کہ بعد میں آگے چل کر حکام نے اس اضافی زکاۃ پر معاوضہ دینا بند کردیا اس لئے  لوگوں نے یہ اضافی زکاۃ دینا بھی بند کردی۔
.
✿  پانچواں اشکال:
پانچویں اشکال کا ماحصل یہ ہے کہ سعید ابن المسیب نے جو تبصرہ کیا ہے وہی تبصرہ ابو اسحاق نے بھی کیا ہے ۔
● ازالہ:
عرض ہے کہ اس کی وضاحت بھی دوسرے اشکال کے ازالے میں ہوچکی ہے کہ دونوں معاملہ میں غلاموں کی زکاۃ ہی کا مسئلہ ہے ، پہلے معاملہ میں غلاموں کی عمومی طور پر زکاہ کا مسئلہ ہے اور دوسرے معاملہ میں فطرہ کے طور پر لیکن اصلا یہاں بھی غلاموں ہی کی زکاۃ ہے اور لینے دینے کا مسئلہ بھی یکساں ہے یعنی غلام کی زکاۃ دینا اور دو جریب وصول کرنا ۔ لہٰذا غلاموں کی زکاۃ کی حیثیت سے دونوں معاملہ ایک ہی ہے تو جو معاملہ بھی ایک ساتھ پیش آئے گا وہی دوسرے کے ساتھ بھی پیش آئے گا مزید وضاحت دوسرے اشکال کے ازالے کے تحت ہوچکی ہے۔
.
✿  چھٹا اشکال:
چھٹے اشکال کا ماحصل یہ کہ ابوعبید نے فطرہ والی روایت کو ”باب الصدقة في الخيل والرقيق، وما فيهما من السنة“ کے تحت پیش کیا ہے ۔
● ازالہ :
عرض ہے کہ اس باب میں امام ابو عبید نے دونوں طرح کی روایات پیش کی ہیں ، اور دونوں طرح کی روایت میں اصلا غلاموں کی زکاۃ دینی کی بات ہے اور اس کی وضاحت بھی پہلے اشکال کے ازالے تحت ہوچکی ہے ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی مناسبت سےایک اور اشکال کو رفع کردیا جائے گرچہ موصوف نے اسے پیش نہیں کیا ہے ، وہ یہ کہ اگر سعید ابن المسیب کی روایت میں فطرہ میں نقدی دینے کے بات ہے تو ”الأموال“کے مصنف نے جہاں فطرہ میں رقم دینے کا باب قائم کیا ہے وہاں یہ روایت کیوں نہیں ذکرکی ؟؟
عرض ہے کہ امام ابو عبید نے اپنی کتاب”الأموال“  میں فطرہ میں رقم دینے کا کوئی باب قائم نہیں کیا  ، البتہ ایک دوسرے  امام ،  ابن زنجویہ نے بھی اموال پر کتاب لکھ رکھی ہے جس میں انہوں نے سعید ابن المسیب کی یہ روایت نقل کی ہے ، اور اس کتاب کے دوسرے مقام پر انہوں نے فطرہ میں رقم دینے کا باب قائم کیا ہے مگر اس باب کے تحت یہ روایت ذکر نہیں کے ۔ اس تعلق سے عرض ہے کہ:
 ◈ ابن زنجویہ کا فطرہ  میں رقم والے باب میں اس روایت کو ذکر نہ کرنا،  قطعا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ  اس روایت میں فطرہ میں رقم دینے کی دلیل نہیں ہے ۔
◈ بلکہ یہ اس بات کی بھی دلیل نہیں ہے کہ امام ابن زنجویہ کی نظر میں بھی اس روایت میں نقدی سے فطرہ دینے کی دلیل نہیں ہے ، کیونکہ امام ابن زنجویہ نے فقہاء کے طرز پر یہ کتاب نہیں لکھی ہے کہ ہر طرح کی روایت متعلقہ باب میں ذکرتے جائیں  ، اور نظر واستدلال کی طول طویل بحث چھیڑیں ، چونکہ سعیدا بن المسیب کی روایت میں غلاموں کی زکاۃ کا پہلو غالب ہے ، اس لئے  اس کا تذکرہ غلاموں کی زکاۃ ہی کے باب میں کیا گیا ہے اور فطرہ میں رقم سے متعلق خاص ان آثار کو پیش کیا جو خالص فطرہ میں رقم دینے سے ہی متعلق ہیں۔
 نیز بعض  اہل علم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اثر سے بھی فطرہ میں نقد پر استدلال کیا ہے اور امام ابن زنجویہ نے یہ اثر بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے دیکھیں :[الأموال لابن زنجويه 3/ 1238 ، رقم 2360] ، لیکن فطرہ والے باب میں اسے ذکر نہیں کیا ۔
ظاہر ہے کہ اس چیز سے قائلین جواز پر یہ حجت قائم نہیں کی جاسکتی کہ اس میں نقد کے جواز کا ثبوت نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی نہیں دعوی کیا جاسکتا کہ امام ابن زنجویہ اس روایت میں اس مفہوم کے منکر ہیں !!
◈ علاوہ بریں سعید بن المسیب کی روایت میں چونکہ غلاموں کی زکاۃ کا پہلو غالب ہے ، اس لئے فطرہ میں نقد والے پہلو پر  ذہن کا ملتفت نہ ہونا  بھی کوئی امر مستعجب نہیں ہے ۔
◈ امام ابن زنجویہ نے فطرہ میں نقد کے جواز کا فتوی اسی باب میں دیاہے لیکن اس جواز کی تائید میں کوئی حدیث ذکر نہیں کی ہے ، تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ابن زنجویہ نے محض اپنی عقل سے فتوی دے دیاہے ، جبکہ طعام والی حدیث بھی ان کے سامنے ہے !
ظاہر ہے کہ ان کا استدلال بھی احادیث ہی سے جیساکہ علمائے احناف وغیرہ کا استدلال ہے ، لیکن ان احادیث سے استدلال شرح وتفصیل کا متقاضی ہے اس لئے ان کا ذکر نہیں کیاہے۔
◈ اوراہم بات یہ ہے کہ فطر میں طعام سے متعلق ابوسعید الخدری ، عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کی روایات کو امام ابن زنجویہ نے بھی نقل کیا ہے دیکھیں: [الأموال لابن زنجويه ،رقم2357 ، رقم 2361 وغیرہ ]
لیکن اس کے باوجود بھی فطرہ میں نقد کے جواز کا فتوی دیا ہے دیکھیں:[الأموال لابن زنجويه 3/ 1269]
ظاہرے کہ امام ابن زنجویہ نے فطرہ میں طعام والی احادیث  کا وہ مطلب قطعا نہیں سمجھا جو مانعین نقد سمجھ رہے ہیں ، تو کیا امام ابن زنجویہ کے اس فہم پر مانعین نقد ایمان لائیں گئے ؟ 
اور یہ اعلان کریں گے کہ فطرہ میں طعام والی حدیث میں صرف طعام پر اکتفاء کی دلیل نہیں ہے کیونکہ امام ابن زنجویہ  نے ان احادیث کا یہ مطلب نہیں سمجھا ہے !!
فما کان جوابکم فھو جوابنا !
.
✿  ساتواں اشکال:
فرماتے ہیں: ((اگر مان لیں کہ سعید بن المسیب نے اپنے اثر میں عہد فاروقی کا واقعہ زکاۃ الفطر کے متعلق ہی بیان کیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ دس درہم صدقہ فطر اور دس درہم عام زکاۃ غلاموں کی طرف سے ادا کرتے تھے ؟ یعنی بیس درہم ادا کرتے تھے؟))
● ازالہ :
یہ شبہہ بھی اسی غلط فہمی پر قائم ہے کہ دس درہم پورا کا پورا اصلا فطرہ کے طور دیتے تھے ۔
محترم یہ بات کوئی نہیں کہتا ، اصلا فطرہ کی رقم ایک صاع کی قیمت کے برابر ہی تھی باقی رقم اصلا غلاموں کی زکاۃ تھی ، جسے فطرہ کی قیمت کے ساتھ پلس کرکے فطرہ کی شکل میں دیا جاتھا ، اس کی بھی مزید وضاحت پہلے اشکال کے ازالے کے تحت کی جاچکی ہے۔
.
✿  آٹھواں اشکال:
آٹھویں اشکال کا ماحصل یہ ہے کہ فطرہ کی اصل رقم میں اضافہ کی گنجائش کہاں سے ہوگئی ؟ اور کیا آج ہم بیس بچیس صاع دے سکتے ہیں۔
● ازالہ:
یہاں بھی سابقہ غلط فہمی کار فرما ہے ، یعنی دس درہم کو پورا کا پورا اصلا صدقہ الفطر سمجھ لیا گیا ہے ، قارئین غور کریں گے  تو معلوم ہوگا کہ موصوف کی بنیادی پریشانی یہی ہے کہ آں جناب  یہ بات سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں کہ مہاجر صحابہ نے جو دس درہم دیا تھا کہ اس میں اصلا دو طرح کی زکاۃ تھی ، ایک زکاۃ اصلا زکاۃ الفطر کی تھی جو غلاموں کی طرف سے نکالی گئی ، اور دوسری زکاۃ ،  اصلا غلاموں ہی کی زکاۃ تھی جو اصل فطرہ کے ساتھ پلس کرکے نکالی گئی ۔ مزید وضاحت پہلے اشکال کے ازالے میں ہوچکی ہے۔
اور رہی یہ بات کہ کیا ہم طے شدہ نصاب سے زیادہ زکاۃ دے سکتے ہیں ، تو عرض ہے کہ اس مسئلہ کی نوعیت زیربحث مسئلہ سے قدرے مختلف ہے ۔
تاہم اس میں بھی یہ بات واضح ہے کہ متعینہ نصاب سے زائد زکاۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، خواہ فطرہ کی زکاۃ ہو یا کوئی اور زکاۃ ، اور میں حیران ہوں کہ یہ چیز آپ کے لئے موجب اشکال کیسے ہوگئی  کہ متعینہ مقدار میں اضافہ کی گنجائش ہے یا نہیں؟ خود مانعین نقد کو بھی اس میں اشکال نہیں ہے ،  اس مسئلہ میں مزید تفصیل کی جاسکتی ہے لیکن گذارش ہے کہ اپنی اس بات پر نظر ثانی فرمالیں اور مزید غور کریں ، اگردوبارہ آپ نے یہ بات دہرائی تو پر اس پر تفصیل بھی پیش  کی جائے گی ان شاء اللہ۔
.
✿  نواں اشکال :
نویں اشکال  میں موصوف فرماتے ہیں:
((صحابہ کرام نے غلاموں کی طرف سے دس درہم صدقہ فطر دینے کا سوچا، خواہش ظاہر کی، اور اس کی پیش کش بھی کی لیکن اس کے باوجود وہ اپنی طرف سے وہی ایک صاع ہی دیتے رہے۔ آخر نیکی کے اس کام میں خود انہوں نے ہی سبقت کیوں نہیں کی؟))
● ازالہ:
یہاں بھی آپ اسی غلط فہمی کے شکار ہیں جس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے ، کہ آپ دس درہم کو پورے طور سے اصلا غلاموں کی طرف سے صدقہ الفطر سمجھ بیٹھے ہیں ، محترم  اس دس درہم میں سے معمولی حصہ غلاموں کی طرف سے صدقہ الفطر تھا ، باقی رقم ”غلاموں کی طرف سے “ نہیں ، بلکہ ”غلاموں کی“ زکاۃ تھی ، بالفاظ دیگر  ”ایک طرح کے مال کی“ زکاۃ تھی کیونکہ غلام مال میں شمار ہوتے ہیں ۔مزید وضاحت پہلے شبہ کے تحت ہوچکی ہے۔
.
✿ دسواں اشکال:
دسویں اشکال کا آخری حصہ تو وہی غلط فہمی لئے ہوئے جس کا باربار اوپر ذکر ہوا ہے اور اس کا ازالہ قدرے تفصیل سے پہلے اشکال کے جواب میں کیا جاچکا ہے ، البتہ اس دسویں اشکال کاابتدائی حصہ کمال کا ہے ، فرماتے ہیں:
((عہد فاروقی تو عہد رسالت سے فقط دو سال کچھ مہینے بعد شروع ہوتا ہے۔ قائلین نقد نے عہد رسالت میں کرنسی دینے کے موانع میں سے ایک چیز کو بہت ہی بڑھا چڑھا کر ہائی لائٹ کیا ہوا ہے کہ ان کے یہاں درہم ودینار کی بہت ہی قلت تھی، وہ انہیں بے حد عزیز ہوا کرتے تھے ، بہت ہی ناگزیر حالات میں وہ ان کا استعمال کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف دو سال بعد ہی حالات کے اندر اس طرح زمین وآسمان کا فرق آگیا کہ وہ دل کھول کر اپنے غلاموں کی طرف سے ان عزیز دراہم کی بوچھار کرنے لگے))
● ازالہ:
توجہ فرمائیں موصوف کے الفاظ پر  (( کہ عہد فاروقی عہدرسالت کے فقط دوسا ل بعد شروع ہوا ))۔۔۔۔ اورآگے ارشاد فرمایا:۔۔۔۔۔۔((صرف دو سال بعد ہی حالات کے اندر اس طرح زمین وآسمان کا فرق آگیا))۔۔۔۔الخ
محترم آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ یہ حالات عہد رسالت کے صرف دوسال بعد رونما ہوئے ؟؟؟
ہمارا استدلال سعید ابن المسیب رحمہ اللہ  کی روایت سے ہے،  اب آپ ہی بتلائیں کہ کیا سعید ابن المسیب نے عہد فاروقی کے پہلے سال کا حال بیان کیا ہے؟
محترم ہوش میں آئیں ، عہد فاروقی کے پہلے سال تو سعید ابن المسیب اس دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے !!!
خود سعید ابن المسیب کا اپنا بیان ہے کہ:
”ولدت لسنتين مضتا من خلافة عمر رضي الله عنه“ ،
”میری پیدائش عہد فاروقی کے دو سال بعد ہوئی ہے“  [مسندابن منیع ، المطالب 4/ 191وإسناده صحيح]
اب عہد رسالت کے چار سال بعد تو سعید ابن المسیب پیدا ہورہے ۔ پھر ان کی سن تمیز چار سال مان لیں گے تو آٹھ سال تو یہی ہوگئے ۔
یعنی مذکورہ صورت حال کا عہد رسالت سے فاصلہ کم از کم آٹھ سال ہے ۔اور اس بات کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ ابن المسیب نے ابتدائی ایام ہی کی حالت بیان کی ہو یہ بھی ہوسکتاہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے آخری دورمیں یہ صورت حال پیدا ہوئی ہو، اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت دس سال اور کچھ ماہ ہے۔
بہرحال جو بھی مدت مانیں وہ بہت کافی ہے ، عہد رسالت کے فقر وفاقہ والے حالات کو پیچھے چھوڑنے کے لئے ، عہد فاروقی میں بیت المال کی جو فراوانی روایات بتلاتی ہیں وہ شاید آپ سے مخفی نہ ہوں بلکہ خود سعید ابن المسیب ہی کیا روایت کرتے ہیں وہ بھی سن لیں:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”أخبرنا أحمد بن عبد الله بن يونس قال: أخبرنا عبد الله بن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب: «أن عمر بن الخطاب فرض لأهل بدر من المهاجرين من قريش والعرب والموالي خمسة آلاف خمسة آلاف، وللأنصار ومواليهم أربعة آلاف أربعة آلاف“
”سعیدابن المسیب فرماتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے قریش اور عرب اہل بدر اوران کے موالی کے لئے پانچ پانچ ہزار (درہم) وظیفہ مقررکیا اور انصاراوران کے موالی کے لئے چارچار ہزار (درہم) وظیفہ مقررکیا “[الطبقات الكبرى ط دار صادر 3/ 304 و إسناده صحيح وله طرق أخري]
یہ سعید ابن المسیب ہی کا بیان ہے ، اور بعض دوسری روایات میں تو وظیفہ کی مقدار اس سے بھی کا فی زیادہ بتلائی گئی ہے ، مطلب بعد میں اس میں بھی اضافہ کیا گیا ۔
امید ہے کہ اب آپ کو تعجب نہیں ہوگا کہ عہد رسالت میں جو صحابہ ایک ایک درہم کو ترستے تھے وہ عہد فاروقی میں نہ صرف غلاموں کے مالک بن گئے، بلکہ اپنے ہر غلام کی طرف سے دس دس درہم زکاۃ بھی دینے کے اہل ہوگئے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)
.

No comments:

Post a Comment