{17} صحابہ سے فطرہ میں قیمت دینے کا ثبوت (نویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
پچھلی قسط سے پیوستہ قسط میں ہم نے ایک روایت پیش کی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ عہد فاروقی میں بعض مہاجرین صحابہ نے جب یہ دیکھا کہ لوگ زکاۃ والے دیگر اموال کی طرح غلاموں کی بھی زکاۃ نکال رہے ہیں ،جن پر زکاۃ فرض نہ تھی ، اور حکومت سے باقاعدہ اس کی منظوری بھی مل گئی ہے۔ تو انہوں نے بھی اپنے غلاموں میں زکاۃ دینی چاہی ، لیکن اس کے لئے انہوں نے دیگرلوگوں کے طریقے سے ہٹ کر یہ طریقہ اپنایا کہ غلاموں کی طرف سے پہلے سے جو فطرہ کی زکاۃ فرض تھی اسی کی مالیت کو بڑھا دیا ۔ اوراس الگ طریقہ کا فائدہ یہ تھا کہ غلاموں کی زکاۃ بھی ادا ہورہی تھی اور ایک سنت کی راہ سے ہورہی تھی ۔
پھر غلاموں کی زکاۃ کے لئے جو رقم عام طور پر طے کی گئی تھی وہ دس درہم تھی سو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی فطرہ کو دس درہم تک بڑھا دیا ۔ اس رقم کو پیش کردہ روایت میں ”عشرۃ“ کی عدد سے بیان کیا گیا ہے ، ہم نے اس کا ترجمہ دس درہم سے کیا ، اس پر بعض حضرات نے بلاتامل تحریف کا الزام لگا دیا اور یہ تاثر دیا کہ ”عشرۃ“ کا یہ مفہوم ہم نے ہی پہلی بار پیش کیا ہے ، حالانکہ ہم سے پہلے بھی کئی مترجمین نے اس کا ترجمہ درہم سے کررکھا ہے۔
بہرحال جب اس ترجمہ پر تحریف کا الزام لگا تو ہم نے اس کی توضیح میں دوسری تحریر پیش کی جسے اس سے پہلی والی قسط میں نشر کیا گیا ہے ، اس تحریر میں ہم نے صرف اپنے ترجمہ کے حق میں دلائل اور قرائن پیش کئے تھے ، اور ارادہ تھا کہ فریق مخالف کے ترجمہ کا جائزہ بھی پیش کیا جائے ، لیکن بدقسمتی سے فریق مخالف نے صرف تحریف کا الزام ہی لگانے پر اکتفا کیا تھا اور اس کے مقابل میں اپنا کوئی ترجمہ منظر عام پر نہیں لایا تھا ، اس لئے ہم انتظار میں تھے کہ ان کا ترجمہ سامنے آئے اوراس کا بھی جائزہ لے لیا جائے، اس کے بعد اگلی قسطوں کی طرف سفر جاری ہوگا ، لیکن انتظار کی یہ گھڑی ختم ہوئی تو مخالف کی طرف سے یہ اعتراف سامنے آیا کہ اس غریب کی مراد ہی صحیح تھی ، یعنی ”عشرۃ“ کا مفہوم جو ہم نے دس درہم بتایا تھا وہ غلط نہیں تھا ، بلکہ غلطی فریق مخالف ہی کو لگی تھی ۔
ہم اس اعتراف اور اعلان رجوع کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، لیکن اس بات پر افسوس ظاہر کئے بنا نہیں رہ سکتے کہ موصوف نے اس فقیر پر تحریف کا الزام لگا کر جو دل آزاری کی تھی اس پر کوئی معذرت پیش نہیں کی ، حالانکہ آں جناب کا یہ اخلاقی فرض تھا کہ اتنی بڑی تہمت پر اظہار ندامت کرتے اور معذرت طلب فرماتے ۔
رہا موصوف کا یہ کہنا کہ درہم کو بریکٹ میں رکھنا چاہئے تو عرض ہے کہ کیا بریکٹ نہ لگانے سے یہ تحریف ہوگئی ؟؟ جب مفہوم درہم ہی ہے تو زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ مفہومی ترجمہ ہے ، اور اس طرح کے مفہومی ترجمہ کی گنجائش بھی ہے اور مترجمین کے یہاں یہ بات عام بھی ہے ۔ لیکن اسے تحریف قرار دینا سراسر زیادتی ہے ، کیونکہ تحریف کی بات تب آئے گی جب مفہوم بدل جائے ۔پھربھی ہم سدباب کے لئے بریکٹ کااضافہ بھی کردیں گے ان شاء اللہ ۔
بہر حال فریق مخالف نے جب اس مفہوم کو درست مان لیا اور اپنی غلطی تسلیم کرلی تو اس کے ساتھ ان کا پرانا جواب بھی بے معنی اور کالعدم ہوکر رہ گیا ، اس لئے انہوں نے اس کا دوسرا جواب لانچ کیا ہے ، اب ہم اس دوسرے جواب کا بھی اللہ کے فضل وکرم سے جائزہ لے رہے ہیں:
.
✿ قارئین اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہم نے عہد فاروقی میں غلاموں کی زکاۃ کے سلسلے میں اس دور کے دو گروہ کا دوطرح کا عمل پیش کیا تھا ۔
⟐ اول:
ایک جماعت (جن کے صحابہ ہونے کی صراحت روایت میں نہیں ہے) ، یہ لوگ دیگر زکاۃ والے اموال کی طرح اپنے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ بھی از راہ تبرع وتطوع ہر ایک کی طرف سے دس دس درہم پیش کرتے تھے ، بدلے میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ انہیں عطیات سے بھی نوازتے تھی جو ان کی دی گئی زکاۃ سے بہتر ہوتاتھا ، بعض روایت میں اس گروہ کے تذکرہ کے بعد یہ بھی ہے کہ بعد کے ادوار میں حکام یہ اضافی زکاۃ تو وصول کرتے مگر بدلے میں عطیات دینے سے رکنے لگے۔
⟐ دوم:
دوسری طرف مہاجر صحابہ کی ایک جماعت تھی ان کے بارے میں روایت میں صراحت ہے کہ یہ مہاجر صحابہ تھے ، انہوں نے اپنے گھوڑوں کی نہیں بلکہ صرف اپنے غلاموں کی زکاۃ ازراہ تبرع وتطوع نکالی ، لیکن پہلے گروہ کی طرح عمومی طور پر نہیں بلکہ یہ صحابہ اپنے غلاموں کی طرف سے جو صدقہ الفطر نکالتے تھے اسی رقم کو انہوں نے بڑھا کردس درہم کردیا ۔اس طرح غلاموں کی زکاۃ بھی ہوگئی اور سنت یعنی صدقہ الفطر کی راہ سے ہوئی جو کہ پہلے سے غلاموں کی طرف سے واجب تھی ۔ان صحابہ کوبھی عوض میں عطیات دئے جاتے تھے ، بعض روایت میں اس گروہ کے تذکرہ کے بعد یہ بھی ہے کہ بعد کے ادوار میں حکام یہ اضافی زکاۃ تو وصول کرتے مگر بدلے میں عطیات دینے سے رکنے لگے۔
.
❀ دونوں گروہوں سے متعلق روایات میں مشترک باتیں:
ان دونوں گروہ سے متعلق روایات میں مشترک بات یہ ہے کہ ان دونوں نے غلاموں کی زکاۃ نکالی ، دونوں کو بدلے میں عطیات دئے گئے ، اور دونوں کے تذکرہ کے بعد بعض روایت میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ بعد کے حکام نے یہ اضافی زکاۃ تو وصول کی مگر بدلے میں عطیات دینا بند کردیا ۔
.
❀ دونوں گروہوں سے متعلق روایات میں منفرد باتیں:
ان دونوں گروہوں میں کئی لحاظ سے روایات میں فرق بھی بتایا گیا ہے بالخصوص یہ بنیادی فروق ملاحظہ کریں:
① پہلے گروہ والوں کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ صحابہ تھے بلکہ روایات میں اہل یرموک وغیرہ کا مطلق ذکرہے ، جبکہ دوسرے گروہ میں صراحتا مہاجر صحابہ کا ذکر ہے۔
② پہلے گروہ والے صرف غلاموں کی نہیں بلکہ گھوڑوں کی بھی زکاۃ نکالتے تھے بلکہ اس سلسلے کی بعض روایت میں اور بھی مزید چیزوں کا ذکر ہے ، جبکہ دوسرے گروہ والے یعنی صحابہ اس طرح کی زکاۃ میں صرف اپنے غلاموں کی زکاۃ نکالتے تھے ۔
③ پہلے گروہ والے عمومی طور پر اپنے گھوڑوں اور غلاموں کی سالانہ زکاۃ نکالتے تھے ، جبکہ دوسرے گروہ والے یعنی مہاجر صحابہ فطرہ کی شکل میں اپنے غلاموں کی زکاۃ نکالتے تھے ۔
.
مذکورہ دونوں گروہ میں اگرکچھ پہلو سے مماثلت ہے تو کچھ پہلو سے فرق بھی ہے ، لیکن افسوس کہ بعض لوگوں نے کج بحثی کا سہارا لیتے ہوئے صرف مماثل پہلو ہی کوہائی لائٹ کرکے اور فرق کو نظر انداز کرکے دونوں گروہ کو ایک بناکر دکھلانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔
واضح رہے کہ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے دونوں گروہ سے متعلق خود ہی الگ الگ روایات بیان کی ہیں ، ہم آئندہ سطور میں ان کی دونوں روایات پیش کرتے ہیں ، لیکن اس سے قبل یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے حالات ، ان کے فیصلوں اور ان کے فتاؤوں اور ان کے ساتھ ہونے والے معاملات سے متعلق جتنی جانکاری سعیدبن المسیب رحمہ اللہ کو تھی اتنی ان کے ہم عصروں میں کسی کو نہ تھی ، اس لئے بعض ائمہ نے سعید بن المسیب کو ”راوية عمر“ كہا ہے ۔
حتی کہ کتب رجال میں امام مالک كا یہ بیان بہت مشہور ہے کہ خود عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد کے بہت سے معاملات کے بارے میں سعید ابن المسیب سے معلومات لیا کرتے تھے ۔ (عام کتب رجال)
اوربعض رواۃ کا بھی یہی معاملہ ہے وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق کوئی بات سنتے تھے تو سعید ابن المسیب سے اس کے بارے میں مزید پوچھ تاچھ کرتے تھے جیساکہ زیربحث مسئلہ میں پہلے گروہ سے متعلق قتادہ نے ایک بات سنی تو اس بارے میں سعید ابن المسیب سے پوچھ تاچھ کی ۔
اب آگے عہد فاروقی میں ان دونوں گروہوں سے متعلق سعید ابن المسیب کی دونوں طرح کی روایات دیکھیں:
.
❀ سعید بن المسیب کی پہلے گروہ سے متعلق روایت:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
” حدثنا ابن المثنى، حدثنا أبو داود، حدثنا عمران، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب: أن أهل الجزيرة، قالوا لعمر: " إن أموالنا قد صارت في الخيل، فخذ منها الصدقة. قال: فجعل على كل فرس عشرة، وكان يرزقهم جريبين، فكان ما يعطيهم أكثر مما يأخذ منهم، قال سعيد: فأما إذ لم يعطوكم فلا تعطوهم“
”سعید ابن المسیب فرماتے ہیں کہ اہل جزیرہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمارا مال گھوڑے کی شکل میں ہوگیا ہے ، تو آپ اس کی زکاۃ وصول کرلیں ! تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ہرگھوڑے کے لئے دس (درہم) طے کردیا ، اور انہیں دو جریب (عطیہ) دیتے تھے ، پس انہیں جو دیتے تھے وہ اس سے زیادہ ہوتا تھا جو ان سے وصول کرتے تھے ، سعیدبن المسیب فرماتے ہیں : یہ لوگ (امراء) جب تمہیں یہ (عطیہ) نہ دیں تو تم بھی انہیں (یہ اضافی زکاۃ) نہ دو “[تهذيب الآثار مسند عمر، للطبري: 2/ 941 ،وإسناده صحيح، قتاده سمع هذ الخبر من سعيد كما في رواية أخري]
قتادہ نے اسی طرح کی بات انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی نقل کی ہے ، جس میں گھوڑوں کے ساتھ غلاموں کی زکاۃ کا بھی تذکرہ ہے اس کے بعد قتادہ نے اس کا تذکرۃ سعید بن المسیب سے کیا تو انہوں نے فرمایا: ”عمر أخذ ذلك منهم ورزقهم أفضل من ذلك، وإن هؤلاء يريدون أن يأخذوا حقهم ويمنعونا حقنا»، ”عمررضی اللہ عنہ نے اسے ان سے لیا اور انہیں اس سے بہتر سے نواز اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنا حق لے لیں اور ہمارے حق سے محروم کردیں“[تهذيب الآثار مسند عمر، للطبري: 2/ 940 ، وإسناده صحيح]
.
❀ سعید بن المسیب کی دوسرے گروہ سے متعلق روایت:
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم بن عبد الله الهروي البغدادي (المتوفى: 224) نے کہا:
”حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن عبد الخالق بن سلمة الشيباني، قال: سألت سعيد بن المسيب عن الصدقة يعني صدقة الفطر، فقال: كانت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاع تمر، أو نصف صاع حنطة، عن كل راس، فلما قام أمير المؤمنين عمر كلمه ناس من المهاجرين، فقالوا: إنا نرى أن نؤدي عن أرقائنا عشرة كل سنة، إن رأيت ذلك، قال عمر: نعم ما رأيتم، وأنا أرى أن أرزقهم كل شهر جريبين، قال: فكان الذي يعطيهم أمير المؤمنين أفضل من الذي ياخذ منهم،فلما جاء هؤلاء قالوا: هاتوا العشرة ونمسك الجريبين فلا، ولا نعمى عين“
ترجمہ:
”عبدالخالق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سعیدبن المسیب رحمہ اللہ سے صدقہ الفطر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صدقہ الفطر ایک صاع کھجور یا نصف صاع گیہوں ہر فرد کی طرف سے دیا جاتا تھا ، لیکن جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو بعض مہاجرین صحابہ نے ان سے کہا کہ : ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنے غلاموں کی جانب سے دس درہم ہرسال (فطرہ کے طور پر) ادا کریں ، اگر آپ اسے درست جانیں ۔ تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگوں نے بہت اچھا سوچا ۔ اور میرا ارادہ ہے کہ میں ہرماہ ان غلاموں کے لئے دو جریب عطا کروں گا ، چانچہ امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عطیہ ان کے وصول کردہ چیز سے بہتر ثابت ہوتا ،پھر جب یہ لوگ (نئے امراء) آئے تو کہنے لگے ہمیں دس درہم دیتے رہو اور ہم دو جریب نہیں دیں گے ، تو یہ طرزعمل درست نہیں ہے ، اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا“[الأموال لأبي عبيد القاسم بن سلام، ت: محمدعمارۃ ص 337 رقم 617 و إسناده صحيح موقوفا ، ایضا ص 565 رقم 1368 ومن طريق أبي عبيد أخرجه ابن زنجويه في الأموال ، ت شاكر 2/ 548 رقم 900 ]
اسی روایت کو دوسری جگہ امام ابوعبید نقل کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:
”يعني صدقة الفطر عن الرقيق“ ، ”یعنی غلام کی طرف سے بطور صدقہ الفطر“ [الأموال لأبي عبيد القاسم بن سلام، ت: محمدعمارۃ ص 565 رقم 1368 ]
.
سعید بن المسیب کی دونوں روایات کو بغور پڑھنے کے بعد آئینہ کی طرح یہ بات صاف ہے کہ ان کی دوسری روایت میں غلاموں کی زکاۃ صدقہ الفطر کے طور پر دینے کی بات ہے ، مزید ملاحظہ فرمائیں:
● اولا:
دوسری روایت میں خاص مہاجر صحابہ کی صراحت ہے ، یہ بات واضح طور پر دلیل ہے کہ سعید ابن المسیب نے یہاں دوسرے گروہ کا تذکرہ کیا ہے ۔جبکہ پہلی روایت میں اہل جزیزہ یعنی اہل یرموک کا ذکر ہے ۔
● ثانیا:
دوسری روایت میں سعید ابن المسیب نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ ایک سوال کے جواب میں بیان کیا ہے ؟ اور یہ سوال غلاموں کی زکاۃ کو لیکر ہرگز نہیں کیا گیا تھا ، جیساکہ بعض نے یہ تاثر دے کربات کو گھمانے کی کوشش کی ہے اور یوں ارشاد فرمایاہے :
((در اصل سعید بن المسیب اس میں سائل کے جواب میں یہ کہہ رہے ہیں کہ عہد رسالت میں زکاۃ کے طور پر ایک غلام کی طرف سے ایک صاع کھجور یا آدھا صاع گیہوں ہی دیا جاتا تھا، یعنی صرف صدقہ فطر ہی میں غلاموں کی طرف سے زکاۃ دی جاتی تھی، اس کے علاوہ ان کی طرف سے کوئی دوسری زکاۃ نہیں تھی))
عرض ہے کہ سوال کی نص سامنے ہے اس میں غلاموں کی زکاۃ تو دور کی بات، سرے سے عام زکاۃ پربھی سوال نہیں ہوا ، بلکہ صراحتہ ”صدقہ الفطر“کے بارے میں سوال ہوا ، لہٰذا یہ بنیاد ہی بے اصل ہے اور اس بنیاد پر کھڑی کی گئی جواب کی پوری عمارت ہی کھوکھلی ہے۔
● ثالثا:
دوسری روایت میں سعید ابن المسیب کے شاگردنے چونکہ خاص صدقہ الفطر کے بارے میں ہی سوال کیا تھا ، اس لئے سعید ابن المسیب نے صدقہ الفطر ہی سے متعلق عہد رسالت میں صحابہ کا تعامل بتلایا پھر اس کے بعد اسی صدقہ الفطر کی ایک شکل یہ بھی پیش کی کہ مہاجر صحابہ نے غلاموں کا فطرہ بڑھا کر دیا تاکہ اس صدقہ کے ساتھ غلاموں میں اضافی زکاۃ بھی ہوجائے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں غلاموں کی زکاۃ صدقہ الفطر کی شکل میں دی گئی تھی ۔
● رابعا:
سعید بن المسیب کے جواب کے سیاق پر غور کریں کہ وہ جواب میں اشیاء فطرہ کا ذکر کرتے ہوئے ”کھجور“ اور”گیہوں“ کا تذکرہ کرتے ہیں ، پھر اسی سلسلے کو آگے بڑھا کر غلاموں کی طرف سے دس دس ”درہم“ کا ذکرتے ہیں ، جواب کا یہ سیاق بھی صاف دلالت کرتا ہے کہ یہ دس دس درہم بھی بطور فطرہ دیا گیا تھا ، جس طرح کھجور اور گیہوں بطور فطرہ دیا گیا تھا ۔
● خامسا:
سعید بن المسیب کے جواب میں اشیاء فطرہ کے نصاب کے تذکرہ کو بھی دیکھیں وہ کھجور کے لئے ”ایک صاع“ کا تذکرہ کرتے ہیں اور گیہوں کے لئے ”نصف صاع“ کا تذکرہ کرتے ہیں ، پھر اسی سلسلے کو آگے بڑھا کر غلاموں کے لئے ”دس دس“ درہم کا تذکرہ کرتے ہیں ، نصاب کے ذکر کا یہ تسلسل بھی دلالت کرتا ہے کہ غلاموں کی طرف سے فطرہ والی زکاۃ کا تذکرہ ہے۔
● سادسا:
سعید بن المسیب کی دوسری روایت میں مہاجر صحابہ خود عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے بات چیت کی ، اس اسلوب میں اجازت لینے کا پہلو صراحتا موجود ہے ، جبکہ ساتھ میں یہ صحابہ دس دس درہم دینے کی بات بھی کررہے ہیں ، یہ دس درہم کاحوالہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے سامنے پہلے سے یہ نظیرموجود تھی کہ غلاموں کی زکاۃ دس دس درہم دی جارہی ہے ، اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے منظور بھی فرمایا ہے ۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس کی اجازت اور اس پر عمل کی بات پہلے سے موجود تھی، تو پھر یہ صحابہ کس چیز کی اجازت لے رہے تھے ؟ صاف ظاہر ہے کہ یہاں نوعیت الگ تھی ان صحابہ کو فطرہ کی شکل میں غلاموں کی زکاۃ دینی تھی ، اسی لئے وہ اجازت طلب کررہے تھے۔
● سابعا:
سعید بن المسیب کی دوسری روایت میں مہاجر صحابہ کی پیشکش سن کر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ”نعم ما رأيتم“ (تم لوگوں نے بہت اچھا سوچا) کہہ کرداد دی ، یہ داد اسی لئے تھی کیونکہ ان مہاجر صحابہ نے ”فطرہ کی شکل میں“وہی کام کرنے جارہے تھے جسے دوسرے لوگ ”عام شکل میں“ کررہے تھے ، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں غلاموں کی زکاۃ فطرہ کی شکل میں دینے کی بات ہے۔
● ثامنا:
سعید بن المسیب کی دوسری روایت میں صرف غلاموں ہی کا تذکرہ ہے یہاں گھوڑوں کا تذکرہ ہے ہی نہیں ، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں فطرہ کی شکل میں زکاۃ دینے کی بات ہے اور صرف غلاموں میں ہی ممکن ہے ، یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ یہاں غلاموں کی زکاۃ، فطرہ کی شکل میں دینی کی بات ہے۔
● تاسعا:
امام ابوعبید رحمہ اللہ جو اس روایت کے راوی ہیں وہ اس روایت کے بعد فرمارہے ہیں :
”يعني صدقة الفطر عن الرقيق“ ، ”یعنی غلام کی طرف سے بطور صدقہ الفطر“ [الأموال لأبي عبيد القاسم بن سلام، ت: محمدعمارۃ ص 565 رقم 1368 ]
اس صراحت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس روایت میں غلاموں کی طرف سے جس صدقہ کی بات ہے وہ صدقہ الفطر ہے ۔
● عاشرا:
اگرامام ابوعبید کی مراد میں دوسری اشیاء ہوتیں تو صرف غلاموں کی تخصیص کیوں کرتے ؟ کیونکہ دوسری اشیاء تو غلام ، مالک بلکہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ادا کی جاتی ہیں ۔ پھر ” صدقة الفطر عن الرقيق“ کہنا چہ معنی دارد ؟؟؟
تلک عشرۃ کاملہ
یہاں تک ہم نے اس روایت کے مفہوم کی مزید توضیح کردی ہے ۔اب جلد ہی اگلی قسط میں ہم فریق مخالف کے عشری شبہات کا جائزہ لیں گے ان شاء اللہ
(جاری ہے ۔۔۔)
No comments:
Post a Comment